وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۚ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا
اور تیرے رب نے فیصلہ کردیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ اگر کبھی تیرے پاس دونوں میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ ہی جائیں تو ان دونوں کو ’’اف‘‘ مت کہہ اور نہ انھیں جھڑک اور ان سے بہت کرم والی بات کہہ۔
(23۔40) سنو ! یہ کوئی معمولی حکم نہیں بلکہ ایسا یینی اور قطعی ہے کہ تیرے پروردگار نے یقینی حکم دے رکھا ہے کہ میرے سوا کسی کی عبادت مت کریو اور اسی سے دوسرے درجہ پر یہ حکم ہے کہ اپنے ماں باپ سے سلوک کریو اگر ان میں کا ایک یا دونوں تیری موجودگی میں بڑھاپے کو پہنچیں اور تجھ سے خدمت کے خواستگار ہوں تو ان کی خدمت کرتا ہو اف ہائے تک بھی نہ کہیو اور نہ ان کو جھڑکیو اور ان کو عزت سے مخاطب کیا کریو ورنہ انکی ذرہ سی بھی دل شکنی ہوئی تو تیری خیر نہیں اور محبت سے انکے آگے جھک جایا کریو اور اسی پر بس نہیں کہ دنیا ہی میں انکی خاطر تواضع پر بس کر جایو بلکہ آخرت کے متعلق بھی ان کیلئے دعا کرتے ہوئے کہا کہ تاکہ اے میرے پروردگار ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے مجھے لڑکپن میں پرورش کیا ایسا کہ میری ذرہ سی تکلیف پر اپنا آرام بھول جاتے تھے تمام رات بھی گذر جائے تو مجھے کندھوں پر اٹھائے پھرتے تھے میرے آرام پر اپنا آرام قربان کرتے تھے پس اے میرے پروردگار تو بھی ان پر ایسی ہی مہربانی کر بعض لوگ صرف دکھاوے کو لوگوں سے شرماتے ہوئے ماں باپ سے ظاہر داری کیا کرتے ہیں مگر دل سے انکی تعظیم اور محبت نہیں کرتے سو یاد رکھو تمہارا پروردگار تمہارے دلوں کے راز خوب جانتا ہے اگر تم واقعی نیک اور صالح ہو گے اور دل سے ماں باپ کیساتھ حسن سلوک سے پیش آئو گے تو وہ پروردگار تمہارا بھی نیک بختوں کیلئے بخشنہار ہے انکی لغزشوں اور بھول چوک کو معاف کر دے گا تیسرے درجہ پر یہ حکم ہے کہ ناتے والوں اور مسکینوں اور غریب عاجز مسافروں کے حقوق ادا کیا کرو یعنی ان سے بھی حسن سلوک سے پیش آیا کرو اور فضول خرچی میں مال و دولت ضائع مت کیا کرو جس جگہ خرچ کرنے کی شریعت اجازت نہ دے اس جگہ ایک کوڑی بھی خرچ کرو گے تو فضول خرچ بن جائو گے اور جس جگہ شریعت کی اجازت ہو وہاں پر تمام مال کے خرچ کرنے سے بھی فضول خرچی کا الزام عائد نہ ہوگا کیا تم نے شیخ سعدی مرحوم کا قول نہیں سنا نہ بے حکم شرع آب خوردن خطاست اگر خون بفتویٰ بریزی رواست کچھ شک نہیں کہ فضول خرچ شیطان جیسے بے زبانوں کے ساتھی ہیں اور شیطان تو اپنے پروردگار کا بالکل نا شکرا ہے پس اس کا ساتھی بننا گویا اللہ کے ناشکروں میں داخل ہوتا ہے پس تم ایسا کام مت کرنا اور اگر کوئی وقت آپڑے کہ تم اپنے قریبیوں اور حقدداروں کے حقوق ادا نہ کرسکو بلکہ اپنے پروردگار کی مہربانی یعنی کسی طرف سے روپیہ وغیرہ کی آمد کے انتظار میں ان کے دینے سے منہ پھیر و یعنی ایسا موقع آپڑے کہ تمہارے پاس کچھ موجود نہ مگر کہیں سے رقم تم کو پہنچنے والی ہو جسکی تم امید رکھتے ہو تو ایسے وقت میں انکو نرم بات کہا کرو اور سمجھا دیا کرو کہ بھائیو آجکل ہمارا ہاتھ تنگ ہے تھوڑے دنوں تک ہم انشاء اللہ تم سے سلوک کر دینگے۔ ہاں یہ بھی خیال رہے کہ نہ تو بالکل اپنے ہاتھوں کو گردن سے باندھ رکھا کرو کہ کسی کو پھوٹی کوڑی بھی نہ دو اور نہ بالکل کھلا چھوڑ دیا کرو کہ جو کچھ ہاتھ میں آیا گلی میں کھایا بفحوائے قرار در کف آزادگاں نگیر دمال چوں صبر دردل عاشق و آب در غربال سب کچھ اڑا دیا نہیں تو تم شرمندہ اور ضرورت کے وقت عاجز ہو کر بیٹھ رہو گے سنو ! اپنے مال و دولت پر ناز نہ کیا کرو بلکہ اصل بات یہ دل میں جما رکھو کہ تمہارا پروردگار ہی جس کو چاہے رزق فراخ دیتا ہے اور جسکو چاہے تنگ کردیتا ہے سب چیزوں پر اسی کا قبضہ و تصرف ہی ایسے ویسے خیالات اور بیہودہ پخت و پز کرنیوالوں کو وہ دوسری طرح بھی سیدھا کرو یا کرتا ہے اسے کسی کے بتلانے اور سمجھانے کی بھی حاجت نہیں کیونکہ وہ اپنے بندوں کے حال سے خوب خبردار اور دیکھتا ہے پس اس کے حکموں کی اطاعت کرو اور اسی کے ہو کر رہو اور سنو ! اپنی اولاد یعنی لڑکیوں کو اپنے افلاس کے خوف سے قتل مت کرو کہ ہائے ہم کہاں سے اتنا لائین کہ انکی شادیوں میں داج دہیج دیں گے ہم (اللہ) ہی تو ان کو اور تم کو رزق دیتے ہیں کیا تم اپنے آپ کو ان کا رزاق سمجھتے ہو بڑی غلط رائے ہے یاد رکھو کہ انکا قتل بہت ہی بڑا گناہ ہے (عرب کے لوگ لڑکیوں کے پیدا ہونے پر سخت کبیدہ خاطر ہوتے تھے یہاں تک کہ اگر موقع ملتا تو قتل بھی کردیتے چنانچہ ان کے حق میں یہ کہنا بہت ٹھیک ہے۔ وہ گود ایسی نفرت سے کرتی تھی خالی جنے سانپ جیسے کوئی جننے والی ان کے سمجھانے کو اور ان کو اس فعل قبیح سے روکنے کو یہ آیت نازل ہوئی۔ منہ) اور سنو ! زنا اور بدکاری یعنی لواطت وغیرہ سے تو ایسے دور رہو کہ اسکے نزدیک بھی نہ جایا کرو کیونکہ یہ بے حیائی ہے اور بہت برا طریق ہے اس زنا کاری سے بہت فساد پھیلتا ہے اولاد حرامزادی ہوتی ہے اور بازاری عورتوں سے اکثر اوباشوں کو آتشک بھی ہوجاتا ہے جس سے تمام عمر بھر تکلیف میں رہتے ہیں بلکہ آئندہ کو ان کا تخم جل کر اولاد کے قابل نہیں رہتا پس تم نے ایسا مت کرنا اور اور کسی جان کو جس کا مارا اللہ نے حرام کیا ہے بے وجہ شرعی کے مت مارا کرو ہاں جس کے مارنے کی شرع اجازت دے اس کو بحکم حاکم مار دینا جائز ہے جیسے بے قصور انسان کا قاتل کیونکہ جو کوئی مظلوم اور بے گناہ مارا جائے ہم اسکے وارثوں کے حق میں ڈگری دیں گے یعنی وہ اس مظلوم کا تین طرح سے عوض رکھتا ہے۔ مال سے خون سے معافی سے چونکہ اسے تین باتوں کا اختیار ہے پس وہ قتل میں جلدی اور زیادتی نہ کرے شاید اس کا جوش کسی وجہ سے اتر جائے اور معاف کر دے یا عوض لیکر چھوڑ دے ایک خون تو ہوا ہے دوسرا بھی کیوں ہو ہاں اس میں شک نہیں کہ سرکار کی طرف سے وہ مدد کا حقدار ہے یہ نہیں کہ اس کی حق تلفی ہوگی یا بغیر اس کی رضا کے کوئی کام ہوسکے گا۔ اور سنو ! قتل انسان بجائے خود بڑا گناہ مگر اس کے لگ بھگ اور بھی ہیں مثلا یتیموں کا مال کھا جانا سودے میں دغا کرنا وغیرہ پس تم لوگ یتیم کی ہر طرح خیر خواہی کیا کرو ایسی کہ اس کے مال کو کھا جانا تو بجائے خود اسکے پاس بھی نہ جائو یعنی کسی ایسی ویسی دعوت میں بھی شریک نہ ہوا کرو جس میں شبہ ہو کہ یتیم کے مال سے کچھ خرچ ہوا ہوگا لیکن جو طریق یتیم کے حق میں بہتر اور مفید ہو یعنی اس کے مال کو تجارت پر لگا کر بڑھائو جس سے اس