ص ۚ وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ
صۤ۔ اس نصیحت والے قرآن کی قسم !
(1۔16) لوگو ! سنو میں اللہ بڑا صادق القول ہوں۔ مجھے قسم ہے اس نصیحت والے قرآن کی بے شک وعدہ الٰہی کی خبر سچ ہے مگر کافر لوگ ناحق کی ہیکڑی (غرور) اور مخالفت میں ہیں سو اس کا بدنتیجہ پائیں گے ہم (اللہ) نے کئی قومیں ان سے پہلے ہلاک کردیں تو اس وقت بڑے زور سے چلائے لیکن مخلصی کا وقت باقی نہ رہا تھا۔ ہر ایک کام کا وقت ہوتا ہے وہ وقت اگر ٹل جائے تو پھر کچھ نہیں۔ اللہ تعالیٰ قانون کے مطابق عذاب آنے سے پیشتر اگر توبہ کی جائے تو ٹل جاتا ہے ورنہ نہیں یہ عرب کے لوگ بھی اپنے حق میں یہی چاہتے ہیں کہ عذاب جلدی آئے اور تو کچھ نہیں انکو اس بات سے تعجب ہوتا ہے کہ ان کے پاس ان ہی میں کا ایک آدمی (محمد ﷺ) سمجھانے والا آیا اسی لئے اس کی مخالفت پر تلے بیٹھے ہیں اور منکر جب دیکھتے ہیں کہ باوجود ہماری مخالفت کے لوگوں پر اس کا اثر ہوتا ہے تو عام لوگوں کو بدگمان کرنے کے لئے کہتے ہیں کہ یہ شخص جادوگر ہے اور نبوت کے دعوے میں بڑا جھوٹا ہے کیا اس کے جھوٹ کی دلیل ایک ہی کافی نہیں کہ اس نے تمام معبودوں کو چھوڑ کر ایک ہی کو لے لیا ہے بس اسی کا گیت گاتا ہے تو اسی کے راگ الاپتا ہے اور کسی کو جانتا بھی نہیں حالانکہ ہم لوگ مدت سے ایسا سنتے آئے کہ دنیا کا انتظام کئی ایک معبودوں کے ہاتھ میں بٹا ہوا ہے کچھ شک نہیں کہ اس کا یہ خیال عجیب بات ہے جو بات دنیا بھر میں کوئی نہیں کہتا یہ کہتا ہے یہ کہہ کر ان میں سے ایک جماعت یہ کہتی ہوئی چلی جاتی ہے کہ چلو میاں اپنے قدیمی معبودوں پر جمے رہو۔ یہ اس کا خیال تو محض ایک ہوس ہے۔ ہم نے تو پہلے لوگوں اپنے آباواجداد میں کبھی یہ نہیں سنا۔ جو یہ مدعی نبوۃ کہتا ہے پس بے شک یہ محض من گھڑت بات ہے۔ کیا یہ ہوسکتا ہے کہ دنیا بھر میں ایک یہی ایسا ممتاز ہو۔ کہ نبوت کے درجہ تک پہنچ جائے کیا ہم میں کوئی رئیس نہیں۔ معزز نہیں جو نبوۃ رسالت پا سکے پھر کیا سبب ہے کہ ہم میں سے اسی پر نصیحت آمیز کلام نازل ہوا ہے۔ کیا ہم نے کوئی چوری کی تھی۔ کیا ہم شریف خاندان کے نہ تھے۔ کیا ہم قریش نہ تھے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ان کو میرے (اللہ کے) ذکر اور نصیحت سے انکار ہے یہ مانتے ہی نہیں کہ کوئی کلام ہدایت نظام بفرض رفاہ عام اللہ کے ہاں سے نازل ہوتا ہے بلکہ یہ سرے سے اس کے منکر ہیں کیونکہ ابھی تک انہوں نے میرا عذاب نہیں چکھا۔ بھلا یہ جو اللہ تعالیٰ کے کاموں میں دخل دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی تقسیم پر معترض ہوتے ہیں کہ یہ کیوں نبی ہوا اور ہم کیوں نہ ہوئے۔ کیا تمہارا پروردگار جو بڑا غالب اور بڑا فیاض ہے اس کی رحمت کے خزانے ان کے پاس ہیں ؟ کہ ان سے اجازت لے کر وہ تقسیم کرے۔ پھر وہ غالب اور فیاض ہی کیا ہوا۔ یہ نادان جانتے نہیں کہ اس کا غلبہ اور فیاضی اسی بات کی مقتضی ہے کہ وہ جس کو چاہے جو چاہے دے دے روکنے والا اور پوچھنے والا کون؟ کیا آسمانوں زمینوں اور ان کے درمیان چیزوں کے اختیارات انہی معترضین کو حاصل ہیں۔ پھر تو آسمان کی طرف سیڑھیوں پر چڑھ جائیں اور آسمانی فیضان کو بند کردیں یہ ہیں کیا؟ بقول ؎ کیا پدی اور کیا پدی کا شوربا۔۔ گذشتہ زمانے کے تباہ شدہ گروہوں میں سے یہ بھی ایک شکست یافتہ ذلیل ترین گروہ ہے اور بس اس سے زیادہ نہیں۔ چند ہی روز میں ان کی اکڑفون ختم ہونے کو ہے۔ جس طرح ان سے پہلے نوح کی قوم نے۔ عاد کی قوم نے۔ بڑی قوت والے فرعون نے۔ قوم ثمود۔ قوم لوط اور ایکہ والوں نے جھٹلایا تھا یہ بھی جھٹلا رہے ہیں جس طرح ان پر عذاب آیا تھا ان پر بھی آئے گا۔ کیونکہ یہی تو برباد شدہ گروہ ہیں جن کے یہ لوگ آج بقیہ السیف اور تکذیب حق میں تابع ہیں جتنے یہ لوگ ہیں گو ان میں بہت سے امور میں اختلاف بھی تھا۔ مگر اتنے حصے میں سب شریک تھے کہ ان میں سے ہر ایک نے رسولوں کی تکذیب کی تھی پھر میرا عذاب ان پر واجب ہوگیا۔ اب جو یہ لوگ شوروشغب کر رہے ہیں یہ بھی تو صرف ایک آواز کے انتظار میں ہیں جیسے پہلے لوگوں پر آئی تھی اور وہ ہلاک ہوگئے تھے یاد رکھیں اس آواز میں وقفہ نہ ہوگا یعنی جب وہ آئے گی تو ایک دم فنا کر دے گی اور سنو ان کی حماقت کا یہ حال ہے کہ کہتے ہیں اے ہمارے پروردگار جو کچھ ہماری قسمت کا لکھا عذاب ہے وہ یوم الحساب سے پہلے اسی دنیا میں جلدی جلدی ہم پر وارد کر دے یہ سن کر تیری طبیعت پر ایک گونہ اثر ہوتا ہے اور تو ان کی مخالفت کو خیال میں لاتا ہے۔ اس لئے ہم تجھے ہدایت کرتے ہیں کہ تو ان باتوں کا ہرگز خیال نہ کیا کر