وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا آتَيْتُكُم مِّن كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنصُرُنَّهُ ۚ قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَىٰ ذَٰلِكُمْ إِصْرِي ۖ قَالُوا أَقْرَرْنَا ۚ قَالَ فَاشْهَدُوا وَأَنَا مَعَكُم مِّنَ الشَّاهِدِينَ
اور جب اللہ نے سب نبیوں سے پختہ عہد لیا کہ میں کتاب و حکمت میں سے جو کچھ تمھیں دوں، پھر تمھارے پاس کوئی رسول آئے جو اس کی تصدیق کرنے والا ہو جو تمھارے پاس ہے تو تم اس پر ضرور ایمان لاؤ گے اور ضرور اس کی مدد کرو گے۔ فرمایا کیا تم نے اقرار کیا اور اس پر میرا بھاری عہد قبول کیا ؟ انھوں نے کہا ہم نے اقرار کیا۔ فرمایا تو گواہ رہو اور تمھارے ساتھ میں بھی گواہوں سے ہوں۔
(81۔91)۔ ذرہ یاد تو کریں جب اللہ تعالیٰ نے ہر ایک نبی کو حکم دیا اور تعمیل کا اس سے وعدہ لیا کہ میں نے جو تم کو کتاب اور حکمت تہذیب اور اخلاق کی تعلیم دی ہے پھر اس کے بعد تمہارے پاس کوئی رسول آوے جو تمہارے ساتھ والی تعلیم کی تصدیق کرتا ہو تو تم اس کو ناگوار سمجھ کر مخالف نہ ہوجا نا بلکہ اس پر ایمان لانا اس کی مدد کرنا پھر مزید تا کید کے لئے اللہ تعالیٰ نے کہا کہ کیا تم اقراری ہو اس پر میرا عہد قبول کرتے ہو یا نہیں وہ بیک زبان بولے ہم اقراری ہیں اللہ تعالیٰ نے کہا کہ تم اس معاملہ میں گواہ رہو اور میں خود بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں پس جو کوئی تم میں سے یا تمہاری امت میں سے بعد اس اقرار کے پھرجائے گا سو وہی بد کار ہوگا بھلا نبیوں کا عہدو پیمان جو بحکم خدا وندی انہوں نے کیا تھا جب نہیں مانتے تو کیا دین الٰہی سوائے اور دین چاہتے ہیں حالانکہ تمام آسمان و زمین کے لوگ چار و نا چار اسی کے زیر فرمان ہیں اور انجام کار اسی کی طرف پھیریں گے پس تو بلند آواز سے کہہ دے کہ جائو جو تمہارا جی چاہے کرو ہم تو سب سے پہلے اکیلے اللہ تعالیٰ کو مانتے ہیں اور جو کچھ ہماری طرف اور ابراہیم ( علیہ السلام) اور اسماعیل ( علیہ السلام) اور اسحٰق ( علیہ السلام) اور یعقوب ( علیہ السلام) اور اس کی ساری اولاد کی طرف اللہ تعالیٰ کے ہاں سے اتارا گیا اور بالخصوص جو موسیٰ ( علیہ السلام) ٰ اور عیسیٰ ( علیہ السلام) ٰ اور نبیوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملا ہے سب کو مانتے ہیں ہم ان نبیوں میں سے کسی میں تفریق نہیں کرتے کہ بعض کو مانیں اور بعض سے انکاری ہوں جیسے کہ تم اور بڑی بات یہ ہے کہ ہم اسی کے مخلص بندے ہیں نہ کہ تمہاری طرح مشرک کہ مسیح کو بھی اللہ مانتے ہو چونکہ ہمارے دین اسلام میں توحید اور اخلاص اعلیٰ درجہ کا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی عام اعلان ہے کہ جو کوئی سوائے اسلام کے اور دین تلاش کرے گا ہرگز اس سے قبول نہ ہوگا اور وہ آخرت میں زیانکاروں سے ہوگا بھلا ایسے لوگوں کو کیونکہ اللہ جنت کی راہ دکھائے جو بعد ایمان لانے کے بغرض دنیوی منکر ہوگئے حالانکہ شہادت بھی دے چکے تھے کہ رسول بر حق ہے اور سچائی کے دلائل بھی ان کو پہنچ چکے مگر بایں ہمہ سب سے منکر ہو بیٹھے تو اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی رحمت سے ان کو محروم کردیا اس لیے اللہ تعالیٰ ایسے ظالموں کو جنت کی راہ نہیں دکھاتا سزا ان کی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اور فرشتوں کی اور جہان کے سب لوگوں کی ان پر لعنت ہو جس سے وہ کبھی رہائی نہ پاویں گے بلکہ ہمیشہ اس میں رہیں گے نہ ان کے عذاب میں تخفیف ہوگی نہ ان کو عذر کی مہلت ملے گی لیکن جو لوگ دنیا میں بھی بعد اس کفر کے باز آئے اور اپنے اعمال بد کو سنوارا تو ایسے لوگ بخشش کا حصہ رکھتے ہیں کیونکہ اللہ بڑا بخشش کرنے والا نہائت مہر بان ہے اس کی بخشش کو اگر کسی کی سخت بد عملی مانع نہ ہو تو فوراً بندوں کو دبوچ لیتی ہے قابل ملامت وہ لوگ ہیں جو بعد ایمان لانے کے کافر ہوئے پھر کفر ہی میں بڑھتے گئے یہاں تک کہ مر گئے ان کی توبہ بروز قیامت کریں گے ہرگز قبول نہ ہوگی اور نہ ہی ان پر نظر رحمت ہوگی یہی لوگ اصلی راہ سے بھولے ہوئے ہیں اس لئے کہ ہمارے ہاں عام دستور یہ ہے کہ جو لوگ کافر ہوں اور کفر کی حالت میں مر جائیں تمام عمر بھر اسلام اور فرمانبرداری کی طرف نہ آئیں ہمیشہ عذاب میں مبتلا رہیں گے۔ ایسے کہ ان میں سے کسی سے زمین بھر کر بھی سونا ہرگز قبول نہ ہوگا گو بغرض محال وہ اپنا جرمانہ بھی اتنے سونے سے ادا کرنا چاہے کسی طرح کی رعائت نہ ہوگی بلکہ ان کو درد ناک عذاب ہوگا اور کوئی بھی ان کا مددگار نہ ہوگا دیکھو تو یہی مال جس کے جمع کرنے میں انہوں نے از حد فزوں جانفشانی کی تھی وہ بھی اس قابل نہ ہوا کہ آخرت میں ان کے کام آتا۔ کیونکہ دنیا میں انہوں نے اس کو مناسب موقع پر خرچ نہیں کیا تھا یعنی اللہ کی مرضی میں نہیں لگایا بلکہ یا تو اس کی نگر انی اور حفاظت ہی کرتے رہے یا عیش و عشرت میں کھو یاسو تم بھی مسلمانو ! اس مال سے اگر یہی معاملہ کرو گے تو ان لوگوں کی طرح بے نصیب رہو گے