کو فائدہ ہو اور تم بھی اگر غریب ہو تو اس میں سے اپنا حق الخدمت لے لیا کرو زیادہ نہیں یہ روک جب تک ہے کہ وہ یتیم اپنی قوت اور جوانی کو پہنچ جائے یعنی ہوش سنبھال کر بالغ ہوجائے تو پھر اسکے ساتھ دوستانہ برادرانہ برتائو سے تحفہ تحائف دو اور لو تو جائز ہے مگر اس سے پہلے نہیں اسکے علاوہ ایک اور ضروری اور اعلیٰ اخلاقی حکم سنو ! وہ یہ ہے کہ وعدے پورے کیا کرو جس کسی سے عہد کرو پورا کرو مگر جو عہد خلاف شرع ہو اس کی پرواہ نہ کرو مثلا کسی بدمعاش سے تم نے وعدہ کرلیا کہ آج ملکر شراب پئیں گے اب وہ ایفائے عہد تم سے چاہتا ہے تو ایسے وعدوں کی پروا نہ کرو اور شراب خوری سے اپنی خواری مت کرائو کچھ شک نہیں کہ اللہ کے ہاں وعدے سے تم کو سوال ہوگا کہ پورا کیوں نہ کیا مگر جو وعدہ جائز ہوگا اسی سے سوال ہوگا ناجائز سے نہیں اور سنو تمدن میں بڑا ضروری کام یہ ہے کہ جب تم ماپ کر کوئی چیز دینے لگو تو پورا دیا کرو اور جب وزن کر کے دینے لگو تو سیدھی ترازو سے وزن کیا کرو یہ طریق تمہارے حق میں بہت خوب ہے اور اس کا انجام بھی اچھا ہے کہ دکان کی نیک نامی سے دنیا میں بھی نفع ہے اور عقبیٰ میں تو بہت بڑا فائدہ ہوگا اور سنو معمولی بازاریوں کی طرح اناپ شناپ کرتے ہوئے ایسی باتوں کے پیچھے مت پڑا کرو جن کا تم کو یقینی علم نہ ہو مثلا یوں ہی سن لیا کہ فلاں شخص تم سے عداوت رکھتا ہے بس اسی پر جم گئے۔ یہ بالکل فضول باتیں ہیں ایسی باتوں کو بالکل کانوں میں مت ڈالا کرو سنو ! کان آنکھ اور دل وغیرہ ہر ایک عضو سے سوال ہوگا کہ اس کو کہاں کہاں تم نے استعمال کیا تھا؟ بس اس بات کا خیال رکھا کرو اور سنو ! زمین پر اکڑ اکڑ کر متکبرانہ وضع سے نہ چلا کرو ایسے کہ دوسروں کو تم حقیر سمجھو اور وہ تم کو بے وقوف اور مغرور جانیں بھلا غور تو کرو ایسی متکبرانہ روش سے تم کہیں زمین کو تو نہ پھاڑ سکو گے اور طول میں پہاڑ کے برابر نہ ہوجائو گے آخر کرو گے کیا؟ گردن بلند کر کے چلو گے تو کیا کرو گے کئی ایک درخت ایسے ہیں جو تم سے ہر طرح قدوقامت میں سر بلند ہیں کئی ایک حیوان تم سے اونچے ملیں گے بہت سی دیواریں تم سے لمبائی میں بڑی ہونگی پہاڑ تو خیر بہت ہی بلندی پر ہیں پھر ایسا کرنے سے فائدہ کاہ سنو ! ایسے نا شائستہ کام چھوڑ دو ان سب کی برائی تمہارے پروردگار کو ناپسند ہے اے رسول ! یہ باتیں عقل و حکمت کی ہیں جو تیرا پروردگار تیری طرف بذریعہ وحی اور الہام کے بھیجتا ہے پس تو بھی ان پر عمل کیا کر اور اللہ کے ساتھ اور کوئی معبود نہ بنائیو ورنہ شرمندہ اور ذلیل ہو کر تم جہنم میں ڈالے جائو گے یاد رکھو صرف یہی ایک شرک نہیں کہ اللہ جیسا اوروں کو سمجھا جائے بلکہ یہ بھی شرک ہے کہ اللہ کی اولاد قرار دی جائے بیٹے اور بیٹیاں اس کیلئے بنائے جائیں جیسے تم (عرب کے) لوگ کہتے ہو کہ فرشتے اللہ کی لڑکیاں ہیں کیا تمہارے پروردگار نے تم کو بیٹوں کے لئے منتخب کیا ہے اور خود اپنے لئے فرشتوں میں سے بیٹیاں بنا لی ہیں یہ ہوسکتا ہے؟ کہ اعلیٰ قسم تم کو دے اور ادنیٰ درجہ خود لے سنو ! یہ بالکل واہیات بات ہے اور اس میں ذرہ شک نہیں کہ تم ایک بہت ہی بڑی بیہودہ بات کہتے ہو ایسی کہ اس پر اللہ کا غضب نازل ہو آسمان و زمین گر پڑیں اور سب لوگ تباہ ہوجائیں تو بجا ہے