سورة يس - آیت 48

وَيَقُولُونَ مَتَىٰ هَٰذَا الْوَعْدُ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور وہ کہتے ہیں یہ وعدہ کب (پورا) ہوگا، اگر تم سچے ہو؟

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(48۔68) اور سنو یہ لوگ کہتے ہیں یہ قیامت کا وعدہ جو تم لوگ بتلاتے ہو کب ہوگا؟ سچے ہو تو بتلائو یہ سوال بھی ان کا کسی نیک نیتی سے نہیں بلکہ محض ضد سے ہے سنؤ یہ لوگ دراصل ایک ہی آواز کے منتظر ہیں جو قیامت کے وقت انکو پکڑ لیگی اس حال میں کہ یہ لوگ دنیا میں باہمی جھگڑتے ہوں گے پھر یہ ایسے پھنسیں گے کہ نہ اپنے پس ماندگان کو وصیت کریں گے نہ اپنے اہل وعیال کی طرف واپس ہوسکیں گے بلکہ جہاں پر کوئی ہوگا وہیں پکڑا جائے گا اور سنو صور پھونکا جائے گا یعنی قیامت قائم ہوگی تو یہ سب لوگ قبروں سے نکل کر اپنے پروردگار کی طرف چل کھڑے ہوں گے ان مردگان میں نیک بھی ہوں گے چونکہ وہ اپنی قبروں میں آرام سے گذراتے ہوں گے اس لئے وہ اٹھتے ہوئے کہیں گے ہائے ہم کو ہماری خوابگاہ سے کس نے اٹھایا؟ بعد غوروفکر خود ہی جواب میں کہیں گے کہ تو وہی دن ہے جس کا اللہ رحمان نے اپنی مہربانی سے وعدہ کیا تھا اور رسولوں نے سچ کہا تھا دراصل ہماری غفلت تھی کہ ہم نے اس طرف توجہ نہیں کی حقیقت میں وہ گھڑی ایک ہی آواز سے پیدا ہوگی جس کو سنتے ہی سب لوگ ہمارے (اللہ کے) حضور حاضر ہوجائیں گے پھر اس روز کیا ہوا؟ یہی کہ کس جان پر ظلم نہ ہوگا اور جو کچھ تم کرتے ہو اسی کا تم کو بدلہ ملے گا تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ نیک لوگ جنت میں ہوں گے اور بدکار جہنم میں اور جنت والے اس روز پسندیدہ مزے میں جی بہلا رہے ہوں گے کیونکہ وہ اور ان کی بیویاں تختوں پر تکیے لگائے ہوں گے ان کے لئے ان بہشتوں میں ہر قسم کے پھل پھول ہونگے اور اس کے سوا جو کچھ وہ چاہیں گے ان کو ملے گا ان سب نعمتوں میں بڑی بات یہ ہوگی کہ پروردگار مہربان کی طرف سے ان کو سلام کہا جائے گا یہ سلام شاہانہ نظر عنایت ہوگا اور بغرض امتیاز کرنے نیک و بد کے کہا جائے گا کہ او بدکارو ! دنیا میں تو تم نیکوں کے ساتھ یکجا رہے ایک ہی زمین پر ایک ہی ہوا میں ایک ہی قسم کا رزق کھاتے اور پانی پیتے رہے مگر آج تم الگ ہوجائو گو مجرموں کی شکل و شباہت اور چہروں کی علامات ہی تمیز کرانے میں کافی ہونگی مگر ظاہری علیحدگی کے لئے بھی ان کو یہ حکم دیا جائے گا کیونکہ وہاں نیکوں کے ساتھ بدوں کا ملے جلے رہنا اللہ کو کسی طرح منظور نہیں ہوگا یہ سخت حکم سن کر مجرم عذر کریں گے کہ ہمارا کیا قصور؟ ہمیں تو خبر نہ ہوئی تھی کہ کیا کرنا چاہئے کیا نہ کرنا چاہئے اس کے جواب میں ان کو کہا جائے گا کیا میں (اللہ) نے انبیاء کے ذریعے سے تم لوگوں کو اطلاع نہ دی تھی؟ کہ اے بنی آدم ! شیطان کی اطاعت مت کرنا کیونکہ وہ تمہارا صریح دشمن ہے اور خالص میری اطاعت کرنا یہی سیدھی راہ ہے دیکھو تم لوگوں کو نبیوں کی معرفت اس امر کی اطلاع ہوچکی تھی اور وہ شیطان تم میں سے بہتوں کو گمراہ بھی کرچکا تھا کیا پھر بھی تم نہیں سمجھتے تھے؟ بس اب تمہارا کیا عذر ہے؟ یہ لو جہنم سامنے ہے جس کا تم لوگ وعدہ دئیے جاتے تھے اچھا ! بسبب کفر کرنے کے آج اس میں داخل ہوجائو اس روز ان مجرموں کے بیانات لینے کا طریقہ بھی ایک خاص قسم کا ہوگا کہ (اللہ) ان کے مونہوں پر تو بندش کی مہریں لگادیں گے اور جو کچھ وہ لوگ دنیا میں کر رہے ہونگے اس کی بابت ان کے ہاتھ ہم سے بولیں گے اور پیر گواہی دیں گے غرض جو کام جس کسی عضو سے ہوا ہوگا وہ اسکی شہادت دیگا پس تم سمجھ لو کہ اس وقت میں مجرم کیا عذر کرسکیں گے؟ اگر یہ لوگ غور کرتے تو دنیا میں کیوں ایسی غفلت میں رہتے کیا ان کو علم نہیں کہ اگر ہم (اللہ) چاہیں تو انکی آنکھوں کو بے نور کردیں چونکہ یہ لوگ اللہ کی طاقت بینائی سے اس کی رضاء کا کام نہیں لیتے اس لئے اللہ کے غضب سے کچھ دور نہیں کہ وہ ان کی قوت بینائی چھین لے پھر یہ راستے کی طرف لپکیں تو کہاں سے دیکھ سکیں اور سنو ! اگر ہم چاہیں تو یہ لوگ جہاں ہیں وہاں ہی ہم ان کو مسخ کردیں یعنی ان کی شکلیں بدل ڈالیں پھر تو راستہ بھی نہ چل سکیں نہ اپنے گھروں کو واپس ہوسکیں بلکہ جہاں ہوں وہاں رہ جائیں اور سنو ! ہم ایک اور دلیل اپنی ہستی کی انکو سناتے ہیں جو انکے حق میں وجدانی ہے غور کریں کہ ہم جس کسی کو زیادہ عمر دیتے ہیں یعنی طبعی عمر (٦٠ سے ٧٠) سال سے اس کو بڑھا دیتے ہیں تو اسکو پیدائش میں الٹا کردیتے ہیں یعنی باوجود طوالت عمر اور کثیر تجربہ کے عقل میں کم اور طاقت میں کمزور ہوتا جاتا ہے تو کیا پھر بھی تم اس راز کو سمجھتے نہیں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے ؟ سنو ! ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ اس کے اوپر ایک زبردست طاقت ہے تمام دنیا جس کے قانون کے ماتحت ہے اس لئے باوجود عمدہ عمدہ غذائیں کھانے کے کمزوری کی طرف ہی مائل ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ پیوند زمین ہوجاتا ہے یہ تو اللہ کی ہستی پر بین دلیل ہے