يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ اتَّقِ اللَّهَ وَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَالْمُنَافِقِينَ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا
اے نبی! اللہ سے ڈر اور کافروں اور منافقوں کا کہنا مت مان۔ یقیناً اللہ ہمیشہ سے سب کچھ جاننے والا، بڑی حکمت والا ہے۔
(1۔6) تفسیر سورۃ الاحزاب :۔ اے نبی ! تو ہمیشہ اللہ سے ڈرتا رہ اور دین کے معاملہ میں ظاہری کافروں اور باطنی کافروں یعنی منافقوں کی کبھی تابعداری نہ کیجئیو کیونکہ یہ لوگ ہمیشہ بری راہ ہی بتلا دیں گے ہاں دین کے علاوہ کسی دنیاوی کام میں یا دین میں بھی کسی اچھے کام کا مشورہ دیں تو اس سے انکار نہیں کرنا چاہئے کیونکہ برے آدمی یا بری قوم کے کل کام برے نہیں ہوتے بلکہ برے کام اسی قدرہوتے ہیں جو دین کے مخالف ہوں باقی امور جو دین کے مخالف نہیں وہ ضالۃ الحکیم ہیں سنو ! اللہ تعالیٰ بڑے علم والا اور بڑی حکمت والا ہے جو کچھ وہ تم کو حکم دیتا ہے وہ علم و حکمت پر مبنی ہوتی ہیں یہ لفظ ایک حدیث کا ہے جس میں آں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کلمۃ الحکمۃ ضالۃ الحکیم حیث وجدھا فھو احق بھا یعنی دانائی اور حکمت کی بات گویا مومن کی اپنی چیز ہے جہاں سے پائے وہ اس کا مستحق ہے پس اس کے لینے میں ایسی جلدی کرے جیسے کوئی اپنی چیز کو لیتا ہے (منہ) اور ان میں غلطی کی گنجائش نہیں ہوتی اسی لئے تجھ کو اے نبی ! حکم دیا جاتا ہے کہ تو اسی بات کی پیروی کیا کیجئیو جو تیرے پروردگار کی طرف سے تجھ پر نازل ہوئی ہے خوا ہدبذریعہ نص قرآن مجید یا بذریعہ وحی خفی کے جیسے حدیث شریف ہے بے شک اللہ تعالیٰ تمہارے کاموں سے باخبر ہے پس تو اے نبی ! اسی کی ہدایت پر چلا کر اور اللہ پر بھروسہ رکھا کر اور دل میں جان رکھ کہ اللہ تعالیٰ ہی کارساز کافی ہے پس تو اسی کو کارساز بنا اور دل میں ٹھان رکھ کہ اللہ کے سوا کوئی بھی نہیں جو بندوں کی حاجات کو پورا کرسکے یا کسی اڑے وقت میں ان کی فریاد کو سن سکے غرض یہ دل میں جمارکھ کہ وہ مالک ہے سب آگے اسکے لاچار کوئی نہیں اس کے گھر کا مختار بعض لوگ جو زبان سے اللہ پر توکل اور اس کی محبت کا اظہار کرتے ہیں مگر عملی طور پر وہ اس کا ثبوت نہیں دے سکتے اگر ان کے دل میں اللہ کی محبت نے جگہ پکڑی ہوتی تو مجال نہ تھی کہ کسی دوسرے کی جگہ رہتی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کسی آدمی کے لئے دو دل نہیں بنائے کہ ایک میں اللہ کی محبت ہو اور دوسرے میں کسی غیر کی دل تو ایک ہو پس اس میں دو کی گنجائش کہاں؟ کیا تم نے صوفیائے کرام کا یہ مقولہ نہیں سنا کہ العشق نار غرق ما سوی اللہ عشق الٰہی کی آگ اللہ کے سوا سب چیزوں کو بھسم کردیتی ہے غیر اللہ کی محبت رکھ کر اللہ کی محبت کا دعویٰ کرنا ایسا ہی غلط ہے جیسا کہ تم غصہ کی حالت میں اپنی بیویوں کو مائیں کہہ دیا کرتے ہو اور دوسروں کے بیٹوں کو اپنا کہہ کر پکارا کرتے ہو حالانکہ اللہ نے تمہاری بیویوں کو جن سے تم ظہار ! کرتے ہو تمہاری مائیں اور تمہارے پالکوں کو تمہارے بیٹے نہیں بنایا یہ باتیں تو صرف تمہارے منہ کی ہیں جن کی اصلیت کچھ بھی نہیں (عرب میں ایک عام دستور تھا کہ خاوند اپنی بیوی کو ماں کی پیٹھ کی طرح کہہ دیا کرتا تھا اس کو ظہار کہتے تھے پھر وہ اس عورت کو بالکل ماں کی طرح حرام سمجھتا تھا۔ ان کی اصلاح کرنے کو یہ آیت نازل ہوئی جس کا مطلب یہ ہے کہ عورت کو ماں کہنے سے ماں نہیں ہوسکتی اس کو ماں کہنا غلط ہے۔ (منہ) بھلا یہ ہوسکتا ہے کہ جن کو اللہ تعالیٰ نے نہ جوڑا ہو وہ مخلوق کے جوڑنے سے قدرتی جوڑ کی طرح جڑ جائے اور اس کے جوڑنے والے کو وہی فائدہ دے جو قدرتی جڑے ہوئے کو دیتا ہے سنو ! اللہ تعالیٰ سچ کہتا ہے اور سیدھی راہ کی ہدایت کرتا ہے چونکہ لے پالک بنانے کی رسم قانون قدرت کے خلاف ہے اس لئے اللہ تعالیٰ تم کو حکم دیتا ہے کہ تم ان لے پالکوں کو ان کے والدوں کے نام سے بلایا کرو یعنی جن کے نطفے سے ان کی پیدائش ہو انہی کے نام سے ان کو بلایا کرو نہ کہ لے پالک بنانے والے کے نام سے جن کا اس کے ساتھ بجز زبانی دعویٰ کے کوئی تعلق نہیں اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ بڑی انصاف کی بات ہے اور اگر تم ان کے باپوں کو نہ جانتے ہو مثلا وہ کسی دور دراز ملک سے یتیمی یا کسمپرسی کی حالت میں آئے ہوئے ہیں تو وہ تمہارے دینی بھائی اور مذہبی دوست ہیں پس ان کو چھوٹے بھائیوں کی طرح سمجھو اور اسی طرح بلایا کرو ہاں یہ بھی یاد رکھو کہ جن باتوں میں تم خطا کر جائو ان میں تم پر گناہ نہیں مثلاً تم نے جن بچوں کو اس حکم سے پہلے لے پالک بنایا ہوا اور تمہاری عادت ان کو بیٹا بیٹا کہنے کی ہوگئی ہو تو غلطی سے اگر کسی وقت لفظ ” بیٹا“ تمہارے منہ سے نکل جائے جو دانستہ نہ ہو تو اس میں تم کو گناہ نہیں لیکن جو کام دل کے قصد سے کرو گے اس پر مواخذہ کا خوف ہوتا ہے ہم یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ بخشنے والا رحم والا ہے اس کے رحم سے حصہ لینا چاہو تو اس کے رسول کی عزت اور تعظیم جیسی کہ تم کو اللہ سکھاتا ہے کرو کیونکہ اللہ کا نبی حضرت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسلمانوں کے حق میں ان کی جانوں سے بھی قریب تر ہے یعنی جس قدر انکی جانوں کے حقوق ١ ن پر ہیں ان سے بھی کہیں زیادہ پیغمبر کے حقوق ان پر ہیں اس کی مثال یہ سمجھو کہ کسی موقعہ پر کوئی کام ایسا درپیش آجائے کہ نبی کی عزت قائم رکھنے اور بچانے کے لئے کسی مسلمان کی جان بھی کام آئے تو مسلمان کا فرض ہے کہ ایک جان کیا سوجان کو بھی قربان کردے کیونکہ ؎ دل لیا ہے تو جان بھی لے لو ہم سے بےدل رہا نہیں جاتا چونکہ نبی کا حق مسلمانوں پر سب سے زیادہ ہے گو ماں باپ کے حقوق بھی بہت ہیں ماں باپ کے حقوق کو بھی تو نبی ہی نے بتلایا ہے نیز ماں باپ جسمانی مربی ہیں اور نبی روحانی مربی ہے جس کی تربیت کا اثر دائمی زندگی پر پہنچتا ہے اس لئے نبی کے حقوق سب سے زیادہ ہیں اور اس کی بیویاں تعظیم و تکریم میں ان مسلمانوں کی مائیں ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ باقی صلبی رشتے کچھ چیز ہی نہیں اور ان کے حقوق سب سلب ہیں نہیں بلکہ الٰہی شریعت میں اصل رشتے دار بعضے بعض کے ساتھ دیگر ایمانداروں اور مہاجروں سے قریب تر ہیں مثلاً کسی مسلمان میں ایک شخص سے سلوک کرنے کی توفیق ہے مگر اس کے سامنے دو شخص محتاج ہیں جن میں سے ایک اس کا رشتے دار اور قریبی ہے اور دوسرا اجنبی پس اس کو چاہئے کہ وہ سلوک اپنے رشتہ دار سے کرے یہ مطلب ہے اولیٰ ہونے کا واجبی حقوق ادا کرنے میں رشتہ دار سب سے مقدم ہیں لیکن تم حسب مقدور اپنے دوستوں سے کوئی سلوک کرو تو تمہیں کوئی روک نہیں تاہم مقابلہ میں رشتہ دارکا حق مقدم ہوگا الٰہی شریعت میں یہ حکم ابتداء دنیا سے اسی طرح لکھا ہوا ہے (ہماری اس تفسیر سے واضح ہوگا کہ یہ آیت نہ تو کسی آیت یا حکم کی ناسخ ہے نہ منسوخ۔ ایسی آیات کو منسوخ کہنا بعض مفسروں کی جلد بازی کا نتیجہ ہے حدیث شریف میں جو آیا ہے کہ آں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انصار اور مہاجرین کو باہم بھائی بنا دیا تھا وہ رشتۂ ولا تھا نہ کہ نسب کا۔ بھلا جو قرآن لے پالکوں کو بیٹا کہنے سے منع کرے وہی یہ حکم دے سکتا ہے؟ کہ ایک مہاجر اپنی ولدیت لکھواتے ہوئے انصار کے باپ کا نام لکھا دے یا ایک انصار اپنی ولدیت لکھواتے وقت مہاجر کے باپ کا نام بتلا دے ہرگز نہیں بلکہ اس آیت نے رشتہ ولا کو جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انصار اور مہاجرین میں مقرر اور مضبوط کیا تھا اسے اب بھی بحال رکھا ہے الا ان تفعلوآ الی اولیاء کم معروفا میں اسی طرف اشارہ ہے (منہ)