سورة آل عمران - آیت 69

وَدَّت طَّائِفَةٌ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَوْ يُضِلُّونَكُمْ وَمَا يُضِلُّونَ إِلَّا أَنفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اہل کتاب کی ایک جماعت نے چاہا کاش! وہ تمھیں گمراہ کردیں۔ حالانکہ وہ اپنے سوا کسی کو گمراہ نہیں کر رہے اور وہ شعور نہیں رکھتے۔

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(69۔80)۔ حالانکہ پادریوں کی ایک جماعت کتاب والوں میں سے تم کو پھسلا نا چاہتے ہیں اور یہ نہیں سمجھتے کہ ہمیں اس سے انجام کار فائدہ کیا ہوگا یہی کہ گمراہی میں کوشش کرنے کا وبال اپنی گردن پر لیں گے اس لئے کہ حقیقت میں اپنی ہی جانوں کو گمراہ کر رہے ہیں کیونکہ کسی بندہ کو اللہ کی راہ سے بہکانے کا وبال بہکا نے والے کی گردن پر ہوتا ہے مگر یہ لوگ مسلمانوں کے عناد میں سر گرم ہیں اور سمجھتے نہیں شان نزول :۔ (وَدَّتْ طَائِٓفَۃٌ) معاذ بن جبل اور حذیفہ بن یمان (رض) کو یہودیوں نے اپنے مذہب کی طرف دعوت دی ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔ معالم تعجب ہے تم سے اے کتاب والو کیوں اللہ کے حکموں سے جان بوجھ کر منکر ہوتے ہو اے کتاب کا دعوٰی کرنے والو یہودیو ! اور عیسائیو ! کیوں سچ کو جھوٹ کے ساتھ ملاتے ہو ؟ اور کیوں خالص حق کو دانستہ چھپاتے ہو ؟ اور اس کے چھپانے میں ہر طرح سے کوشش بذریعہ رسالوں اور واعظوں کے کرتے ہو ہوشیار رہو مسلمانو ! ہم تم کو ان کتاب والوں کی نئی شرارت سے اگاہ کرتے ہیں اہل کتاب میں ایک جماعت پادریوں اور احبار نے تجویز سوچ کر اپنے چیلے چانٹوں سے کہا کہ تم صبح کے وقت مسلمانوں کے قرآن کو مان لو اور شام کے وقت منکر ہوجائو جاہل لوگ تمہارے انکار کو دیکھ کر مذبذب ہوجائیں گے اور کہیں گے کہ اسلام میں کوئی نقص ہے تو ایسے اہل علم کتابوں کے جاننے والے اس سے پھر گئے اس حیلہ سے شائد وہ بھی پھر آویں کیونکہ مشہور عام ہے ہر چہ گیرو علتی علت شود۔ کفر گیر کامل ملت شود۔ سوائے اپنے ہم مشربوں کے کسی کی بات نہ مانو کسی کی بات کی تصدیق نہ کرو چاہے وہ کچھ ہی کہے تو اے نبی ان سے کہہ دے کہ اصل ہدائت تو اللہ کی طرف سے ہوتی ہے جس کو نصیب ہوجائے خواہ کسی قوم کا ہو تم میں سے ہو یا ہم میں سے کہتے ہیں کہ یہ مت سمجھو کہ کسی کو بھی تمہارے جیسی بزرگی اور شرافت مل سکے گی یا اللہ کے ہاں پہنچ کر تم سے مقابلہ کرے تو ان نادانوں سے کہہ دے کہ مہربانی اور فضل تو سب اللہ کے ہاتھ ہے جسکو چاہے دیتا ہے اور اللہ بڑی وسعت والا جاننے والا ہے تم کس طرح سمجھ بیٹھے ہو کہ تمہارے برابر کسی کو عزت اور شرافت اللہ کے ہاں نہیں ہوسکتی وہ تو اپنی رحمت سے جس کو چاہے خاص کرلیتا ہے اللہ بڑے فضل کا مالک ہے علاوہ اس عناد اور ہٹ کے بد اخلاقی میں یہ لوگ کمال رکھتے ہیں۔ گو سب قوم انکی یکساں نہیں بعض تو ان کتاب والوں میں سے بے شک ایسے بھی ہیں کہ اگر تو ان کے پاس ایک خزانہ بھی امانت رکھے تو بوقت طلبی فوراً تجھے ادا کردیں گے اور بعض بلکہ اکثر ان میں سے ایسے بد دیانت ہیں کہ اگر تو ان کے پاس ایک دینار (روپیہ یا اس سے کم و بیش) امانت رکھے تو تجھے واپس نہ دیں گے بلکہ اس کا اقرار بھی نہ کریں گے مگر جب تک تو ان کے سر پر کھڑا رہے اور تقاضا کرتا جائے۔ اسلام کے مخالف سب سے زیا دہ یہی لوگ ہیں یہ بد معاملگی ان کی اس لئے ہے کہ یہ لوگ اپنے جی میں ٹھان چکے ہیں کہ عرب کے جہلا ان پڑھوں کا مال کھانے میں کوئی گناہ نہیں گویا اللہ نے ان کو اجازت دی ہوئی ہے کہ جس کو چاہو لوٹ لو۔ کوئی گناہ نہیں (معاذ اللہ) ایک تو بری طرح کھاتے ہیں دوسرا اللہ کے ذمہ دانستہ جھوٹ لگاتے ہیں کہ ہم کو اللہ نے اجازت دی ہوئی ہے یہ اللہ کا حکم ہرگز نہیں ہاں حکم خدا وندی یہ ہے کہ جو شخص اپنے وعدہ کو خواہ کسی سے کیا ہو بشرطیکہ خلاف شریعت نہ ہو پورا کرے اور ہر ایک کام میں اللہ سے ڈرتا رہے تو ضرور اس کا بدلہ پاوے گا ایسے پرہیز گار نیک خصلت اللہ کو بھاتے ہیں اللہ کو صرف یہی منظور نہیں کہ میری اتاری ہوئی کتاب کو زبانی مان لو اور بظاہر اس کی تلاوت اور اس کے نام کی تعظیم بھی کرو مگر عملی پہلو کا یہ حال کہ حافظ شیرازی کا مقولہ حافظائے خورو رندی کن وخوش باش ولے دام تزویرمکن چوں دگراں قرآن را تمہارے حق میں صادق آوے نہیں ہرگز نہیں بلکہ شریعت خداوندی یہ ہے کہ جو لوگ اللہ کے نام کے وعدے اور قسمیں تھوڑے سے دنیاوی مال کی خاطر توڑ دیتے ہیں خواہ کتنا ہی کیوں نہ لیں دنیا کا کل اسباب متاع قلیل ہے بے شک ان لوگوں کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں اور اللہ نہ تو ان سے بخوشی خاطر کلام کرے گا اور نہ بنظر رحمت آخرت میں ان کو دیکھے گا اور نہ گناہوں سے انکو پاک کرے گا بلکہ ہر طرح کی ذلت و خواری میں رہیں گے اور ان کو عذاب درد ناک ہوگا پس خود ہی سوچ لو کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی شریعت میں کس قدر دور ہیں پھر اسی پر ہی بس نہیں بلکہ دھوکہ بازی میں ایسے چالاک ہیں کہ ایک جماعت ان میں سے زبان مروڑ کر کتاب پڑھتی ہے کئی فقرے اس کے ساتھ اور پڑھ دیتے ہیں۔ تاکہ تم اس ملائے ہوئے کو کتاب سے سمجھو اور یہ جانو کہ ان کو مذہبی حکم یہی ہے جو یہ کہتے ہیں۔ حالانکہ وہ کتاب اللہ سے نہیں۔ اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے مگر وہ اللہ کے ہاں سے نہیں بلکہ خود بد عملی کرتے ہیں اور اللہ کے ذمہ دانستہ جھوٹ لگاتے ہیں اللہ ہی پر جھوٹ باندھنے میں بس نہیں کرتے بلکہ اپنے رسولوں اور پیشوایان دین پر بھی جھوٹ باندھتے ہیں کہتے ہیں کہ مسیح نے ہمیں اپنی الوہیت کی تعلیم دی ہے حالانکہ کسی بشر کا یہ کام نہیں کہ اللہ اسکو کتاب آسمانی سکھاوے اور علم پڑھائے اور نبو ّت دے پھر وہ۔ بنو نہ یہ مناسب ہے کہ تم کو حکم کرے کہ تم فرشتوں اور نبیوں کو اپنے حقیقی پرورش کرنے والے رب بنا لو (ماکان لبشر ان یوتیہ اللہ) شروع سورت سے جس مضمون (خلاف العقل والنقل عیسائیوں کے عقیدہ الوہیت مسیح) کی تمہید تھی یہاں پر اس کا صریح اظہار فرمایا گیا ہے مسیح کے تمام خاندان کا ذکر دراصل تمہید تھا مقصود اس سب سے یہ تھا کہ الوہیت مسیح باطل ہے چنانچہ موقع بموقع ہم تفسیر میں اشارہ کرتے آئے ہیں اس مسئلہ میں قرآن شریف نے کئی دلائل بیان کئے ہیں مگر ان دلائل کے بیان سے پہلے عیسائیوں کا عقیدہ مذکورہ جو ان کے نزدیک مدار نجات ہے بیان کردینا بھی ضروری ہے جیسا عیسائیوں کی مشہور کتاب ” دعائے عمیم“ میں مسلمہ عقیدہ مقدس اتھا ناسیس کا یوں لکھا ہے۔ ” جو کوئی نجات چاہتا ہو اس کو سب باتوں سے پہلے ضرور ہے کہ عقیدہ جامعہ رکھے اس عقیدہ کو جو کوئی کامل اور بےداغ نگاہ نہ رکھے وہ بے شک عذاب ابدی میں پڑے گا اور عقیدہ جامعہ یہ ہے کہ ہم تثلیث میں واحد اللہ کی اور توحید میں تثلیث کی پرستش کریں نہ اقانیم کو ملائیں نہ ماہیت کو تقسیم کریں کیونکہ باپ ایک اقنوم اور روح القدس ایک اقنوم ہے۔ مگر باپ بیٹے اور روح القدس کی الوہیت ایک ہی ہے جلال برابر عظمت ازلی۔ یکساں جیسا باپ ہے۔ ویسا بیٹا اور ویسا ہی روح القدس ہے باپ غیر مخلوق بیٹا غیر مخلوق اور روح قدس غیر مخلوق بیٹا غیر محدود اور روح قدس غیر محدود باپ ازلی بیٹا ازلی اور روح قدس ازلی تاہم تین ازلی نہیں بلکہ ایک ازلی اسی طرح تین غیر محدود نہیں اور نہ تین غیر مخلوق بلکہ ایک غیر مخلوق اور ایک غیر محدود یونہی باپ قادر مطلق بیٹا قادر مطلق اور روح قدس قادر مطلق تو بھی تین قادر مطلق نہیں بلکہ ایک قادر مطلق ہے ویسا ہی باپ اللہ بیٹا اللہ اور روح قدس اللہ قس پر بھی تین اللہ نہیں بلکہ ایک اللہ اسی طرح باپ اللہ تعالیٰ اور روح القدس اللہ تعالیٰ تو بھی تین اللہ تعالیٰ نہیں بلکہ ایک اللہ تعالیٰ۔ دعائے میم مطبوعہ افتخار دہلی ١٨٨٩؁ء ص ٢٤) عیسائیوں کے بڑے پادری فنڈر لکھتے ہیں۔ ” ایمانداروں (عیسائیوں) پر لازم اور واجب ہے کہ جیسا باپ اور بیٹے پر ویسا ہی روح القدس پر ایمان لا کر اس کی عبادت اور بندگی کریں اور عنایت اور نعمت کی امید اس سے رکھیں۔ (مفتاح الاسراء طبع پنجم ص ٤٥) عبارات مذکورہ بالا سے صاف سمجھ میں آتا ہے کہ ہر ایک ان تینوں (باپ۔ بیٹا۔ روح قدس) میں سے مستقل اللہ تعالیٰ اور معبود ہے یہ ہے عیسائیوں کا دعویٰ جس پر مذکورہ ذیل دلائل کی نقلی دیا کرتے ہیں۔ یوں تو کہنے کو عیسائیوں کا دعویٰ ہے کہ انجیل سے کیا تورات بلکہ کل نبیوں کی کتب اور تحریروں بلکہ نیچرل لسٹ (نظام عالم) کے ہر ورق سے تثلیث اور الوہیت مسیح ثابت ہوتی ہے تاہم وہ اس بات کے قائل ہیں کہ تورات میں اس کا اشارہ ہوا ہے (مفتاح الاسراء ص ٤٩) اور انجیل میں بالوضاحت بیان ہے (مفتاح ص ٢٣) اس لئے ہم بھی ان دلائل کے بیان کرنے میں (بقول ان کے) انجیلی حوالوں پر نہیں بلکہ انہیں کے الفاظ پر قناعت کرتے ہیں۔ مفتاح الاسراء کے مصنف پادری فنڈر جو ہندوستان میں عیسائیوں کے امام مناظرہ مانے جاتے ہیں رسالہ مذکورہ میں یوں رقمطراز ہیں۔ ” مسیح نے اللہ کی ذات و صفات اور لفظ اللہ کو بھی اپنے ساتھ نسبت دیا ہے چنانچہ آئندہ آیتوں سے معلوم ہوتا ہے اور اس بات سے صاف ظاہر ہے کہ ان معنی سے اللہ کا بیٹا نہیں ہے جن معنی سے متقی پرہیزگار ایماندار لوگ اللہ کے فرزند کہے جاتے ہیں بلکہ اس معنی سے اللہ کا بیٹا ہے کہ صفات اور ذات میں اللہ کے برابر ہے پرہیزگار اور ایماندار لوگ تو اپنے ایمان کی جہت سے اللہ کے بیٹے ہیں لیکن مسیح وحدت اللہ کی نسبت اللہ کا بیٹا ہے چنانچہ مسیح نے اپنی الوہیت کا اشارہ کر کے یوحنا کے ٨ باب ٢٣ آیت میں یہودیوں سے ایسا فرمایا ہے کہ تم پستی سے ہو اور میں بلندی سے ہوں تم اس جہان کے ہو میں اس جہان کا ہوں اور اسی باب کی ٥٨ آیت میں فرمایا ہے کہ پیشتر اس کے کہ ابراہیم ہو میں ہوں اور اس بات کو بیان کر کے یوحنا کے ١٧ باب کی ٥ آیت میں کہا ہے کہ اے باپ اب تو مجھے اپنے ساتھ اس جلال سے جو میں دنیا کی پیدائش سے پیشتر تیرے ساتھ رکھتا تھا بزرگی دے۔ اور مکاشفات کے پہلے باب کی ١١ آیت میں فرمایا ہے کہ میں الفا اور آئے گا اول و آخر ہوں اب ان آیتوں میں مسیح صاف بیان کرتا ہے کہ میں آسمان سے اترا اور ابراہیم سے پیشتر بلکہ سارے عالم کے پیدا ہونے سے پہلے موجود اور اول و آخر ہوں پس ظاہر و عیاں ہے کہ مسیح قدیم اور ازلی ہے پھر متی کے ١١ باب کی ٢٧ آیت میں اس نے فرمایا کہ میرے باپ نے سب کچھ مجھے سونپا اور اپنے بیٹے کو کوئی نہیں جانتا مگر باپ اور باپ کو کوئی نہیں جانتا مگر بیٹا اور وہ جس پر بیٹا اسے ظاہر کیا چاہتا یعنی بیٹا کاشف ذات ہے پھر متی کے ٣٨ باب کی ١٨ آیت میں اس نے اپنے شاگردوں سے کہا ہے کہ آسمان اور زمین کا سارا اختیار مجھے دیا گیا یعنی انسانیت کی نسبت تو یہ سب اختیار اسے دیا گیا تھا اور الوہیت کے رو سے وہ اس حکومت کے لائق تھا ایسا ہی یوحنا کے ٥ باب کی ١٧ و ١٨ و ٢١ و ٢٢ و ٢٨ و ٢٩ آیتوں میں مسیح نے اپنی الوہیت ظاہر کرنے کے لئے یہودیوں سے کہا ہے کہ میرا باپ اب تک کام کرتا ہے اور میں بھی کام کرتا ہوں میں تم سے سچ سچ کہتا ہوں کہ بیٹا آپ سے کچھ نہیں کرسکتا مگر جو کچھ کہ وہ باپ کو کرتے دیکھتا ہے بیٹا بھی اسی طرح وہی کرتا ہے یعنی بیٹا باپ کے ساتھ ایسا ایک اور متحد ہے کہ ممکن نہیں کہ کچھ اور کرے مگر وہی جو باپ کرتا ہے اور بیٹا ارادت اور قدرت اور ذات میں باپ کے ساتھ ایک ہے پھر کہا کہ جس طرح باپ مردوں کو اٹھاتا ہے اور جلاتا ہے بیٹا بھی جنہیں چاہتا ہے جلاتا ہے اور باپ کسی شخص کی عدالت نہیں کرتا بلکہ اس نے ساری عدالت بیٹے کو سونپ دی اس سے تعجب مت کرو کیونکہ وہ وقت آتا ہے جس میں وہ سب جو قبروں میں ہیں اس کی آواز سنیں گے جنہوں نے نیکی کی ہے زندگی کی قیامت کے واسطے اب دیکھو کہ ان آیتوں میں مسیح نے قادریت اور عالمیت کی صفتوں کو کھلا کھلی اپنے ساتھ منسوب کیا ہے کیونکہ جس صورت میں یہ کہتا ہے کہ جو کچھ باپ کرتا ہے میں بھی وہی کرتا ہوں اور مردوں کو جلاتا ہوں اور زمین اور آسمان میں ساری قدرت مجھے دے گئی ہے اور باپ یعنی ذات کو جانتا ہوں اور قیامت کے دن کا حاکم میں ہوں تو ان سب باتوں سے ظاہر ہے کہ مسیح نے اپنے قادر ہونے کا اقرار کیا ہے کیونکہ جو کوئی وہی کام کرے جو اللہ کرتا ہے اور جس کا حکم ساری زمین اور آسمان پر ہووے چاہیے کہ قادر ہو اور جو کوئی قیامت کے دن ساری خلقت کا حاکم اور ان کے سب فکروں اور کاموں سے واقف ہو چاہیے کہ وہ عالم ہووے اور یہ کہ مسیح نے آیات مذکورہ میں اپنی الوہیت کا اشارہ کیا ہے اس بات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہودیوں نے ان باتوں کو سن کر اس کے قتل کا ارادہ کیا جیسا کہ یوحنا کے ٥ باب کے ١٨ آیت میں لکھا ہے کہ تب یہودیوں نے اور بھی زیادہ اس کو قتل کرنا چاہا کیونکہ اس نے اللہ کو اپنا باپ کہہ کر اپنے تئیں اللہ کے برابر کیا اور ایسا ہی متی کے ١٨ باب کی ٢٠ آیت میں مسیح اپنی الوہیت کا اشارہ کر کے کہتا ہے کہ جہاں کہیں دو یا تین میرے نام پر اکٹھے ہوں وہاں میں ان کے بیچ ہوں اور صعود کے وقت جو اپنے شاگردوں کو حکم دیا تھا کہ سارے عالم میں جا کر میرا کلام بیان کر کے تعلیم دو تب ایسا کہا کہ دیکھو میں زمانہ کے آخر تک ہر روز تمہارے ساتھ ہوں جیسا متی کے ٢٨ باب کی ٢٠ آیت میں لکھا ہے پس اس سے کہ مسیح نے اپنے صعود کے وقت یہ بات فرمائی ظاہر ہے کہ اس کا حاضر ہونا جسمانی نہیں بلکہ روحانی طور پر ہوگا اور اس حال میں یہ وعدہ کہ انتہا عالم تک میں تمہارے ساتھ ہوں نہ صرف ایک سے بلکہ سارے شاگردوں اور ایمانداروں سے کیا ہے تو ظاہر ہے کہ ان باتوں سے اور اگلی آیت سے بھی اس نے حاضریت کی صفت کو اپنے ساتھ منسوب کیا خلاصہ اور ان آیتوں میں مسیح نے اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کو ایسا صریحا اپنے ساتھ نسبت کیا ہے کہ رد کے قابل نہیں ہے اور مابعد کی آیتوں میں تو ماقبل سے واضح تر اپنے تئیں ذات الٰہی کے ساتھ موصوف اور منسوب کیا ہے چنانچہ یوحنا کی ١١ باب کی ٢٥ آیت میں فرمایا ہے کہ قیامت اور زندگی میں ہوں۔ اور یوحنا کی ١٠ باب کی ٣٠ آیت میں کہا کہ میں اور باپ ایک ہیں اور پھر یوحنا کے ١٤ باب کی ٩ آیت سے ١١ تک مسیح نے فیلبوس کو فرمایا کہ جس نے مجھے دیکھا ہے باپ کو دیکھا ہے اور تو کیونکر کہتا ہے کہ باپ کو ہمیں دکھلا کیا تو یقین نہیں کرتا کہ میں باپ میں اور باپ مجھ میں ہے۔ یہ باتیں جو میں تمہیں کہتا ہوں میں آپ سے نہیں کہتا لیکن باپ جو مجھ میں رہتا ہے وہ یہ کام کرتا ہے میری بات یقین کروں کہ میں باپ میں ہوں اور باپ مجھ میں ہے اور اسی وحدانیت کی نسبت جو مسیح نے ان آیتوں میں اپنے ساتھ منسوب کی اور جس کے سبب باپ کے ساتھ یعنی اللہ کے ساتھ ذات میں ایک ہے اس نے ہم بندوں پر واجب کیا کہ جیسا باپ کو ویسا ہی اس کو بھی مانیں اور اس کی عبادت اور بندگی کریں جیسا کہ یوحنا کے ٥ باب کی ٢٣ آیت میں لکھا ہے کہ مسیح نے فرمایا کہ سب جس طرح باپ کی عزت کرتے ہیں بے ٹس کی عزت کریں وہ جو بیٹے کی عزت نہیں کرتا باپ کی جس نے اسے بھیجا ہے عزت نہیں کرتا اور علاوہ اس کے مسحگ نے اللہ کا لفظ بھی اپنے ساتھ منسوب کیا ہے یعنی اپنے قیام کے بعد ثوما کو جو اپنے شاگردوں میں سے تھا اجازت دی کہ اسے اللہ کہے جیسا کہ یوحنا کہے۔ ٢٠ باب کی ٢٨ و ٢٩ آیتوں میں ذکر ہے یعنی جب شاگردوں نے ثوما کو کہا کہ مسیح نے قیام کیا ہم نے اسے دیکھا ہے تب اس نے انہیں کہا کہ میں جب تک میخوں کا نشان اس کے ہاتھ میں نہ دیکھوں اور اپنی انگلی میخوں کے نشان میں نہ ڈالوں اور اپنا ہاتھ اس کی پسلی میں نہ رکھوں تب تک باور نہ کروں گا آٹھ دن کے بعد مسیح نے پھر ان پر ظاہر ہو کے ثوما سے کہا کہ اپنا ہاتھ پاس لا اور میری پسلی ٹٹول اور بے ایمان مت ہو بلکہ ایمان لا تب ثوما نے سجدہ کر کے کہا اے میرے اللہ اے میرے اللہ اب اس صورت میں کہ مسیح نے اس کو منع نہ کیا بلکہ یوں فرمایا کہ اے ثوما اس لئے کہ تو نے مجھے دیکھا ہے ایمان لایا مبارک دے ہیں جنہوں نے نہیں دیکھا اور ایمان لائے پس ظاہر ہے کہ اپنی الوہیت کا اشارہ کر کے اپنے تئیں اللہ کہلاتا زیادتی نہ جانا۔ مفتاح الاسراء طبع پنجم ص ١٤۔ ١٨۔ ناظرین کرام ! کیسی (ناراست) صاف گوئی سے کام لیا ہے کتنے زور سے مسیح کے الٰہ ہونے کا ثبوت دیا ہے اسے یاد رکھئے اور مزید بیان سنئے۔ رسالہ مسیح ابن اللہ کا مصنف بھی اپنا خیال یوں ظاہر کرتا ہے۔ اب ہم پرانے وثیقوں اور نئے وثیقوں کی بعضی آیتوں کو جدول ذیل میں باہم مقابلہ کر کے لکھتے ہیں تاکہ یہ ہمارے اس منشا کا کہ اسی طرح اور آیتیں بھی مقابلہ کر کے دیکھی جائیں ایک نمونہ ملاحظہ ہو۔ جدول یہ ہے پرانا وثیقہ اللہ کے حق میں کیا کہتا ہے اللہ کریم کہتا ہے کہ آسمان اور زمین مجھ سے بھرتے ہیں پرمیاہ۔ ٢٣ باب ٢٤ آیت تیرا تخت قدیم سے مستحکم ہے تو تو ازلی ہے ٩٣ زبور ٢ آیت میں اول اور میں آخر میں ہوں اور میرے سوا کوئی اللہ نہیں یسیا ٤ باب ٦ آیت نیا ! وثیقہ عیسیٰ کے حق میں اور عیسیٰ اپنے حق میں کیا کہتا ہے۔ وہ جو اترا وہی ہے جو سارے آسمانوں پر چڑھاتا کہ سب کو بھرپور کرے افیون ٤ باب ١٠ آیت وہ بیٹے سے کہتا ہے اے بیٹا تیرا تخت ابد ال آباد ہے خط عبرانیوں کو پہلا باب ٨ آیت میں اول اور آخر ہوں اور وہی ہوں جو ہوا تھا اور زندہ ہوں مکاشفات پہلا باب ١٧ و ١٨ آیات میں یہودہ ہوں اور تبدیل نہیں ہوتا یسوع مسیح کل اور آج اور ابد تک یکساں ہے ملا کی ٣ باب۔ ٦۔ آیت میں قادر مطلق اللہ ہوں۔ پیدائش ١٧ باب پہلی آیت تو اپنی تلاش سے اللہ کو پا سکتا ہے ایوب ١١ باب ٧ آیت خط عبرانیوں کو ١٣ باب ٨ آیت میں قادر مطلق ہوں۔ مکاشفات پہلا باب ٨ آیت کوئی بیٹے کو نہیں جانتا مگر باب متی ١١ باب ٢٧ آیت میں اللہ تیرا قدوس اللہ ہوں۔ یسیاہ ٤٣ باب ٣ آیت ابتدا میں اللہ نے آسمان کو اور زمین کو پیدا کیا پیدائش پہلا باب پہلی آیت میں اللہ سب کا بنانے والا ہوں میں اکیلا آسمان کو تانتا اور آپ تنہا زمین کو فرش کرتا ہوں۔ یسیاہ ٤٤ باب ٢٤ آیت تم نے اس قدوس اور راست کار کا انکار کیا۔ اعمال ٣ باب ٤ آیت ابتدا میں کلام تھا سب چیزیں اس سے موجود ہوئیں یوحنا پہلا باب ١ و ٣ آیات کیونکہ اس سے ساری چیزیں جو آسمان اور زمین پر ہیں دیکھی اور ان دیکھی کیا تخت کیا خاوند یاں کیا ریاستیں کیا مختاریاں پیدا کی گئیں خط کلیسیوں کو پہلا باب ٦ آیت انجیل سے پہلے حصے کا نام ہے۔ انجیل سے آخر تک حصہ کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز اپنے لئے بنائی۔ امثال ١٦ باب ٤ آیت اللہ تعالیٰ ساری زمین کا بادشاہ عظیم ہے ٤٧ زبور ٢ آیت اس لئے کہ تو فقط سارے ہی آدم کے دلوں کو جانتا ہے۔ پہلا سلاطین پہلا باب ٣٩ آیت اللہ ہی عدالت کرنے والا ہے۔ ٥٠ زبور۔ ١٦ آیت اس کی بادشاہت سب پر مسلط ہے۔ زبور ١٠٣۔ آیت ١٩ اس دن ایک اللہ ہوگا اور اس کا ایک نام ہوگا۔ زکریا ١٤ باب ٩۔ آیت دیکھو خداوند اللہ زبردستی کے ساتھ آوے گا اس کا صلہ اس کے ساتھ ہے۔ یشعیاہ۔ ٤ باب۔ ١ آیت میں ہی اللہ تعالیٰ ہوں میرے سوا کوئی بچانے والا نہیں ۔ یشیاہ ٤٣ باب ١١ آیت وہ ظفر مندی سے موت کو نگل جائے گا۔ یشعیا۔ ٢٥ باب ٨ آیت میں نے اپنی حیات کی قسم کھائی ہے کلام صدق میرے منہ سے نکلتا ہے اور نہ پھرے گا کہ ہر ایک گھٹنا میرے آگے جھکے گا اور ایک زبان میری قسم کھائے گی۔ یشعیاہ۔ ٤٥ باب ٢٣۔ آیت ساری چیزیں اس سے اور اس کے لئے پیدا ہوئیں خط کلیسیوں کو پہلا باب ١٦ آیت بادشاہوں کا بادشاہ اور خداوندوں کا خداوند مکاشفات ١٩ باب ١٦ آیت اور ساری کلیسائوں کو معلوم ہوگا کہ میں وہی ہوں جو دلوں اور گردوں کا جانچنے والا ہوں۔ مکاشفات ٢ باب ٢٣ آیت کیونکہ ہم سب کو ضرور ہے کہ مسیح کی مسند عدالت کے آگے حاضر ہوویں ٢ خط قرنیتوں کو ٥ باب ١٠ آیت وہ سب کا اللہ تعالیٰ ہے۔ اعمال۔ ١٠ باب ٣٦ آیت اور ایک خداوند ہے جو یسوع مسیح ہے جس کے سبب سے ساری چیزیں ہوئیں اور ہم اس کے وسیلے سے ہیں پہلا خط قرنیتوں کو ٨ باب ١٦ آیت دیکھ میں جلد آتا ہوں اور میرا اجر میرے ساتھ ہے۔ مکاشفات ٢٢ باب ١٢ آیت اور وہ کامل ہو کر اپنے سب فرمانبرداروں کے لئے نجات کا باعث ہوا خط عبرانیوں کو ٥ باب ١٩ آیت اور کسی دوسرے سے نجات نہیں کیونکہ آسمان کے تلے آدمیوں کو کوئی دوسرا نام نہیں بخشا گیا جس سے ہم نجات پا سکیں۔ اعمال ٤ باب ١٢ آیت اب ہمارے بچانے والے یسوع مسیح نے موت کو نیست کیا۔ دوسرا تمطائوس پہلا باب۔ ١٠ آیت ہم سب مسیح کے تخت عدالت کے آگے حاضر کئے جائیں گے چنانچہ یہ لکھا ہے کہ خداوند کہتا ہے کہ اپنی حیات کی قسم ہر ایک گھٹنا میرے آگے جھکے گا اور ہر ایک زبان اللہ کے سامنے اقرار کرے گی خط رومیوں کو ١٤ باب ١ و ١١ آیات عیسیٰ کے نام پر ہر ایک گھٹنا جھکے گا خط فلیبیون کا ٢ باب ١٠ آیت اگرچہ اس جدول کو طول دینا آسان تھا لیکن ہمارا منشا خاص کر دونوں وثیقوں کی مطابقت کا نمونہ دکھلانا ہے ورنہ اس قسم کی سب آیات کو پیش کرنا بڑے فائدے کی بات ہوگی۔ اگر اس جدول کے دیکھنے سے ناظرینوں کو اس امر کی طرف رغبت ہوجاوے کہ اس ضروری مسئلہ کے ثبوت میں پاک کتاب کے دونوں حصوں کی شہادت کو آپ ہی دریافت کریں اگر اس طرح کی تحقیقات صداقت سے کریں تو ان کی خاطر جمع ہوجاوے گی کہ ضرور عیسیٰ حقیقی اور ابدی اللہ ہے اور وہ دریافت کریں گے کہ جو کچھ ایک وثیقہ میں خاص باپ کی طرف منسوب ہے وہ سب دوسرے میں بالکل عیسیٰ ناصری کی طرف منسوب ہے اور وہ دیکھیں گے کہ اللہ کے خاص خطاب اور قدرت اور کاملیت اور الٰہی کاروبار نئے وثیقے میں سب کے سب عیسیٰ کی طرف منسوب ہیں اور یہ نسبت انہیں الفاظ کے ساتھ بیان کی جاتی ہے جو کہ قدیم الایام سے پاک نبیوں اور خود اللہ نے پورا نے وثیقے میں استعمال کئے تھے بلکہ وہ یہ بھی دیکھیں کہ بار بار مابین اس پاک وجود کے جس نے پہلے آسمان سے کلام کیا اور عیسیٰ کے جس نے کئی صدیوں کے بعد انسانی شکل میں زمین پر گفتگو کی اصلی یگانگت تھی۔“ (رسالہ مسیح ابن اللہ ص ١٢٩ و ص ١٣٣ مطبوعہ لدیانہ ١٨٨٨؁ئ) گو اہل انصاف اس مسئلہ کی تصویر سے ہی متنفر ہو کر اس کے دلائل سے اور ہی نفرت کر گئے ہوں گے اور ہرگز امید نہیں کہ کسی صاف دل میں اس سیدھے گورکھ دھندے کو جگہ ملے تاہم اس کے ابطال میں کسی قدر دلائل واضح کا بیان کردینا اہل مذاق کے لئے ہر طرح مفید ہوگا۔ پس ہم ان دلائل کو پہلے بیان کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی پاک کتاب (قرآن شریف) نے بیان کئے ہیں۔ لیکن چونکہ ان دلائل میں حکیمانہ طرز سے استدلال کئے گئے ہیں اس لئے بطور تمہید پہلے کئی امور کا بیان ضروری ہے قاعدہ عقلیہ ہے کہ جب دو نقیضوں میں سے ایک کو باطل کردیا جائے تو دوسری کا وجود ضرور ہوتا ہے یا ایک کا وجود ثابت ہو تو دوسری کا عدم ہوگا۔ مثلاً ثابت کیا جاوے کہ کسی خاص وقت میں رات نہیں تو دن ضرور ہوگا اور اگر ثابت کیا جاوے کہ کسی خاص وقت میں دن ہے تو رات نہ ہوگی۔ اس قسم کی دلیل کو علماء مناظرہ دلیل خلف کہتے ہیں اور جو حکم بعد تتبع اور تلاش جزئیات کثیرہ کے لگایا ہوا اس کو استقرا کہتے ہیں جیسا کہ بہت سے افراد انسانی کو خلقتہ دو پایہ دیکھ کر سب پر حکم لگایا جاوے کہ سب افراد انسانی دو پائے ہیں یہ بھی ایک قسم دلیل سے ہے مگر خلف کی نسبت سے کمزور اور جو بطور مشابہت کے حکم ہو اس کو تمثیل کہتے ہیں جیسا شراب کے نشہ پر دوسری نشہ آور چیزوں کو بھی قیاس کرلیں یہ قسم بھی گو درجہ اول کے برابر زور آور نہیں لیکن کسی قدر کارآمد ہے پس انہیں دلائل ثلثہ کی طرف قرآن شریف نے اشارہ کر کے فرمایا ہے۔ ما المسیح ابن مریم الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل و امہ صدیقۃ کانا یاکلان الطعام انظر کیف نبین لھم الایت ثم انظر انی یوفکون۔ (المائدہ) ” کہ مسیح تو صرف اللہ کا رسول ہے اس سے پہلے کئی رسول گذر چکے ہیں اور اس کی ماں صدیقہ (نیک بندی) تھی دونوں (ماں بیٹا) کھانا کھایا کرتے تھے دیکھ تو ہم کیسے دلائل بیان کریں پھر بھی یہ کیسے بہکے جا رہے ہیں۔ “ اس لفظ میں کہ مسیح تو صرف ایک اللہ کا رسول ہے تمثیل کی طرف اشارہ ہے یعنی جیسے اور رسول ہیں جن کو بندگی سے بڑھ کر اللہ کریم میں ذرہ دخل نہیں اسی طرح مسیح بھی فقط رسول ہی ہے نہ کہ اللہ اور اس لفظ میں کہ اس سے پہلے کئی رسول گذر چکے استقرا کی طرف اشارہ ہے یعنی کل رسول جو اللہ کی طرف سے آئے ہیں ان کے لئے بجز بندگی کے اور مرتبہ نہیں ہوتا پھر مسیح کا کیونکر ہونے لگا اور اس لفظ میں کہ اس کی ماں اللہ کی نیک بندی تھی اور وہ دونوں کھانا کھاتے تھے۔ اس بڑی زبردست دلیل کی طرف اشارہ ہے جس کو دلیل خلف کہتے ہیں یعنی جب اس کی ماں تھی اور وہ بھی پھر اللہ کی نیک بندی اور وہ دونوں کھانے کے بھی محتاج تھے تو ایک دو وجہ سے نہیں بلکہ کئی وجہ سے مسیح کی عبودیت ثابت ہوئی ایک تو یہ کہ اس کی ماں ہے جس نے اس کو جنا۔ دوم یہ کہ اس کی ماں اللہ کی نیک تابعدار بندی تھی تو بیٹا بھی ضرور بالضرور بحکم الولد سر لابیہ اللہ کا بندہ ہوگا۔ سوم یہ کہ وہ دونوں ماں بیٹا طعام کے محتاج بھی تھے ایسے کہ جیسے اور لوگ محتاج ہوں اور یہ ظاہر ہے کہ جو کوئی محتاج الی الغیر ہو وہ مخلوق ہے کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ بھی طعام وغیرہ کا محتاج ہو تو اس میں شک نہیں کہ طعام بلکہ کل دنیا کی چیزیں حادث ہیں ایک وقت سے ان کی ابتدا ہوئی ہے جس سے پہلے نہ تھیں پس جس وقت نہ تھیں تو اللہ کا گذارہ کیسے چلتا ہوگا یا تو اللہ بھی اس وقت نہ تھا تو اللہ بھی حادث ہوا یا تھا تو بڑی وقت میں گذارہ کرتا ہوگا۔ چونکہ اس بات کو ہمارے مخاطبین بھی مانتے ہیں کہ جو شے کھانے وغیرہ کی محتاج ہو وہ بیشک مخلوق ہوگی اس لئے اس پر زیادہ زور دینا کچھ ضروری نہیں پس قرآن کریم کی تینوں دلیلوں کی شرح ہوگئی کس خوبی سے بالاجمال مختصر الفاظ میں تینوں کی طرف اشارہ ہے مسیحی دوستو ! اب بھی قرآن کی بلاغت کے قائل نہ ہو گے؟ علاوہ اس فائدہ کے یہ فائدہ بھی ان آیات سے باآسانی حاصل ہوا کہ عیسائیوں کے فرقہ رومن کیتھلک کے خیالات بھی رد ہوگئے جو مسیح اور اس کی ماں دونوں کی عبادت کرتے ہیں ان آیات میں بھی جن پر ہم حاشیہ لکھ رہے ہیں دلیل خلف کو ایسے طریق سے بیان کیا ہے کہ جس کی کوئی کسر نہیں چھوڑی چنانچہ تفسیر میں ناظرین نے ملاحظہ فرمایا ہوگا۔ چونکہ یہ دلیل قرآنی ایسی بدیہی اور پرزور ہے کہ ادنیٰ عقل کا آدمی بھی اس سے انکار نہ کرے اس لئے عیسائیوں نے بھی صریح انکار تو نہیں کیا لیکن ایک عذر بارد اس کے متعلق یوں کیا۔ ” مسیح بندہ بھی ہے اور مالک بھی ہے اور آدمی ہے اور اللہ بھی ہے اسی سبب سے بعض آیتوں میں اس کی بشریت اور بعض میں الوہیت بیان و عیان ہوئی ہے۔“ (مفتاح الاسماء ص ١٩ دفعہ پنجم) ” کیونکہ ایمان صحیح یہ ہے کہ ہم اعتقاد اور اقرار کریں کہ اللہ کا بیٹا ہمارا اللہ یسوع مسیح اللہ اور انسان بھی ہے۔ اللہ ہے باپ کی ماہیت سے عالموں کے پیشتر مولود اور انسان ہے اپنی ماں کی مایہت سے عالم میں پیدا ہوا کامل اللہ اور کامل انسان نفس ناطقہ اور انسان جسم کے ساتھ۔“ (دعائے عمیم ص ٢٥ مطبوعہ افتخار دہلی) ناظرین غور فرما سکتے ہیں کہ کہاں تک اجتماع ضدین ہے۔ اس پر بھی یہ سوال ہے کہ کیا مسیح بشریت اور الوہیت سے مرکب تھا اگر مرکب تھا تو حادث ہوگا کیونکہ ترکیب حدوث کو مستلزم ہے پس پھر بھی اللہ نہ ہوا بلکہ حادث بنا جو اپنی ترکیب اور حدوث میں ترکیب دہندہ اور پیدا کرنے والے کا محتاج ہے علاوہ اس کے اگر مسیح میں بھی اللہ تھا اور دوسرے دو حصوں میں بھی اللہ ہے تو تین اللہ ہوئے تو پھر شرک کس کا نام ہے جس کے ماننے والے کو تم بھی عیسائی مذہب سے خارج جانتے ہو۔ (مفتاح مذکور ص ٤١) عیسائی اس پیش بندی کے لئے ایک اور چال چلتے ہیں جس سے صریحاً تثلیث کی بیخ کنی ہوتی ہے وہ یہ کہ شرک تو جب ہو کہ تم مسیح روح القدس اور اللہ کو مستقل اللہ جانیں بلکہ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ اللہ باپ۔ اللہ بیٹا اور اللہ روح القدس کہنا یعنی ہر نام کے اول لفظ اللہ کا استعمال کرنا درحالیکہ کوئی ان تینوں میں سے بغیر دوسرے کے اللہ نہیں ہوسکتا درست نہیں ہے۔ الوہیت کے اقانیم (حصے) ثلثہ کے ایسے استعمال سے عیسائیوں کو محتاط رہنا چاہئے کیونکہ یہ ہمارا عقیدہ نہیں کہ صرف بیٹا یا روح القدس یا فقط باپ اللہ ہے ہم اکیلے باپ (اللہ) کو بھی اللہ نہیں کہتے۔ تشریح التثلیث ص ٨٠ ناظرین ! ذرا غور سے ان تعلیم یافتہ لوگوں کی باتیں سنئے انہیں کچھ بھی اپنے مذہب میں تخالف یا تناقض کا خوف ہے؟ پہلی عبارتیں عقیدہ اتھاناسیس اور پادری فنڈڈر کی عبارت صاف بتلا رہے ہیں کہ تینوں اللہ مستقل ہیں جس سے صاحب تشریح کو انکار ہے۔ خیر ہمیں اس سے بھی بحث نہیں کہ آپس میں مخالف ہیں یا موافق۔ ہم اس پہلو پر بھی نظر کرتے ہیں بھلا جب اللہ تین اجزا سے مل کر مرکب ہوا تو حادث پھر کس کو کہتے ہیں اس کا ترکیب و ہندہ پھر کون ہے اور یہ ظاہر ہے کہ جو حادث ہو وہ ایک وقت پر پہنچ کر فنا بھی ہوگا جس سے لازم آتا ہے کہ اللہ بھی ایک وقت میں فنا ہو۔ کیا پھر عجب نہیں کہ اپنے پرستاروں کو بدلہ دینے سے پہلے ہی چل دے جس سے ان کی حق تلفی کا الزام بھی اس پر عائد رہے گا۔ ایسے اللہ سے تو ہر وقت اندیشہ ہے کہ ہم سے بیگا رہی نہ لیتا ہو دینے دلانے کا شاید اسے موقع ہی نہ ملے۔ علاوہ اس کے جب چل دے گا تو اس وقت اللہ کا قائم مقام کون ہوگا اور اس کو قائم مقام کرنے والا بڑا اللہ کون ہوگا تو پہلے ہی سے اسے ہی کیوں نہیں اللہ مان لیتے اس لفٹنٹ کی کیا حاجت ہے اور اگر اس کا قائم مقام کرنے والا کوئی نہیں بلکہ جس کا زور چلے گا وہ ہوجائے گا تو دنیا کی بربادی کا کیا انتظام؟ سچے اللہ کا سچا فرمان بیشک سچ ہے لو کان فیھما الھۃ الا اللہ لفسدتا۔ الآیۃ کہ اگر دنیا میں چند معبود ہوتے تو مدت کی خراب ہوچکی ہوتی۔ اس پہلو سے بچنے کو عیسائیوں نے ایک مفتر نکالا ہے وہ بھی قابل سماع ہے وہ یہ ہے کہ مسیح خود ہی اللہ تھا جو آسمان و زمین کا مالک ہے کوئی دوسرا کوئی نہیں تھا جس نے موسیٰ کو کوہ طور پر درخت میں جلویٰ دکھایا وہ مسیح تھا۔ (مفتاح الاسراء مصنفہ پادری فنڈر رفعہ ٥ ص ٣٨) ناظرین ! گھبرائیے نہیں آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ بہت اچھا صاحب جس نے آسمان و زمین کو پیدا کیا وہ مسیح ہی تھا لیکن یہ تو بتلا دیں اس سے تثلیث کیونکر ثابت ہوئی۔ غایت مانی الباب اس سے تو حلول ثابت ہوا جس کو آپ اور آپ کے پیرو و مرشد پادری فنڈر مفتاح کے ص ٢٠ پر رد کرتے ہیں پس اگر حلول بھی نہیں بلکہ عینیت ہے تو وہی اللہ کے کلام کی دلیل خلف اس پہلو پر بھی وارد ہوگی کیونکہ کانا یا کلان الطعام اس صورت میں بھی عیسائیوں کو کھانا۔ پینا بھلاتا ہے اس بلائے ناگہانی سے بچنے کی تدبیر عیسائیوں نے یہ کی ہے کہ مسیح کی عبودیت کے اقراری ہو کر صرف مسیح سے اللہ کا ایک علاقہ خاص بتلایا ہے جس کی کیفیت ہم نہیں جانتے چنانچہ پادری فنڈر صاف مظہر ہے کہ وہ ایک خاص علاقہ ہے جس کی ماہیت اسرار الٰہی میں سے ہو کر عقل کی دریافت سے خارج اور معدوم الدرک کی قسم سے ہے مفتاح مذکور ص ٢٠ اور ڈاکٹر پادری کلارک میڈیکل مشنری امرت سر نے تو بالکل ہی صاف کہہ دیا کہ کثرت فی الوحدت ایک ایسا مسئلہ ہے کہ نہ اس کا سمجھنے والا پیدا ہوا۔ نہ ہوگا۔ (جنگ مقدس ص ٩٥) شاباش عیسائیوں کے حال پر کہ ملا آں باشد کہ چپ نہ شود۔ پر انہوں نے عمل کر کے دکھا دیا۔ اب کوئی اپنا سر ناحق پھوڑے جب کہ یہ مدار نجات ہی سمجھ میں نہیں آتا اور نہ آنے کی امید ہے تو پھر کسی بحث مباحثہ سے کیا فائدہ؟ بھلا وہ تعلق مانا کہ مجہول الکیفیت ہی ہے لنکی اس سے مسیح کی الوہیت کا ثبوت کیونکر ہوا کیا تمام مخلوق سے اللہ کا تعلق نہیں؟ علاوہ اس کے عیسائیوں کو اس میں بھی غلطی لگی ہے کہ وہ دو راز عقل اور خلاف از عقل میں فرق نہیں کرتے بعید از عقل تو اسے کہتے ہیں کہ عقل اس کی کیفیت کو پا نہیں سکتی جیسے اللہ کے کاموں (مثلاً انسان کا دیکھنا سننا۔ زبان سے ذائقہ چکھنا اور کسی چمڑہ سے یہ کام نہ ہونا) سے عموماً حیران رہتی ہے ایسے تو اللہ تعالیٰ کے ہوتے ہی ہیں خلاف از عقل یہ ہے کہ عقل ایک امر دریافت کرے اور بڑی تحقیق سے ثابت کر دے جس میں کوئی شبہ نہ رہے لیکن اللہ کی شریعت اس امر ثابت شدہ کے خلاف کہے مثلاً دلائل قطعیہ سے ثابت ہوچکا ہے کہ دو دونے چار ہوتے ہیں مگر اللہ کی تعلیم ہم سے دو دونے پانچ کہلوا دے تو ایسی تعلیم اللہ کی طرف سے نہ ہوگی مسیح کی الوہیت کا مسئلہ بعید از عقل نہیں بلکہ خلاف عقل ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کی تعلیم نہیں ہوسکتا۔ مختصر یہ کہ اگر مسیح۔ روح القدس۔ اللہ تینوں مستقل معبود ہیں جیسا کہ مفتاح ص ٤٥ سے مفہوم ہوتا ہے تو شرک صریح لازم آتا ہے جو کسی کے نزدیک بھی جائز نہیں جس کو عیسائی بھی قبیح مانتے ہیں دیکھو مفتاح ص ٤١ اور اگر تینوں مل کر ایک اللہ بنتا ہے جیسا کہ تشریح التثلیث کا مضمون ہے تو ترکیب الٰہ ضروری ہوگی جس سے اللہ کا حادث ہونا لازم آئے گا اور اگر مسیح وہی اللہ ہے جو تمام جہان کا مالک ہے تو مسیح کی بشریت اور الوہیت مرکب ہو کر حدوث لازم آئے گا اور اگر الوہیت میں بشریت کو دخل نہیں بلکہ مسیح سے اللہ کا تعلق ظرف مظروف کا سا ہے جیسا کہ پانی کا برتن سے تو حلول لازم آیا جس کو تم بھی ناجائز جانتے ہو دیکھو مفتاح ص ٢٠ اور اگر مسیح سے اللہ کا کوئی خاص تعلق ہے جو عام افراد انسانی سے نہیں تو اس کا انکار کس کو ہے بیشک اللہ کا اپنے نیک بندوں سے جو تعلق خاص اور نظر عنایت ہے وہ عام لوگوں سے نہیں ہوتا اللہ کی پاک کتاب بتلاتی ہے کہ اللہ ولی الذین امنوا یخرجھم من الظلمات (الآیۃ) اللہ ایمانداروں کا والی ہے اندھیروں سے ان کو نور کی طرف لے جاتا ہے۔ وھو یتولی الصالحین۔ (الایۃ) اور وہ نیکو کاروں کا ہمیشہ متولی ہوا کرتا ہے۔ لیکن اس سے مسیح کی الوہیت کو کیا علاقہ نظر عنایت سے مخصوص ہونے سے الوہیت کا ثبوت نہیں ہوسکتا نہیں تو بہت سے اللہ کے نیک بندے اللہ بنیں گے اور اگر کوئی ایسا تعلق ہے جو ہم نہیں جانتے اور نہ جان سکتے ہیں جیسا کہ مفتاح ص ٢٠ سے مفہوم ہے تو جب ہم اس تعلق کی کیفیت ہی نہیں جانتے تو یہ کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ اس تعلق سے مسیح کی الوہیت ثابت ہے نیک بندوں کا جیسا اللہ سے تعلق ہوتا ہے ویسا ہی ہوگا اس سے بڑھ کر ایسا تعلق کہ اس سے الوہیت کا ثبوت ہو چونکہ بنفسہ محال ہے اس لئے اس مجہول تعلق کی تعیین بھی ایسے تعلق سے نہ کی جاوے گی جو مثبت الوہیت ہو ورنہ وہ تعلق بھی محال ہوگا کیونکہ مستلزم محال محال ہے فتدبروا۔ بعض عیسائیوں نے مجھ سے بالمواجہہ یہ کہا کہ تم مسلمان توحید محض کے مدعی ہو حالانکہ تم بھی کثرت فی الوحدت مانتے ہو کیونکہ ذات باری کی صفات (مثلاً صفت علم۔ صفت خلق۔ صفت حیات وغیرہ وغیرہ) کو تم بھی مانتے ہو پس یہ بھی کثرت ہے محض وحدت تو جب ہو ذات بحت کو بلا صفات ہی مانو (ایسا ہی مفتاح سے بھی مفہوم ہے) سو اس کا جواب دو طرح سے ہے الزامی اور تحقیقی۔ الزامی تو یہ کہ اگر صفات سے بھی تعدد آتا ہے تو تمہارے بھی تین اللہ نہیں مع صفات کئی اللہ ثابت ہوں گے کیونکہ صفات اللہ کریم کے تم بھی قائل ہو پھر تثلیث ہی پر بس کیوں کرتے ہو آگے بھی چلو اور اگر آگے کے عدد میں کوئی خلل ہے تو بتلائو کیوں؟ کون سی چیز تعدد صفات سے تعدد آلہ کو روکتی ہے جو تم بتلائو گے وہی ہماری طرف سے ہوگی۔ تحقیقی جواب یہ ہے کہ تعدد صفات سے تعدد حقیقی موصوف کا نہیں آیا کرتا۔ اگر کوئی شخص مثلاً زید چار پیسے (سوت کا تنا۔ کپڑا بننا۔ کپڑے سینا۔ کپڑا رنگنا) جانتا ہے تو کیا ایک زید سے چار زید ہوگئے؟ کوئی دانا یہ کہے گا؟ اسی طرح صفات اللہ کریم کا معاملہ ہے ہاں اعتباری تعدد ضرور ہے یعنی اس لحاظ سے کہ اللہ علیم ہے اور ہے اس لحاظ سے کہ اللہ قدیر ہے اور ہے مگر ایسے اعتبارات بالکل اس قصے کے مشابہ ہوں گے جو دو منطقی بھائیوں کا مشہور ہے کہ آپس میں گالی گلوچ ہو پڑے مگر چونکہ دونوں کی ماں بہن ایک تھی اس لئے گالی دیتے ہوئے قید اعتباری لگا دیں کہ تیری ماں کو اس حیثیت سے کہ تیری ماں ہے دوسرا بھی اسی ماں کو گالی دے مگر بقید حیثیت اس حیثیت سے کہ تیری ماں ہے پس جیسا ان کی ماں میں حقیقۃً تعدد نہ تھا بلکہ یہ ان کی جہالت کا ثبوت تھا اسی طرح صفات کے اعتبار سے اللہ میں تعدد پیدا کرنا ایک نادانی کا اظہار ہے۔ پادری فنڈر بھی اسی کے قریب قریب نئی طرز پر چلے ہیں کہ قائلین وحدت الوجود کے اقوال کو سنداً بیان کر کے اپنا مطلب نکالنا چاہا ہے کہ جس طرح یہ لوگ تجلی اول اور تجلی ثانی جناب باری کے مراتب مختلفہ مانتے ہیں اسی طرح ہم بھی ثالوث فی التوحید کے قائل ہیں چنانچہ مفتاح ص ٥٨ سے مفہوم ہے ہمارے خیال میں عیسائیوں کو پادری صاحب کا مشکور ہونا چاہئے کہ انہوں نے اس تثلیث جیسے ناقابل ثبوت مسئلہ کو حتی الامکان پوری کوشش سے نباہا ہے بھلا پادری صاحب یہ تو غور کیا ہوتا کہ وحدت الوجود کے قائلوں کے نزدیک درجہ وحدت میں تعدد کہاں ہے تعدد تو درجہ شخصیت میں ہے جو مخلوق ہے الکفر ملۃ واحدۃ جیسے ان کے خیالات واہی ویسے ہی ان کی تباہی۔ علاوہ اس کے اس میں بھی پادری صاحب کو غلط فہمی ہوئی ہے کیونکہ وحدۃ الوجود والے مرتبہ تعین کو ممکن اور مخلوق جانتے ہیں صرف مرتبہ تجلی اول کو معبود برحق مانتے ہیں باقی کو نہیں اور آپ تو دونوں تینوں تعناوت کو درجہ الوہیت دے رہے ہیں فانی لہ من ذلک اگر کہو کہ تم مسلمان بھی جب کہ انجیل۔ تورات کو کلام الٰہی مانتے ہو پھر مسیح کی الوہیت جب کہ ان میں صاف مرقوم ہے تو کیوں نہیں تسلیم کرتے۔ اس کا جواب یہ ہے ہم جلد اول میں زیر آیت وما انزل من قبلک ثابت کر آئے ہیں کہ تورات انجیل موجودہ کو ہم کلام الٰہی نہیں مانتے بھلا کر کیونکر مانیں حالانکہ جس کے ذریعہ سے ہمیں ان کو ماننا تھا وہ تو ایسے مضامین کی صاف صاف الفاظ میں تردید کرتا ہے اور ایسے مضامین کو تمہارے ہی ساختہ بتلا کر صاف کہتا ہے کہ یا اھل الکتب لا تغلوا فی دینکم ولا تقولوا علی اللہ الا الحق انما المسیح عیسیٰ بن مریم رسول اللہ وکلمتہ القاھا الی مریم و روح منہ فامنوا باللہ ورسلہ ولا تقولوا ثلثۃ اے کتاب والو اپنے دین میں زیادتی مت کرو اور اللہ کے ذمہ سچی بات ہی کہو (یہ نہ کہو کہ مسیح اللہ یا بیٹا اس کا ہے) مسیح تو فقط (اللہ کی بندی) مریم کا بیٹا اور اللہ کا رسول اور اس کے حکم سے جو مریم کی طرف بھیجا تھا پیدا شدہ ہے اور اللہ کی طرف سے ایک معزز روح ہے پس اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائو اور تین اللہ مت کہو۔ قرآن شریف جب کہ صریح الفاظ میں تثلیث اور الوہیت مسیح کا رد کرتا ہے تو پھر مسلمانوں پر یہ الزام کیسا ہے کہ تم تورات انجیل کو مانتے ہو حالانکہ خود ہی عیسائی انکار الوہیت مسیح کو تورات و انجیل کا انکار لازم جانتے ہیں (دیکھو مفتاح مذکور طبح ٥ ص ٣٥) پس جب کہ مسلمان اور مسلمانوں کی الہامی کتاب الوہیت مسیح کی انکاری ہے تو ان سابقہ کتابوں کو جن میں الوہیت مسیح واقع میں یا بقول تمہارے مذکور ہوگی ان کو کیسے تسلیم کریں گے۔ تقریر بالا سے نہ صرف الوہیت مسیح کا بطلان ہوا بلکہ تورات انجیل کا جن میں الوہیت مسیح مذکور ہے ابھی اعتبار نہ رہا اور کلام اللہ ہونے کے مرتبہ سے ساقط الاعتبار ہوگئیں پس تثلیثی عیسائیوں پر واجب ہے کہ یا تو الوہیت مسیح اور تثلیث کے عقیدہ سے باز آئیں اور جن مقامات میں مسیح کی الوہیت مذکور ہے ان کی تاویلات مثل یونیٹرین کے کریں اور اگر وہ قابل تاویل نہ ہوں تو ایسے گورکھ دھندے سے باز آئیں اور سیدھی اور صاف تعلیم کو مانیں جس میں کوئی ایچ پیچ نہیں۔ قل ھو اللہ احد اللہ الصمد لم یلد ولم یولد ولم یکن لہ کفوا احد۔ لیس کمثلہ شیء وھو المسیع البصیر۔ اللہ ایک ہے۔ اللہ سب سے بے نیاز ہے۔ نہ کسی کو اس نے جنا۔ نہ اس کو کسی نے جنا نہ اس کا کوئی ہم قوم ہے۔ نہ اس جیسا کوئی اور ہے اور وہ سنتا اور دیکھتا ہے۔ نہ پرستش کا تو محتاج نہ محتاج عبادت نہ عنایت تجھے درکار کسی کی نہ حمایت نہ شراکت ہے کسی سے نہ کسی سے ہے قرابت نہ نیازت نہ ولادت نہ بفرزند تو حاجت تو جلیل الجبروتی تو امیر الامرائی (منہ) بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا بندہ جسے محض لوگوں کی ہدائت کے لئے رسول کر کے بھیجے وہی شرک پھیلائے کیا مسلمان ہونے کے بعد تم کو کفر بتلائے ہرگز نہیں پس جب ایسی آیات بیّنات یہ لوگ سنتے ہیں اور تو کوئی عذر نہیں کرتے جھٹ سے کہہ دیتے ہیں کہ اگر یہ نبی (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بر حق ہوتا تو اس کے لئے کوئی پیش گوئی پہلی کتابوں میں ضرور ہوتی حالانکہ وہ اس دعوے میں بھی جھوٹے ہیں کہ پیش گوئی نہیں