وَدَخَلَ الْمَدِينَةَ عَلَىٰ حِينِ غَفْلَةٍ مِّنْ أَهْلِهَا فَوَجَدَ فِيهَا رَجُلَيْنِ يَقْتَتِلَانِ هَٰذَا مِن شِيعَتِهِ وَهَٰذَا مِنْ عَدُوِّهِ ۖ فَاسْتَغَاثَهُ الَّذِي مِن شِيعَتِهِ عَلَى الَّذِي مِنْ عَدُوِّهِ فَوَكَزَهُ مُوسَىٰ فَقَضَىٰ عَلَيْهِ ۖ قَالَ هَٰذَا مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ ۖ إِنَّهُ عَدُوٌّ مُّضِلٌّ مُّبِينٌ
اور وہ شہر میں اس کے رہنے والوں کی کسی قدر غفلت کے وقت داخل ہوا تو اس میں دو آدمیوں کو پایا کہ لڑ رہے ہیں، یہ اس کی قوم سے ہے اور یہ اس کے دشمنوں میں سے ہے۔ تو جو اس کی قوم سے تھا اس نے اس سے اس کے خلاف مدد مانگی جو اس کے دشمنوں سے تھا، تو موسیٰ نے اسے گھونسا مارا تو اس کا کام تمام کردیا۔ کہا یہ شیطان کے کام سے ہے، یقیناً وہ کھلم کھلا گمراہ کرنے والا دشمن ہے۔
(15۔21) چنانچہ ایک روز ایک ایسا واقعہ پشی آیا جس میں مخلوق سے حصرت موسیٰ کی ہمدردی کا اور طالموں کے ظلم کا ثبوت ملتا ہے وہ یہ ہے کہ ایک روز حضرت موسیٰ شہر کے اندر ایسے وقت میں آیا کہ وہاں کے لوگ دوپہر کے قیلولہ کی وجہ سے عام طور پر کاروبار سے بے خبر تھے جب موسیٰ آیا تو اس نے اس شہر میں دو آدمیوں کو لڑتے ہوئے پایا ایک ان میں کا اس کے گروہ یعنی بنی اسرائیل سے تھا اور اس کے مخالفوں یعنی فرعون کی قوم قبطیوں سے تھا پس جونہی کہ انہوں نے موسیٰ کو دیکھا تو جو اس کی قوم سے تھا یعنی اسرائیلی اس نے موسیٰ سے اس کے دشمن کے گروہ والے یعنی فرعونی کے بر خلاف مدد چاہی کیونکہ فرعونی‘ اسرائیلی کو مار رہا تھا حضرت موسیٰ نے بھی دیکھا کہ واقعی اس کی زیادتی ہے تو اس نے اسے ایک مکا مارا گو مکا تو ایک معمولی تھا مگر اتفاقا اس کو ٹھکانے لگا جس نے اس کا کام تمام کردیا یعنی وہ مر گیا حصرت موسیٰ (علیہ السلام) اسی وقت وہاں سے بھاگ نکلے اور خیریت سے ڈیرہ پر پہنچ گیا وہاں پہنچ کر اسے سخت ندامت ہوئی کہ یہ کیسی بری حرکت مجھ سے ہوئی ہے کہ ناحق معمولی سی بات پر خون ہوگیا اس لئے اس نے کہا یہ تو شیطانی حرکت ہے بے شک وہ صریح بہکانے والا دشمن ہے اس لئے دعا کرتے ہوئے اس نے کہا اے میرے پروردگار ! تحقیق میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا کہ ناحق مجھ سے خون ہوگیا تو مجھے بخش دے پس اللہ نے اسے بخش دیا کیونکہ موسیٰ کا اخلاص کمال کو پہنچا ہوا تھا اور اللہ تعالیٰ بھی بڑا بخشنہار مہربان ہے موسیٰ نے کہا اے میرے پروردگار چونکہ تو نے مجھ پر بڑا انعام فرمایا کہ مجھ کو خاندان نبوت میں پیدا کیا اور مجھ کو ایمان سے مشرف فرمایا اپنی معرفت سے تو نے مجھے بہت بڑا حصہ دیا اس لئے میں ائندہ کو کبھی کسی مجرم کا مددگار نہ بنوں گا حضرت موسیٰ کو اس سے معلوم ہوا ہوگا کہ اسرائیلی قصور وارے اس لئے اس نے ایسا کہا پھر بعد اس کے جب شہر میں اس خون کی شہرت ہوئی تو حضرت موسیٰ صبح کو ڈرتے ڈرتے شہر میں گیا انتظار ہی میں تھا کہ کوئی سرکاری آدمی آیا کہ آیا اتنے میں اس کی نظر پڑی تو ناگاہ وہی شخص جس نے کل ہی اس سے مدد چاہی تھی آج پھر اس کو پکار رہا ہے کہ ہائے موسیٰ دیکھنا یہ دشمن مجھے مار رہا ہے حضرت موسیٰ تو کل ہی اس کی حرکت کو سمجھ گئے تھے کہ نالائق ہے اور قسم بھی کھاچکا تھا پھر وہ بھلا کیوں اس کی مدد کرتا اس لئے اس نے اسے کہا کچھ شک نہیں کہ تو ہی صریح بدمعاش ہے پھر جب غورو فکر کے بعد معلوم ہوا کہ نہیں اس معاملہ میں یہ اسرائیلی مظلوم ہے اس لئے موسیٰ نے اس فرعونی کو پکڑنا چاہا جو ان دونوں کا دشمن تھا تو اس فرعونی اس سے پہلے کہیں سے سن پایا تھا کہ کل جو خون ہوا ہے وہ موسیٰ نے کیا ہے جیسا کہ عام دستور ہے افواہ ہوجاتی ہے گو یہ افواہ عدالت میں جرم ثبوت ہونے کو کافی نہ ہو مگر عام طور پر اس کی شہرت ہوتی ہے اس لئے اس نے خوفزدہ ہو کر کہا اے موسیٰ کیا تو مجھے بھی قتل کرنا چاہتا ہے جیسا تو نے کل ایک آدمی کو بلا وجہ مکا مار کر مار ڈالا اے موسیٰ! کیا تیرا یہی ارادہ کہ تو ملک میں سرکشی کرے اور تو نہیں چاہتا کہ بھلے آدمی میں سے ہو کر رہے جو سب ملکی بھائیوں کو ایک نظر سے دیکھتے ہیں موجودہ بائیبل میں قرآن مجید سے جہاں اور بعض مقامات میں اختلاف ہے یہاں بھی ہے۔ بائیبل میں اس قصے کو یوں بیان کیا ہے :۔ جب وہ (موسیٰ) دوسرے دن باہر گیا تو کیا دیکھتا ہے کہ دو عبرانی آپس میں جھگڑ رہے ہیں تب اس نے اس کو جو ناحق پر تھا کہا کہ تو اپنے یار کو کیوں مارتا ہے وہ بولا کہ کس نے تجھے ہم پر حاکم یا منصف مقرر کیا۔ تو چاہتا ہے کہ جس طرح تو نے اس مصری کو مار ڈالا ہے مجھے بھی مار ڈالے۔ تب موسیٰ ڈرا اور کہا کہ یقینا یہ بھید فاش ہوا۔“ (خروج ٢ باب کی ١٣) عبرانی بنی اسرائیل کو کہتے تھے بائیبل کے بیان سے معلوم ہوا کہ دونو اسرائیلی تھے مگر قرآن مجید میں دوسرے دن کے لڑنے والوں میں سے ایک کو ان دونو (موسیٰ اور اسرائیلی) کا مشترک دشمن کہا ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ اسرائیلی نہ تھا بلکہ فرعونی یعنی قبطی تھا چونکہ بمقابلہ (قرآن مجید کے بائیبل کی تحریر عام طور پر مشتبہ ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ اس کا راقم معلوم نہیں کون ہے چنانچہ تورات کی پانچویں کتاب استثناء ٢٣ باب میں موسیٰ کے مرنے اور مرتے وقت تک اس کی عمر ایک سو بیس سال تک ہونے اور صحیح تندرست ہونے کا ذکر ہے پھر اس سے مدت دراز بعد یہ فقرات تورات میں درج ہوئی چنانچہ لکھا ہے کہ اب تک بنی اسرائیل میں کوئی نبی موسیٰ کی مانند نہیں اٹھا (٣٤ باب کی ١٠) اس ” ابتک) کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ موسیٰ کو انتقال ہوئے مدت مدید گذر چکی ہے تاہم یہ فقرات توریت میں درج ہیں اس سے ثابت ہوا ہے کہ موجودہ تورات لکھنے والوں نے اس بات کا التزام نہیں کیا تھا کہ خاص الہامی عبارات یا واقعات موسوی بھی لکھے جائیں بلکہ انہوں نے ہر قسم کے واقعات لکھ دئیے ہیں ابھی یہ تحقیق باقی ہے کہ لکھنے والا کون تھا یہی کیفیت انجیل کی ہے پھر یہ کیونکر باور ہوسکتا ہے کہ تورات اور قرآن کے اختلاف کی صورت میں تورات کا بیان مقدم سمجھا جائے پس جو کچھ قرآن مجید میں ہے وہ مقدم ہے وللتفصیل مقام اخر۔ بس اس کے کہنے کی دیر تھی کہ تمام شہر میں بجلی کی طرح خبر پھیل گئی پولیس تو پہلے ہی تلاش میں تھی فورا اس نے دربار فرعونی تک خبر پہنچائی دربار مذکور اس سے پہلے بھی بوجہ پہنچنے مختلف رپورٹوں کے حضرت موسیٰ سے بدظن تھا۔ اس لئے بعد مشورہ قرار پایا کہ موسیٰ سے چونکہ کئی ایک ناشائستہ حرکات ہوئی ہیں یہاں تک کہ اس نے ایک شخص کا خون بھی کردیا ہے اس لئے موقع اچھا ہے جو انصاف کے بھی خلاف نہیں پس اس کو قتل کردینا چاہئے چنانچہ دربار کی طرف سے احکام جاری کئے گئے ادھر قدرت نے اس کے بچانے کے احکام جاری کر دئیے چنانچہ ایسا ہوا کہ ایک آدمی شہر کے پرلے سرے سے خبر پا کر دوڑتا ہوا آیا اس نے موسیٰ کو دربار فرعونی کے مشورے کی اطلاع دی اور کہا اے موسیٰ فرعونی رئیس تیرے حق میں باہمی صلاح و مشورہ کررہے ہیں کہ جس طرح بن پڑے تجھے قتل کردیں پس تو اس شہر سے نکل جا کچھ شک نہیں کہ میں تیرے حق میں خیر خواہ ہوں موسیٰ سلام اللہ علیہ تو پہلے ہی خائف بیٹھا تھا پس وہ ڈرتا ہو شہر سے نکلا اس تاک میں تھا کہ کہیں کوئی جاسوس نہ آپہنچے اللہ سے دعا کرتے ہوئے اس نے کہا کہ اے میرے پروردگار ! تو مجھے ان ظالموں کی قوم فرعونیوں سے نجات بخش گو موسیٰ نے خون کیا تھا مگر چونکہ وہ خون بلا قصد تھا ایسے خون میں قاتل کو قتل کرنا ظلم ہے اس لئے حضرت موسیٰ نے ان کو ظالم کہا