سورة الروم - آیت 42

قُلْ سِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِن قَبْلُ ۚ كَانَ أَكْثَرُهُم مُّشْرِكِينَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

کہہ دے زمین میں چلو پھرو، پھر دیکھو ان لوگوں کا انجام کیسا ہوا جو ان سے پہلے تھے، ان کے اکثر مشرک تھے۔

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(42۔53) اے نبی ! تو ان سے کہہ اگر تم اعتبار نہیں کرتے تو ملک میں سیر کرو پھر دیکھو کہ پہلے لوگوں کا انجام کیسا ہوا تھا جن میں سے بہت سے مشرک تھے اور شرک پر اڑ کر انبیاء علیہم السلام کا مقابلہ کرتے اور سخت مخالفت پر کمر بستہ رہتے تھے یہاں تک کہ ان کی تباہی کا وقت آگیا پس وہ ہلاک کئے گئے اس لئے ہم تم کو ایک ضروری حکم دیتے ہیں کہ تم اپنے آپ کو مضبوط دین اور خالص توحید پر بہت جلدی قائم کرلو اس سے پہلے کہ وہ دن یعنی روز قیامت آئے جس کو اللہ کی طرف سے ہٹنے کا حکم نہ ہوگا جب اللہ کی طرف سے التوا کا حکم نہ ہوگا تو اور کسی کی کیا مجال کہ اس کو ہٹا سکے پس وہ دن ضرور آئے گا اس روز مومن کافر سب لوگ ایک دوسرے سے الگ الگ ہوجائیں گے اس روز کے فیصلہ کا عام اصول یہ ہے کہ جس کسی نے کفر کیا ہوگا اس کے کفر کا وبال اسی کی گردن پر ہوگا اور جس نے نیک عمل کئے وہ اپنے اعمال حسنہ کا پھل پاویں گے کیونکہ وہ دنیا میں اپنے ہی لئے تیاری کرتے ہیں نتیجہ اس کا یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ ایمانداروں اور نیک کرداروں کو محض اپنے فضل سے اچھا بدلہ دے گا اور یہ تو اس کا عام قانون ہے کہ وہ کافروں سے محبت نہیں رکھتا لوگ خیال کرتے ہیں کہ کافروں سے اگر محبت نہیں رکھتا تو دنیا میں ان کو اس قدر ثروت کیوں دے رکھی ہے؟ کیوں ایک ہی دم میں سب کو ہلاک نہیں کردیتا حقیقت میں یہ خیال ان کی کم ظرفی سے پیدا ہوتا ہے مخلوق کی پرورش کرنا تو اس کی صفت ربوبیت کا تقاضا ہے اور رحمت اور محبت اس کی صفت رحمانیت کا تقاضا ہے جو اعمال صالحہ سے تعلق رکھتی ہے اس قسم کے لوگوں سے بڑھ کر ایسے لوگ بھی ہیں جو سرے سے اللہ کے وجود ہی سے منکر ہیں اور وہ اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ دنیا کا مالک (اعلیٰ حکمران) کوئی ہے ایسے لوگوں کو سمجھانے کو بتلاؤ کہ آسمان و زمین سب اسی کی قدرت کے نشانات ہیں اسی کے نشانوں میں سے یہ ہے کہ بارش سے پہلے ٹھنڈی ٹھنڈی ہواؤں کو اس غرض سے بھیجتا ہے کہ لوگوں کو خوش خبری پہنچائیں کیا قدرت کا نظارہ ہے کہ سخت دھوپ ہوتی ہے فورا ہی سرد ہوا چلنے لگتی ہے جس سے گرمی کی آگ پر گویا پانی پڑجاتا ہے اس کے بعد چھما چھم بارش آجاتی ہے تاکہ تمہاری گرمی ہٹا دے اور تم کو اپنی رحمت چکھاوے بارش کے ساتھ تمہارے لئے رزق پیدا ہوتا ہے جو اللہ کی بڑی نعمت ہے اور سمندروں اور بڑے بڑے دریاؤں میں بیڑے اسکے حکم سے چلیں کیونکہ پانی نہ ہو تو جہاز وغیرہ کیسے چلیں گے اور جہاز اس لئے چلتے ہیں تاکہ تم