سورة فاطر - آیت 1

الْحَمْدُ لِلَّهِ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ جَاعِلِ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا أُولِي أَجْنِحَةٍ مَّثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۚ يَزِيدُ فِي الْخَلْقِ مَا يَشَاءُ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

سب تعریف اللہ کے لیے ہے جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے، فرشتوں کو قاصد بنانے والا ہے جو دو دو اور تین تین اور چار چار پروں والے ہیں، وہ (مخلوق کی) بناوٹ میں جو چاہتا ہے اضافہ کردیتا ہے۔ بے شک اللہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(1۔26) سب قسم کی تعریف اللہ ہی کو زیبا ہے جو آسمانوں اور زمینوں کا خالق ہے پردار فرشتوں کو بنی آدم کی طرف رسول بنایا کرتا ہے جن کے دو دو تین تین چار چار پر ہوتے ہیں اس کے علاوہ اور بھی جس قدر چاہتا ہے پیدائش میں زیادتی کردیتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر ایک چیز پر قدرت رکھتا ہے مولوی عبداللہ چکڑالوی پنجاب میں گذرے ہیں جو حدیث کو دلیل شرعی نہ مانتے تھے مگر نمازوں کی رکعتیں عام مسلمانوں کی طرح دو۔ تین۔ چار (صبح۔ مغرب اور عشا کے) فرض مانتے تھے ان پر سوال ہوا کہ رکعتوں کا یہ شمار تو حدیثوں میں ہے لیکن حدیث تمہارے نزدیک دلیل شرعی نہیں اس کے جواب میں انہوں نے اس آیت سے رکعات کا ثبوت دیا کہ دو تین چار سے مراد نمازوں کی رکعتیں ہیں کیا مضحکہ خیز جواب ہے ایسے ہی لوگوں کے حق میں کہا گیا ہے منکر مے بودن و ہمرنگ مستاں زیستن یہی وجہ ہے کہ جس قسم کی رحمت کا دروازہ بندوں کے لئے اللہ کھول دے کوئی اس کو بند نہیں کرسکتا اور جس کو بند کردے اس کے بعد کوئی اسے کھولنے والا نہیں کیونکہ وہ بڑی قدرت والا اور بڑا زبردست حکمت والا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ اکیلا تمام دنیا کا خالق ہے اور سب کو رزق دیتا ہے اسی لئے وہ منادی کراتا ہے کہ اے لوگو ! اللہ کی مہربانیوں کو یاد کرو جو تمہارے حال پر ہیں بڑی مہربانی تو یہ ہے کہ اس نے تمہارا انتظام کسی دوسرے کے سپرد نہیں کیا کیا اللہ کے سوا کوئی خالق ہے جو تم کو اوپر سے بذریعہ پانی کے اور زمین سے بذریعہ نباتات کے رزق دے؟ کوئی نہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ رزق دینا اور زق پیدا کرنا خالق کا کام ہے جو عدم سے وجود میں لائے اور اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں پھر خالق کیونکر ہوسکے؟ اسی لئے اللہ کے سوا نہ کوئی خالق ہے نہ رازق پھر تم کہاں کو بہکائے جارہے ہو؟ کہ اس کے ہوتے ہوئے اوروں سے مانگتے ہو کیا تم نے ایک اہل دل کی نصیحت نہیں سنی؟ کہ وہ کیا ہے؟ جو نہیں ہو ہوتا اللہ سے جسے تم مانگتے ہو اولیا سے یہ تعلیم سن کر بھی اگر نہ مانیں اور ضد ہی کئے جائیں تو اے نبی ! تو صبر کیجیو اگر تیری تکذیب کرتے ہیں تو کوئی بات نہیں تجھ سے پہلے کئی رسولوں کی تکذیب ہوئی اور کئی ایک شہید کئے گئے مگر چونکہ آخر کار سب کام اللہ ہی کی طرف پھرتے ہیں اس لئے انکا انجام بھی ان کے حق میں اچھا نہ ہوالوگو ! اس قسم کے واقعات سے سبق حاصل کرو کہ اللہ کا وعدہ بے شک سچا ہے جو کچھ اس نے اپنے رسولوں کی معرفت تم کو بتلایا ہے وہ ضرور ہو کر رہے گا۔ پس تم دنیا کی مختصر سی زندگی سے دھوکہ نہ کھائیو اور نہ اس بڑے دھوکہ باز شیطان کے فریب میں آئیو سنو ! شیطان تمہارا یقینا دشمن ہے تم بھی اس کو دشمن سمجھو وہ اپنے گروہ کو بدکاریوں کی طرف اسی لئے بلاتا ہے کہ وہ جہنمی بنیں جانتے ہو کون لوگ اس کے گروہ میں سے ہیں ؟ جو لوگ کافر ہیں یعنی اللہ کے حکموں سے انکار کرنیوالے یا بے پروائی سے ٹلانے والے ہیں ان کے لئے سخت عذاب ہے اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل بھی کئے ان کے لئے بخشش اور بہت بڑا اجر ہے یہ ہے نبیوں کی تعلیم کا خلاصہ جس کو بہت سے لوگ نہیں مانتے اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو اپنے برے کام اچھے معلوم ہوتے ہیں۔ تو بھلا جس کو اپنے برے اعمال خوب نظر آئیں اور وہ انہی کو اچھا جانے تو وہ کیونکر انکو چھوڑ سکتا ہے؟ ایسے لوگ ہی گمراہ ہوتے ہیں اللہ جسے چاہے گمراہ کرے اور جسے چاہے ہدایت کرے مگر اس کا چاہنا بے وجہ نہیں پس اے نبی ! تو ان کے حال پر افسوس کرتے کرتے اپنی جان کو ہلاک نہ کرلیجئیو ہر وقت تجھ کو یہی فکر اور یہی غم ہے کہ لوگ کیوں اللہ کی سچی تعلیم کو نہیں مانتے تو نہ مانیں جو کچھ یہ کرتے ہیں اللہ کو سب کچھ معلوم ہے اور وہ سب کو جانتا ہے کیونکہ وہی علیم کل دنیا کا منتظم حقیقی ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ ہی بارش سے پہلے ہوائیں بھیجتا ہے پھر وہ بادل کو اڑاتی ہیں پھر ہم (اللہ) انہی ہوائوں کے ذریعے اس بادل کو خشک زمین کی طرف لے جاتے ہیں پھر اس بادل کے پانی سے اس زمین کو خشکی کے بعد تازہ کردیتے ہیں دنیا کے ایسے ہیر پھیر سے تم کو علم حاصل کرنا چاہئے کہ اسی طرح قیامت کے روز بھی جی اٹھنا ہوگا یعنی جس طرح مردگی کے بعد زندگی زمین پر دنیا میں آتی ہے اسی طرح قیامت کے روز مردگان پر دوبارہ حیات آئے گی مگر کو تہ اندیش لوگ دنیاوی عزت کے بھوکے دنیا داروں کی غلط گوئیوں پر ہاں میں ہاں ملا کر عزت حاصل کرنی چاہتے ہیں حالانکہ اصل بات یہ ہے کہ جو کوئی عزت کا طالب ہو تو اس کو بھی اللہ ہی کی رضا جوئی کرنی چاہئے کیونکہ عزت سب کی سب اللہ ہی کے قبضہ میں ہے وہ جس کو چاہے عزت دے جسے چاہے ذلیل کرے وہ ایسا جلیل الشان بادشاہ ہے کہ دنیا میں جس قدر پاک کلمات مدحیہ اور تعریفیہ ہیں سب کے سب اسی کی طرف جاتے ہیں یعنی وہی تمام دنیا کی مدائح اور صفات کا مستحق ہے مثلا کسی کی سخاوت کی