وَلَقَدْ آتَيْنَا دَاوُودَ مِنَّا فَضْلًا ۖ يَا جِبَالُ أَوِّبِي مَعَهُ وَالطَّيْرَ ۖ وَأَلَنَّا لَهُ الْحَدِيدَ
اور بلاشبہ یقیناً ہم نے داؤد کو اپنی طرف سے بڑا فضل عطا کیا، اے پہاڑو! اس کے ساتھ تسبیح کو دہراؤ اور پرندے بھی اور ہم نے اس کے لیے لوہے کو نرم کردیا۔
(10۔17) دیکھو اس قسم کے (رجوع والے) بندے کی ایک حکایت تم کو سناتے ہیں اور تم کو سمجھاتے ہیں کہ تم بھی رجوع والے بنو پس سنو ! ہم نے حضرت دائود کو جو ہماری درگاہ میں بڑا رجوع کرنیوالا تھا بہت بڑا فضل دیا تھا یہ کہ پہاڑوں کو حکم دیا کہ اے پہاڑو اور جانورو ! تم دائود کے ساتھ رجوع سے تسبیحیں پڑھتے رہو جس وقت حضرت داوئود ذکر الٰہی میں مشغول ہوتے تو پہاڑوں سے بھی ان کو تسبیحوں کی آوازیں آتی جنگلی جانور بھی ان کی آواز پر مست ہو کر تسبیح پڑھتے کیا سچ ہے ؎ برگ درختان سبز در نظر ہوشیار ہر ورقے دفترے است معرفت کردگار اور ایک احسان ہم نے دائود پر یہ کیا کہ اسیء کیلئے ہم نے لوہے کو نرم کردیا (کیسے نرم کیا ؟ اس کی تفصیل اللہ کو معلوم۔ بظاہر تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ کوئی خاص صورت تھی کیونکہ اَلَنَّالَہُ الْحَدِیْدَ میں تین چیزیں ہیں فاعل۔ مفعول بہ اور جار مجرور (لَہٗ) قاعدہ عربی کے مطابق فاعل کے بعد مفعول بہ اور اس کے بعد جار مجرور ہوتے ہیں تو کلام یوں چاہیے تھا۔ اَلَنَا الْحَدِیْدَ لَہٗ لیکن علم معانی کا قاعدہ ہے کہ تقدیم ماحقہ التاخیر یفید الحصر یعنی جس لفظ کا حق پیچھے آنے کا ہے اگر وہ کسی کلام میں پہلے لایا جائے تو اس سے حصر کا فایدہ حاصل ہوتا ہے۔ پس آیت موصوفہ میں چونکہ جار مجرور (لہٗ) کو مفعول بہ سے مقدم کیا گیا ہے اس لیے صحیح ترجمہ یہ ہوگا کہ ” ہم نے اسی کے لئے لوہا نرم کردیا۔“ اس ترجمہ سے جو خصوصیت مفہوم ہوتی ہے وہ ارباب دانش پر واضح ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ تلیین کسی ایسی طرح سے تھی جو حضرت دائود سے خصوصیت رکیت تھی پس جو لوگ کہتے ہیں کہ ابن تلیین سے مراد وہی تلیین ہے جو عموماً آج کل لوہے کے کارخانوں میں دیکھی جاتی ہے کہ ہزاروں من لوہا ڈھل کر پانی کی طرح بہہ رہا ہے۔ وہ آپ ہی بتلائیں کہ ان معنے سے وہ خصوصیت جو آیت سے مفہوم ہوتی ہے رہ سکتی ہے؟ (منہ) (حکم دیا) کہ پوری پوری زرہیں بنائیو اور ان کو جوڑنے میں اندازہ رکھیویہ احکام تو تمہارے استحکام سلطنت کے لئے ہیں مگر اصل مطلب جس کیلئے خاندان نبوت دنیا میں قائم کیا گیا ہے یہ ہے کہ وہ نیک اعمال کریں اور لوگوں کو بھی نیک اعمال سکھا دیں پس اے دائود کے گھر والو اور تابعدارو ! خود بھی نیک عمل کیا کرو اور لوگوں کو بھی سکھایا کرو میں یقینا تمہارے کاموں کو دیکھ رہا ہوں جو کچھ کرو گے اس کے مطابق بدلہ پائو گے اور سنو ! حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لئے ایک خاص ! قسم کی ہوا کو ہم نے مسخر کردیا تھا جو سلیمان کا تخت لے کر صبح کے وقت ایک مہینے کی سرو کی مسافت چلی جاتی تھی اور شام کو ایک مہینے جتنی مسافت یعنی ملک میں دورہ کرنے کو جو حضرت سلیمان نکلتے تو دو وقت ان کی روانگی ہوتی صبح سے چاشت تک اور سہ پہر سے شام تک جیسا کہ حکام اور بڑے لوگوں کا دستور ہے اتنے میں حصرت سلیمان کا تخت اتنی مسافت طے کرجاتا جتنی کہ پیدل چلنے والے دو مہینوں میں کرسکتے حضرت سلیمان کا تخت آجکل کے محاورے میں ہوائی جہاز تھا (بعض لوگوں نے حضرت سلیمان کے اس واقعہ کو خلاف قدرت جان کر تاویل بعید کی ہے مگر اللہ تعالیٰ دن بدن ایسے لوگوں کو جواب دینے کے لئے دانایان فرنگ کو سوجھا دیتا ہے تو وہ کوئی نہ کوئی ایسی ایجاد کردیتے ہیں کہ اس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ قدرت کے اسرار ہنوز بہت کچھ مخفی ہیں بلکہ یہ کہنا شاید بیجانہ ہوگا کہ معلوم ہونے اب شروع ہوئے ہیں۔ آج کل یورپ میں ایک ایجاد ہوئی ہے جس کا نام ہے ” ہوائی جہاز “۔ یہ جہاز ہوا میں اڑتا ہے۔ دور دراز ممالک کا کیا ذکر۔ ١٩١٠ئ میں بمقام الہ آباد جو نمایش ہوئی۔ اس میں بھی وہ جہاز اڑتا ہوا دکھائی دیا۔ ہندوستان کی بعض ریاستوں میں بھی وہ لایا گیا۔ اس بیان کے بعد اب تو ہوائی جہاز کو اتنی ترقی ہوئی ہے کہ ولایت انگلستان سے ہندوستان میں ایک ہفتہ میں ڈاک بلکہ انسانوں کو بھی سوار کر کے لاتا ہے آج سے پہلے بھی ہوا میں پرواز کا ایک آلہ تھا جس کا نام غبارہ تھا حضرت سلیمان کا تخت بھی غالباً اسی قسم کی ہوا سے اڑتا ہوگا جس کو خلاف قانون قدرت کہہ کر انکار یا تاویل کرنا ذرہ جلد بازی ہے۔ امام رازی تفسیر کبیر میں لکھتے ہیں المسخر لسلیمان کانت ریحا مخصوصۃ لاھٰذ دالریّاح فانھا لمنافع عامۃ فی اوقات الحاجات وبدل انہ لم یقرء الاعلٰی التوحید فما قرء احد للریاح (تفسیر کبیر جلد ٧ ص ٩) یعنی حضرت سلیمان کے تابع یہ ہوا نہ تھی جو ہمارے سامنے چل رہی ہے کیونکہ یہ تو عام لوگوں کے فائدے اور منافع کے لئے ہے“ اسی لئے ہم نے اس کو غبارہ سے تشبیہ دی ہے۔ واللہ اعلم باسرارہ ہاں شاید اس جگہ یہ سوال ہو کہ جب یہ ایجاد وغیرہ نبی نے بھی کر دکھائی تو خلاف عادت کیا ہوا اور معجزہ کیسے بنا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ معجزہ کی حقیقت صرف یہ ہے کہ نبی سے ایسا کام ظاہر ہو جو اس وقت کسی صنعت یا تعلیم کا نتیجہ نہ ہوتا کہ کہ اس کے مخالفین اس جیسا کرنے سے عاجز رہیں۔ یہ نہیں کہ اس کے بعد بھی وہ کسی طرح صنعت کی ذیل میں نہ آسکے مثلاً معجزہ ” شق القمر“ جو ایک اعلیٰ درجہ کا خلاف قانون قدرت ہے آج اگر کسی کی ایجاد میں آجائے کہ قمر کو دو ٹکڑے کر کے دکھاوے اور اس کو عام تعلیم کے ذریعہ سے عام بھی کر دے تو بھی بلحاظ زمانہ نبوت معجزہ ہی رہے گا کیونکہ معجزہ تو اسی لئے ہوتا ہے کہ اس وقت وہ کسی انسانی صنعت یا تعلیم سے نہیں ہوتا۔ چاہے بعد میں ہوجائے۔ علاوہ اس کے حضرت سلیمان کے اس واقعہ کا قرآن مجید نے معجزہ یا آیت نام نہیں رکھا (فافہم) اور اس کے علاوہ ہم (اللہ) نے اس کے لئے پگھلے ہوئے تانبے کا چشمہ جاری کردیا یعنی تانبے کی بہت بڑی کان اس کے ملک میں پیدا کردی جس سے اس کی ملکی ضرورتیں پوری ہوسکیں اور بعض جنات بھی اس کے تابعدار تھے کہ اس کے پروردگار کے حکم سے اس سلیمان کے سامنے کام کرتے تھے مگر انکی ماتحتی سلیمانی کمال کا اثر نہ تھا بلکہ محض الٰہی حکم کا اثر تھا یہی وجہ تھی کہ وہ اس کے حکم سے سرتابی نہ کرتے تھے کیونکہ ہم (اللہ) خود ان کے نگران حال تھے اور ہم نے اعلان کردیا تھا کہ جو کوئی ان جنات میں سے ہمارے حکم سے جو سلیمان ان کو دے سرتابی کرے گا کیونکہ ہم نے اس کو وہ حکم دیا ہے تو ہم دنیاوی سزا کے علاوہ اس کو آگ کے عذاب کا مزہ چکھادیں گے جیسا کہ امیر المومنین کے باغیوں کا انجام ہوتا ہے کہ دنیا میں بھی مستوجب سزا ہوتے ہیں اور آخرت میں بھی معذب ہوں گے پس جنات کی کیا مجال تھی کہ ذرہ بھی سرتابی کرتے بلکہ نہایت ہی تابعداری سے جو کچھ وہ سلیمان چاہتا اس کے حکم سے اس کے لئے قلعے نقشے بڑے بڑے حوضوں کی مانند پیالے اور بھاری بھاری دیگیں جو ایک ہی جگہ رکھنے کے قابل ہوتیں بناتے (تماثیل جمع ہے تمثال کی۔ تمثال سے مرا اس جگہ نقشے ہیں جو جنگی ضرورتوں کے لحاظ سے کبھی تو اپنے ملک میں جنگی عمارات کے لئے بناتے ہیں کبھی دوسری سلطنتوں کی جنگی عمارات کے ملاحظہ اور جانچنے کے لئے بنائے جاتے ہیں جن لوگوں نے تماثیل کے معنے مورتیں اور تصویریں لے کر کہا ہے کہ اس زمانے میں تصویریں بنانی جائز تھیں مذہب اسلام میں منع ہوگئیں جن کی ممانعت کا ثبوت حدیثوں میں ہے ان کا یہ کہنا سیاق آیت کے برخلاف ہے کیونکہ سیاق آیت سے مفہوم ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان سلام اللہ عیہ کی سلطنت کی مضبوطی اور سامان جنگ کا بیان کرنا مقصود ہے۔ پھر ایسے موقع پر محراب یعنی قلعوں کے ساتھ تصویروں کو کیا مناسبت ہوسکتی ہے؟ بلکہ مناسبت تو یہ ہے کہ قلعے اور قلعوں کے نقشے تو جنگی ضرورت کے لئے ہوتے ہیں۔ جنگی ضرورت کسی باخبر سے مخفی نہیں۔ قلکے تو اپنی حفاظت اور مدافعت کے لئے بنائے جاتے ہیں نقشے کبھی اپنے ملک میں عمارات ضروریہ بنانے کے لئے بنائے جاتے ہیں اور کبھی دوسری سلطنت کے قلعوں پر آگاہ ہونے کے لئے بناتے ہیں۔ ایسے ہی دوسری چیزیں کھانے پکانے کے لئے اس زمانے کے دستور کے مطابق ہوں گی۔ غرض جو کچھ اس آیت میں مذکور ہے یہ سب ملک داری کی حیثیت سے ہے۔ تصویروں کی ملک داری میں نہ اس وقت ضرورت تھی نہ اب ہے۔ پس جو لوگ اس آیت سے تصویرسازی اور تصویر داری کا ثبوت نکالتے ہیں ان کا قول بھی چونکہ تماثیل کے مذکورہ ترجمہ اور تفسیر پر مبنی ہے اس لئے صحیح نہیں (منہ) یہ سب ان کی فوجی ضروریات اور فوج کے لئے خوردونوش کا سامان تھا جس سے ان کو اور ان کی فوج کو تقویت ہوتی تھی اس لئے ہم نے ان کو حکم دیا اے دائود کے کنبے والو ! اللہ تعالیٰ کا شکر کرو اور جان رکھو کہ میرے بندوں میں بہت کم شکر گذار ہیں پس تم اس کی پرواہ نہ کرنا کہ بہت سے لوگ اللہ کے بے فرمان ناشکر ہیں اس لئے اللہ کو ناشکری بھلی معلوم ہوتی ہوگی نہیں بلکہ قانون الٰہی یہی ہے کہ قیمتی چیز کم ہوتی ہے جیسے سونا بمقابلہ پیتل کے اسی طرح اللہ کی یاد والے شکر گذار لوگ بمقابلہ کفار نا ہنجار کے کم ہیں غرض حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی حکومت تمام کمال کے ساتھ چلتی رہی ملک کے کسی حصے میں شور و شر پیدا نہ ہوا یہاں تک کہ ان کا آخری وقت آگیا پس جب ہم (اللہ) نے اس (سلیمان) پر موت کا حکم جاری کیا تو وہ اپنے وقت پر مر گیا مگر عام طور پر ملک میں اس کی موت کی خبر شائع نہ ہوئی یہاں تک کہ زمین کے ایک کیڑے (دیمک وغیرہ) نے عام لوگوں کو اس پر آگاہ کیا جو حضرت سلیمان کا عصا کھا رہا تھا پس جب اس عصا کے گرنے سے سلیمان (علیہ السلام) بھی گرا تو جنوں کو معلوم ہوا کہ ہمارا دعویٰ غیب دانی کا غلط ہے اگر ہم غیب کی باتیں جانتے تو اس ذلت کے عذاب سلیمان کی قید میں نہ رہتے اس لئے عربی میں ایک شعر ہے جو مثال کے طور پر کہا جاتا ہے۔ ؎ لو ان صدور الفعل یبدون للفتٰی کا عقابہ لم تلفہ یتندم یعنی اگر کسی شخص کو اپنے اعمال کا علم شروع میں ہوجیسا کہ آخر میں ہوتا ہے تو وہ کبھی ناشائستہ اعمال کر کے نادم نہ ہو