بذریعہ تجارت بحری کے اس کا فضل تلاش کرو یعنی ادھر کا مال ادھر لے جاؤ اور ادھر کا ادھر لے آؤ اور یہ بیان تم کو اس لئے سنایا جاتا ہے تاکہ تم شکر کرو اور سنو ! یہی سبق سکھانے کیلئے ہم نے تجھ سے پہلے اے نبی ! کئی ایک رسول ان کی قوموں کی طرف بھیجے پھر وہ ان کے پاس کھلے کھلے دلائل اور احکام لائے مگر انہوں نے ان کی تکذیب ہی کی اور مخالفت ہی پر رہے پس ہم نے ان مجرموں سے پورا بدلہ لیا اور ایمانداروں کی مدد کی کیونکہ مومنوں کی مدد کرنا ہم (اللہ) پر لازم ہے اگر ایمانداری میں مضبوط رہیں اور چند روزہ تکالیف پر صبر کریں تو اللہ کی طرف سے ضرور ان کی مدد ہوتی ہے کیونکہ وہ اللہ کے احکام کی تبلیغ کرنے میں مبتلا ہوتے ہیں اس لئے اللہ ان کے ہال سے آگاہ ہوتا ہے آخر اللہ وہی تو ہے جس کا قبضہ دنیا کی تمام چیزوں پر بھی ہے جو دنیا کے کسی بادشاہ کے قبضے میں نہیں ہیں دیکھو تو وہی ہواؤں کو وقت مقررہ پر بھیجتا ہے پھر وہ ہوائیں بادلوں کو اٹھا لاتی ہیں پھر اللہ ان بادلوں کو زمین و آسمان کے درمیانی پولان میں جس طرح سے چاہتا ہے پھیلا دیتا ہے اور کبھی ان کو ٹکڑے ٹکڑے بھی کردیتا ہے غرض کبھی ان کو ایک سطح پر پھیلا دیتا ہے کبھی متفرق ٹکڑے کردیتا ہے پھر تم دیکھتے ہو کہ ان دونوں حالتوں میں ان کے بیج میں سے بارش نکلتی ہے پھر جب اس بارش کو اپنے بندوں میں سے جن پر چاہتا ہے پہنچاتا ہے تو فورا وہ لوگ خوش ہوجاتے ہیں حالانکہ اس کے اترنے سے پہلے وہ ناامید ہوتے ہیں آسمان کو تانبے کی صورت میں دیکھ کر آس توڑے ہوتے ہیں مگر جب حکم الٰہی سے بارش ہوجاتی ہے تو باغ باغ ہوجاتے ہیں پس تم اللہ کی رحمت کے نشان دیکھو کہ کس طرح زمین کو خشک ہونے بلکہ مرنے کے بعد تازہ کردیتا ہے وہی زمین ہوتی ہے کہ تنکا بھی اس پر نظر نہیں آتا وہی ہوتی ہے کہ سبزہ زار بن جاتی ہے اس سے تم اس نتیجہ پر پہنچو کہ بے شک یہ اللہ جس نے مردہ زمین کو پانی سے زندہ کردیا ہے انسانی مردوں کو بھی زندہ کردیگا اور وہ ہر چیز پر قادر ہے انکی کیفیت بھی زمانہ کے عجائبات سے ہے کبھی تو ہمارے ایسے تابع ہوتے ہیں کہ بس جو چاہو کہہ لو فرمانبردار ہیں غلام ہیں کبھی آسایش میں مغرور ہیں تو کبھی تنگی میں سرکش آرام آسایش کرتے ہیں تو اکڑتے ہیں اور اگر کبھی ہم گرم لو ان پر بھیج دیں پھر یہ لوگ اس ہوا کے ساتھ اپنے کھیتوں کو زرد پیلا دیکھیں تو اس کے بعد یہ تو نہیں ہوگا کہ اپنے گناہوں کا اعتراف کر کے توبہ کریں بلکہ الٹے اللہ کی نعمتوں کی نا شکری کرنے لگ جائیں گے جب ان کی یہ حالت ہے تو داناؤں کے نزدیک یہ لوگ بہرے بلکہ اندھے ہیں پس تو اے نبی ! مردوں کو ہدایت کی باتیں نہیں سنا سکتا اور نہ بہروں کو آواز سنا سکتا ہے خصوصا جب وہ پیٹھ پھیر کر بھاگے جا رہے ہوں اور نہ تو اندھوں کو گمراہی سے سیدھی راہ بتلا سکتا ہے تو تو انہی لوگوں کو سنا سکتا ہے جو ہماری آیتوں پر ایمان لانے کی خواہش رکھتے ہیں تو وہ منکر تابعدار بھی ہوجاتے ہیں