اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ ۖ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ ۖ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوقَدُ مِن شَجَرَةٍ مُّبَارَكَةٍ زَيْتُونَةٍ لَّا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ ۚ نُّورٌ عَلَىٰ نُورٍ ۗ يَهْدِي اللَّهُ لِنُورِهِ مَن يَشَاءُ ۚ وَيَضْرِبُ اللَّهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ ۗ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے، اس کے نور کی مثال ایک طاق کی سی ہے، جس میں ایک چراغ ہے، وہ چراغ ایک فانوس میں ہے، وہ فانوس گویا چمکتا ہوا تارا ہے، وہ (چراغ) ایک مبارک درخت زیتون سے روشن کیا جاتا ہے، جو نہ شرقی ہے اور نہ غربی۔ اس کا تیل قریب ہے کہ روشن ہوجائے، خواہ اسے آگ نے نہ چھوا ہو۔ نور پر نور ہے، اللہ اپنے نور کی طرف جس کی چاہتا ہے رہنمائی کرتا ہے اور اللہ لوگوں کے لیے مثالیں بیان کرتا ہے اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔
(35۔40) اس کی ایک مثال تم کو سناتے ہیں کان لگا کر سنو ! اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمینوں کا نور ہے اس کے نور کی مثال ایک طاق کی طرح ہے جس میں ایک چراغ ہے مگر وہ چراغ ایسے ہی نہیں بلکہ شیشے میں ہے وہ شیشہ بھی کیسا سبحان اللہ ایسا شفاف و صاف ہے کہ گویا وہ چمکیلا ستارہ ہے جو زیتون کے مبارک درخت کے تیل سے جلتا ہے جو پہاڑ سے نہ پورب کی جانب ہے نہ پچھم کی بلکہ عین بیچ و بیچ ہے اس کا تیل ایسا صاف شفاف ہے کہ خود بخود جلنے کو ہوتا ہے خواہ آگ اسے نہ چھوئے اسی کے حق میں صحیح ہے کہ کہا جائے کہ نور علی نور ہے یعنی ایک تو اس تیل کی ذاتی صفائی اور دوسرے اس کی شفاف روشنی تیسرے شیشے کی چمک یہ سب باتیں مل جل کر ایک دوسرے کی ایسی معاون ہوئی ہیں کہ نور علی نور بن گیا ہے پس یہی مثال ہے اللہ کے نور یعنی عشق کی جس طرح یہ روشنی تمام ظلمات پر غالب آتی ہے اسی طرح اللہ کے عشق کی آگ تمام مظلمات ہیولانیہ اور خواہش نفسانیہ کو دور کردیتی ہے یہی معنی‘ میں صوفیائے کرام اس قول کے جو کہا کرتے ہیں العشق نار عشق الٰہی ایک ایسی آگ ہے جو اللہ کے سوا سب کچھ خاکستر کردیتی ہے۔ (منہ) تحرق ما سوی اللہ جو لوگ عشق الٰہی کے نور سے منور ہوگئے ہیں وہ تمام چیزوں سے روگردان ہوچکے ہیں حتیٰ کہ ان کو حسب ونسب کا بھی خیال نہیں کیا تم نے نہیں سنا کہ وہ کیا کہتے ہیں ؎ بندہ عشق شدی ترک نسب کن جامی کہ دریں راہ فلاں ابن فلاں چیزے نیست وہ تو اس قدر عشق الٰہی میں مست الست ہوتے ہیں کہ بجز ذات محبوب حقیقی کے کسی چیز پر ان کی نظر نہیں ٹکتی بلکہ اجسام مادیہ کو بھی وہ اس نظر سے دیکھتے ہیں کہ ازیں بتاں ہمہ درچشم من تو مے آئی بہر کے مے نگرم صورت قومے نگرم اللہ تعالیٰ اپنے نور یعنی حقیقی عشق کی طرف جسے چاہے راہ نمائی کرتا ہے پھر اس کی اعلیٰ منزل پر پہونچ کر دائمی راحت میں ہوجاتے ہیں جہاں پر یہ انعام میں روح وریحان و جنت نعیم مت سمجھو کہ یہ آگ تو جسمانی ہے جسمانیات کو ڈہانپ لیتی ہے کیا اللہ بھی جسم ہے؟ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ لوگوں کو سمجھانے کے لئے مثالیں بتلاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کو ہر ایک چیز کا علم ہے اسی لئے تو اسکی کتاب جامع ہے اور اس مثال واضح تر مثال مذکور کا تتمہ ہنوز باقی ہے کہ وہ قندیل ایسے گھروں میں رکھی ہے جن کے حق میں اللہ کا حکم ہے کہ ان کو بلند کیا جائے اور ان میں اس اللہ کا نام ذکر کیا جائے اور وہ گھر ایسے ہیں کہ ان میں صبح شام اللہ کے نیک بندے تسبیحیں پڑھتے ہیں وہ ایسے بندے ہیں جن کو خرید وفروخت اللہ کے ذکر سے نماز پڑھنے اور زکوٰۃ دینے سے غافل نہیں کرسکتی دنیاوی کوئی کام بھی کریں ان کاموں کو نہیں بھولتے کیونکہ وہ جو کام کرتے ہیں مالک کی اجازت سے کرتے ہیں اس لئے جس وقت اور جس گھڑی مالک کی اجازت ان کو حاصل ہوتی ہے کام کرتے ہیں اور جس وقت نہیں ہوتی نہیں کرتے گویا ان کا اصول یہ ہے ؎ راضی ہیں ہم اسی میں جس میں تیری رضا ہے اسی لئے وہ کر کرا کر بھی اپنی نیک کرداری پر نازاں نہیں ہوتے بلکہ اس قیامت کے دن سے ڈرتے ہیں جس میں دل اور آنکھیں مارے خوف کے دگر گوں ہوجائیں گی مگر ان کے خوف کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اللہ ان کے عملوں کا بہتر سے بہتر بدلہ دے گا اور ان کو اپنے فضل سے ان کے استحقاق سے زیادہ دے گا اور یہ تو عام طور پر سب کو معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہے بغیر حساب کے رزق دیتا ہے تاہم یہ قاعدہ بھی اپنے لئے محل رکھتا ہے وہ یہ ہے کہ جو لوگ اس فضل کے اہل ہیں انہی کو دیتا ہے مگر اہل نااہل کا جاننا بھی اسی کا کام ہے تمہارا نہیں اور سنو ! جو لوگ اللہ اور اللہ کے حکموں سے منکر ہیں ان کے اعمال جو تم دیکھتے ہو کہ وہ بڑا کام کیا فلاں تعلیمی صیغہ میں اتنا چندہ دیا۔ فلاں ہسپتال بنانے میں اتنی امداد دی جس کا نام وہ قومی کام رکھتے ہیں چونکہ وہ صرف محض ننگ و نمود اور فخر و ریا کیلئے ہوتے ہیں اس لئے وہ ایسے دھوکہ کی ٹٹی ہے جیسے چٹیل میدان میں چمکتا ہوا ریت کہ پیاسا اس کو پانی سمجھتا ہے اور اس کی طرف دوڑتا ہے یہاں تک کہ جب اس کے پاس آتا ہے تو اسے مفید مطلب کچھ نہیں پاتا اور مارے پیاس کے تڑپ تڑپ کر مر جاتا ہے تو بعد الموت اللہ ہی کو اپنے پاس پاتا ہے پھر اللہ اس کو پورا حساب دیتا ہے جس لائق ہوتا ہے وہی معاملہ اس سے کیا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ بہت جلد حساب کرنے والا ہے آن کی آن میں تمام دنیا کو جزا و سزا دے سکتا ہے یا ان کے اعمال ایک ایسی چیز کی طرح ہیں جو گہرے دریا میں اندھیروں کے اندر ہے جس کے اوپر پانی کی موج ہے اس پر پھر ایک موج ہے اور اس موج سے اوپر بادل ہیں غرض ایک دوسرے کے اوپر اندھیرے اس کثرت سے ہیں کہ جب کوئی شخص اپنا ہاتھ نکالتا ہے تو اسے دیکھ نہیں سکتا یہ مثال ان کے نیک اعمال کی ہے یعنی جس طرح ایسے اندھیروں میں کوئی چیز پڑی ہو تو وہ محض باکیر ہے اسی طرح ان کے اعمال کفر شرک بد اعتقادی میں ایسے گھرے ہوئے ہیں کہ کہیں ان کا نام و نشان بھی نظر نہیں آتا اور نہ کچھ سود مند ہوسکتے ہیں گویا وہ اپنی ہستی میں معدوم ہیں اور اصل بات یہ ہے کہ جس کو اللہ ہی نور نہ دے اس کو کہیں سے بھی نور کا سہارا نہیں مل سکتا جو لوگ اس بات کو جانتے ہیں اور دل سے مانتے ہیں کہ دنیا کا کل نظام اور ترقی اور تنزل کا کل مدار اسی اللہ کے ہاتھ میں ہے وہ اسی کے ہو رہتے ہیں