سورة سبأ - آیت 48

قُلْ إِنَّ رَبِّي يَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَّامُ الْغُيُوبِ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

کہہ بے شک میرا رب (دل میں) حق ڈالتا ہے، سب غیبوں کو بہت خوب جاننے والا ہے۔

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(48۔54) تو یہ بھی کہہ میرا پروردگار چونکہ سب پر نگران ہے اس کی نگرانی کا یہ نتیجہ ہے کہ جس وقت تمام دنیا میں باطل پھیل جاتا ہے تو وہی اللہ سچی تعلیم دنیا میں بھیجتا ہے جس میں تمام قسم کی ضروریات شامل ہوتی ہیں کیونکہ وہ تمام غیبوں کا جاننے والا ہے تو اے نبی کہہ کہ اسی قاعدہ مستمرہ کے مطابق اب تمہارے سامنے سچی تعلیم آچکی ہے اور باطل مٹنے کو ہے کیونکہ باطل کسی کام اور فائدہ کی چیز نہیں ہے اے نبی ! تو کہہ کہ اگر میں بھولوں تو اس کا وبال میری جان پر ہے اور اگر میں ہدایت پائوں یعنی کسی امر میں صائب الرائے ہوں تو اللہ تعالیٰ کی وحی کے سبب سے ہے جو میری طرف میرا پروردگار کرتا ہے کچھ شک نہیں کہ وہ سب کی سننے والا اور سب کے قریب ہے اس لئے اس کو سب کے حالات ایسے معلوم ہیں کہ کسی کے کہنے سنانے اور جتلانے کی حاجت نہیں اسی قرب اور علم کے مطابق وہ بندوں میں فیصلہ کرے گا وہ فیصلہ کیا ہوگا ایسا ہوگا کہ اس کا نمونہ دنیا میں نہیں اگر تم اس وقت کو دیکھ پائو تو عجب نظارہ دیکھو جب یہ مخالف لوگ اس فیصلے سے گھبرائیں گے اور پیچ وتاب کھائینگے مگر کچھ فائدہ نہ ہوگا کیونکہ اس دن کہیں بھاگ نہ سکیں گے اور پاس پاس ہی کے مکان میں پکڑے جائینگے یعنی جہاں کہیں کوئی ہوگا اسی جگہ اس کو مواخذاہ ہوجائیگا دور لیجانے یا سپاہی بھیجنے کی حاجت نہ ہوگی اس وقت کہیں گے ہم اس واقعہ پر ایمان لائے یہ اس لئے کہیں گے کہ انکو توقع ہوگی کہ اتنا کہنے سے ہم چھوٹ جائیں گے مگر ایسے دور دراز مقام سے ان کو کیسے کامیابی ہوگی؟ جو ایمان لانے کا موقعہ تھا وہ تو ہاتھ سے کھو بیٹھے ؎ اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت کیونکہ اس سے پہلے تو وہ منکر تھے اور دور دور سے محض اٹکل پچو باتیں کیا کرتے اور بےدیکھے بھالے انکار کیا کرتے تھے اب جو یہ انقیاد اور تسلیم ظاہر کر رہے ہیں تو اسکی وجہ یہ ہے کہ اب یہ لوگ پکڑے گئے ہیں اور ان میں اور انکی خواہشات میں روک کردی گئی ہے ان کے ساتھ وہی برتائو کیا گیا ہے جیسے ان سے پہلے انکے ہم جنسوں سے کیا گیا کیونکہ علت فاسدہ میں دونوں شریک ہیں کچھ شک نہیں کہ یہ اور وہ دونوں الٰہی احکام سے سخت انکار میں تھے۔