سورة طه - آیت 98

إِنَّمَا إِلَٰهُكُمُ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ وَسِعَ كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

تمھارا معبود تو اللہ ہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، اس نے ہر چیز کو علم سے گھیر رکھا ہے۔

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(98۔135) لوگو اس سارے بیان کا نتیجہ سنو کہ تمہارا سب کا حقیقی معبود اور سچا مالک صرف اللہ پاک ہے جس کے سوا کوئی دوسرا معبود زمین پر نہ آسمان پر کہیں بھی نہیں یہ اس کے استحقاق الوہیت کی کیفیت ہے اسی لئے تو اس کا علم اتنا بڑا وسیع ہے کہ تمام دنیا کی چیزوں گذشتہ اور آئندہ سب پر حاوی ہے اس سے نتیجہ پائو کہ معبود برحق کیلئے عالم الغیب ہونا خاصہ ہے کسی مخلوق میں علم غیب کا خیال کرنا گویا اس کو معبود ماننا ہے اسی طرح یعنی جیسا کہ تجھ کو موسیٰ ہارون اور بنی اسرائیل کا قصہ سنایا ہے ہم واقعات گذشتہ حسب موقع تجھ کو اے رسول سناتے رہیں گے کیونکہ گمراہوں کو ہدایت پر لانے کیلئے واقعات گذشتہ کا سنانا بھی ضروری ہے اور چونکہ ہم (اللہ) نے تجھ کو اپنے پاس سے ایک نصیحت کی کتاب قرآن عطا کی ہے اس لئے اس کو ذہن نشین کرنے کیلئے ضروری ہے کہ پہلے لوگوں کے قصے جو دین اور مذہب سے تعلق رکھتے ہوں سنائے جائیں تاکہ ان کو غور اور فکر کرنے کا موقع ملے چونکہ قرآن شریف جو تیرے پر اے نبی الہام ہوا ہے ایک جامع اور کامل کتاب ہے اسی لئے جو لوگ اس سے روگردان ہوں گے وہ قیامت کے دن گناہوں کا بوجھ اٹھاویں گے ایسے کہ کسی طرح اس سے ان کی رہائی نہ ہوگی بلکہ ہمیشہ ہمیشہ اسی بوجھ کے نیچے دبے رہیں گے وہ بوجھ بھی کوئی معمولی بوجھ نہ ہوگا بلکہ قیامت کے روز وہ بوجھ ان کا بہت ہی برا ہوگا ایسا کہ یاد کریں گے یہ واقعہ اس روز ہوگا جس دن صور پھونکا جائے گا یعنی سب لوگ جمع کئے جاویں گے اور ہم مجرموں بدکاروں شریروں بدبختوں کو اس روز نیلی آنکھوں والے بنا کر اٹھائیں گے ایسے بد شکل ہونگے کہ دیکھنے والے کو دہشت آوے گی۔ اسی ہال میں آپس میں چپکے چپکے کہتے ہوں گے کہ دنیا میں تو ہم شاید کوئی ہفتہ عشرہ ٹھیرے ہوں گے پھر یہ کمبختی ہماری کیوں آئی گویا ان کا اس وقت یہ خیال ہوگا خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا اسی قسم کی بہکی بہکی باتیں کریں گے جو کچھ کہیں گے ہم (اللہ) خوب جانتے ہیں جب ان میں سے بڑا صاف گو اور راست رو یوں کہے گا کہ نادانو ! تم ہفتہ عشرہ کہتے ہو تم تو ایک ہی دن دنیا میں رہے ہو ارے یہ بھی کوئی عشرہ ہے کہ آج ہیں تو کل کا یقین نہیں کل ہوں گے تو پرسوں کی خبر نہیں۔ اے کاش ہم اس وقت اس بات پر مطلع ہوئے ہوتے۔ اور اس وہشت ناک حالت کو دل پر لگاتے اور یہ جانتے کہ دنیا روز چند عاقبت با اللہ تعالیٰ ورنہ کہنے کو تو سب کہا کرتے تھے جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے مگر افسوس کہ یہ بات ہمارے دل پر اثر نہ کرتی تھی اسی لئے یہ لوگ اس وقت تو سب کے سب مان جائں۔ گے مگر اب جو ایمان بالغیب کا موقع ہے اپنا وقت ہاتھ سے دیتے ہیں اور قیامت کا ذکر سن کر اور یہ سن کر کہ ایک روز ایسا آئے گا کہ دنیا تمام فنا ہوجائے گی نہ کوئی جاندار رہے گا نہ بے جان از راہ مخول اور ہنسی کے تجھے پہاڑوں کی بابت سوال کرتے ہیں کہ یہ اتنے بڑے قد و قامت والے کہاں جائیں گے کیا یہ سب ایک دم فنا ہوجائیں گے ؟ تو انکو کہہ کہ میرا پروردگار ان سب کو ایک دم اڑا کر زمین چٹیل میدان کر دے گا ایسی کہ تم اس میں کسی قسم کی کجی دیکھو گے اور نہ بلندی پستی بالکل صاف میدان ہوجائے گا اس روز قیامت قائم ہوگی اور اللہ کی طرف سے پکارنے والا سب کو پکارے گا تو سب لوگ اس پکارنے والے کی آواز کے پیچھے چلے گے جس سے ذرہ بھر ادھر ادھر نہ ہوں گے بلکہ سیدھے جدھر سے آواز آوے گی اسی طرف جائیں گے اور باوجود اتنے ازدحام اور کثرت مخلوق کے یہ کیفیت ہوگی کہ کوئی چوں بھی نہیں کرسکے گا تمام آوازیں اللہ رحمان کے خوف سے دب گئے ہوں گے باوجود اس کی صفت رحمانیت کے اس قدر خوف اور دہشت دلوں پر طاری ہوگی کہ آواز بھی نہ نکال سکیں گے پس تو بغیر آہٹ پائوں کے کوئی آواز نہ سنے گا بلکہ ایک سناٹے کا عالم ہوگا اس روز کسی کی سفارش یا منت سماجت کچھ نفع نہ دے گی ہر ایک کو اپنی ہی جان کے لالے پڑے ہوں گے ہاں جس کے حق میں اللہ رحمن اپنی رحمت کاملہ سے اجازت دے گا اور اس کی بات اسے پسند بھی آئی ہوگی یعنی توحید کا قائل اور شرک سے متنفر رہا ہوگا۔ اس کو بحکم الٰہی سفارش سے فائدہ ہوگا یہ بھی نہیں کہ اللہ کو کسی کے کہنے سننے سے دھوکہ لگ جائے ایسا کہ لائقوں کو نالائق اور نالائقوں کو لائق بنادے۔ ہرگز نہیں کیونکہ وہ ان انسانوں کے آگے پیچھے کی سب باتیں جانتا ہے اور لوگ سارے کے سارے اس آئندہ اور گذشتہ بات کو کسی طرح نہیں جان سکتے اور سنو ! یہاں تو یہ اکڑفوں دکھا رہے ہیں اس لئے کہ اللہ کی طرف سے بھی ان کی رسی دراز ہے مگر اس روز ساری مخلوق زندہ اللہ اور دنیا کے مالک اور منتظم حقیقی کے آگے منہ کے بل گرے ہوں گے گڑگڑاتے عاجزی کرتے اپنے گناہوں کی معافی چاہتے ہوں گے مگر وہاں کا تو قانون ہی اور ہے جس کی اطلاع پہلے ہی سے تم کو کی گئی ہے سنو ! خلاصہ اس کا یہ کہ نیک بخت اپنے عملوں کا بدلہ پاویں گے اور جنہوں نے بدکاریاں اور اللہ کی بے فرمانیاں کر کے اپنی گردنوں پر ظلم اٹھائے ہوں گے وہ ذلیل و خوار ہوں گے اور اللہ کے ہاں عام قاعدہ ہے کہ جو کوئی اللہ پر ایمان لا کر نیک کام کرے گا وہ کسی طرح کے ظلم اور نقصان سے نہ ڈرے گا کیونکہ جو کچھ کسی نے کیا ہوگا اس کو پورا پورا ملے گا۔ اس لئے کہ ہماری (اللہ کی) جناب میں اگر انصاف نہ ہوگا تو کہاں ہوگا اسی طرح ہم نے تم کو یہ باتیں بتلائی ہیں اور ہم نے قرآن شریف عربی زبان میں نازل کیا اور اس میں بدکاریوں پر ہر طرح کے ڈرائو بیان کئے ہیں تاکہ یہ لوگ کامل پرہیز گار بنیں یا اس قرآن سے ان کو کچھ نصیحت آوے بقول سعدی مرحوم گر عالم نباشی کم از مستمع کچھ نہ کچھ تو نہیں پس اس قرآن کی تعلیم کا یہ نتیجہ سمجھو کہ اللہ تعالیٰ جو سچا بادشاہ ہے نہ دنیا کے بادشاہوں کی طرح ہے جس کو رعیت معزول کردے بلکہ ایسا کہ چاہے تو تمام رعیت کو ایک دم میں فنا کر دے اور بہت