سورة مريم - آیت 3

إِذْ نَادَىٰ رَبَّهُ نِدَاءً خَفِيًّا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

جب اس نے اپنے رب کو چھپی آواز سے پکارا۔

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(3۔40) جب اس نے اپنے پروردگار کو آہستہ آہستہ پکارا اور دعا کرتے ہوئے کہا کہ اے میرے پروردگار میری ہڈیاں سست ہوگئیں اور میرا سر بڑھاپے سے سفید ہوگیا مگر اولاد سے آج تک بے نصیب ہوں اس لئے دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اپنے اس ناچیز بندے کو محروم نہ رکھ اور میرے پروردگار میں قوی امید رکھتا ہوں کہ تو میری دعا کو قبول کرے گا کیونکہ میں آج تک تیرے حضور میں دعا کر کے کبھی نامراد نہیں رہا بلکہ ہمیشہ تو اپنی مہربانی اس ناچیز بندے کے حال پر کیا کرتا ہے پس میں اب بھی تیری ہی جناب میں دست دراز ہوں اور میں اپنے بعد اپنی برادری اور کنبے کے لوگوں سے ڈرتا ہوں کہ دین میں فتنہ ڈالیں گے اور خدمت دینی کو چھوڑ دیں گے کیونکہ مجھے ان کے چال چلن پر اعتماد نہیں ادھر میں دیکھتا ہوں تو اپنے آپ کو بالکل کمزور پاتا ہوں اور میری بیوی بھی بانجھ ہے پس تو ہی محض اپنے فضل سے اپنے پاس سے مجھے ایک فرزند عطا کر جو میرا اور یعقوب کے گھرانے کا وارث ہو یعنی اسرائیلی علم کی حفاظت اور خدمت کرے اور اے میرے پروردگار تو اس کو نیک اعمال کی توفیق بخشیو ایسی کہ اس کو اپنی جناب میں پسندیدہ کیجئیو اور وہ تیری رضا کو حاصل کرنیوالا ہو ہم (اللہ) نے اس کی دعا قبول کی اور پکارا کہ اے زکریا ہم تجھے ایک لڑکے کی خوش خبری دیتے ہیں جس کا نام یحییٰ ہوگا اور یہ بھی بتلاتے ہیں کہ اس سے پہلے اس نام کا ہم نے کوئی آدمی پیدا نہیں کیا یہ پکار سن کر حضرت زکریا کو طبعاً ایک سوال پیدا ہوا اس لئے اس نے کہا کہ اے میرے پروردگار میرے ہاں تو ہر قسم کے اسباب مفقود ہیں پھر اس صورت میں میرے ہاں لڑکا کیسے ہوگا میری عورت بھی بانجھ ہے اور میں بھی انتہائی بڑھاپے کو پہونچ چکا ہوں میں تیری قدرت میں تو شک نہیں کرتا تو جو چاہے پیدا کر دے مگر گذارش صرف یہ ہے کہ اس پیش گوئی اور خوشخبری کے معنے حقیقی مراد ہیں؟ جیسے کہ ظاہر اور متبادر ہیں یا کوئی تاویلی اور مجازی کہ شائد کسی امتی کے ہاں اس وصف کا لڑکا عنایت ہو اور دین کی خدمت میں میرا کہلائے کیونکہ میں بحیثیت نبی اور رسول ہونے کے امت کا باپ ہوں اس لئے مزید تشفی چاہتا ہوں فرشتہ جو خوشخبری لے کر اس کے پاس آیا تھا اس نے کہا بات اسی طرح ہے لیکن تیرے پروردگار نے فرمایا ہے کہ میں تیری صلب سے بیٹا پیدا کروں گا اور یہ کام مجھ پر آسان ہے کچھ مشکل نہیں گو اسباب سب مفقود ہیں تاہم میں کرسکتا ہوں اس کے اسباب بھی پیدا کردوں گا میرے ہاں پر ایک بات قاعدے سے ہے مگر مخلوق کو اس قاعدے پر اطلاع نہیں ہوسکتی دیکھ تو میں نے اس سے پہلے تجھے پیدا کیا حالانکہ تو کچھ بھی نہ تھا یہ معقول جواب سن کر زکر یا کے شبہات رفع ہوگئے اس لئے اس نے کہا اے میرے پروردگار میرے لئے اس پر کوئی نشان مقرر فرما جس سے مجھے مزید تسلی ہوجائے اللہ نے فرمایا تیری نشانی بس یہ ہے کہ جس روز تیرے گھر میں حمل ٹھہرے گا اس روز سے تین روز