اللَّهُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن ضَعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِن بَعْدِ ضَعْفٍ قُوَّةً ثُمَّ جَعَلَ مِن بَعْدِ قُوَّةٍ ضَعْفًا وَشَيْبَةً ۚ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۖ وَهُوَ الْعَلِيمُ الْقَدِيرُ
اللہ وہ ہے جس نے تمھیں کمزوری سے پیدا کیا، پھر کمزوری کے بعد قوت بنائی، پھر قوت کے بعد کمزوری اور بڑھاپا بنا دیا، وہ پیدا کرتا ہے جو چاہتا ہے اور وہی سب کچھ جاننے والا ہے، ہر چیز پر قادر ہے۔
(54۔60) ان تیرے مخالف لوگوں کو بڑا شک قیامت کی دوبارہ زندگی میں ہے جس کے لئے ان کو چاہئے تھا کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے نشانات دیکھتے پس انکو کو کہو کہ اللہ وہی ذات پاک ہے جس نے تم کو کمزور حالت میں پیدا کیا جب تم شیر خوار نادان بچے ہوتے ہو تو کیا کچھ تم میں طاقت ہوتی ہے اور کہاں تک تم اپنے آپ سے مدافعت کرسکتے ہو ! اتنی بھی نہیں کہ چیونٹی تم کو کاٹے تو تم اس کو ہٹا سکو پھر بعد اس ضعف کے تم کو قوت دی ایسی کہ جوانی کی عمر میں تم اس طاقت پر پہنچتے ہو کہ آوازہ کستے ہو میں آج وہ ہوں کہ رستم کو بھی گرا ڈالوں پہاڑ ہووے تو اک آن میں ہلا ڈالوں پھر بعد قوت اور طاقت کے تم میں ضعف اور بڑھاپا پیدا کردیتا ہے ایسا کہ کمر پر ہاتھ رکھ کر اٹھتے ہو کبڑے ہو کر چلتے ہو ہائے جوانی ہائے جوانی کے آوازے منہ سے نکالتے ہو اس وقت تم سمجھتے ہو کہ اللہ جو چاہتا ہے پیدا کردیتا ہے اور پیدا شدہ کو جب چاہتا ہے فنا کردیتا ہے اس لئے سب مخلوق اس کے ماتحت ہے اور وہ سب کے حال کو جاننے والا بڑی قدرت والا ہے پس تم اگر اپنی بھلائی چاہتے ہو تو اسی کی حکومت کا جوا اپنے کندھوں پر اٹھاؤ اور اس قسم کے شکوک کو دل میں نہ آنے دو کہ قیامت کوئی نہیں یاد رکھو جس روز قیامت قائم ہوگی مجرم لوگ اس کا ہول دیکھ کر برزخ کا عذاب بھول جائیں گے اور قسمیں کھائیں گے کہ قبروں میں ایک گھڑی سے زائد نہیں ٹھیڑے حالانکہ عالم برزخ میں مدت مدید تک مبتلائے عذاب رہے ہونگے مگر آخرت کا عذاب دیکھ کر سب بھول جائیں گے جیسے آخرت میں حق گوئی سے دور ہوئے ہیں اسی طرح یہ لوگ دنیا میں سیدھی راہ سے بہکے ہوئے تھے مگر جن لوگوں کو علم و ایمان دیا گیا ہوگا یعنی علم اور عمل دونوں جن کے حصے میں ہوں گے وہ کہیں گے کہ اللہ کی کتاب یعنی اس کے وعدے کے مطابق تم اٹھنے کے دن تک یعنی قیامت کے روز تک یہاں عالم برزخ قبروں وغیرہ میں ٹھیرے رہے اور عذاب سہتے رہے لو بس اب یہ اٹھنے کا دن آگیا ہے لیکن تم نہیں جانتے تھے بلکہ تمہارے خیال میں اس کا تصور بھی نہ آتا تھا پس روز ظالموں کی معذرت انکو کچھ نفع نہ دے گی اور نہ انکو دنیا کی طرف واپس ہونے کی اجازت دی جائے گی کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اگر دنیا میں جانے کی ان کو اجازت مل جائے تو یہ لوگ پھر انہی کاموں میں لگ جائیں گے جن میں پہلے تھے اور وہی کام پسند کریں گے جو پہلے کرتے تھے دیکھو تو یہاں کیا کرتے ہیں ہم نے ان لوگوں کیلئے اس قرآن شریف میں ہر قسم کی مثالیں بتلائیں ہیں عقلی دلائل بتلائے تو کہیں نقلی کہیں قصص سنائے تو کہیں وعظ و نصیحت مگر ان میں سے جو لوگ ضد اور عناد پر ہیں ان میں ذرہ بھی تبدیلی نہ ہوئی بلکہ بعض کے حق میں نتیجہ اور بھی برعکس ہوا یہ اسی کا اثر ہے کہ تجھ سے معجزات مانگتے رہتے ہیں اور اگر تو کوئی نشان معجزہ کا دکھادیوے تو نہ ماننے والے کافر جھٹ سے کہتے ہیں کہ تم مسلمان تو نرے فریبئے اور دغاباز ہو ہتھکنڈوں سے ہمیں دھوکہ دینا چاہتے ہو کیا یہی تمہاری ایمانداری ہے سنو ! جس طرح ان کی حالت خراب ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ جاہلوں یعنی حق کے معاندوں کے دلوں پر مہر لگا دیا کرتا ہے پس تو انکی تکالیف پر صبر کیا کر اور دل میں یقین رکھ کہ اللہ کا وعدہ بے شک و شبہ حق ہے اور اس میں کسی طرح کا شبہ نہیں پس تو مضبوط اور مستقل مزاج رہ اور بے ایمان لوگ تجھ کو کسی طرح کا خفیف الحرکۃ اور چھچھورا نہ پائیں یعنی کسی قسم کی خفیف الحرکتی تجھ سے صادر نہ ہونی چاہئے بلکہ بڑی متانت سے رہا کر جس طرح کہ بڑے مصلح اور ریفارمر کی شان ہونی چاہئے۔