سورة فصلت - آیت 19

وَيَوْمَ يُحْشَرُ أَعْدَاءُ اللَّهِ إِلَى النَّارِ فَهُمْ يُوزَعُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور جس دن اللہ کے دشمن آگ کی طرف اکٹھے کیے جائیں گے، پھر ان کی الگ الگ قسمیں بنائی جائیں گی۔

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(19۔28) دنیا میں جو ایسے لوگوں کو سزا ملتی ہے یہ تو ہے مگر آخرت کی سزا ابھی اور ہے اور وہ اس دن ہوگی جس روز اللہ کے دین کے دشمن آگ کی طرف چلائے جائیں گے پھر وہ بزور جہنم کی طرف دھکیلے جائیں گے جیسے اس دنیا میں دستور ہے کہ پولیس مجرموں کو جیل کی طرف لے جاتی ہے اگر وہ راستے میں اڑیں تو بزور دھکیل کرلے جاتی ہے اسی طرح دوزخیوں کو فرشتے لے جائیں گے یہاں تک کہ جب اس دوزخ میں پہنچیں گے تو اپنے دل میں خیال کریں گے اور ایک دوسرے کو کہیں گے کہ اتنا سخت عذاب ہم کو بے وجہ ہوا ہے ہم نے ایسا کوئی برا کام نہ کیا تھا جس کی سزا اتنی سخت ہو۔ اس خیال کے پیدا ہوتے ہی ان کی آنکھیں ان کے کام اور ان کے چمڑے جو کچھ وہ دنیا میں کرتے رہے تھے اس کی گواہی دے دیں گے ہر ایک جوڑ سے جو اس نے کیا ہوگا اقرار جرم کی آواز نکلے گی کیسے نکلے گی ؟ جیسے فونوگراف سے نکلتی ہے اور وہ لوگ اپنے ان اعضا اور چمڑوں کو کہیں گے بھلا بھئے تم نے کیوں ہمارے برخلاف شہادت دی کیا تم کو معلوم نہیں کہ ہم سب ایک ہی نائو پر سوار ہیں ڈوبیں گے تو سب ایک ساتھ ڈوبیں گے وہ اعضا ان کے جواب میں کہیں گے ہم اس میں مجبور ہیں کیا کریں ہم کو اس اللہ تعالیٰ نے بلوایا ہے جس نے آج سب چیزوں کو بلوایا ہم جانتے ہیں کہ ہم بھی تمہارے ساتھ ہیں بلکہ ہمارے مجموعے ہی کا نام انسان ہے مگر اس کا کیا علاج کہ ہم مخلوق اور مجبور ہیں اور وہ اللہ ہمارا خالق ہے اسی نے ہم تم سب کو پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا اس اول پیدائش میں تم نے اس کی الوہیت اور رحمت کی قدر نہ کی۔ اب تم اسی کی طرف لائے جا رہے ہو۔ پس اس بے فرمانی کا مزہ چکھو اور کسی غیر کا گلہ نہ کرو۔ بقول ؎ گل وگل چیں کا گلہ بلبل خوش لہجہ نہ کر تو گرفتار ہوئی اپنی صدا کے باعث کسی اور کا گلہ اور شکایت بے جا ہے اور تم لوگ جو بعض اوقات چھپ چھپا کر گناہ کرتے تھے لوگوں سے تو چھپ سکتے تھے مگر اس امر سے نہ چھپ سکتے تھے کہ تمہارے کان۔ آنکھیں اور تمہارے چمڑے تمہارے برخلاف شہادت دیں گے کیونکہ اس کی تمہیں خبر بھی نہ تھی اور ان سے چھپنا تمہارے بس میں بھی نہ تھا ہاں تم جو چھپ چھپ کر گناہ کرتے تھے تو اس خیال سے کرتے تھے کہ تم سمجھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے بہت سے کاموں کو نہیں جانتا۔ یہی تمہارا خیال تھا۔ جو تم نے اپنے پروردگار کے حق میں گمان کیا اسی نے تم کو تباہ کیا اور تم نے نقصان اٹھایا اور ان پر سزا کا حکم ایسا سخت لگا ہوگا کہ اگر وہ صبر کریں گے یا نہ کریں گے تو بھی ان کا ٹھکانہ آگ ہی میں ہوگا اگر وہ معافی چاہیں گے تو ان کو معاف نہ کیا جائے گا۔ کیونکہ معافی مانگنے اور دینے کا موقع دنیا میں ہے جو انہوں نے غفلت میں کھو دیا۔ اور اس کی سزا میں ہم نے شیاطین کو انکا ساتھی بنا دیا جنہوں نے ان کے آگے اور پیچھے کی بدکاریوں کو مزین کر دکھایا یعنی جو کچھ وہ زندگی میں کرتے ہیں اور جو رسوم بد وہ اپنے پیچھے چھوڑ جاتے ہیں ان کو بھلی معلوم ہوتی ہیں اسی لئے تو ان کی یہ گت بنی ہے کہ جنوں اور انسانوں کی جو جماعتیں ان سے پہلے گذر چکی ہیں ان کے ساتھ ان پر بھی عذاب الٰہی کا حکم ثابت ہوچکا ہے جس طرح وہ لوگ تباہ ہوئے ہیں یہ بھی ہلاک ہوں گے بے شک یہ لوگ نقصان والے ہیں اور سنو چاہیے تو یہ تھا کہ یہ منکر لوگ گذشتہ واقعات سے سبق حاصل کرتے لیکن ان کی اخلاقی حالت ایسی کمزور ہے کہ چاہے کسی قسم کی ہدایت ہو اس سے مستفید نہیں ہوتے یہی دیکھو اس قرآن میں کون سی بری یا کڑوی بات ہے۔ جو ان لوگوں کو تلخ لگتی ہے کہ لوگوں کو کہتے ہیں ارے بھائی ! اس قرآن کی طرف کان بھی نہ جھکانا خبردار ایسا نہ ہو کہ اس کی تاثیر سے تم بھی خراب ہوجائو اس کی آواز بھی تمہارے کان میں نہ آنے پائے اور زیادہ ہی بچائو کرنے کی ضرورت آن پڑے۔ تو اس کے پڑھے جانے میں شورو شغب کیا کرو تاکہ تم غالب ہو اور وہ تم پر کسی طرح اثر نہ کرسکے بہلا بتلائو تو ایسے لوگ بھی کسی طرح ہدایت پا سکتے ہیں پس ہم بھی ان کے ساتھ وہی برتائو کریں گے جس کے یہ لوگ اہل ہیں جس کا اعلان ابھی سے کئے دیتے ہیں کہ ان منکروں کو سخت عذاب چکھائیں گے اور ان کے بدترین کاموں کا جو یہ کرتے رہے ہیں ان کو بدلہ دیں گے اللہ کے دین کے دشمنوں کا بدلہ یہی دوزخ ہے اسی میں ان کا دائمی گھر ہوگا یہ سزا ان کو اس کام کے بدلہ میں جو یہ لوگ ہماری آیتوں سے انکار کرتے رہے ہیں وہاں ان کی جو گت ہوگی وہ کہنے سننے سے پوری سمجھ میں نہیں آسکتی۔ بلکہ وہ دیکھنے پر موقوف ہے اس آیت میں ایک سوال پیدا ہوتا ہے وہ یہ کہ اسوا اسم تفضیل کا صیغہ ہے جو مضاف ہے الذی کی طرف تقدیر کلام یہ ہے نجزینھم اسوا اعمالھم اس تقدیر پر اسوا کے معنی حسب اضافت لئے جائیں تو یہ اعتراض ہوگا کہ ان کے غیر اسوا اعمال کا بدلہ نہ ملا اور اگر موصوف مخدوف ہو یعنی نجزینھم جزاء اسوا تو اعتراض ہوگا کہ اعمال سے جزا بڑھ گئی حالانکہ دوسرے مقام پر صاف ارشاد ہے انما تجزون ما کنتم تعملون یعنی کفار نے جو کچھ کیا ہوگا اسی جتنا بدلہ ان کو ملے گا ہم نے پہلے معنی اختیار کئے ہیں اس لئے پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ جب اسوا کا بدلہ ہی ہمیشہ کا عذاب ہوا تو باقی کی کیا ضرورت ہے کل الصید فی جوف الفرا سب کا پائوں ہاتھی کے پائوں میں۔ ان معنی پر ظلم کا اعتراض نہیں رہتا۔ بعض مفسرین نے اسوا کو تفضیلی معنی میں نہیں لیا۔ تفسیر عربی میں میں نے یہی اخیتار کیا ہے وہ بھی ایک صورت اعتراض بچنے کی ہے (منہ)