سورة يس - آیت 1

س

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

یۤس۔

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(1۔12) اے کامل انسان محمد رسول اللہ علیک السلام قسم ہے تیری الہامی کتاب باحکمت قرآن کی بے شک تو رسولوں میں سے ہے سیدھی راہ قرآن پر جو بڑے غالب بڑے رحم کرنیوالے اللہ کی طرف سے اترا ہوا ہے اس کے رحم کے تقاضے سے اترا ہوا ہے اسی کے غلبہ کے اثر سے پھیلے گا تجھ کو اسی لئے رسول بنایا ہے تاکہ تو اس قوم کو ڈراوے اور احکام الٰہی پہنچا دے جن کے قریبی باپ دادا نہیں ڈرائے گئے اسی لئے وہ غافل ہیں۔ بے شک ان میں سے بہتوں کی شرارت کی وجہ سے ان پر حکم الٰہی ثابت ہوچکا ہے پس وہ ایمان نہ لائیں گے ہم نے ان کی گردنوں میں گویا طوق ڈال رکھے ہیں جو ان کی ٹھوڈیوں تک پہنچے ہوئے ہیں جن سے ان کے سر اوپر کو ہیں اس لئے نیچے اور سامنے کی چیزیں انکو نظر نہیں آتیں اور ہم (اللہ) نے ان کے سامنے روک کر رکھی ہے اور ان کے پیچھے بھی روک ہے اور ان کی آنکھوں پر گویا پردہ ڈال رکھا ہے پس وہ نہیں دیکھتے یہ کلام ان کے حال کی ایک تمثیل ہے کہ ان لوگوں کو ہدایت سے مختلف قسم کی رکاوٹیں ہیں کچھ برادری کا لحاظ ہے تو کچھ رسم و رواج کی باپندی کہیں شرک و کفر کی محبت کہیں نفسانی خواہشات کی بندش غرض ہر قسم کی بندشوں میں یہ لوگ پھنسے ہوئے ہیں اس لئے ان کی تمثیل میں یہ کہا گیا کہ ان کے آگے پیچھے دیوار ہے وغیرہ ورنہ اصل میں وہ دیوار کوئی اینٹ چونے کی نہیں ہے بلکہ ان کی غفلت کا نتیجہ ہے یہی وجہ ہے کہ اے نبی ! تیرا سمجھانا نہ سمجھانا ان کو برابر ہے یہ ایمان نہیں لائیں گے کیونکہ ان کی طبیعت ادھر نہیں جھکتی تو تو صرف انہی لوگوں کو سمجھاتا ہے جو تیرے سمجھانے کی پیروی کرتے ہیں اور بن دیکھے اللہ رحمان سے باوجود اس کی صفت رحم کے اس سے ڈرتے رہتے ہیں انہی کو تیرے سمجھانے سے نفع ہوتا ہے کیونکہ وہی لوگ عمل کرتے ہیں یوں سننے کو تو سب سنتے ہیں مگر محض کانوں میں آواز کا پہنچنا کافی نہیں جب تک اس سے متاثر ہو کر عمل نہ کریں پس جو لوگ عمل کرتے ہیں ان کو اللہ کی بخشش اور باعزت بدلہ کی خوشخبری سنا ان لوگوں کو اللہ کی طرف سے نیک اعمال پر جو بدلہ ملے گا وہ ایسا نہ ہوگا کہ دھتکار کر یا ذلت سے دیا جائے نہیں بلکہ بڑی عزت سے ملیگا جس کے وہ مستحق ہوں گے یہ بدلہ کس روز ملے گا؟ جس روز دوبارہ زندہ ہوں گے کچھ شک نہیں کہ ہم مردوں کو زندہ کریں گے اور ان لوگوں کے پیش کردہ اعمال جو اپنی زندگی میں یہ کر گذرے ہیں اور آثار جو پیچھے چھوڑجاتے ہیں مثلا کوئی خیرات چھوڑ جائیں جس کا اثر عام ہوجیسے کنواں مسجد وغیرہ یا کوئی بدرسم چھوڑ جائیں جس کا وبال عام ہوجیسے بت پرستی استھان یا قبر پرستی کا مقبرہ وغیرہ یہ سب قسم کے اعمال ہم (اللہ کے فرشتے بحکم اللہ) ان کے نامہ اعمال میں لکھتے رہتے ہیں اس کے مطابق بدلہ پائینگے اور اسی کے موافق پھل بھوگیں گے سچ تو یہ ہے کہ یہ لکھنا لکھانا بھی صرف بندوں کے سمجھانے اور قائل کرنے کو ہے ورنہ ہم (اللہ) نے تو سب کچھ روشن کتاب یعنی اپنے علم میں گھیر رکھا ہے ممکن نہیں کہ کوئی چیز اس کے گھیرے سے باہر ہوجائے کیونکہ اس سے باہر ہونا تو اللہ کے علم میں گویا نقص لاتا ہے