وَآيَةٌ لَّهُمْ أَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّيَّتَهُمْ فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ
اور ایک نشانی ان کے لیے یہ ہے کہ بے شک ہم نے ان کی نسل کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا۔
(41۔47) اور سنو ! ان منکروں کے لئے ایک نشان یہ ہے کہ ہم (اللہ) ان کی نسل کو بھری کشتیوں اور جہازوں میں سوار کرتے ہیں ہم نے پانی کو ایسا بنایا کہ وہ بوجھ اٹھا سکے لکڑی کو ایسا بنایا کہ پانی پر تیر سکتی ہے اس کے ساتھ لوہا بنایا پھر ساتھ ہی اس کے اس کے بنانے کا لوگوں کو ڈھب بتایا غرض یہ سب ہمارے (اللہ کے کام ہیں کیا تم نے نہیں سنا؟ کار زلف تست مشک افشانی امّا عاشقاں مصلحت راتہمتے برآ ہوئے چیں بستہ اند اور ہم (اللہ) نے ان کے لئے اس مذکور کی اور مثل سواریاں بھی بنائی ہیں گھوڑا ٹٹو سائیکل موٹر کار اور ریل وغیرہ جن پر یہ لوگ چڑھتے ہیں کیا اللہ کے احسانوں کا یہی شریہ ہے جو لوگ عمل کرتے ہیں؟ کہ جب تک دریا میں ہوتے ہیں مارے خوف کے ہماری طرف متوجہ رہتے ہیں اور جب کنارے پر پہنچتے ہیں تو شرک کفر میں مبتلا ہوجاتے ہیں اتنا بھی نہیں جانتے کہ اگر ہم چاہیں تو ان کو غرق کردیں پھر نہ کوئی انکا فریاد رس ہو نہ مصیبت سے چھڑائے جائیں سواء اس کے کہ ہم ہی ان پر رحمت کریں اور انکو زندگی کے ایک معین وقت تک پہنچانا چاہیں تو پہنچا دیں پس بجز ہماری رحمت اور دستگیری کے کوئی بھی ان کا حامی یا مددگار نہیں اور سنو ! یہ ایسے مغرور اور متکبر ہیں کہ جب انکو کہا جاتا ہے کہ اپنے آگے اور پیچھے کی آفات سے بچو یعنی اللہ کے عذاب سے ڈرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے (تو وہ اس کی پرواہ نہیں کرتے ( اور جب کبھی ان کے پاس اس پروردگار کے ہاں سے کوئی نشان آتا ہے کبھی بیماری کبھی قحط کبھی ارزانی کبھی گرانی تو بجائے عبرت حاصل کرنے کے اس سے روگردانی کر جاتے ہیں یہ تو سے بڑھ کرسنو ! جب کبھی ان کو کہا جائے کہ اللہ کے دئیے ہوئے میں سے اسی کی راہ میں خرچ کرو تو بے ایمان لوگ ایمانداروں کو جواب میں کہتے ہیں کہ ہم ایسے لوگوں کو کھانا کھلائیں جو بحکم اللہ بھوکے ہیں اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو خود ان کو کھلا دیتا بلکہ اس سے الٹا نتیجہ نکالتے ہیں کہ تم تو مسلمانو ایسے مسلمانوں کو کھانا کھلانے میں صریح غلطی میں ہو کیونکہ تم اتنا بھی نہیں سوچتے کہ یہ تو اللہ کا مقابلہ ہے کہ جس کو اللہ بھوکارکھے تم اس کو کھانا کھلائو مگر یہ نادان قدرتی امور کو کیا جانیں قدرت کے کام اسی طرح ہیں کہ بندوں کو بندوں سے فائدہ پہنچاتا ہے کیا یہ نہیں جانتے کہ اللہ کی پیدا کی ہوئی چیزیں اسی طرح کھاتے ہیں جس طرح وہ پیدا ہوتی ہیں نہیں بلکہ بنا سنوار کر کھاتے ہیں کئی ایک بنانے پر ہیں کئی ایک بیچنے پر کئی ایک پکوان پر غرض ایک قدرتی چیز میں کئی ایک لوگوں کا رزق وابستہ ہے مثل گیہوں چاول آم خربوزہ وغیرہ یہ سب چیزیں جس حال میں پیدا ہوتی ہیں اسی طرح کھائی جاتی ہیں؟ کسی بندے کی صنعت کو اس میں دخل نہیں ہوتا؟ بس یہی ان کا جواب سمجھو