تعریف ہے تو اس کا مستحق بھی دراصل اللہ ہی ہے جس نے اس بندے کے دل میں سخاوت کی بنیاد رکھی کسی کے حسن وجمال کی تعریف ہے تو وہ بھی دراصل اللہ ہی کی ہے جس نے اس کو ایسا جمیل اور خوبصورت بنایا علی ہذا لقیاس دنیا میں جس قدر کلمات مدحیہ متضمن کسی خوبی کے ہیں ان سب کا مستحق وہی اللہ تعالیٰ ہے جو تمام دنیا کا خالق ہے اور اسی کی شان ہے کہ نیک اعمال کو اپنی طرف اٹھاتا ہے یعنی قبول کرتا ہے دنیا میں جو کوئی بھی نیک کام کرے اس کی قبولیت اسی اللہ کے ہاتھ میں ہے یعنی نیک عمال کا اصل ثمرہ دینے والا وہی ہے باقی دنیاوی منعم اول تو کچھ دے نہیں سکتے جب تک کہ اللہ کی طرف سے ان کے دلوں میں القا نہ ہو دوئم ان کا بدلہ بہ نسبت بدلہ الٰہی کے بہت کم درجہ اور کم حیتل ہوتا ہے۔ تاہم لوگ اللہ کی بے فرمانی کر کے نامہ اعمال سیاہ کرتے ہیں اور نہیں جانتے کہ جو لوگ مکاری سے برے کام کرتے ہیں دکھاتے ہیں نیکی اور کرتے ہیں برائی ان کے لئے سخت عذاب ہے اور ان کی مکاری آخر کار تباہ ہوگی جس کا نتیجہ ان کے حق میں برا ہوگا اللہ کی ماتحتی ایسے بدمعاشوں کو ناگوار ہوتی ہے وہ جانتے اور سمجھتے نہیں کہ اللہ ہی نے تم کو یعنی ابتدا میں تمہارے باپ آدم کو مٹی سے پیدا کیا پھر نطفے سے تمہارا سلسلہ چلایا پھر تم کو جوڑے خاوند بیوی بنایا یہ تو اس کی صفت خالقیت کا تم پر اثر ہے علم اس کا یہ ہے کہ جس کسی مادہ کو حمل ہوتا اور جو مادہ بچہ جنتی ہے وہ اس کے علم سے جیت ہے اور جو شخص انسانی عمر طبعی سے زیادہ عمر دیا جاتا ہے یعنی آگے بڑھتا ہے اور جو کم کیا جاتا ہے وہ سب اللہ کی کتاب میں مرقوم ہے اور اس کے علم میں موجود ہے کچھ شک نہیں کہ یہ کام اللہ کے نزدیک بالکل آسان ہے کیا اتنے تعلقات کے ہونے پر بھی اللہ کی اطاعت گراں ہے؟ اور سنو ! اللہ کی قدرت کے نشان یہ کیا کم ہیں کہ اس نے پانی کے سمندر اور دریا پیدا کر دئیے پھر ان میں تمیز یہ ہے کہ دو قسم کے دریا مساوی نہیں ایک ایسا ہے کہ اس کا پانی میٹھا بہت خوش ذائقہ ہے اور ایک نہایت کڑوا اور کھاری ہے جو تلخی میں انتہا کو پہنچ چکا ہے گو ان کی کیفیت اور ذائقہ مختلف ہے مگر تم لوگ ان دونوں میں سے ترو تازہ مچھلیوں کا گوشت کھاتے ہو اور موتی وغیرہ جواہرات کے زیور نکال کر بیچتے اور پہنتے ہو اور تم دیکھتے ہو کہ کشتیاں اور جہاز اس سمندر میں پانی کو پھاڑتے ہوئے چلتے ہیں تاکہ تم ان پر سوار ہو کر اس اللہ تعالیٰ کا فضل منافع بذریعہ تجارت تلاش کرو اور یہ واقعات تم لوگوں کو اس لئے سنائے جاتے ہیں تاکہ تم لوگ شکر گذاری کرو۔ سنو ! وہی اللہ تمام دنیا کا منتظم حقیقی ہے یہ نہیں کہ دنیاوی بادشاہوں کی طرح اس کا انتظام ہے بلکہ اس کا انتظام سب کے انتظامات سے بالا تر ہے رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کردیتا ہے یعنی کبھی دن بڑا ہے تو کبھی رات بڑی ہے ان دونوں کی کمی بیشی سے بھی تم کو اس بات کا پتہ ملتا ہے یا نہیں کہ اللہ دنیا کا علیٰ منتظم ہے پھر اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کرنے میں عار کیوں ہے؟ اور سنو ! سورج اور چاند کو اسی نے مسخر کر رکھا ہے کہ بغیر داموں تمہاری خدمت کر رہے ہیں ایسی کہ ہر ایک ان میں کا وقت مقررہ تک چلتا ہے سنو ! یہی اللہ تمہارا پروردگار ہے اسی کا سب کچھ اختیار ہے اس کے سوا جن لوگوں کو تم پکارتے اور جن سے مرادیں مانگتے ہو ان میں کئی ایک طرح سے کمی ہے اسی لئے وہ ایک دھاگہ کا بھی اختیار نہیں رکھتے اگر تم ان کو پکارو تو وہ تمہاری دعا نہیں سنتے پھر قبول کریں تو کیسے؟ اور اگر فرضا وہ کسی طرح سن پائیں تو تمہاری دعا قبول نہیں کرسکتے اور سنو ! قیامت کے روز تمہارے اس شرک سے انکار کریں گے اور اللہ خبیر جیسی خبر تم کو کوئی نہیں بتلا سکتا یہ اس کی خبرداری کا نتیجہ ہے کہ ایسے آئندہ واقعات کی خبر تم کو پہلے ہی سے بتلاتا ہے پس تم ان سے کسی اچھے نتیجے پر پہنچو اے لوگو ! تم کیونکر اللہ کی تابعداری سے عار کرسکتے ہو حالانکہ تم سب کے سب اللہ کی جناب کے محتاج ہو ہر طرح سے ذات میں صفات میں غرض سب کاموں میں اسی کے ساتھ تمہارا تعلق احتیاج ہے ذات میں تو اس لئے اس کے محتاج ہو کہ اگر وہ پیدا نہ کرتا تو تم کچھ بھی نہ ہوتے صفات میں اس لئے کہ اگر وہ تم کو علم قدرت وغیرہ عطا نہ فرمائے تو تم میں کچھ بھی نہ ہو پھر ساتھ ہی اس کے یہ بات بھی قابل لحاظ ہے کہ مخلوق کا خالق سے تعلق اس قسم کا نہیں کہ محض بناوٹ میں حاجت ہے بعد بن جانے کے نہیں جیسے درزی یا معمار سے کپڑے اور مکان کو تعلق ہے بلکہ بعد بننے کے بقا میں بھی اللہ کی محتاج ہے پس تم ہر حال میں اللہ کی جناب کے محتاج ہو اور وہ اللہ تم سے اور تمام مخلوق سے بے نیاز ہے یعنی وہ اپنی ذات اور اپنی صفات میں اپنے غیر کا کسی امر میں محتاج نہیں ذات اس کی قدیم ہے صفات اس کی حادث نہیں اس لئے وہ بذاتہ تمام تعریفوں کا مستحق ہے پس وہ کیا ہے خرد و فہم سے گر دل نے کوئی بات تراشی کہ ہوا اول و آخر کی حقیقت کا تلاشی میرے نزدیک سوا اس کے ہے سب سمع خراشی نہ بدی خلق تو بود ہی نبود خلق تو باشی نہ تو خیزی نہ نشینی نہ تو کا ہی نہ فزائی سنو ! وہ اللہ اس درجہ مخلوق سے بے نیاز اور با قدرت ہے کہ اگر چاہے تو تم سب کو فنا کر دے اور تمہاری جگہ نئی مخلوق لے آوے اور یہ مت سمجھو کہ ایسا کرنا اس پر کچھ مشکل ہے ہرگز نہیں یہ کام اللہ پر کچھ بھی دشوار نہیں پھر تم لوگ ایسے اللہ کی تابعداری سے گردن کشی کرتے ہو یہ بات تم کو زیبا ہے؟ اور سنو اس غلطی میں بھی نہ رہنا جو بعض گمراہ لوگ تم کو کہتے ہیں کہ تم دین اسلام کو چھوڑ دو ہم تمہارے گناہ اٹھا لیں گے ان کے پھندے میں ہرگز نہ پھنسنا اللہ کے ہاں عام قاعدہ ہے کہ جو کریگا سو بھریگا اور دوسرا کوئی کسی کے گناہ نہ اٹھائیگا اگر کوئی گناہوں میں دبا ہوا اپنے بوجھ کی طرف کسی دوسرے کو بلائیگا تو اسی سے کچھ لے کر ہلکا نہ کیا جائیگا چاہے قرابت دار ہی کیوں نہ ہو غرض دونوں صورتوں میں سے ایک بھی نہ ہوگی پس تم ابھی سے اس روز کی تکلیفات سے خائف ہو کر مناسب انتظام کرو مگر ایسا کرنیوالے وہی لوگ ہیں جو اپی زندگی کی ہر ایک بات میں اللہ پر سہارا رکھتے ہیں اس لئے اے نبی ! جو لوگ اپنے پروردگار کو اپنا حقیقی مالک مختار سمجھ کر اس سے بن دیکھے ڈرتے رہتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں انہی کو تو ڈراتا ہے یعنی انہی کو تیرے ڈرانے کا فائدہ پہنچ سکتا ہے اور یوں تو عام قاعدہ ہے کہ جو شخص سدھر جائے اس کا فائدہ اسی کو ہے اور اللہ ہی کی طرف سب کا رجوع ہے اس وقت بھی اور انجام کار بھی سب امور اسی کی طرف رجوع ہوتے ہیں مگر اس راز کو سمجھنے والے بہت کم ہیں دراصل وہی لوگ صاحب بصیرت ہیں اور باقی لوگ جو اس راز سے بے خبر ہیں وہ دراصل نابینا ہیں پس تم خود ہی سوچ لو کہ اندھا اور سوا نکھا جس طرح برابر نہیں نہ اندھیرا اور نور برابر ہیں نہ سایہ اور گرمی برابر ہیں نہ زندے اور مردے برابر ہیں اسی طرح اللہ کے بندے پرہیز گار اور بدکردار برابر نہیں پس نتیجہ صاف ہے کہ یہ لوگ جو الٰہی احکام کی مخالفت کرتے ہیں دراصل مردے ہیں یوں اللہ تو جسے چاہے سنا سکتا ہے مگر تو اے نبی ! قبروں میں پڑے ہوئے ان مردوں کو نہیں سنا سکتا یعنی تیری قدرت سے باہر ہے کہ تو مردوں کو سنا دے کیونکہ جو حس ان میں سننے والی ہوتی ہے وہ تو موت کے آتے ہی فنا ہوجاتی ہے اس کا تعلق کانوں سے ہوتا ہے جب کان ہی نہیں تو قوت کیسی؟ اس لئے یہ بالکل ٹھیک ہے کہ تو مردوں کو نہیں سنا سکتا کیونکہ مردوں میں سننے کی حس ہی نہیں تو تو صرف ڈرانے والا ہے مگر ڈرنے والوں میں استعداد بھی تو ہونی چاہیے ان لوگوں میں جو مخالفت اسلام پر بضد مصر ہیں استعداد فطری تو ہے مگر ان کی بد اعمالی سے مغلوب اور قریب بمعدوم اس لئے ان کو تو قبروں میں پڑے ہوئے مردوں جیسا سمجھنا چاہئے تیرے وعظ و نصیحت کرنے میں شک نہیں اس لئے کہ ہم نے تجھ کو سچائی کے ساتھ خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے پھر تو کیوں نہ اپنا کام کرے گا اسی طرح ہر ایک قوم میں عذاب سے کوئی نہ کوئی ڈرانے والا گذرا ہے جن کے ڈرانے اور سمجھانے کا اثر کم و بیش اس وقت بھی ان قوموں میں ملتا ہے پھر اگر یہ لوگ بضد ہوں اور تیری تکذیب ہی کرتے رہیں تو بھی تجھ کو غمگین نہ ہونا چاہئے کیونکہ جو لوگ ان سے پہلے تھے انہوں نے بھی تکذیب کی تھی انکے پاس انکے رسول کھلے معجزے دینی مسائل اور روشن کتاب لائے مگر انہوں نے انکار ہی کردیا لیکن تابہ کے؟ جو لوگ کافر تھے میں (اللہ) نے انکو خوب پکڑا پھر میری خفگی کیسی ہوئی؟ اور کیا رنگ لائی؟ جس درجہ کا کوئی حاکم ہو اسی قدر اس کی خفگی بڑی ہوتی ہے