يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَاءَتْكُمْ جُنُودٌ فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحًا وَجُنُودًا لَّمْ تَرَوْهَا ۚ وَكَانَ اللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرًا
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنے آپ پر اللہ کی نعمت یاد کرو، جب تم پر کئی لشکر چڑھ آئے تو ہم نے ان پر آندھی بھیج دی اور ایسے لشکر جنھیں تم نے نہیں دیکھا اور جو کچھ تم کر رہے تھے اللہ اسے خوب دیکھنے والا تھا۔
(9۔27) پس مسلمانو ! تم ابھی سے اس کی فرمانبرداری پر تیار اور مستعد ہوجائو اور اپنے حال پر اللہ تعالیٰ کی نعمت اور احسان کو یاد کرو جب تم پر چاروں طرف سے کفار کی فوجیں چڑھ آئی تھیں تو ہم (اللہ) نے ان پر تیز ہوا اور آسمانی فرشتوں کی فوجیں بھیجیں جن کو تم نے نہ دیکھا تھا کیونکہ وہ بوجہ لطافت تمہارے دیکھنے میں نہیں آسکتے تھے اور اللہ تعالیٰ تمہارے کاموں کو دیکھ رہا تھا جس ارادے سے تم کوئی کام کرتے اور محاصرہ میں جو جو حرکات تم سے سرزد ہوتی تھیں ان سب کی اللہ کو خبر تھی اور اب بھی ہے تمہیں تو یاد ہوگا کہ وہ وقت تم پر کیسا سخت تھا جب کفار تمہارے اوپر کی طرف سے اور نیچے کی طرف سے یعنی مشرق اور مغرب سے تم پر ٹوٹ پڑے تھے اور جب مارے خوف کے تمہاری آنکھیں پھری کی پھری رہ گئی تھیں اور مرے دہشت کے کلیجے منہ کو آچکے تھے اور تم اس وقت اللہ کی نسبت طرح طرح کی بدگمانی کرتے تھے ہجرت کے چوتھے سال کفار عرب نے مع یہود و نصاریٰ کے عام بلوائے کر کے مدینہ منورہ کو آگھیرا تھا اور پندرہ روز محاصرہ رکھا۔ اپنی کثرت کے گھمنڈ اور فتح کے یقین پر اتراتے ہوئے محاصرہ کئے بیٹھے رہے مگر حملہ نہ کرتے تھے کہ تکلیف اور خوف سے ان (مسلمانوں) کو مار دیں گے۔ اب ان کا مارنا ہی مشکل کیا ہے۔ مسلمان مدینۃ النبی میں محصور تھے۔ اتنی مدت میں الٰہی قدرت کے عجیب عجیب نشان ظاہر ہوئے تھے جن میں سے ایک یہ تھا کہ اللہ نے مسلمانوں کی مدد کے لئے آسمان سے فرشتے نازل کئے جن کا اس آیت میں ذکر ہے۔ رہی یہ بحث کہ فرشتے اترے یا اس سے کچھ اور مراد ہے سو اس کا ذکر پہلے جلد دوم میں بصفحہ گذر چکا ہے۔ آخرکار کفار جب اس لڑائی میں ناکام واپس ہوئے تو حضور نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ آئندہ ان کو حوصلہ حملہ کرنے کا نہ ہوگا۔ ہم ہی ان پر حملہ آور ہوا کریں گے چنانچہ یہ پیشگوئی پوری ہوگئی اس لڑائی کا نام جنگ احزاب بھی ہے اور جنگ خندق بھی (منہ) کوئی پاک باز مسلمان تو دل میں یہ سمجھتا تھا کہ اللہ تعالیٰ ضرور ہماری مدد کرے گا ہم کو جو ہمارے رسولﷺ نے خبر بتلائی ہوئی ہے وہ بے شک سچی ہو کر رہے گی مگر کوئی کمزور اور ضعیف القلب یہ بھی کہتا تھا کہ بس اب مرے سچ پوچھو تو اس وقت پکے مسلمان کی جانچ کی گئی اور وہ خوب ہی زور سے ہلائے گئے پھر جو لوگ پختہ نکلے ان کو