وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّن قَبْلِكَ مِنْهُم مَّن قَصَصْنَا عَلَيْكَ وَمِنْهُم مَّن لَّمْ نَقْصُصْ عَلَيْكَ ۗ وَمَا كَانَ لِرَسُولٍ أَن يَأْتِيَ بِآيَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ فَإِذَا جَاءَ أَمْرُ اللَّهِ قُضِيَ بِالْحَقِّ وَخَسِرَ هُنَالِكَ الْمُبْطِلُونَ
اور بلاشبہ یقیناً ہم نے تجھ سے پہلے کئی رسول بھیجے، ان میں سے کچھ وہ ہیں جن کا حال ہم نے تجھے سنایا اور ان میں سے کچھ وہ ہیں جن کا حال ہم نے تجھے نہیں سنایا۔ اور کسی رسول کا اختیار نہ تھا کہ اللہ کے اذن کے بغیر کوئی نشانی لے آئے، پھر جب اللہ کا حکم آگیا تو حق کے ساتھ فیصلہ کردیا گیا اور اس موقع پر اہل باطل خسارے میں رہے۔
(78۔85) جتنے رسول ہم نے تجھ سے پہلے بھے جی ہیں ان میں سے بعض کا بیان ہم نے تجھے سنایا ہے جو عرب کے اردگرد رہتے اور عرب جن سے آشنا ہیں اور بعض کا نہیں سنایا جو عرب سے دور دراز ممالک چین جاپان اور ہندوستان وغیرہ ملکوں میں ہوئے۔ ان سب کے ساتھ کفار کی طرف سے یہی برتائو ہوتا رہا جو تیرے ساتھ ہوتا ہے۔ کوئی ان کے کھانے پینے پر۔ چلنے اور پھرنے پر اعتراض کرتا۔ کوئی ان سے معجزات طلب کرتا۔ کوئی نشان مانگتا۔ حالانکہ کسی رسول کا یہ کام نہیں کہ بغیر اذن اللہ کے کوئی نشانی لا سکے۔ جو کچھ وہ لائے یا آئندہ لائیں گے یہ سب بحکم الٰہ ہوا اور ہوگا۔ اب آئندہ جب اللہ کا حکم آئے گا۔ تو حق کے ساتھ فیصلہ کیا جائے گا جو جس سزا کے لائق ہوگا وہ پائے گا۔ ہمارے ملک پنجاب میں ایک شخص مرزا غلام احمد قادیانی مسیحیت کا مدعی ہوا۔ اس نے اپنی صداقت کے متعلق بہت سی پیشگوئیاں کیں۔ جن میں سے بعض اس کی زندگی سے وابستہ تھیں مثلا ایک عورت سے نکاح کا اعلان کیا اور کھلے لفظوں میں شائع کیا کہ وہ میری زندگی میں میرے نکاح میں آئیگی رسالہ ” شہادت القرآن“ مصنفہ مرزا صاحب قادیانی صفحہ ٨٠۔ بلکہ اس سے اولاد بھی پیدا ہوگی رسالہ ” ضمیمہ انجام آتھم“ مصنفہ مرزا صاحب صفحہ ٥٣ وغیرہ۔ اور بھی بعض واقعات کا اپنی زندگی میں وقوع پذیر ہونا بتایا تھا لیکن جب یہ واقعات ان کی زندگی میں نہ ہوئے اور مخالفوں کی طرف سے اعتراضات کی بھرمار ہوئی تو اس کے مریدوں نے جواب دیا کہ انبیاء اور ملہمین کی ساری پیشگوئیاں ان کی زندگی میں پوری نہیں ہوجایا کرتیں بلکہ بعض ان کی زندگی میں پوری ہوتی ہیں اور بعض ان کے مرنے کے بعد ہوتی ہیں۔ اس دعوی پر یہ آیت اور اسی مضمون کی دوسری آیات انہوں نے پیش کیں۔ کہا دیکھو ان آیات میں صاف ذکر ہے کہ جن باتوں کا اللہ مومنوں سے وعدہ کرتا ہے ان میں سے نبی کی زندگی میں بعض کا پورا ہونا ضروری ہے سب کا نہیں۔ جواب۔ ان لوگوں نے دھوکہ کھایا ہے یا دھوکہ دیا ہے۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ حضرات انبیاء کی طرف سے منکروں کو دو قسم کے عذابوں سے ڈرایا جاتا ہے۔ کچھ تو ان کی زندگی میں واقع ہونے والے ہوتے ہیں۔ اور کچھ آخرت میں ہونیوالے ہوتے ہیں۔ چنانچہ ارشاد ہے ولنذیقنھم من العذاب الادنی دون العذاب الا کبر لعلھم یرجعون یعنی ھم (اللہ) ان کفار کو بڑے عذاب سے پہلے ادنے عذاب پہونچاتے ہیں تاکہ یہ لوگ سچائی کی طرف رجوع کریں۔ (پ ٢١۔ ع ١٥) نیز ارشاد ہے۔ لھم عذاب فی الحیوۃ الدنیا ولعذاب الاخرۃ اشق وما لھم من اللہ من واق۔ (پ ٣۔ ع ١١ یعنی ان کافروں کے لئے دنیا میں عذاب ہے اور آخرت میں بھی بڑا سخت عذاب ہے اور ان کے لئے کوئی بچانے والا نہیں۔ آیت زیر بحث میں جو بعض کا ذکر ہے۔ یہ ان مجموعہ عذابوں کا حصہ ہیں جو کفار کو بتائے گئے تھے۔ جن میں سے بعض دنیا سے اور بعض آخرت سے تعلق رکھنے والے تھے۔ اس لئے ان کی بابت یہ کہنا صحیح ہے جو آیت موصوفہ میں مذکور ہوا کہ بعض تمکو دکھائینگے۔ کیونکہ دوسرے بعض کے دکھانے کا ظرف زمان دار دنیا نہیں بلکہ دار آخرت ہے۔ مگر مرزا صاحب کی جن پیشگوئیوں پر اعتراض ہیں وہ تو خاص دنیا میں ہونیوالی ہیں بلکہ مرزا صاحب مدعی الہام کی ذات ظاہر سے تعلق رکھنے والے ہیں کیونکہ نکاح کا ہونا یا انکی زندگی میں کسی اور کا مرنا وغیرہ یہ ایسے واقعات ہیں کہ خصوصیت سے مدعی کی زندگی چاہتے ہیں اس لئے اس قسم کی پیشگوئیوں کو اس آیت سے کوئی تعلق نہیں اللہ اعلم۔ اس بحث کے متعلق ہمارے کئی ایک مستقل رسالے ہیں جنکے نام یہ ہیں۔ الہامات مرزا۔ نکاح مرزا۔ تاریخ یعنی سورۃ رعد کی آیت اما نرینک الایۃ اور سورۃ مومن کی آیت یصبکم بعض الذی یعدکم وغیرہ ١٢ اور جھوٹ کو اختیار کرنے والے لوگ اس موقع پر سخت نقصان اٹھائیں گے کیونکہ وہ لوگ اللہ برتر سے روگردان ہوتے ہیں حالانکہ اللہ وہ ذات پاک ہے جس نے تمہارے لئے چارپائے پیدا کئے تاکہ ان میں سے بعض پر تم سوا رہو۔ جیسے گھوڑا‘ اونٹ‘ ہاتھی وغیرہ اور بعض کو تم کھا جائو جیسے بکری بھیڑ‘ گائے‘ بھینس وغیرہ اور تمہارے لئے ان چارپائوں میں کئی ایک قسم کے منافع ہیں اور تم ان پر سوار ہو کر دور دراز مقامات میں اپنے دلی مقاصد کو پہنچتے ہو اور ان چارپائوں اور کشتیوں پر تم سوار ہو کر پھرتے ہو یہ کس کی قدرت کے آثار ہیں ؟ اسی اللہ واحد کی۔ اور سنو ! وہ تم کو روزمرہ اپنے نشان دکھاتا ہے پھر تم اس کے نشانوں میں سے کس نشان کا انکار کرسکتے ہو؟ بھلا یہ لوگ جو اتنے مغرور ہیں کیا انہوں نے ملک میں پھر کر دیکھا نہیں کس طرح انجام ان لوگوں کا ہوا جو ان سے پہلے تھے جو گنتی میں ان سے بہت زیادہ اور قوت اور زمینی آثار آبادی۔ زراعت وغیرہ کے لحاظ سے بھی بہت بڑھے ہوئے تھے پھر ان کی دنیاوی کمائی نے جو وہ کماتے تھے کچھ کام نہ دیا۔ آخرکار غضب الٰہی سے تباہ ہوگئے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ وہ اپنے مال ومتاع پر ناز کرتے رہے پھر جب ان کے پاس ان کے رسول کھلے احکام لے کر آئے تو وہ اپنے علم پر جو ان کے پاس تھا نازاں ہوئے اور اس علم کے مقابلے میں حضرات انبیاء کی توہین کرتے۔ اسی حال میں تھے کہ غضب الٰہی نے ان پر یورش کی اور انبیاء کی خبروں میں سے جن خبروں پر وہ مخول کرتے تھے وہی ان پر الٹ پڑیں یعنی عذاب نے ان کو کھیر لیا پھر جب انہوں نے ہمارا عذاب اترا ہوا دیکھ لیا تو بولے ہم اللہ واحد پر ایمان لائے اور جن جن چیزوں کو ہم اللہ کی شریک بناتے تھے ان سے ہم منکر ہوئے۔ یعنی ہم کو یقین ہوگیا کہ ان ہمارے مصنوعی معبودوں میں یہ کمال نہیں کہ وہ الوہیت میں شریک ہوسکیں ان کے مراتب کمال زیادہ سے زیادہ ولایت یا نبوۃ ہے اس سے اوپر حدود الوہیت ہیں جن میں ان کو گذر نہیں پس ہماری دعا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ! ہم کو بخش۔ چونکہ قانون الٰہی ہے کہ عذاب دیکھنے کے بعد ایمان لانا کام نہیں آتا۔ اس لئے جب انہوں نے ہمارا عذاب دیکھا اور دیکھ کر ایمان لائے تو وہ ایمان ان کا اس قانون الٰہی کے مطابق جو اس کے بندوں میں ابتداء سے جاری ہے ان کے حق میں نفع مند نہ ہوا اور اس موقع پر انبیاء کے منکروں نے سخت نقصان اٹھایا اور آئندہ بھی اٹھائیں گے۔ اللّٰھُمَّ احفظنا !