وَيَوْمَ يُنَادِيهِمْ فَيَقُولُ أَيْنَ شُرَكَائِيَ الَّذِينَ كُنتُمْ تَزْعُمُونَ
اور جس دن وہ انھیں آواز دے گا، پس کہے گا کہاں ہیں میرے وہ شریک جو تم گمان کرتے تھے؟
(62۔75) اور سنو ! بدکار مشرکوں کی اس روز کیسی گت ہوگی جس روز اللہ تعالیٰ بذریعہ منادی کے ان کو پکار کر کہے گا کہ میرے شریک کہاں ہیں جن کو تم گمان کرتے تھے اور تم کہتے تھے کہ یہ ہمارے سفارشی بلکہ فریاد رس ہیں جن لوگوں پر ان کی بد اعمالی کی وجہ سے فرد جرم لگ چکا ہوگا اور وہ دنیا میں پیشواء ضلالت بنے ہونگے جیسے بتوں کے پجاری اور قبروں کے مجاور وہ کہیں گے ہمارے مولا ! یہ لوگ ہیں جن کو ہم نے گمراہ کیا تھا جیسے ہم بہکے تھے ہم نے ان کو بہکایا تھا آخر پیر نے مرید کو اور گرونے چیلے کو اپنے ہی رنگ میں رنگنا تھا اب ہم تیرے حضور میں بیزاری ظاہر کرتے ہیں اگر غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ ہم کو نہ پوجتے تھے بلکہ اپنے ہواوہوس کے غلام تھے خیر یہ ان لوگوں کا مکالمہ ہے جو شرک کی طرف بلاتے ہیں اس گفتگو کے بعد مشرکوں سے کہا جائے گا تم اپنے شریکوں کو بلاؤ جن کو تم لوگ ہمارا شریک جانتے تھے پس وہ یہ جان کر کہ شاید یہ حکم ہمارے فائدے کے لئے ہے ان کو اسی طرح پکاریں گے جس طرح دنیا میں استمداد کے وقت ان کو بلایا کرتے تھے مثلا اے اللہ کریم یسوع مسیح یا حضرت شیخ المدد وغیرہ وغیرہ مگر وہ ان کو جواب تک نہ دیں گے بلکہ بالکل خاموش رہیں گے اور مشرک عذاب دیکھیں گے تو افسوس کریں گے کہ کاش ہم ہدایت یاب ہوتے مگر وہاں کا افسوس کرنا ان کو کچھ مفید نہ ہوگا اور سنو ! جس دن یعنی قیامت کے روز اللہ تعالیٰ ان کافروں کو بلا کر کہے گا کہ تم نے رسولوں کو کیا جواب دیا تھا کہاں تک ان کی تعلیمات کو قبول کیا تھا اور کہاں تک انکار کیا تھا پس وہ یہ سوال سن کر ایسے حیران ہونگے کہ اس روز سب کچھ بھول جائیں گے ایسے کہ کوئی واقعہ سچا یا جھوٹا بھی ان کو یاد نہ رہے گا پھر لطف یہ کہ آپس میں ایک دوسرے سے پوچھیں گے بھی نہیں سو اس روز کے فیصلے کا خلاصہ یہ ہوگا کہ جس نے توبہ کی ہوگی اور ایمان لا کر نیک عمل کئے ہوں گی پس وہ شخص بہت جلد نجات یافتوں میں ہوجائیگا ان لوگوں کو راہ حق اختیار کرنے میں یہ رکاوٹ ہے کہ یہ سمجھتے ہیں رسالت کے عہدہ پر ایسا شخص کیوں مامور ہوا جو ان کے خیال میں ذی وجاہت نہیں یعنی اللہ کو چاہئے تھا کہ ان سے پوچھ کر رسول بناتا حالانکہ اللہ جو چاہے پیدا کرتا ہے اور جس کو چاہے چن لیتا ہے ان کو کسی طرح کا اختیار نہیں مخلوق کو ایسا اختیار ہوتا تو شریک نہ ہوجاتے؟ حالانکہ اللہ پاک اور بلند ہے ان کے شرک کرنے سے ابھی تو ان لوگوں کی یہ حالت ہے کہ دل انکے تیری مخالفت سے اٹے پڑے ہیں اور جو کچھ انکے دلوں میں مخفی ہے اور جو کچھ یہ ظاہر کرتے ہیں تیرا پروردگار خوب جانتا ہے کیونکہ وہ عالم الغیب ہے اور وہی اللہ یعنی معبود برحق ہے اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اسی کی تعریفیں ہیں اور سب چیزوں پر اسی کا حکم ہے اور اسی کی طرف تم رجوع ہو۔ ہر ایک امر اس کی قدرت اور اذن سے پیدا ہوتا ہے اور اسی کے اذن سے قائم ہے تمام دنیا کی حرکتیں اسی ایک سے ہیں ان کے سمجھانے کو تو ان سے کہہ کہ بتلاؤ تو اگر اللہ تم پر اس رات کو جس میں مناسب وقت تک آرام پاتے ہو قیامت تک دائمی کر دے یعنی دن کی روشنی ظاہر ہی نہ ہو بلکہ رات کی تاریکی ہی رہے تو اللہ کے سوا کون معبود ہے جو تم کو ایسی روشنی لا دے؟ کیا تم ایسی واضح دلیل بھی سنتے نہیں تو یہ بھی کہہ کہ بتاؤ اگر قیامت تک تم پر دن ہی رکھے رات آئے ہی نہی تو اللہ کے سوا کون معبود ہے جو تمہارے پاس رات لادے جس میں تم تسکین پاؤ کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ ایسی ایسی نعمتیں کون پیدا کرتا ہے اور تم اس کی کیا قدر کرتے ہو؟ اور سنو ! اس نے اپنی رحمت کاملہ سے تمہارے لئے رات اور دن کو بنایا تاکہ تم اس رات میں آرام پاؤ اور دن میں اس کا فضل روزگار کے ذریعے تلاش کرو اور یہ تم کو اس لئے سنایا جاتا ہے تاکہ تم ان نعمتوں کے شکر گذار بنو اور سنو ! جس روز اللہ تعالیٰ ان مشرکوں کو بلا کر کہے گا میرے شریک کہاں ہیں جن کو تم میرے شریک خیال کیا کرتے تھے اور اسی روز یہ واقعہ بھی ہوگا کہ ہم ہر ایک قوم میں سے ایک ایک گواہ یعنی اس امت کا پیغمبر الگ کرینگے پھر وہ سچی اور واقعی گواہی دیں گے جس سے ان مشرکوں پر فرد جرم لگ جائے گی تو ہم ان کو کہیں گے اب تم اپنی صفائی کی دلیل لاؤ جس سے تمہاری صفائی ہوسکے یا تم ان واقعات کی تکذیب کرو یا ان کی وجہ بتاؤ مگر وہ کچھ نہ کرسکیں گے پس وہ جان جائینگے کہ تمام سچی عبادتوں کا حق اللہ ہی کا ہے اور جو کچھ وہ دنیا میں اللہ پر افتراء کرتے تھے کہ فلاں شخص ہم کو چھڑا لے گا فلاں بزرگ ہماری سفارش کریگا وہ سب بھول جائیں گے اور مصیبت کے وقت کوئی بھی یاد نہ رہیگا جیسا کہ دستور ہے