اصْبِرْ عَلَىٰ مَا يَقُولُونَ وَاذْكُرْ عَبْدَنَا دَاوُودَ ذَا الْأَيْدِ ۖ إِنَّهُ أَوَّابٌ
اس پر صبر کر جو وہ کہتے ہیں اور ہمارے بندے داؤد کو یاد کر، جو قوت والا تھا، یقیناً وہ بہت رجوع کرنے والا تھا۔
(17۔29) جو کچھ بھی یہ لوگ کہتے ہیں ان پر صبر کر اور اگر طبیعت کو کبھی ملال ہو تو ہمارے نیک بندے دائود (علیہ السلام) کو یاد کیا کر جو بڑی قوت اور ہمت کا آدمی تھا عبادت میں بھی چست اور جہاد میں بھی مضبوط بے شک وہ اللہ کی طرف رجوع تھا کوئی کام ہو وہ اس کی انجام دہی میں اللہ ہی سے امیدوار رہتا تھا۔ ہم (اللہ) نے بڑے بڑے پہاڑوں کو مسخر کردیا تھا کہ اس کے ساتھ صبح شام تسبیحیں پڑھا کریں عجب کیفیت ہوتی تھی حضرت دائود جب اللہ کے نام کی تسبیح پڑھتے۔ تو پہاڑوں سے بھی ان کو تسبیح کی آواز آتی یا کیفیّت محسوس ہوتی۔ جس کیفیّت کو کسی عارف اللہ نے یوں بیان کیا ہے برگ درختان سبز درنظر ہوشیار ہر ورقے دفتریست معرفت کردگار اسی طرح جانور بھی اس کے سامنے تسبیح خوانی کرتے ہوئے جمع ہوتے جیسے کسی عارف اللہ نے کہا ہے۔ ؎ مرغان چمن بہر صباحے تسبیح کناں باصطلاحے سب کے سب اس کے فرمانبردار تھے اور سنو ہم نے اس کے ملک اور حکومت کو مضبوط کیا اور اس کو عقلمندی یعنی علم سیاست (پالیٹکس) اور مقدمات میں فیصلہ کرنے اور سیاسی معاملات میں گفتگو کرنے کا سلیقہ عطا کیا ایسا کہ نزاعات میں فیصلہ کرتا یا کسی سفیر یا وکیل سلطنت سے یا کیک مجلس میں گفتگو کرتا تو سب پر عجیب اثر ہوتا۔ نہایت معقول اور سلجھی ہوئی تقریر ہوتی۔ بھلا تجھے ایک مقدمہ والوں کی خبر پہنچی ہے جب وہ دائود کے مکان کی دیوار کود گئے تھے یعنی جس وقت حضرت دائود اپنے محل خاص میں بیٹھے تھے وہ اہل مقدمہ ان کے پاس جا پہنچے تو وہ ان کی اس جرات اور وحشیانہ حرکت سے گھبرایا اور دل میں ٹھان لیا کہ ان کو اس وحشیانہ حرکت پر سبق دیا جائے وہ حضرت دائو کے تیور بدلے دیکھ کر پا گئے کہ سرکار ہم پر خفا ہوئی ہے۔ بولے کہ حضور ! خوف نہ کیجئے۔ اللہ نخواستہ ہم حضور کے مخالف نہیں بلکہ ہم دونوں اہل مقدمہ ہیں ہم میں سے ایک نے دوسرے پر ظلم کیا ہے پس حضور انصاف کے ساتھ ہمارا فیصلہ فرما دیجئے ہماری پرزور درخواست ہے کہ ہم میں انصاف کیجئے اور کسی طرح کی بے انصافی نہ کیجئے اور ہم کو سیدھی راہ کی طرف ہدایت فرمائے یہ کہہ کر ان میں سے ایک نے بیان دعویٰ شروع کیا۔ کہ یہ شخص رشتہ یا برادری میں میرا بھائی ہے اس کی ننانویں دنبیاں ہیں اور میری ایک ہے اس نے مجھ سے کہا کہ یہ ایک بھی مجھے دیدے میں نے انکار کیا تو سو طرح کی حجتیں اور دلیلیں اس نے بتلائیں اور گفتگو میں مجھ پر غالب آیا کبھی کہتا ہے کہ ایک دنبی اداس رہے گی میرے ریوڑ میں اچھی رہے گی کبھی کہتا ہے اکیلی کو بھیڑیا لے جائے گا۔ میرے ریوڑ میں ملی رہے گی۔ کبھی کہتا ہے تو ایک دنبی کے لئے مارا مارا پھرتا ہے مجھے دے کر فارغ ہوجا۔ اور کسی مفید کام میں لگ جا۔ غرض ہر طرح سے مجھے قائل کرتا ہے دھمکی سے لالچ سے مجھے مائل کرتا ہے مگر میرا دل نہیں مانتا۔ حضرت دائود نے مدعا علیہ کا جواب سن کر کہا کہ واقعی اس شخص نے تجھ پر ظلم کیا ہے جو دبائو سے تیری دنبی کو اپنی دنبیوں کے ساتھ ملانے کا سوالی ہے اصل بات تو یہ ہے کہ بہت سے شریک برادر ایک دوسرے پر ظلم کیا کرتے ہیں مگر جو لوگ ایماندار اور صالح اعمال ہیں ان کی یہ عادت نہیں لیکن ایسے لوگ بہت کم ہیں پس جب تک اپنی مرضی سے نہ دے یہ سائل خود بخود نہیں لے سکتا۔ حضرت دائود نے یہ فیصلہ تو اچھا کیا مگر چونکہ شروع شروع میں ان کی اس بے جا حرکت سے حضرت دائود کی طبیعت پر ملال ہوا تھا جو قریب تھا کہ فیصلہ میں مخل ہو اس لئے وہ کبیدہ خاطر ہوا اور اس نے خیال کیا کہ ہم (اللہ) نے اسے اس مقدمہ کی وجہ سے جانچاہے اور اس کی تنک مزاجی کی وجہ سے ہم اس پر خفا ہیں پس اس نے جھٹ سے اپنے پروردگار اللہ تعالیٰ سے اس تنک مزاجی اور غلط ارادہ پر بخشش مانگی اور اللہ کے سامنے جھکا اور رجوع ہوا۔ پھر ہم نے اسے بخش دیا کچھ شک نہیں کہ اس دائود کا ہمارے نزدیک بڑا درجہ اور بہت عزت تھی اس آیت کی تفسیر میں ایک روایت بیان کی جاتی ہے کہ حضرت دائود (علیہ السلام) نے اور یاہ کی عورت کو کہیں دیکھ لیا چونکہ وہ خوبصورت تھی لہذا اس پر طبیعت مائل ہوگئی اس کو نکاح میں لانے کے لئے یہ تجویز نکالی کہ اور یاہ کو جنگ میں بھیج کر مروایا جائے۔ چنانچہ ایک دفعہ وہ جنگ میں گیا اور بچ آیا۔ دوبارہ بھیجا پھر بچ گیا۔ سہ بارہ اعلی افسر کو حکم دیا کہ اس کو کسی سخت جنگ میں بھیجو اور سب سے آگے رکھو چنانچہ تیسری دفعہ سخت معرکہ میں اور یاہ بھیجا گیا جس میں وہ قتل ہوا۔ تو حضرت دائود نے اس کی بیوی سے نکاح کرلیا۔ (معالم النزیل) کہتے ہیں کہ فرشتے آسمان سے آئے انہوں نے حضرت دائود کو اس فعل پر تنبیہ کرنے کے لئے کہا کہ ہم میں نزاع ہے آپ فیصلہ کیجئے دراصل نہ وہ انسان تھے نہ ان میں کوئی نزاع تھی۔ یہ قصہ دراصل یہودیوں کی بائیبل سے لیا گیا ہے۔ مگر چونکہ بائیبل میں قبل از نکاح حرام کاری کا ذکر ہے اس لئے ان ناقلین نے اتنا حصہ چھوڑ کر باقی کو نقل کردیا۔ بائیبل میں اس قصے کے الفاظ یوں ہیں :۔ ” ایک دن شام کو ایسا ہوا کہ دائود اپنے بچھونے پر سے اٹھا اور بادشاہی محل کی چھت پر ٹہلنے لگا اور وہاں سے اس نے ایک عورت کو دیکھا جو نہا رہی تھی اور وہ عورت نہایت خوبصورت تھی تب دائود نے اس عورت کا حال دریافت کرنے کو آدمی بھیجے انہوں نے کہا وہ العام کی بیٹی بنت سبع حتی اور یاہ کی جورو نہیں؟ اور دائود نے لوگ بھیج کے اس عورت کو بلا لیا۔ چنانچہ وہ اس کے پاس آئی اور وہ اس سے ہمبستر ہوا کیونکہ وہ اپنی ناپاکی سے پاک ہوئی تھی۔ اور وہ اپنے گھر کو چلی گئی اور وہ عورت حاملہ ہوگئی سو اس نے دائود کے پاس خبر بھیجی کہ میں حاملہ ہوں اور دائود نے نواب کو کہلا بھیجا کہ حتی اور یاہ مجھ پر بھیج دے سو نواب نے اور یاہ کو دائود پاس کے بھیجا اور جب اور یاہ آیا دائود نے پوچھا۔ کہ نواب کیسا ہے اور لوگوں کا کیا حال ہے اور جنگ کے کیسے انجام ہوتے ہیں پھر دائود نے اور یاہ کو کہا کہ اپنے گھرجا اور اپنے پائو دھو۔ اور اور یاہ جو بادشاہ کے محل سے نکلا تو بادشاہ کی طرف سے اس کے پیچھے پیچھے ایک جوان بھیجا گیا پر اور یاہ بادشاہ کے گھر کے آستانہ پر اپنے اللہ تعالیٰ کے سب خادموں کے ساتھ سو رہا۔ اور اپنے گھر نہ گیا۔ اور جب انہوں نے دائود کو یہ کہہ کر خبر دی تھی کہ اور یاہ اپنے گھر نہ گیا تو دائود نے اور یاہ کو کہا کیا تو سفر سے نہیں آیا پس تو اپنے گھر کیوں نہیں گیا تب ١ دریاہ نے دائود سے کہا کہ صدوق اور اسرائیل اور یہوداہ خیموں میں رہتے ہیں اور میرا اللہ تعالیٰ یواب اور میرے اللہ کے خادم کھلے میدان میں پڑے ہوئے ہیں پس کیونکر اپنے گھروں میں جائوں اور کھائوں اور پیئوں اور اپنی جورو کے ساتھ سورہوں تیری حیات اور تیری جان کی قسم کہ میں یہ کبھی نہ کروں گا۔ پھر دائود نے اور یاہ کو کہا کہ آج کے دن بھی یہاں رہ جا اور کل میں تجھے روانہ کروں گا۔ سو اور یاہ اس دن اور دوسرے دن بھی یروسلم میں رہ گیا۔ تب دائود نے اسے بلایا اور اس نے اس کے حضور کھایا اور پیا اور اس نے اسے مست کیا اور شام کو باہر جا کر اپنے اللہ تعالیٰ وند کے خادموں کے ساتھ اپنے بستر پر سو رہا پر اپنے گھر میں نہ گیا۔ اور صبح کو دائود نے یواب کے لئے خط لکھا اور اور یاہ کے ہاتھ میں دے کر اسے بھیجا۔ اور اس نے خط میں یہ لکھا کہ اور یاہ کو سخت لڑائی کے وقت اگاڑی کیجئیو اور اس کے پاس سے پھر آئیو تاکہ وہ مارا جائے اور جان بحق ہو اور ایسا ہوا کہ یواب جو اس شہر کے گردا گرد کی حالت دیکھنے گیا تو اس نے اور یاہ کو ایسے مقام پر جہاں اس نے جانا کہ جنگی لوگ وہاں ہیں مقرر کیا اور اس شہر کے لوگ نکلے اور یواب سے لڑے اور وہاں دائود کے خادموں میں سے تھوڑے سے لوگ کام آئے اور حتی اور یاہ بھی مارا گیا تب یواب نے آدمی بھیجا اور جنگ کا سب احوال دائود سے کہا اور قاصد کو ایسا تاکید کرکے کہا کہ جب تو باشادہ سے جنگ کا سارا احوال عرض کرچکے تو اگر ایسا ہو کہ بادشاہ کا غصہ بھڑکے اور وہ تجھے کہے کہ جب تم جنگ پر چڑہے تو شہر سے کیوں ایسے نزدیک گئے کیا تم نہ جانتے تھے کہ دے دیوار پر سے تیر ماریں گے یروبست کے بیٹے ابلیلک کو کس نے مارا ایک عورت نے چکی کا پاٹ دیوار پر سے اس پر نہیں دے مارا کہ وہ تیبض میں مر گیا۔ سو تم کیوں شہر کی دیوار کے تلے گئے تھے تب کہیو کہ تیرا خادم حتی ادریا بھی مارا گیا۔ چنانچہ قاصد روانہ ہوا۔ اور آیا اور جو کچھ کہ یواب نے کہلا بھیجا تھا سو دائود سے کہا سو قاصد نے دائود سے کہا کہ لوگوں نے البتہ ہم پر بڑا غلبہ کیا۔ اور وہ میدان میں ہم پاس نکلے سو ہم انہیں رگیدتے ہوئے پھاٹک کے مدخل تک چلے گئے تب تیر اندازوں نے دیوار پر سے تیرے خادموں کو نشانہ کیا۔ بادشاہ کے بعضے خادم کام آئے اور تیرا خادم حتی اور یاہ بھی مارا گیا سو دائود نے قاصد کو کہا کہ یواب کو جا کے کہہ کر یہ بات تیری نظر میں بری نہ ٹھیرے اس لئے کہ تلوار جیسا اسے کاٹتی ہے اسے بھی کاٹتی ہیں تو شہر کے مقابل بڑی جنگ کر اور اسے ڈھادے اور تو اسے دم دلاسادے اور اور یاہ کی جورو اپنے شوہر اور یاہ کا مرنا سنکے سوگ میں بیٹھی اور جب سوگ کے دن گزر گئے تو دائودنے اسے اپنے گھر میں بلوا لیا اور وہ اس کی جورو ہوئی اور اس کے لئے بیٹا جنی۔ پر وہ کام جو دائود نے کیا تھا اللہ تعالیٰ کی نظر میں برا ہوا “۔ (٢۔ سموئیل باب ١١ فقرہ ٢ سے ٤٧ تک) یہ قصہ بنانے والوں کی کتنی دلیری ہے کہ ایک نبی کی شان میں ایسے الفاظ لکھے ہیں کہ معمولی آدمی کے حق میں بھی بولے جائیں تو ناپسند ہوں۔ امام رازی (رح) نے اس قصے کی تکذیب میں سترہ قرائن پیش کئے ہیں سات قبل آیت کے اور دس بعد کے۔ چنانچہ فرماتے ہیں۔ والذی ادین بہ واذھب الیہ ان ذلک باطل ویدل علیہ وجوہ (الاول) ان ھذہ الحکایہ لو نسبت الی افسق الناس واشدھم فجورا لا ستنکف منھا والرجل الحشوی الخبیث الذی یقرر تلک القصۃ لو نسب الی مثل ھذا العمل لبالغ فی تنزیہ نفسہ وربما لعن من ینسب الیھا واذا کان الامر کذلک کیف یلیق بالعاقل نسبت المعصوم الیہ (الثانی) ان حاصل القصۃ یرجع الی امرین الی السعی فی قتل رجل مسلم بغیر حق والی الطمع فی زوجتہ (اما الاول) فامر منکم قال من سعی فی دم مسلم ولو بشطر کلمۃ جاء یوم القیامۃ مکتو بابین عینیہ ایٰس من رحمۃ اللہ۔ میں جو عقیدہ رکھتا ہوں وہ یہ ہے کہ یہ قصہ بالکل باطل بے بنیاد ہے۔ اس پر کئی وجوہات ہیں (١) اول یہ ہے کہ یہہ واقعہ جو حضرت دائود کی طرف لگایا گیا ہے کسی بڑے سے بڑے بدمعاش کی طرف بہی نسبت کیا جائے تو وہ بھی اس کو برا جانے بلکہ جو نالائق اس قصے کو ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے اس کی طرف بھی منسوب کیا جائے تو وہ بھی اپنے نفس کو اس سے پاک صاف کرنے کی سعی بلیغ کرے اور جو اس کو اس کی طرف منسوب کرے تو یہ اسپر لعنت کرے جب یہ ایک عاقل آدمی کا حال ہے تو بنی معصوم کی طرف نسبت کرنا کیسا ہے (٢) دوسری وجہ یہ ہے کہ اس قصہ سے دو امر ثابت ہوتے ہیں۔ مسلمان شخص کے ناحق قتل کی کوشش اور اس کی عورت کے معاملہ میں طمع (١) پہلا تو سخت برا ہے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے جو کوئی کسی مسلمان کے خون بہانے میں کوشش کرے چاہے ایک لفظ کے ساتھ ہو وہ قیامت کے روز اس حال میں آئیگا کہ اس کی پیشانی پر ” رحمت سے ناامید“ لکھا ہوگا۔ (واما التانی) فمنکر عظیم قال (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ وان اور یالم یسلم من داؤد لا فی روحہ ولا فی منکوحہ (والثالث) ان اللہ تعالیٰ وصف داؤد (علیہ السلام) قبل ذکر ھذہ القصۃ بالصفات العشرۃ المذکورۃ ووصفہ ایضا بصفات کثیرۃ بعد ذکر ھذہ القصۃ وکل ھذہ الصفات تنا فی کونہ (علیہ السلام) موصوفا بھذا الفعل المنکر والعمل القبیح ولا باس لا عادۃ ھذہ الصفات لاجل المبالغۃ فی البیان فنقول راما الصفۃ الاولی) فھی انہ تعالیٰ امر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بان یقتدی بداؤد فی المصابرۃ مع المکابدۃ ولو قلنا ان داؤد لم یصبر علی مخالفۃ النفس بل سعی فی اراقہ دم امری مسلم لغرض شھوتہ فکیف یلیق باحکم الحاکمین ان یامر محمد افضل الرسل بان یقتدی بداؤد فی الصبر فی طاعۃ اللہ (واما الصفۃ الثانیۃ) فھی انہ وصفہ بکونہ عبداللہ وقد بینا ان المقصود من ھذا الوصف بیان کون ذلک الموصوف کاملا فے موقف العبودیۃ (٢) دوسرا امر بھی بہت بڑا ہے آں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے مسلمان وہ ہے جسکی زبان اور ہاتھ سے مسلمان امن میں رہے اور یا مذکور (جو یقینا مسلم تھا) اس قصے کی رو سے دائود کے ہاتھ سے محفوظ نہ رہا نہ اپنی جان میں نہ زوجہ منکوحہ میں (٣) تیسری وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت دائود کو اس سے پہلے دس صفتوں کے ساتھ موصوف کیا ہے اور اس کے بعد بھی بہت سی صفات کے ساتھ اس کی تعریف کی ہے وہ صفات اس امر کی مخالف ہیں کہ دائود (علیہ السلام) اس مکروہ اور قبیح فعل کا مرتکب ہو۔ ہم ان صفات کو بتاتے ہیں۔ پہلی صفت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آں حضرت کو حکم دیا ہے کہ صبر اور اطاعت الٰہی میں حضرت دائود کی پیروی کر۔ اور اگر ہم اس امر کے قائل ہوں کہ حضرت دائود نے اپنے نفس کی مخالفت پر صبر نہیں کیا بلکہ (معاذ اللہ) اپنی شہوت رانی کے لئے ایک مسلمان آدمی کا خون بہانے میں کوشش کی تو ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ احکم الحاکمین کا حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) افضل الرسل کو حضرت دائود کی طاعت اور صبر میں اقتداء کرنے کا حکم دینا کیونکر مناسب اور لائق ہے ؟ (٢) دوسری صفت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت دائود کو اپنا بندہ کہکر موصوف کیا ہے اور اس وصف سے مقصود یہ ہے کہ حضرت دائود کو عبودیت میں کامل بندہ بنایا جائے۔ تاما فی القیام باداء الطاعات والا حتراز عن المحظورات ولو قلنا ان داؤد (علیہ السلام) اشتغل بتلک الا عمال الباطلۃ فحینئذ ما کان داؤد کا ملا فی عبودیۃ اللہ تعالیٰ بل کان کاملافی طاعۃ الھوی والشھوۃ (الصفۃ الثالثۃ) ھو قولہ ذا الا یدی ذا القوۃ ولا شک ان المرادمنہ القوۃ فی الدین لان القوۃ فی غیر الدین کانت موجودۃ فی ملوک الکفار ولا معنے للقوۃ فی الدین الا القوۃ الکاملۃ علی اداء الواجبات والا جتناب عن المحظورات وای قوۃ لمن یملک نفسہ عن القتل والرغبۃ فی زوجۃ المسلم (الصفۃ الرابعۃ) کونہ اوا با کثیر الرجوع الی اللہ تعالیٰ وکیف یلیق ھذا بمن یکون قلبہ مشغوفا بالقتل والفجور (الصفۃ الخامسۃ) قولہ تعالیٰ انا سخرنا الجبال معہ افتری انہ سخرت لہ الجبال لیتخذہ وسیلۃ الی القتل والفجور (الصفۃ السادسۃ) قولہ والطیر محشورۃ وقیل انہ کان محرما علیہ صید شئی من الطیر وکیف یعقل ان یکون الطیر امنا منہ ولا ینجو منہ الرجل المسلم علی روحہ ومنکوحہ (الصفۃ السابعۃ) قولہ تعالیٰ وشددنا ملکہ ومحال ان یکون المراد انہ تعالیٰ شد ملکہ باسباب الدنیا بل المراد انہ تعالیٰ شد ملکہ بما یقوی الدین واسباب سعادۃ الاخرۃ والمراد تشد یدرملکہ فی الدین والدنیا ومن لا یملک نفسہ عن القتل والفجور کیف یلیق بہ ذلک؟ (الصفۃ الثامنۃ) قولہ تعالیٰ واتیناہ الحکمۃ وفصل الخطاب والحکمۃ جامع لکل ما ینبغی علما وعملا فکیف یجوزان یقول اللہ تعالیٰ انا اتیناہ الحکمۃ وفصل الخطاب مع اصرارہ علے ما یستنکف عنہ الخبیث الشیطان من مزاحمۃ اخلص اصحابہ فی الروح والمنکوح فھذہ الصفات المذکورۃ قبل شرح تلک القصۃ دالۃ علی برائۃ ساحتہ عن تلک الا کا ذیب (تفسیر کبیر مصری جلد ٧٨٧) جو طاعات کے ادا کرنے اور ممنوعات سے پرہیز کرنے میں پورا ہو۔ اگر ہم یہ کہیں کہ حضرت دائود نے یہ بیہودہ کام کئے (جن کا ذکر مذکورہ قصے میں آیا ہے) پھر تو وہ عبودیت میں کامل نہ ہوگا۔ بلکہ نفس کی خواھشوں کے پورا کرنے میں کامل ہوگا (٣) تیسری صفت یہ ہے کہ وہ دائود بڑی قوت والا تھا۔ کچھ شک نہیں کہ اس قوۃ سے دینی قوۃ مراد ہے کیونکہ غیر دینی قوۃ تو کفار بادشاہوں میں بھی ہوتی ہے۔ اور دینی قوۃ سے مراد یہی ہے کہ فرائض کے ادا کرنے پر اور ممنوعات سے رکنے پر قدرت کامل ہو۔ بھلا جو شخص کسی مسلم کے قتل کرانے اور اس کی بیوی کو داخل حرم کرنے سے نہیں رک سکتا اس میں بھی کوئی دینی قوۃ ہوسکتی ہے ؟ (٤) چوتھی صفت یہ ہے کہ حضرت دائود اللہ کی طرف بہت رجوع تھا بھلا جو شخص کسی بے گناہ کو قتل کرنے اور نفس پرستی میں مشغول ہو۔ وہ اللہ کی طرف کیسا بڑا رجوع ہوسکتا ہے۔ (٥) پانچویں صفت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم نے پہاڑ اور جانور اس کے لئے مسخر کر دئیے تھے کیا یہ تسخیر اس لئے تھی کہ وہ اس کو قتل نفس اور بدکاری کا ذریعہ بنائے؟ (٦) چھٹی صفت یہ ہے کہ جانور اس کے سامنے جمع ہوتے تھے بھلا ہوسکتا ہے کہ جانور تو اس سے امن میں ہوں اور ایک مسلمان اپنی جان اور بیوی کے حق میں امن میں نہ ہو۔ (٧) ساتویں صفت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہمنے دائود کا ملک مضبوط کیا تھا مراد یہ ہے کہ اس کا ملک دین اور دنیا کے بارے میں مضبوط کیا تھا۔ پھر جو شخص کسی مسلم کے قتل کرنے اور بدکاری کرنے سے اپنے نفس کو نہیں روک سکتا اس کو یہ کیسے لائق ہے ؟ (٨) آٹھویں صفت یہ ہے کہ اللہ نے فرمایا ہے کہ ہم نے دائود کو حکمت اور فصل الخطاب دیا۔ حکمت ایک جامع لفظ ہے علم اور عمل کو۔ پھر جو ایسے مخلص ترین مسلمان کی جان اور بیوی کے حق میں ایسے کام کرنے سے نہ رکے اسکے حق میں یہ کیسا صادق ہوسکتا ہے؟ پس یہ مذکورہ صفات اس قصے کے محل سے پہلے دلالت کرتی ہیں کہ دائود اس فعل قبیح کی نسبت سے پاک ہے۔ اس کے بعد امام رازی نے دس وجوہات وہ لکھی ہیں جو اس آیت کے بعد مذکور ہیں۔ ان سب وجوہات سے امام ممدوح نے اس قصے کا بطلان ثابت کیا ہے۔ غالبا انہی وجوہات سے حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے۔ ” جو کوئی حضرت دائود کا قصہ مذکورہ بیان کریگا میں اسکو ایک سو ساٹھ درے لگائونگا جو انبیاء پر تہمت کی حد ہے“ (تفسیر کبیر مصری جلد ٨٠٧) اس ساری بحث کا نتیجہ یہ ہے کہ حضرت دائود (علیہ السلام) کی نسبت عورت کا قصہ ایک لغو بلکہ جھوٹا ہے۔ مفسر ابو سعود لکھتے ہیں۔ افک مبتدع مکروہ ومکر مخترع بئس ما مکرو قبحہ الا سماع وتنفرعنہ الطباع ویل لمن ابتدعہ واشاعہ وتبالمن اخترعہ واذ انہ یعنی یہ قصہ بری ساخت کا گھڑا ہوا ہے اور بہت بڑا فریب ہے۔ جو ان بنانے والوں نے بنایا ہے کان اسکو اپنی اندر نہیں آنے دیتے اور طبعیت اس سے نفرت کرتی ہے افسوس ہے انکے لئے جس نے اس کو بنایا اور تباہی ہو اس کے لئے جو (بغیر تردید) اسکو شائع کرے اور پھیلائے “ اظہار تعجب : باوجودیکہ سلف سے خلف تک محقق مفسرین اس قصہ کی تردید کرتے چلے آئے ہیں تاہم ہمارے زمانہ کی محقق مولوی عبداللہ چکڑا الوی نے اس قصہ کی تردید کر کے تمام سلف صالحین کو اس قصہ کا قائل بنا کر اپنی شیخی بہگاری ہے کہ سلف مفسرین نے حضرت دائود کی عصمت کو بٹہ لگایا ہے (پارہ ٢٣ صفحہ ٣٣) حالانکہ اسکی تردید ابتداء سے مفسرین کرتے چلے آئے ہیں انہی سے ان صاحب نے حاصل کیا پھر انہی کو مورد الزام بنایا۔ سچ ہے کہ نیا موخت علم تیرا دھن کہ مراعاقبت نشانہ نہ کرو۔ (منہ) بعد بخشش ہم نے کہا اے دائود ! دیکھ ہم نے تجھے زمین پر حاکم بنایا ہے۔ حاکم کی شان یہ ہونی چاہیے کہ بوقت حکومت خیال رکھے کہ ایک وقت میں بھی کسی بڑے زبردست حاکم اللہ کریم کے سامنے جائوں گا اور اسی طرح جیسے یہ فریقین میرے سامنے کھڑے ہیں میں بھی وہاں کھڑا ہوں گا۔ ایسا خیال رکھنے سے حاکم کو عدل وانصاف کی توفیق ملتی ہے پس تو اس خیال کو مدنظر رکھ کر لوگوں میں انصاف کے ساتھ فیصلے کیا کرنا اور اپنی خواھش نفسانی پر نہ چلنا ورنہ یہ خواہش نفسانی تجھے اللہ کی راہ سے بہکا دے گی۔ بے شک جو لوگ اللہ کی راہ سے بہکتے ہیں ان کو شدید عذاب ہوگا۔ کیونکہ وہ اس اصول سے غافل ہوجاتے ہیں جو ہم اوپر بتا آئے ہیں کہ حاکم حکم کرتے وقت یہ سمجھے کہ میرا مقدمہ بھی ایک روز پیش ہوگا لیکن نفسانی خواہشات کے پیچھے چلنے والے اس لئے گمراہ ہوتے ہیں کہ وہ اپنے حساب یعنی مقدمہ کے دن کو بھول جاتے ہیں حالانکہ ہم (اللہ) نے آسمان زمین اور ان دونوں کی درمیانی چیزوں کو بے نتیجہ پیدا نہیں کیا۔ اگر کسی نیک وبد کام کا انجام نیک وبد نہیں ہے پھر تو یہ ایک محض کھیل ہے جس کا کوئی نتیجہ نہیں ایسے خیال کے کفر ہونے میں کیا شک ہے یہ تو کافروں کا خیال ہے جس کی پاداش میں یہ آگ کے عذاب میں پھنسیں گے اور آگ کے عذاب کی وجہ سے ایسے کافروں کے حال پر بہت افسوس ہے کیسی مصیبت ان پر آئے گی اور یہ اس کو کسے ھ برداشت کریں گے۔ ان کو اتنی بھی سمجھ نہیں کہ اگر جزا وسزا کوئی چیز نہیں تو کیا ایماندار نیکوکاروں کو ہم ملک میں فساد پھیلانے والوں کی طرح کردیں گے ؟ دنیا میں برابر ہیں تو آخرت میں بھی برابر؟ کیا پرہیز گاروں کو ہم بدکاروں کی طرح بنا دیں گے؟ نہیں۔ ایسا ہوسکتا ہے ؟ کہ ایک شخص تمام عمر اللہ کے خوف میں امن وامان سے زندگی گزار دے اور دوسرا تمام عمر چوری کرے اور ڈاکہ مارے۔ مگر مرنے کے بعد دونوں برابر ہوجائیں ایسا ہونا تو صریح خلاف عقل ونقل ہے اے نبی ! یہ بابرکت کتاب ہم نے تیری طرف اس لئے اتاری ہے کہ لوگ اس کے احکام پر غور کریں اور عقلمند ان میں نصیحت پائیں اور سوچیں کہ بدی کرنے والا نیکی کرنے والے کے برابر کیوں ہونے لگا جبکہ قانون اخلاق اور قانون قدرت یہی ہے کہ ؎ گندم از گندم برومدجوز جو۔ پس جو لوگ عقل وفہم سے کچھ حصہ رکھتے ہوں گے وہ ہماری پیش کردہ دلیلوں سے نتیجہ پائیں گے۔ اور جو ضدی اور معاند ہوں گے وہ سزا پائیں گے