بلند ہے ہر طرح کے عیوب سے پاک ہے مجال نہیں کہ اس کے دامن قدس تک کسی عیب کا غبار بھی پہنچ سکے پس تو اسی کا ہو رہ اور اسی سے مدد چاہا کر اور کسی کام میں جلدی نہ کیا کر بلکہ بقول سب کام اپنے کرنے تقدیر کے حوالے نزدیک عارفوں کے تدبیر ہے تو یہ ہے سب کچھ اسی کے سپرد کر کے یہاں تک کہ قرآن جو تیری طرف وحی اور الہام کیا جاتا ہے اس کی وحی تیری طرف ختم ہونے سے پہلے اس کے لینے میں بھی جلدی نہ کیا کر (جبرئیل جس وقت آیت قرآنی لاتے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سناتے تو آپ جلدی جلدی ساتھ ساتھ پڑھتے مبادا کہ بعد میں بھول جائوں اس واقعہ کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی سمجھایا گیا کہ ایسی جلدی کرنے کی ضرورت نہیں یہ کام ہمارے سپرد کرو۔ ) ہاں اللہ کی طرف سے رحمت اور بخشش کا منتظر رہا کر اور دعا کرنے کو کہا کر کہ میرے پروردگار ! مجھے علم زیادہ دے یعنی اور بھی اسی طرح احکام قرآنی نازل فرما اور اپنے الہام اور القاء خاص سے مجھے مسرور اور محفوظ کر ہمیشہ احکام اللہ کی تعمیل کیا کر اور اگر غلطی یا بھول چوک سے کوئی بات رہ جائے تو اس کا علاج توبہ اور استغفار ہے کیونکہ بھول چوک تو بنی آدم کی جبلت میں ہے تمہیں یاد نہیں ہم نے تم سے پہلے تمہارے باپ آدم کی طرف ایک حکم بھیجا تھا پھر وہ بھول گیا اور ہم نے اس کو مضبوط نہ پایا تفصیل اس کی یہ ہے کہ جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ چونکہ آدم ہمارا بندہ علم وفضل میں تم سب سے بڑھ کر ہے اس لئے تم اس کو سجدہ کرو یعنی سلام و نیاز اس کے سامنے بجا لائو جیسے عموماً ما تحت افسروں سے کیا کرتے ہیں۔ پس اتنا سنتے ہی سب فرشتوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس یعنی شیطان سرکش نے انکار کیا اور انکار کی وجہ یہ بیان کی کہ میں اس سے اچھا ہوں بھلا اعلیٰ ادنیٰ کو کیونکر سلام و نیاز کرے ایسی الٹی گنگا کبھی چلی ہے پھر تو یہاں تک اس کی نوبت پہنچی کہ ہم نے یہ ابلیس کو تو لعنتی کیا اور آدم کو تنبیہ کرنے کو کہا کہ اے آدم سن رکھ کچھ شک نہیں کہ یہ ابلیس تیرا اور تیری بیوی بچوں سب کا صریح دشمن ہے پس ایسا نہ ہو کہ تجھے کسی جال میں پھنسا کر کہیں جنت سے نکلوا دے پھر تو بد نصیب ہوجاوے گا اس وقت تو تیرے لئے جنت میں ہر طرح کی آسائش اور راحت ہے … نہ تو اس جنت میں تو بھوکا ہوگا کہ تکلیف اٹھاوے اور نہ ننگا ہوگا کہ لوگ تیرے شرمگاہ کو دیکھیں نہ تجھے اس میں پیاس کی تکلیف ہوگی اور نہ دھوپ کی سختی غرض ہر طرح کا آرام ہر طرح کی آسائش جہاں کسی طرح کی تکلیف کا نام و نشان بھی نہ ہوگا پھر بھی باوجود اس تنبیہ اور اعلان کے شیطان نے اس کو اس طرح پھسلایا کہ آدم سے کہا اے آدم کیا میں تجھ کو ایک سدا بہار درخت اور دائمی ملک کا پتہ نہ دوں کہ اس کے کھانے سے اسی جگہ ہمیشہ رہنے لگ جائے اور سچ پوچھو تو اللہ نے تم کو منع بھی اس لئے کیا تھا کہ تم اس کے کھانے سے کہیں اسی جہان کے دائمی مقیم یا فرشتے نہ بن جائو۔ یہی اس کے منع کرنے کا بھید ہے ورنہ دراصل اس کا کھانا کوئی ایسا قبیح امر نہیں ہے پس ان دونوں آدم اور حوا نے اس درخت میں سے کچھ کھالیا۔ کیوں کھایا؟ صرف ایک تاویل سے کھایا کہ اس ممانعت کی علت وہی سمجھے جو شیطان نے ان کو سمجھائی مگر یہ ان کو خیال نہ رہا کہ دشمنان کہن دوستاں نو کردن بدست دیو بود عقل را گروکردن پس ان کے کھانے کی دیر تھی کہ فورا عتاب الٰہی ان پر نمودار ہوا کہ ان کی شرمگاہیں ننگی ہوگئیں کیونکہ جنت کا لباس فاخرہ ان سے چھینا گیا تھا پس وہ ننگے نہنگے حیران ہوگئے اور اس باغ کے درختوں کے پتے لے کر اپنے بدن پر لپیٹنے لگے اور آدم نے چونکہ اپنے پروردگار کی بے فرمانی کی گو غلط فہمی سے کی تاہم چونکہ اس کا اثر ظاہر ہونا تھا پس وہ اسی وجہ سے بھٹک گیا حیران سرگردان پھرنے لگا دشت وبیابان میں ہاتھ لمبے کر کے دعائیں کرتا رہا پھر اس کے پروردگار نے اخلاص کے مطابق اس کو برگزیدہ کیا اور اس پر رحم فرمایا اور اس کو ہدایت کی یعنی اس کی توبہ قبول کرلی پس آدم نے قبولیت توبہ کی اطلاع پا کر درخواست کی کہ ہم کو اسی جنت میں پھر داخل کیا جاوے جس سے ہم کو بد اعمال کے سبب تنزل ہوا ہے چونکہ ہمارا قصور معاف ہوگیا ہے اس لئے ہم پر مہربانی ہو کہ ہم پھر اپنے اصلی مقام پر پہونچیں اللہ نے کہا نہیں اب تم دونوں میاں بیوی اس جنت سے اترے رہو کیونکہ مقصود الہی ہے کہ تم سے دنیا کو آباد کرے تم یعنی تمہاری اولاد کو ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے یہاں باہمی بعض و عناد رکھنے والوں کی جگہ نہیں بقول بہشت آنجا کہ آزارے نباشد کسے رابا کسے کارے نبا شد پس اس کے حاصل کرنے کی صورت یہ ہے کہ میں دنیا میں تمہاری اولاد کی ہدایت کیلئے رسول اور کتابیں بھیجوں گا پھر اگر تم کو میری طرف سے ہدایت پہنچے پس جو کوئی میری ہدایت کا پیرو ہوگا وہ نہ گمراہ ہوگا نہ بد نصیب اور جو کوئی میری نصیحت سے اعراض کرے گا اور منہ پھیرے گا پس اس کی خیر نہیں اس کی تمام زندگی بد نصیبی ہوگی جتنا جلے گا اتنا ہی جان پر وبال لے گا جس کا انجام یہ ہوگا کہ آخرکار دنیا سے کوچ کرتے وقت سیاد دل ہو کر چلے گا اور قیامت کے روز ہم اس کو اندھا بے نور کر کے اٹھائیں گے گو بعد کچھ مدت کے دیکھنے لگ جائے گا اس وقت کہے گا اے میرے پروردگار مجھے تو نے اندھا کر کے کیوں اٹھایا حالانکہ میں سو انکھا تھا اللہ بذریعہ فرشتوں کے کہے گا اسی طرح تیرے پاس ہمارے احکام پہنچے تھے ہماری قدرت کے نشان تو نہ دیکھے تھے۔ پھر بھی تو ان کو بھول گیا۔ اسی طرح آج تیری بھی خبر نہ لی جائے گی جو کوئی اپنی حد عبودیت سے تجاوز کرے اور اپنے پروردگار کے احکام پر ایمان نہ لاوے اس کو ہم (اللہ) اسی طرح بدلہ دیں گے اور ایسے کریں گے کہ یاد کرے گا۔ کیونکہ آخرت کا عذاب بہت ہی سخت اور دائمی ہے افسوس ہے کہ ان نالائقوں کو کوئی بات بھی ہدایت نہیں کرسکتی کیا اور نہیں تو یہ بھی ان کو ہدایت نہیں کرتا کہ اس امر پر غور کریں کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی قوموں کو ہلاک کیا کہ اب یہ ان کی جگہوں اور بستیوں میں چلتے پھرتے ہیں ان کے کھنڈرات کو دیکھ رہے ہیں کچھ شک نہیں کہ اس واقعہ میں عقلمندوں کے لئے بہت سے ہماری قدرت کے نشان ہیں واللہ یہ ایسی جہالت اور ضلالت میں ہیں کہ اگر تیرے پروردگار کا حکم تاخیری اور اجل مقرر نہ ہوتی تو اسی دنیا میں ان کو عذاب الٰہی چمٹ جاتا پس یہ لوگ کفاروعرب جو کچھ بھی تیرے حق میں کہتے ہیں کہ جادوگر ہے ساحر ہے جنونی ہے اس پر صبر کر اور مضبوط رہ آخر تیرے ہی نام کی فتح ہے اور سورج کے نکلنے اور غروب سے پہلے اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ اس کی پاکی بیان کیا کر اور رات کے وقتوں میں اور دن کی طرفوں میں بھی اس کی پاکی بیان کیا کر یعنی سبحان اللہ والحمد للہ پڑھا کر تاکہ تو اللہ کے انعامات سے مالا مال ہوجائے اور اس تعبدی حکم کے علاوہ یہ حکم بھی ضرور ہے کہ تو دنیا کے مال و متاع سے ایسا زہد اختیار کر کہ جو کچھ ہم نے ان لوگوں میں سے مختلف قسم کے لوگوں کو متاع و اسباب دنیا سے بہرہ ور کیا ہے اس کی طرف اپنی آنکھیں دراز نہ کیجئیو یعنی آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھیو ہم نے ان کو اس لئے دیا ہے تاکہ ہم ان کو اس مال کی وجہ سے مصیبت میں مبتلائے فتنہ کریں دنیا میں یا آخرت میں غرض ہر طرح واللہ یہ بالکل سچ ہے ؎ آنانکہ غنی ترند محتاج ترند تیرے پروردگار کا رزق جتنا وہ اپنی مہربانی سے عنایت کرے سب سے اچھا اور باقی رہنے والا ہے جتنا وہ دے اسی پر قناعت ہو اور زیادہ طلبی کیلئے بے صبری نہ ہو تو بس سمجھو کہ تمام دنیا کو لے لیا کیا تم نے نہیں سنا کہ شیخ سعدی مرحوم نے کیا کہا ہے مطلب گر توانگری خواہی جز قناعت کہ دولت سنت نتی پس تو ایسا ہی کیا کر اور اپنے اہل و عیال کو بھی اخلاق فاضلہ بتلایا کر خصوصا نماز کا حکم کیا کر اور خود بھی اس پر مضبوط رہیو ایسا کہ کبھی نہ ٹلے ہم (اللہ) تجھ سے رزق تو نہیں مانگتے بلکہ ہم تجھ کو رزق دیتے ہیں اور خوب یاد رکھ کہ انجام کار تقویٰ اور پرہیز گاری ہی کا غلبہ ہے اللہ کے ہاں ہمیشہ سے یہی قانون ہے کہ اہل تقویٰ ہی آخر کار کامیاب ہوتے ہیں لیکن یہ لوگ ہر وقت ضد پر کمر بستہ ہیں اور باوجود متعدد اور مختلف نشانات دیکھنے کے کہتے ہیں کہ کیوں نہیں یہ نبی اپنے پروردگار کے ہاں سے کوئی ایسی نشانی لاتا جو ہم چاہتے ہیں کہ آسمان کے ٹکڑے کر دے یا زمین کو پھاڑ دے یا اوپر چڑھ کر کوئی لکھی لکھائی کتاب آسمان کے اوپر سے لے آ پھر ہم تم کو مانیں گے بھلا یہ بھی کوئی بات کرنے کی ہے کیا ان کے پاس پہلی کتابوں کے صاف صاف مضمون نہیں پہنچے کہ راست گو کی راستی سب سے بڑی دلیل ہے پھر کیوں غور نہیں کرتے اور اللہ کی اس نعمت کی بے قدری کرتے ہیں جو اس نے رسول بھیج کر ان پر احسان کیا ہے اور اگر ہم اس رسول کے آنے سے پہلے ان کی بد اعمالیوں پر ان کو ہلاک کردیتے تو یہ لوگ عذر کرتے ہوئے کہتے کہ اللہ تعالیٰ تو نے ہماری طرف کیوں نہ رسول بھیجا کہ ذلیل اور خوار ہونے سے پہلے تیرے حکموں کی تعمیل کرتے اب جب کہ رسول آگیا تو اس کی پرواہ نہیں کرتے بلکہ تکذیب کرتے ہیں تو کہہ کہ ہم تم سب انتظار میں ہیں ہم اپنی ترقی کے اور تم اپنی فتح کے پس انتظار کرو۔ عنقریب جان لوگے کہ کون سیدھی راہ پر ہیں اور کون ہدایت والے ہیں۔