تو دائمی وفاداری کی سند مل گئی اور جو بیوفا ثابت ہوئے ان کی بیوفائی کا اظہار ہوگیا یہ وہی وقت تھا جب منافق یعنی بیوفا دو رخے ظاہری مؤمن اور باطنی کافر اور وہ لوگ جن کے دلوں میں ضعف ایمان وغیرہ کا مرض تھا بے اختیارمنہ سے کہتے تھے کہ اللہ اور اس کے رسول نے جو فتح ونصرت کے وعدے ہم سے کئے تھے وہ محض دھوکہ اور ابلہ فریبی تھے بھلا اگر سچے ہوتے تو ہماری یہ گت کیوں ہوتی جو ہم دیکھ رہے ہیں کھانے کو دانہ نہیں پینے کو پانی نہیں اوڑھنے کو کپڑا نہیں گویا یہ مصرع ہمارے اسی حق میں ہے اس قفس کے قیدیوں کو اب و دانہ منع ہے اور کہنے کو ہم جی خوش کررہے ہیں کہ دین و دنیا میں ہماری ہی فتح ہوگی اگر یہی فتح ہے تو اللہ حافظ ! مگر ان نادانوں کو خبر نہ تھی کہ اس تکلیف کا راز کیا ہے اور اس کی وجہ کیا ہے کہ چند روزہ مسلمانوں کو تکلیف پہنچی منجملہ اور وجوہات کے ایک وجہ یہ بھی تھی کہ لوگوں کو عام طور پر معلوم ہوجائے کہ نبی اور نبی کے تابعدار بھی الٰہی کاموں میں کوئی دخل نہیں رکھتے یہاں تک کہ اپنے آپ سے بھی کوئی تکلیف دفع نہیں کرسکتے جو کچھ کرتا ہے اللہ ہی کرتا ہے نہ اس کے کئے کو پھیر سکتے ہیں اور واقعی وہ وقت بڑا ہی نازک تھا جب ان منافقوں میں سے کئی ایک گروہ مخلص مسلمانوں کو ڈرانے کی نیت سے کہتے تھے اے مدینہ کے مسلمان باشندو ! تمہارا یہاں اب ٹھکانہ نہیں ذرہ آنکھیں کھول کر تو دیکھو کہ کس طرح سے مخالف فوجوں کا ٹڈی دل آرہا ہے کچھ دیکھتے بھی ہو کیا ہورہا ہے کبوتر کی طرح تم آنکھیں بند کر لوگے تو کیا بلی بھی بند کرلیگی؟ ہرگز نہیں پس تم اپنا ٹھکانہ بنائو اور چلتے بنو بہتر ہے کہ تم اس میدان سے گھروں کو واپس چلے جائو اور یہاں دم بھر کیلئے بھی مت ٹھیرو ایک گروہ تو اس بہکانے میں لگ رہا تھا اور ایک گروہ ان میں کا نبیﷺ سے گھروں کو جانے کی اجازت مانگتا تھا کہتے تھے کہ ہمارے گھر بالکل خالی اور غیر محفوظ ہیں صرف مستورات ہی ہیں اور مخالفوں کا خدشہ ہے کہ کسی وقت حملہ آور ہو کر ہمارا مال و اسباب لوٹ نہ لے جائیں حالانکہ ان کے مکان غیر محفوظ نہیں نہ انکو کسی طرح کا خطرہ ہے بلکہ وہ اس بہانہ سے صرف بھاگنا چاہتے ہیں حال یہ ہے کہ اگر یہی مخالف فوجیں ان پر مدینہ کی طرف سے آجائیں اور ان کو فساد کی جنگ میں شرکت کی دعوت دی جاتی تو فورا اس میں کود پڑتے پھر تو شہر میں بہت کم ٹھیرتے بلکہ سنتے ہی مسلمانوں پر ٹوٹ پڑتے کیونکہ وہ تو ان کے حسب منشا ہے مگر مسلمانوں میں ملکر کام کرنا خلاف منشاء ہے حالانکہ اس سے پہلے اسی زبان کے ساتھ اللہ سے وعدہ کرچکے تھے کہ وقت پڑے پر ہرگز پیٹھ نہ دیں گے لیکن آخر کار ثابت ہوا کہ یہ لوگ قول کے پکے اور بات کے سچے نہیں مگر کیا یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ ان سے نہیں پوچھے گا؟ بے شک پوچھے گا کیونکہ اللہ کے وعدہ کا سوال ضرور ہوگا ہرگز تخلف نہ ہوگا غور کرنے سے ان کی اس بزدلی کا اصل راز یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ موت سے بچنے کے لئے ایسا کرتے ہیں پس اے نبی ! تو ان سے کہہ دے کہ موت سے یا قتل ہونے سے تم بھاگتے ہو تو یہ بھاگنا تم کو نفع نہ دے گا اور بھاگ کر بھی تم بہت ہی کم فائدہ اٹھائو گے جو قریب قریب نفی کے ہوگا اے نبی ! تو بآہستگی یہ بھی ان سے کہہ اور سوال کر کہ بھلا اگر اللہ تمہارے حق میں کسی قسم کی برائی کرے یا تم کو کوئی فائدہ پہنچانا چاہے تو اللہ سے ورے کون ہے جو اس فائدے کو تم سے روک لے یا اس کی مصیبت سے تمہاری حفاظت کرسکے اور اس کی آئی ہوئی بلا کو ٹلا دے یا رحمت کو روک دے؟ کوئی نہیں کیا تم نے نہیں سنا؟ اوست سلطاں ہر چہ خواہدآں کند عالمے رادردمے ویراں کند اس لئے کوئی بھی ان کو نہ بچا سکے گا اور اللہ کے سوا کسی کو اپنا والی اور مددگار نہ پائیں گے کیونکہ ہست سلطانی مسلم مرورا نیست کس راز ہرہ چون و چرا پس تم سن رکھو کہ تم میں سے جو خود بھی شریک کار نہیں ہوتے اور دوسروں کو بھی روکتے ہیں اور اپنے ملکی اور آبائی بھائیوں سے کہتے ہیں کہ ہماری طرف آئو اور لڑائی سے الگ رہو میاں ! دنیا میں آخر انسان کو کبھی کسی سے مطلب ہے کبھی کسی سے کام جب ہے تو کسی دنیا دار تجربہ کار نے کہا ہے بشر کو چاہئے ملتا رہے زمانے میں کسی دن کام یہ صاحب سلامت آہی جاتی ہے یقین جانو اللہ ان سب کو خوب جانتا ہے چونکہ یہ منافق لوگ تم مسلمانوں کے دل سے خیر خواہ نہیں بلکہ بد خواہ ہیں تمہارے قومی کاموں میں نہ مال سے مدد کرتے ہیں نہ جان سے اسی لئے تمہارے معاملہ میں بخل کرتے ہوئے لڑائی میں بہت کم شریک ہوتے ہیں جب کوئی خوف سامنے سے آتا ہے تو تم ان منافقوں کو دیکھتے ہو کہ ان کی آنکھیں یوں پھرتی ہیں جیسے کسی پر موت سے غشی آئی ہو یعنی حیران ششدر ہو رہتے ہیں کہ کیا کریں پیچھے ہٹیں؟ آگے بڑھیں؟ پھر جب وہ خوف چلا جاتا ہے اور بجائے تکلیف کے فتحیابی کے آثار نمودار ہوتے ہیں تو یہ منافق لوگ بدستور سابق خیر اور بہتری کی امید پر اپنے مطلب کے لئے بڑی تیز زبانی سے تمہارے ساتھ باتیں کرتے ہیں چپڑ چپڑ کر کے بولتے ہیں کہ میاں میں نے فلاں آدمی کو ایسا دھکہ دیا کہ بس چاروں شانے چت گرا کوئی کہتا ہے فلاں مشرک فلاں مومن پر چڑھا آرہا تھا میں نے جو دیکھا تو پیچھے سے ایک لگائی بس اس کا تو اسی میں کام تمام ہوگیا غرض اسی قسم کی مطلب کی باتیں کرتے ہیں حالانکہ یہ سب کچھ انکی خوشامدانہ کارروائی ہوتی ہے جو اہل بصیرت کے نزدیک ایک سفیہانہ حرکت ہے مگر یہ کیوں ایسی حرکت کرتے ہیں؟ اس لئے کہ چونکہ یہ لوگ دل سے ایمان نہیں لائے پس اللہ تعالیٰ نے انکے نیک کام بھی ضائع کر دئیے کوئی ثواب انکو نہ ملے گا کیونکہ ان اعمال صالحہ میں جب کفر وشرک کی آمیزش ہے تو کس طرح انکا صلہ انکو مل سکے؟ اسلئے سب کام کئے کرائے اکارت گئے اور یہ بات اللہ کے نزدیک بہت ہی آسان ہے کفار کی ظاہری عظمت اور بزرگی ہی تو مخلوق کے نزدیک ہے نہ کہ اللہ کے نزدیک یہ منافق لوگ بداعمالی کے علاوہ بزدل ایسے ہیں کہ ابھی تک انکو یہی خیال جم رہا ہے کہ مخالف فوجیں ابھی واپس نہیں گئیں اور اگر آج کوئی مخالف لشکر آجائے تو یہ لوگ یہی چاہیں گے کاش ہم شہر سے باہر دیہاتیوں میں بستے ہوتے وہیں سے تمہارے احوال پوچھا کرتے اور خود اس بلا میں مبتلا نہ ہوتے نہ آنکھوں سے دیکھتے اور سچ تو یہ ہے کہ اگر یہ لوگ تم مسلمانوں میں ہوتے بھی تو لڑائی میں بہت ہی کم شریک ہوتے وہ بھی اس لئے کہ ہمیں کوئی بزدل نہ کہے یا بدخواہ نہ سمجھے حالانکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود بنفس نفیس لڑائی میں شریک ہیں اور رسول اللہ بحیثیت دین کے جو کام کریں اس میں تمہارے لئے یعنی جو لوگ اللہ تعالیٰ کی ملاقات اور پچھلے دن قیامت کے روز کی بہتری کی توقع رکھتے ہیں یعنی آخری دن کے ملنے کی تیاری کرتے ہیں اور اللہ کو بہت بہت یاد کرتے ہیں رسول اللہ حضرت محمدﷺ ان کے لئے عمدہ نمونہ ہے وہ دین کے کاموں میں جو کچھ کریں اس کی پیروی کرنی تم کو واجب ہے اسی لئے تو جو لوگ پختہ ایماندار ہیں وہ ہر بات میں پیغمبر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قول و فعل کو یاد رکھتے ہیں اور اس کے پابند رہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جب پختہ ایمانداروں نے کفار کی فوجوں کو دیکھا تو کہا یہ تو وہی واقعہ ہے جس کا وعدہ اللہ اور رسول نے ہم سے پہلے ہی سے کیا ہوا ہے اور اللہ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا تھا واقعی جو کچھ فرمایا تھا وہی ہوا اس میں ذرہ بھی تخلف نہ ہوا ہم سے پہلے ہی کہہ رکھا تھا کہ ؎ در مسلخ عشق جز نکورا انکشند لاغر صفتان وزشت خورا انکشند گر عاشق صادقی زکشتن مگر یز مردار بود ہر آنچہ اور انکشند جب سے ہم کو یہ ارشاد ہوا ہے ہم تن بتقدیر تھے چنانچہ آج ہم نے بچشم خود دیکھ لیا کہ کفار کی فوجیں بے انتہا ہمارے سامنے ہیں مگر ہم اپنے ایمان پر پختہ ہیں ان کو اللہ نے تسلی بخشی اور اس مشکل واقعہ سے بھی ان کے ایمان اور تسلیم میں زیادتی ہوئی کہ الحمدللہ جیسے جیسے خام لوگ مصیبت میں گرتے گئے پختہ ایمان دار ترقی کرتے گئے ذلک فضل اللہ انہی پختہ ایمانداروں میں ایسے لوگ بھی ہیں کہ اللہ کے ساتھ جو انہوں نے جان نثاری اور فرمانبرداری کے وعدے کئے تھے اس میں وہ پورے اترے ان میں سے بعض نے اپنی کامیابی حاصل کرلی یعنی شہید ہوگئے کیونکہ انہوں نے اپنی زندگی کا اعلیٰ مقصد یہی قرار دے رکھا تھا کہ مر کر حیوۃ پائیں اور بعض ان میں کے ابھی اس انتطار میں ہیں کہ کب کوئی موقعہ ملے کہ جان دے کر جان لیویں اور انہوں نے اس وعدے میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کی کیونکہ وہ جانتے ہیں ناں اگر تو میدہی نانت دہند جان اگر تو مید ہی جانت دہند وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اس