يَا أَيُّهَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوا لَهُ ۚ إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ لَن يَخْلُقُوا ذُبَابًا وَلَوِ اجْتَمَعُوا لَهُ ۖ وَإِن يَسْلُبْهُمُ الذُّبَابُ شَيْئًا لَّا يَسْتَنقِذُوهُ مِنْهُ ۚ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوبُ
اے لوگو! ایک مثال بیان کی گئی ہے، سو اسے غور سے سنو! بے شک وہ لوگ جنھیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو، ہرگز ایک مکھی پیدا نہیں کریں گے، خواہ وہ اس کے لیے جمع ہوجائیں اور اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین لے وہ اسے اس سے چھڑا نہ پائیں گے۔ کمزور ہے مانگنے والا اور وہ بھی جس سے مانگا گیا۔
(73۔78) پس لوگو ! شرک سے بچو۔ شرک ہی سے روکنے اور اس پر متنبہ کرنے کو ایک مثال بتائی جاتی ہے پس تم اسے کان لگا کر سنو ! وہ یہ ہے کہ اللہ کے سوا جن لوگوں سے تم دعائیں کرتے ہو کسے باشد نبی ہو یا ولی مسیح ہو یا عزیر‘ پیر ہو یا فقیر‘ وہ لوگ ایک مکھی بھی نہیں بنا سکتے اگرچہ وہ سب کے سب اس کے لئے جمع ہوجائیں بلکہ اور سنو ! اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین لے مثلا وہ کچھ کھا رہے ہو اور مکھی اس میں سے کچھ منہ میں لے کر اڑ جائے تو وہ اس سے واپس نہیں لے سکتے تو نتیجہ کیا ہوا یہی کہ ان کے طالب یعنی ان سے دعائیں مانگنے والے اور یہ مطلوب یعنی معبود جن سے دعائیں مانگی جاتی ہیں سب کے سب کمزور ہیں طالب عقل کے بودے ہیں تو مطلوب قدرت میں ضعیف سچ جانو تو ان مشرکوں نے اللہ کی قدر جیسی چاہئے تھی نہیں کی کیونکہ اپنی حاجات پیغمبروں سے طلب کرنے لگ گئے حالانکہ اللہ تعالیٰ بڑا ہی زبردست سب پر غالب ہے باوجود غلبہ قدرت کے وہ بندوں کے حال پر بڑا مہربان ہے اس کی مہربانی ہی کا نتیجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بندوں کی ہدایت کیلئے فرشتوں سے رسول منتخب کرتا ہے جو بنی آدم کے انبیاء کی طرف آتے ہیں اور بنی آدم کے لوگوں میں سے رسول کر کے انسانوں کی ہدایت کیلئے مامور فرماتا ہے تاکہ لوگ ہدایت پاویں کچھ شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ بڑا ہی سننے والا دیکھنے والا ہے یہ تو اس کی قدرت سمع اور بصر کا بیان ہے علم اس کا اتنا وسیع ہے کہ جو چیزیں ان لوگوں کے آگے کی اور پیچھے کی یعنی جو واقعات ان کے وجود میں آنے سے پہلے کے ہیں یا ان سے پیچھے کے وہ سب کو جانتا ہے اور حکومت کی یہ کیفیت ہے کہ سب امور اللہ ہی کی طرف پھیرے جاتے ہیں گویا ان سب گاڑیوں کا انجن وہی ہے دنیا کی تمام کائنات کیا جوہر کیا عرض سب کے سب اسی مبدء فیض سے وابستہ ہیں بالکل سچ ہے اوچو جان است وجہاں چوں کا لبد کالبد ازدے پذیر وآلبد اسی لئے وہ ماننے والے بندوں کو فرماتا ہے کہ اے ایمان والو ! اللہ کے آگے رکوع سجود کرو اور اپنے پروردگار کی عبادت کرو اور نیک کاموں میں لگے رہو تاکہ تمہارا بھلا ہو اور تم مراد کو پہونچو اور اللہ کی راہ اور اس کے دین میں ایسی کوشش کرو جو اس کا حق ہے جان سے مال سے اور یہ سمجھو کہ ناں اگر تو مید ہی نانت دہند جان اگر توجید ہی جانت دہند دیکھو اسی نے تم کو برگزیدہ کیا کہ عرب جیسے وحشی ملک کے باشندے ہو کر تم بڑی بڑی سلطنتوں کے مالک بنو گے مگر بپا بندی دین اس نے تمہارے لئے دین اسلام کو پسند کیا اور دین کے احکام میں تم پر کوئی تنگی نہیں کی تکلیف ہو تو حکم ملتوی کردیا جاتا ہے کھڑے ہو کر نماز نہ پڑھ سکو تو بیٹھ کر پڑھ لو بیٹھ کر نہ پڑھ سکو تو لیٹ کر پڑھ لو۔ بیماری اور مسافری میں تکلیف ہو تو روزہ ملتوی ہے پس تم اپنے باپ یعنی عرب کے مورث اعلیٰ ابراہیم کا دین اختیار کرو جو اللہ تعالیٰ کا برگزیدہ تھا اسی اللہ نے اس کتاب سے پہلے اور اس کتاب قرآن میں تمہارا نام مسلمان رکھا ہے پس تم مسلمان یعنی اللہ کے فرماں بردار بنے رہو تاکہ تم عزت پائو اور جو وعدے فتح و نصرت کے تم سے کئے گئے ان کا ظہور ہو اور رسول تم پر اور تم عام لوگوں پر حکمران ہوجائو اور قیامت کے روز کافروں کے انکار پر انبیاء کی تبلیغ کی شہادت دے سکو اور تمہاری شہادت معتبر مانی جائے پس تم نماز قائم رکھو اور مال کی زکوٰۃ دیتے رہو اور بڑی بات یہ ہے کہ تم اللہ ہی سے چنگل مارو اور اسی کا سہارا ڈھونڈو اور اسی کے ہو رہو لگائو تو لو اس سے اپنی لگائو جھکائو تو سر اس کے آگے جھکائو وہی تمہارا مولا ہے وہی سب سے اچھا مولا ہے اور سب سے اچھا مددگار یا مولا فکر حساب ہمارے گناہ بے حد کا الٰہی تجھ کو غفور و رحیم کہتے ہیں عدو کہیں نہ کہیں دیکھ کر ہمیں محتاج یہ ان کے بندے ہیں جن کو کریم کہتے ہیں