وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللَّهَ وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِيهِ وَتَخْشَى النَّاسَ وَاللَّهُ أَحَقُّ أَن تَخْشَاهُ ۖ فَلَمَّا قَضَىٰ زَيْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاكَهَا لِكَيْ لَا يَكُونَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ حَرَجٌ فِي أَزْوَاجِ أَدْعِيَائِهِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا ۚ وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ مَفْعُولًا
اور جب تو اس شخص سے جس پر اللہ نے انعام کیا اور جس پر تو نے انعام کیا کہہ رہا تھا کہ اپنی بیوی اپنے پاس روکے رکھ اور اللہ سے ڈر اور تو اپنے دل میں وہ بات چھپاتا تھا جسے اللہ ظاہر کرنے والا تھا اور تو لوگوں سے ڈرتا تھا، حالانکہ اللہ زیادہ حقدار ہے کہ تو اس سے ڈرے، پھر جب زید نے اس سے اپنی حاجت پوری کرلی تو ہم نے تجھ سے اس کا نکاح کردیا، تاکہ مومنوں پر اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے بارے میں کوئی تنگی نہ ہو، جب وہ ان سے حاجت پوری کر چکیں اور اللہ کا حکم ہمیشہ سے (پورا) کیا ہوا ہے۔
(37۔39) لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ مسلمان عام اجازت کے ماتحت کوئی کام خانگی یا بیرونی ذاتی یا قومی کرنا چاہیں تو اس میں بھی تیزی (نبی کی) اجازت ضروری ہو نہیں ایسے امور میں وہ ماتحت رہ کر مختار ہیں یہی وجہ ہے کہ جب تو (نبی) اس شخص کو جس پر اللہ کے انعام تھے کہ پیدا کرنے کے علاوہ اللہ نے اس کو ہدایت کی تھی اور تو نے بھی انعام کئے تھے کہ ہدایت کے علاوہ تو نے اس کو غلامی سے آزاد کیا تھا اس کے ایک خانگی معاملہ کے متعلق کہہ رہا تھا جس میں وہ خود مختار تھا کہ تو اپنی بیوی کو رہنے دے اور اللہ سے ڈر شاید تیرا ہی قصور ہو تو اس نے اس امر میں تیری فرمانبرداری نہ کی اور اللہ کی طرف سے بھی اس پر کوئی خفگی نہ آئی نہ تو اس پر خفا ہوا کیونکہ اپنے خانگی کاموں میں وہ آزاد تھا اس لئے وہ اس میں معتوب نہ ہوا اور تو (اے نبی) اپنے دل میں وہ بات چھپاتا تھا جسے آخر کار اللہ تعالیٰ ظاہر کرنے کو تھا تو اس کے اظہار میں لوگوں سے خوف کرتا تھا حالانکہ اللہ سے زیادہ خوف کرنا چاہئے ریفارمروں (مصلحوں) کو لائق ہے کہ جو کام وہ اصلاح کے متعلق کرنا چاہیں بحکمت و آشتی کر گزریں کسی نادان کے اعتراض کی پرواہ نہ کریں لو پس سنو ! ہم اس امر کو ابھی سے ظاہر کئے دیتے ہیں کہ جب شخص مذکور زید نے اس عورت سے جس کو روکنے کا تو حکم دے رہا تھا اپنا تعلق توڑ لیا تو ہم نے اس عورت کا نکاح تجھ سے کردیا یعنی اجازت دیدی کہ بعد عدت پوری ہونے کے تو اس سے نکاح کرلیجئیو اس میں راز یہ ہے تاکہ تیرے اس نکاح کے بعد مسلمانوں کے لے پالک جب اپنی بیویوں سے تعلق قطع کرچکیں تو ان مسلمانوں کو ان عورتوں سے شادی کرنے میں کوئی مضائقہ نہ ہو کیونکہ وہ لے پالک نہ انکے بیٹے ہیں نہ وہ ان کے اصلی باپ بلکہ محض ایک منہ کی بات ہے اور کچھ نہیں اسی طرح اس رسم (لے پالک بنانے) کی جڑ کٹ جائے گی اور اللہ کا حکم جب مقرر ہوجائے تو وہ ہو کر ہی رہتا ہے اس لئے نبی کو بھی چاہئے کہ الٰہی احکام متعلقہ نکاح زوجہ لے پالک کی تعمیل میں کسی طرح کی سستی کو راہ نہ دے اللہ نبی پر جو کام فرض کرتا ہے تو نبی کو اس کی ادائیگی میں کبھی مضائقہ (پس وپیش) نہیں ہوتا بلکہ وہ فورا دل وجان سے حاضر ہو کر ادا کیا کرتا ہے یہی دستور الٰہی ان لوگوں میں رہا جو تم سے پہلے الٰہی احکام پہنچاتے تھے اور بات اصل یہ ہے کہ الٰہی حکم انسانی مقدور جتنا ہوتا ہے اسی لئے جو لوگ اللہ کے احکام پہنچاتے اور اسی اللہ سے ڈرتے تھے اور اس امر میں اللہ کے سوا کسی اور سے نہ ڈرتے تھے ان کی حالت بھی تعمیل ارشاد الٰہی میں یہی تھی اسی لئے وہ اللہ کے امتحان میں کامیاب ہوئے اور اللہ کے ہاں ان کا اعزاز ہوا گو لوگ ان کے مخالف تھے مگر اللہ تو ان کا حامی تھا اور اللہ تعالیٰ اکلال خود ہی حساب کرنے کو کافی ہے اسی لئے وہ اپنے بندوں کے اخلاص اور نیک اعمال کو کبھی ضائع نہیں کیا کرتا پس اس زمانہ کے لوگوں کا خیال غلط ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نرینہ اولاد نہیں اس لئے اس کا نام لیوا کوئی دنیا میں نہ ہوگا یہ شور اشوری چند روزہ ہے آخر کار بے نمکینی ہونے والی ہے ایسے لوگوں کو ان کے فضول خیالات سے روکنے کے لئے مطلع کیا جاتا ہے