جان کا ہی نتیجہ یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ سچوں کو ان کے سچ کا نیک بدلہ دے گا اور منافقوں یعنی دور خون کو چاہے گا تو عذاب کرے گا یا ان پر رحم فرمادے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا مہربان ہے ان مومنوں کے استقلال کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ نے ان کو فتح دی اور کافروں کو غصے ہی میں بے نیل مرام واپس کیا انہوں (کافروں) نے اس مہم میں کچھ فائدہ نہ پایا اور اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو جنگ سے بچا لیا کہ بغیر لڑائی بھڑائی کے کافر چلتے بنے کیونکہ مسلمان مضبوط رہے اور ان کے مضبوط رہنے کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ چونکہ بڑا قوی اور غالب ہے اس نے ان کو قوت بخشی اور اہل کتاب یہودیوں میں سے جن لوگوں نے ان مکہ کے مشرکوں کی مدد کی تھی اور ان کا ناجائز ساتھ دیا تھا اللہ نے ان کو قلعوں میں سے باہر نکال مارا۔ اور ان کے دلوں میں ایسا رعب ڈالا کہ باوجود اچھی خاصی اور کافی تعداد ہونے کے بھی وہ کچھ نہ کرسکے حالانکہ ایک فریق کو جو تمہارے مقابلہ میں آیا اس کو تو تم قتل کرتے تھے اور مستورات بچوں اور بوڑھوں کی ایک جماعت کو تم قید کررہے تھے مگر کسی جانب سے صدائے برنخواست کوئی اف تک نہ کرتا تھا ایسے مبہوت اور مرعوب تھے کہ کاٹو تو لہو نہیں بدن میں چناں خفتہ اند کہ گوئی مردہ اند۔ اسی لئے اللہ نے تم کو ان پر فتح دی اور ان کی زمینوں مکانوں اور ان کے مالوں کا تم کو مالک کردیا جو غنیمت میں تم کو ملے اس کے علاوہ اور زمین کا بھی تم کو مالک کیا جس پر تم نے ابھی تک قدم بھی نہیں رکھا بلکہ محض اللہ کے فضل سے ایسا ہوا ہے کیونکہ تمہاری مظلومیت کی اب حد ہوگئی ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے جو چاہے کرسکتا ہے صرف حکم کی دیر ہے وہ اگر کسی مقرب بندے کو تنگ حال رکھتا ہے تو اسکی بھی کوئی حکمت ہوتی ہے اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ اللہ تعالیٰ اس کو وسعت نہیں دے سکتا بلکہ ان بندگان اللہ کو بھی ایسی ہی حالت مرغوب ہوتی ہے کہ انکو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اگر وسعت روز گار کا اختیار دیا جائے تو وہ کہتے ہیں (مدینہ منورہ میں یہودیوں کی دو قومیں بڑی سخت رہتی تھیں ایک کا نام بنی قریظہ تھا اور دوسری کا نام بنی نضیر تھا۔ دونو قومیں ہمیشہ مسلمانوں کی چلتی گاڑی میں روڑا اٹکاتی تھیں۔ یہاں تک کہ ان میں سے چند آدمی (سلام بن ابی الحقیق۔ حیی بن اخطب۔ کنانہ بن ربیع اور ابو عمار وائلی وغیرہ مل کر) مکہ والوں کے پاس آئے اور یہ واقعہ ہجرت سے چوتھے سال کا ہے مکہ والوں کو آن کر یوں بہکایا کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں آئو مل کر ان مسلمانوں کا ستیاناس کر ڈالیں۔ مکہ میں بھی بعض سردار تجربہ کار تھے انہوں نے کہا تم لوگ پڑھے لکھے ہو اور ہمارے اور مسلمانوں کے اختلاف پر بھی مطلع ہو۔ بھلا یہ تو بتائو کہ ہم دونو میں سے کس کا مذہب اچھا ہے؟ یعنی بت پرستی اچھی ہے یا اسلام اچھا ہے؟ خود مطلب یہودیوں نے باوجودیکہ ان کے مذہب میں بھی بت پرستی منع تھی صاف کہہ دیا کہ تم لوگ مسلمانوں سے اچھے ہو اور تمہارا دین بھی ان کے دین سے اچھا ہے اس کے بعد یہودیوں نے مکہ والوں کا دیو شیشے میں اتار لیا۔ یہاں تک کہ ان سے پختہ وعدہ بلکہ بیعت اس امر کی لی کہ ہم مسلمانوں کے ساتھ ضرور لڑیں گے قریشیوں سے وعدہ لے کر یہودیوں کا یہ ڈیپوٹیشن (وفد) غطفان۔ قیس اور غیلان کے قبیلوں کے پاس گیا۔ ان کو تو بس اتنا ہی کافی تھا کہ قریشیوں نے وعدہ کرلیا ہے کیونکہ ایسے معاملات میں قریش عموماً سردار تھے غرض کہ سب کو انہوں نے جنگ پر آمادہ کرلیا آخر کار قریش اور دوسری قومیں مل کر مہم عظیم کی شکل میں نکلیں قریش کا جرنیل ابوسفیان والد معاویہ (رضی اللہ عنہما) تھا اور غطفان کا جرنیل عینیہ بن حصن تھا جب ان کی خبر حضور نبوی تک پہنچی تو آپ نے بمشورہ حضرت سلمان فارسی مدینہ کے اردگرد ایک خندق کھودنے کا حکم دیا بلکہ بذات شاہان خود بھی اس خندق کھودنے میں شریک رہے آنحضرت نے ایک خط طویل کھینچ دیا اور مہاجر اور انصار (رض) کو خندق کھودنے پر مامور فرمایا۔ اس موقع پر ایک عجیب واقعہ ظاہر ہوا کہ ایک مقام پر ایک سخت پتھر ایسی طرز سے پیش آیا کہ آنجناب کے خط میں رخنہ انداز تھا اور سخت بھی تھا۔ صحابہ کرام نے اپنی طبعی اطاعت کے لحاظ سے مناسب نہ سمجھا کہ ہم باختیار خود اس خط سے جو خود سرور کائنات نے ہم کو کھینچ دیا ہے خلاف ورزی کریں اس لئے انہوں نے آنجناب کی خدمت میں اطلاع کی حضور نے بعد ملاحظہ خود اپنے ہاتھ سے اس پتھر پر ایک ضرب رسید کی تو اس میں سے ایک چمکارا سا نکلا حضور نے یہ دیکھ کر تکبیر اللہ اکبر پڑھی۔ یہ سن کر سب مسلمانوں نے تکبیر کہی۔ اسی طرح تین دفعہ ہوا آخر اس تکبیر کا سبب حضرت سلمان فارسی کے دریافت کرنے پر حضور نے فرمایا کہ پہلی دفعہ جو چمکارا سا نکلا اس سے مجھ کو مقام حیرہ اور ملک فارس کے محلات دکھائے گئے اور مجھ کو اللہ کی طرف سے بتلایا گیا ہے کہ ان محلات پر میری امت قابض ہوگی پھر جب دوسری دفعہ میں نے مارا تو اس مارنے سے جو روشنی پیدا ہوئی اس سے قیصر روم کے محلات دکھائے گئے اور کہا گیا کہ ان محلات پر تیری امت قابض ہوگی پھر تیسری دفعہ کی روشنی میں ملک صنعا کے محلات دکھائے گئے اور کہا گیا کہ یہ محلات تیری امت کو ملیں گے پس تم مسلمان خوش ہو۔ مسلمانوں نے کہا الحمدللہ اللہ کے وعدے سچے ہیں (چنانچہ ایسا ہی ہوا) یہ پیش گوئی سن کر منافقوں نے بطور طعن کے کہا کہ لو بھئی باہر پائخانہ پھرنے کو تو جا نہیں سکتے اور ملکوں کی فتح کے خواب دیکھتے ہیں مگر ان کو معلوم نہ تھا مادرچہ خیالیم وفلک درچہ خیال کارے کہ اللہ کند فلک راچہ مجال آخری وہی ہوا جو اللہ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرمایا تھا۔ خندق کے موقع پر صحابہ کرام کو کفار کی طرف سے بیشمار تکالیف پہنچیں۔ گھبراہٹ جنگ کے علاوہ قحط کی شدید تکلیف یہاں تک ہوئی کہ الامان ! ایک واقعہ اسی کے متعلق صحیح بخاری سے ہم سناتے ہیں :۔ حضرت جابر فرماتے ہیں کہ خود حضور پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیٹ مبارک پر بھوک سے پتھر بندھا ہوا تھا۔ تین روز تک ہم ایسے ہی بھوکے رہے آخر کار مجھ سے رہا نہ گیا۔ میں نے عرض کیا حضرت ! مجھے اجازت ہو تو اپنے گھر تک ہو آئوں۔ میں نے گھر میں آ کر اپنی بیوی سے کہا کہ میں نے حضور کے چہرے مبارک پر بھوک کی وجہ سے ایسی کچھ حالت دیکھی ہے کہ مجھ سے اس کے دیکھنے پر صبر نہیں ہوسکا۔ تیرے پاس اناج ہے؟ اس نے کہا کچھ جو ہیں اور ایک بکری کا بچہ ہے۔ میں نے جھٹ سے بکری کے بچے کو ذبح کیا اور اس نے وہ جو چکی میں پیس لئے۔ ہم نے ایسی پھرتی کی کہ جھٹ سے ہنڈیا چولھے پر دھر دی اور آٹا بھی گوندھ لیا۔ میں نے آ کر حضور کی خدمت میں عرض کی کہ حضور تھوڑا سا کھانا موجود ہے حضور خود اور ایک دو آدمی اور ساتھ لے چلئے۔ حضور نے پوچھا۔ کتنا ہے؟ میں نے اس کا اندازہ بتلایا کہ تھوڑا سا ہے۔ آپ نے فرمایا۔ بہت ہے۔ مجھے حکم دیا کہ جا اپنے گھر میں کہہ دے کہ جب تک میں نہ آئوں چولھے پر سے ہنڈیا مت اتاریو اور تنور میں روٹیاں مت لگائیو یعنی روٹی پکانا شروع بھی نہ کرنا۔ ادھر تو مجھ کو یہ فرمایا۔ ادھر فوج میں سب کو کھانے کے لئے فرما دیا۔ میں نے اپنی بیوی سے خفگی کے لہجے میں کہا۔ کمبخت یہ دیکھ ! آنحضرت تو تمام لشکر کے ساتھ آگئے اب کیا کرے گی؟ میری بیوی نے کہا۔ تجھ سے آنحضرت نے کچھ پوچھا تھا؟ میں نے کہا ہاں ! اس کی غرض یہ تھی کہ جب پوچھ کر لشکر کو ساتھ لائے ہیں تو خود ہی انتظام فرما دیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ آپ نے لشکر کو حکم دیا کہ اندر چلو اور گھبرا کر نہ چلو۔ آپ نے روٹیوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے اور ہنڈیا اور تنور کو اوپر سے ڈھانپ دیا اور روٹیوں کے ٹکڑوں پر گوشت اور شوربا ڈال کردیتے جاتے تھے یہاں تک کہ تمام لشکر نے سیر ہو کر کھالیا۔ پھر میری بیوی کو فرمایا۔ اب تو کھا اور اپنی سہیلیوں اور پڑوسیوں کو تحفہ میں بانٹ۔ غرض اس قسم کی تکلیفات شاقہ آپ کو اور تمام مسلمانوں کو کئی دنوں تک رہیں۔ آخر کار مکہ والوں اور بنی قریظہ اور بنی نضیر میں بھی کچھ بدگمانیاں ہوگئیں ادھر اللہ تعالیٰ نے بڑے زور کی سخت ہوا اور ملائکہ کی مدد بھیجی جس کا ذکر قرآن شریف کی ان آیات میں ہے بس اس آفت نے تو مکہ کے مشرکوں کے چھکے چھڑا دئیے اور وہ ایک ایک کر کے بھاگتے بنے اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو لڑائی بھڑائی کے بغیر ہی فتح بخشی۔ (منہ)