تک تو باوجود صحیح سالم ہونے کے لوگوں سے کلام نہ کرے گا پھر یہ سن کر ہشاش بشاش خوش و خرم گھر میں گیا پھر حسب معمول اپنے حجرے سے قوم کی طرف آیا تو واقعی کلام نہ کرسکا پس ان کو اشارہ سے سمجھا یا کہ صبح شام اللہ کی تسبیحات پڑھا کرو خیر یہ مدت بھی گذری اور یحییٰ کے حمل کے دن بھی گذر گئے چنانچہ یحییٰ پیدا ہوا تو ہم نے اسے کہا کے اے یحییٰ! تو کتاب آسمانی کو قوت سے پکڑیو چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا اور ہم نے اسے لڑکپن ہی میں محکم بات کی لیاقت اور فہم و فراست دیدی اور نرم دلی اور پاک طینتی اپنے فضل سے عطا کی اور وہ بڑا ہی پرہیز گار تھا اور ماں باپ سے بڑا سلوک کرنے والا تھا اور سرکش بے زبان نہ تھا یہی تو اس کی پسندیدگی کے نشان تھے اور اسی لئے تو اس پر اس کی پیدائش کے روز اور موت کے دن اور جس دن وہ زندہ اٹھایا جائے گا تینوں موقعوں میں اس پر سلامتی نازل ہوئی اور وہ ان تینوں موقعوں میں سلامتی کے ساتھ نکل گیا اس قصے کے اجمال ہی پر قناعت کر اور کتاب اللہ قرآن مجید میں مریم علیہا السلام کا ذکر کر اور لوگوں کو سنا تاکہ دونوں فریقوں کے گمان غلط ثابت ہوں یعنی یہود جو اس کی نسبت زنا اور بدکاری کی تہمت لگاتے ہیں اور عیسائیوں کا ایک فرقہ اس کو معبود بنائے بیٹھا ہے اور حضرت مسیح (علیہ السلام) کو تو کھلم کھلا اللہ اور اللہ کا بیٹا قرار دیتے ہیں اس لئے ان کی غلط گمانی اور غلط فہمی دور کرنے کو مریم اور مسیح کی ولادت کا اصل قصہ سنا جب وہ اپنے گھر والوں سے اپنے گھر کی مشرقی جانب میں الگ ہو بیٹھی اور لوگوں سے پردہ کی اوٹ کرلی تو ہم نے اس کے پاس اپنا فرشتہ جبرئیل بھیجاتو وہ ہو بہو آدمی کی شکل بن کر اس کے سامنے آگیا۔ مریم نے بھی اسے آدمی ہی سمجھ کر کہا کہ اللہ تجھ سے پنا دے اگر تو بھلا مانس اور پرہیز گار ہے تو الگ ہوجا شریفوں کا کام نہیں کہ الگ اماکن میں غیرمحرم عورتوں کے سامنے اس طرح آکھڑے ہوں فرشتہ نے کہا تو کیا سمجھی ہے میں تو تیرے پروردگا کا ایلچی ہوں اللہ نے مجھے بھیجا ہے کہ میں تجھے ایک پاک طینت لڑکا دوں یعنی اللہ کی داد کی خبر تجھے بتلائوں کیونکہ میں تو صرف ایلچی ہوں بیٹوں کا دینا دلانا تو اس مالک کا کام ہے یہ نہ سمجھنا کہ میں دوں گا نہیں بلکہ اس کے دینے کی تجھے خوش خبری دیتا ہوں مریم حیران ہوئی کیونکہ ہنوز باکرہ تھی بولی بھلا مجھے لڑکا کیسے ہوسکتا ہے مجھے تو کسی مرد نے جائز طریق سے نہیں چھوا اور نہ میں بدکار ہوں اولاد ہونے کے تو یہی دو طریق ہیں کہ یا تو حلال زادی ہو یا حرامزادی حالانکہ یہاں دونوں باتیں نہیں فرشتہ نے کہا بات بھی ایسی ہی ہے کہ نہ تو تو بدکار ہے نہ تیری کسی سے شادی ہوئی ہے بلکہ اصل راز اور ہے تیرے پروردگار نے کہا ہے کہ وہ کام مجھ پر آسان ہے فرماتا ہے کہ ہم ایسا ہی کریں گے تاکہ اس کو لوگوں کیلئے اپنی قدرت کاملہ کی نشانی بنادیں تاکہ لوگوں کو معلوم ہوسکے کہ سلسلہ کائنات جو اللہ نے بنایا ہے اللہ اس کے خلاف پر بھی قادر ہے اور اس خلاف کیلئے بھی اس کے ہاں قانون اور قواعد ہیں جو متروک نہیں ہوتے۔ گو لوگوں کی نظروں میں وہ خلاف قانون یا سپر نیچرل ہوں لیکن حقیقت میں وہ سپر نیچرل نہیں بلکہ عین نیچرل ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ نیچر اور قانون قدرت بس یہی ہے جو ہم دیکھ رہے ہیں حالانکہ ہمارے مشاہدہ کے خلاف بھی بسا اوقات ہوجاتا ہے اور ہم اس کو دنیا کے لوگوں کے لئے اپنی طرف سے رحمت بنا دیں گے اور یہ بات ازل سے فیصلہ شدہ ہے یہ کہہ کر فرشتہ تو چلا گیا پس مریم کو حمل ہوا اور وہ قریب وضع کے اس حمل کو لے کر الگ مکان میں چلی گئی پھر وہ درد زہ کی وجہ سے ایک کھجور کے درخت کے پاس پہنچی تو درد کی تکلیف سے چلاتی ہوئی بولی ہائے میری کمبختی میں اس سے پہلے ہی مری ہوتی اور دنیا کے لوگوں میں معدوم ہو کر بھولی بسری ہوگئی ہوتی آج میرا نام بھی کوئی نہ جانتا پس یہ درد ناک آواز سن کر اللہ کا فرشتہ آیا تو اس نے اسے اس کھجور کے درخت سے نیچے کی جانب سے پکارا کہ مریم ہوش کر اللہ کو یاد کر غم نہ کر اللہ تیرے ساتھ ہے اس نے تیرے نیچے پانی کا چشمہ جاری کر رکھا ہے پس تو خوش ہو اور کھجور کے درخت کو اپنی طرف ہلا وہ تجھ پر ترو تازہ کھجوریں گرائے گا پس تو اسے کھائیو اور پانی پیجئیو اور بچے سے آنکھیں ٹھنڈی کیجئیو۔ غم کی کیا بات ہے پھر اگر کسی آدمی کو تو دیکھے تو اس کے بولنے بلانے پر اشارے سے کہدیجو کہ میں نے تو اللہ کیلئے چپ رہنے کی نذر مانی ہے پس میں تو ہرگز اج کسی آدمی سے نہ بولونگی پھر وہ اس بچے کو اپنی قوم کے پاس اٹھا لائی انہوں نے یہ ماجرہ دیکھ کر کہ اس باکرہ لڑکی کو لڑکا کیسے پیدا ہوا کہا اے مریم تو نے یہ بہت ہی نالائق حرکت کی ہے اے ہارون کی بہن تیرا نام تو مریم ہے جو ہارون نبی کی بہن کا نام تھا تجھے اس نام کی بھی شرم نہ آئی کہ ایسی بد کاری کی مرتکب ہوئی تیرا باپ کوئی برا آدمی نہ تھا تیری ماں بدکار نہ تھی پھر تو کیوں ایسی بدکار ہوئی جو یہ لڑکا بے نکاحی حالت میں اٹھا لائی ہے پس مریم نے چونکہ بحکم اللہ خاموشی کی نذر مان رکھی تھی اس لئے اس نے اس بچے کی طرف اشارہ کیا کہ اس سے پوچھو وہ بولے کہ یہ اور شوخی ہے بھلا ہم ایسے بچے سے کیسے بولیں اور سوال کیسے کریں جو ابھی گہوارے میں کھیل رہا ہے ایسا کبھی ہوا ہے۔ بات سنتے ہی اس بچے نے کہا تم بھی عجب آدمی ہو کہ میری والدہ مکرمہ پر بہتان لگاتے ہو حالانکہ میں اللہ کا ایک مقبول بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب انجیل دی ہے اور مجھے نبی کیا ہے اور تمہاری تو کتابوں میں یہ لکھا ہے کہ حرامی بچہ دس پشت تک اللہ کی جماعت میں شریک نہیں ہوسکتا پھر یہ کیونکر ممکن ہے اگر میں حرامی ہوتا تو اللہ مجھے نبی کیوں کرتا میرا نبی ہونا ہی میری والدہ ماجدہ کی برات کی دلیل ہے اسی لئے میں کہتا ہوں کہ اس نے مجھے نبی کیا ہے اور میں جہاں ہوں مجھے برکت دی ہے اور جب تک میں زندہ رہوں مجھے نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیا ہے اور مجھے میری ماں کا فرمانبردار تابعدار بنایا ہے اور مجھ کو سرکش نافرمان نہیں کیا جس روز میں پیدا ہوا اس دن اور جس دن مروں گا اس دن اور جس دن زندہ اٹھایا جائوں گا اس دن ان تینوں سخت کٹھن مواقع میں مجھ پر سلامتی اور اللہ کا فضل شامل حال ہے یہ ہے عیسیٰ ابن مریم جس