وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِ فَقَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُ ۖ أَفَلَا تَتَّقُونَ
اور بلاشبہ یقیناً ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا تو اس نے کہا اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمھارا کوئی معبود نہیں، تو کیا تم ڈرتے نہیں؟
(23۔31) اور تم سے پہلے لوگوں کو بھی یہی حکم تھا اسی حکم کی تبلیغ کرنے کیلئے ہم نے حضڑت نوح سلام اللہ علیہ کو اس کی قوم کی طرف نبی کر کے بھیجا تو اس نے بھی یہی کہا کہ بھائیو ! اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں کیا تم اس سے ڈرتے نہیں پس یہ سن کر اس کی قوم کے سرداروں نے جو اس کی تعلیم سے منکر ہوچکے تھے جواب میں کہا کہ لوگو ! یہ نوح ! تو تمہاری ہی طرح ایک آدمی ہے پھر یہ نبی اور رسول کیسے بنا مزیت اس میں کیا ہے؟ کچھ نہیں ہاں یہ چاہتا ہے کہ کسی طرح تم پر اپنی بزرگی ثابت کرے اور برتر بنے بھلا ہم کیا ایسے ہی عقل سے خالی ہیں کہ ایسے سیدھے سادھے خالی خولی آدمی کو رسول مان لیں اگر اللہ چاہتا اور اسے منظور ہوتا کہ لوگ اس کے توحید کے قائل بنیں تو وہ آسمان سے فرشتے اتارتا نہ کہ ہمارے جیسا ایک آدمی بھیجتا اسی لئے تو ہم نے اپنے پہلے بزرگوں میں یہ بات نہیں سنی کہ کسی نے بھی یہ کہا ہو کہ آدم زاد اللہ کے رسول ہو کر آیا کرتے ہیں یہ تو محض ایک مجنون آدمی ہے جس کے دماغ کو کچھ صدمہ ضرور پہنچا ہے عجب نہیں کہ ہمارے معبودوں کو برا کہنے کی رجعت اس پر پڑی ہو پس تم اس کے متعلق شورا شوری سے گھبرائو نہیں بلکہ ایک وقت تک صبر کرو جب تک یہ خود ہی ہلاک ہوجائے مخالفوں کی یہ باتیں کئی ایک دفعہ سن سن کر حضرت نوح ان کے ایمان لانے سے مایوس ہوا۔ تو آخر کار اس نے کہا اے میرے پروردگار جس بات میں انہوں نے مجھے جھٹلایا ہے تو اس پر میری مدد کر پس نوح کے دعا کرنے کی دیر تھی کہ ہم نے اس کی طرف وحی بھیجی کہ تو ہمارے سامنے اور ہمارے الہام سے ایک بیڑی بنا پھر جب ہمارا حکم ان کی ہلاکت کے متعلق پہنچے اور زمین پانی سے پھٹ کر جوش میں آئے اس کی تحقیق سورۃ ہود میں گذر چکی ہے۔ حضرت علی (رض) نے یہی معنے کئے ہیں۔ قاموس میں تنور کے معنے وجہ الارض بھی ہیں۔ ١٢ منہ تو تو ہر ایک جاندار کی قسم میں سے جو تیرے کارآمد ہوسکیں وہ دو صنف (نرمادہ) اور اپنے متعلقین کو اس بیڑی پر چڑھا لینا لیکن ان میں سے جس پر بوجہ اس کی بد عملی اور بے ایمانی کے غضب الٰہی کا حکم لگ چکاہو اسے نہ چڑہائیو اور ظالموں کے حق میں مجھے مخاطب نہ کیجئیو کہ اللہ ! فلاں کو بخش دے خبردار ! یہ سن رکھیو کہ انہوں نے ضرور بالضرور غرق ہونا ہے ایسا نہ کہ تیری دعا یوں ہی بیکار جائے یہ مناسب نہیں پھر جب تو اور تیرے ساتھ والے بیڑی پر سوار ہوجائیں تو دعا کرتے ہوئے کہئیو کہ سب تعریفیں اللہ ہی کو ہیں جس نے ہم کو ظالموں کی قوم سے نجات دی اور محض اپنی رحمت سے ہم کو ظالموں کی قوم سے نجات دی اور محض اپنی رحمت سے ہم کو اس عام عذاب سے رہائی بخشی اور تو یہ بھی کہئیو اے میرے پروردگار ! مجھ کو کسی بابرکت جگہ پر اتاریو کیونکہ تو ہمارا متولی اور سب سے بہتر اتارنیوالا ہے چنانچہ ہم (اللہ) نے ان کو نہایت عمدہ بابرکت جگہ پر اتارا جہاں پر ان کی تمام محتاج چیزیں ان کو مل سکتی تھیں بے شک اس بیان میں قدرت الٰہی کے کئی ایک نشان ہیں اور ہم ان لوگوں کو جانچنے والے تھے کہ ان کا نیک و بد ظاہر کردیں جیسے جیسے عمل کریں ویسا ان کو بدلہ دیں چنانچہ اسی غرض سے ان کے بعد ہم نے اور لوگ پیدا کئے