کے دشمنوں نے توبہ زبانی کی ہی تھی نادان دوستوں نے بھی اسے ناحق بدنام کیا کہ اللہ کا بیٹا اور اللہ اسے کہتے ہیں نہ تو وہ اللہ ہے اور نہ اللہ کا بیٹا بلکہ محض اللہ کا بندہ ہے یہی سچی بات ہے جس میں یہ لوگ محض جہالت سے جھگڑا کرتے ہیں ورنہ کیا یہ بات کوئی قابل خفا ہے کہ اللہ کو شایان نہیں کہ کسی کو اولاد بنانے دے وہ تو اس قسم کی کمزوریوں سے پاک ہے اسے بھلا اپنے لئے اولاد بنانے کی کیا حاجت ہے وہ تو جب کسی کام کو چاہتا ہے تو صرف ” ہوجا“ کہتا ہے پس وہ ہوجاتا ہے پھر ایسے قادر مطلق اللہ کو اولاد (بیٹے اور بیٹیاں) بنانے کی کیا حاجت ہے ذوی العقول کو اولاد کی خواہش تو اس لئے ہوتی ہے کہ ہماری تکلیف کے وقت ہم کو آرام دیں گے بڑھاپے میں کام آئیں گے مرنے کے بعد جائداد پر قابض ہو کر ہمارا نام قائم رکھیں گے مگر اللہ کو تو ان میں سے کسی چیز کی حاجت نہیں وہ تو دائم الحیات ہے بڑھاپے اور ذلت سے پاک ہے پھر وہ اولاد چاہے تو کیوں؟ بیٹآ بنائے تو کس لئے؟ اسی لئے حضرت مسیح نے توحید کی تعلیم دی اور کہا کہ اللہ ہی میرا اور تمہارا پروردگار ہے پس اسی کی تم عبادت کرو جس کی میں کرتا ہوں یہی سیدھی اور مضبوط اللہ کی راہ ہے باوجود اس صاف اور سیدھی تعلیم کے جو آج تک بھی اناجیل ! مروجہ میں ملتی ہے کہ سوائے واحد اللہ قادر مطلق کے کسی کی عبادت نہ کرو پھر بھی عیسائیوں کے فرقے باہمی مختلف ہوگئے بہت سے عیسائی تو یہاں تک بڑھ گئے کہ مسیح کو اللہ کا بیٹا تو کیا خود اللہ بلکہ انہوں نے لکھ مارا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو کوہ طور پر انا ربک پکارنے والا بھی مسیح ہی تھا یعنی اللہ میں اور اس میں کوئی فرق نہیں بلکہ وہ خود اللہ ہی ہے بعض اس کی ماں صدیقہ مریم کی بھی عبادت کرنے لگ گئے چنانچہ آج تک بھی بیت المقدس میں عیسائیوں کے گرجوں کے اندر صدیقہ مریم کا بت نصب کیا ہوا ہے جس کی عبادت کی جاتی ہے البتہ بعض عیسائی ایسے بھی ہیں جو اس تعلیم توحید پر آج تک ثابت قدم ہیں جن کو یونی ٹیرین یعنی توحیدی عیسائی کہا جاتا ہے گو یہ لوگ مسلمان نہیں لیکن حضرت عیسیٰ کو مسلمانونکی طرح صرف آدمی اور رسول جانتے ہیں مگر ایک تو ان کی کی تعداد بہت ہی قلیل ہے دوم عام عیسائی ان کو کافر کہتے ہیں پس اس بڑے دن کی حاضری سے ان کافروں کیلئے افسوس ہے جس روز وہ ہمارے پاس آویں گے کیسے کچھ سنتے اور دیکھتے ہوں گے کہ تمام عمر کے کئے ہوئے کام ان کو یاد آجائیں گے اپنی بد عملی کی سزا اپنے سامنے دیکھے گے ایسی کہ کسی طرح کا شک ان کو نہ رہے گا لیکن اس دنیا میں طالم صریح گمراہی میں ہیں تو بھی ان کو سمجھا اور حسرت اور افسوس کے دن سے ان کو ڈرا جس وقت تمام کاموں اور اختلافوں کا فیصلہ کیا جاوے گا اور اس وقت تو یہ لوگ بے خبری اور غفلت میں ہیں اور ایمان نہیں لاتے لیکن جب ان کے سر پر پڑے گی تو جائیں گے اور پتہ لگ جائے گا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے یاد رکھو کہ ہم (اللہ) ہی تمام زمین اور زمین کے باشندوں کے مالک ہیں اور ہماری ہی طرف یہ سب پھر کر آئیں گے پھر ان کو اپنے نیک و بد کا پتہ لگ جائے گا تاہم تو اے نبی ان کو سمجھتا رہ