سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ
پاک ہے وہ جو رات کے ایک حصے میں اپنے بندے کو حرمت والی مسجد سے بہت دور کی اس مسجد تک لے گیا جس کے اردگرد کو ہم نے بہت برکت دی ہے، تاکہ ہم اسے اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں۔ بلاشبہ وہی سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے۔
اللہ تعالیٰ سب عیوب سے پاک ہے جس نے اپنے بندے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو راتوں رات کعبہ شریف سے بیت المقدس تک جس کے ارد گرد ہم (اللہ) نے روحانی اور جسمانی برکتیں کر رکھی ہیں سیر کرائی تاکہ ہم یعنی اللہ اسکو اپنی قدرت کاملہ کے بعض نشان دکھائیں ایسے کہ مخالف دیکھ کر اور سن کر دنگ رہ جائیں اور عاجز آجاویں۔ بیشک وہ اللہ بڑا ہی سننے والا اور بڑا دیکھنے والا ہے ہر ایک سے وہی واقف ہے کوئی اور نہیں یہ ترقی اور مہربانی گو بہت بڑی ہے مگر ہمای مہر بانیاں مختلف انواع کی ہیں معراج کی تفصیل اور کیفیت میں جس قدر اختلاف ہے شاید ہی کسی واقعہ اور کسی مسئلہ کے متعلق ہو اختلاف کی مختصر فہرست یہ ہے (١) اسراء اور معراج ایک ہیں یا دو ہیں۔ (٢) دونوں جاگتے ہوئے ہیں یا دونوں سوتے ہیں۔ (٣) ایک جاگتے میں ہوا ایک سوتے میں (٤) بیت المقدس تک جاگتے میں ہوا اس سے آگے آسمانی سیر سوتے وغیرہ ان سب مذاہب کا بیان اور ان کے دلائل کا ذکر شروح حدیث فتح الباری وغیرہ میں ملتا ہے علیٰ ھذا القیاس اور بھی جزئی جزئی اختلاف کئی ایک ہیں مگر ہم ان میں اس بات کو ترجیح دیتے ہیں کہ اسراء اور معراج دو الگ الگ ہیں اور دونوں بیداری میں بجسدہ الشریف ہوئے ہیں یہ دعویٰ کوئی ہم نے ایجاد نہیں کیا بلکہ بعض متاخرین علماء بلکہ بقول ابن دحیہ امام بخاری کا بھی یہی خیال ہے (دیکھو فتح الباری چھاپہ دہلی پارہ ١٥ ص ٤٥١) بعض احادیث سے بھی اس دعویٰ کی تائید ہوتی ہے۔ ایک حدیث میں آیا کہ قال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لما کان لیلۃ اسری بی واصبحت بمکۃ مربی عدواللہ ابوجھل فقال ھل کان من شئی قال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انی اسری بی اللیلۃ الی بیت المقدس قال ثم اصبحت بین اظہرنا قال نعم الحدیث (فتح الباری بروایۃ احمد و بزار) پیغمبر اللہ نے فرمایا جس رات مجھ کو اسراء کرایا گیا یعنی میں بیت المقدس تک گیا اور صبح کے وقت مکہ میں تھا تو ابوجہل میرے پاس سے گذرا اور بطور طنز کے کہنے لگا۔ کیا آج کوئی نیا واقعہ بھی ہوا ہے۔ آنحضرت نے فرمایا ہاں آج رات میں بیت المقدس تک گیا۔ اس نے کہا صبح پھر ہم میں تھا؟ آنحضرت نے فرمایا ہاں۔ (فتح الباری) عن ابی سلمۃ قال افتتن ناس کثیر یعنی عقب الاسراء فجاء ناس الی ابی بکر فذکر والہ فقال اشھد انہ صادق فقالوا او تصدقہ بانہ اتی الشام فی لیلۃ واحدۃ ثم رجع الی مکۃ قال نعم انی اصدقہ بابعد من ذلک اصدقہ بخبر السماء قال مسمی بذلک الصدیق (فتح الباری بروایۃ بیہقی پارہ ١٥ باب حدیث الاسرائ) حضرت ابو سلمہ کہتے ہیں کہ آنحضرت کے اسراء کے بعد بہت لوگ پریشان ہو کر حضرت ابوبکر کے پاس آئے اور ان کے پاس یہ ذکر کیا (کہ تیرا نبی کہتا ہے کہ میں آج شب کو بیت المقدس تک گیا ہوں) حضرت ابوبکر نے کہا میں تصدیق کرتا ہوں کہ وہ سچا ہے وہ بولے میں تو اس بات کی بھی تصدیق کرتا ہوں کہ وہ ایک ہی شب میں ملک شام تک جا کر پھر مکہ شریف میں آگیا ابوبکر نے کہا میں اس سے بھی زیادہ دور کی بات میں اس کی تصدیق کرتا ہوں میں آسمانوں کی خبروں میں اس کی تصدیق کرتا ہوں راوی نے کہا اسی لئے ابوبکر کا نام صدیق ہوا۔ ان دونوں حدیثوں میں صرف بیت المقدس تک جانے کا ذکر ہے۔ خود پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابوجہل کے سامنے اور کفار مکہ نے ابوبکر کے روبرو صرف بیت المقدس کا نام لیا اس سے زیادہ نہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جس رات کا یہ واقعہ ہے اس رات صرف بیت المقدس تک سیر ہوئی تھی۔ قرآن شریف میں بھی اسی لئے مسجد اقصیٰ تک آیا ہے اس سے آگے نہیں۔ حالانکہ اگر ہوتا تو موقع بیان کا یہی تھا۔ مگر نہیں ہاں احادیث صحیحہ میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا آسمانوں پر جانا بھی آیا ہے اسی لئے باتباع علماء متاخرین ہم نے بھی ان واقعات کو متعدد مانا ہے واضح ہو کہ اسراء سے مراد وہ سیر ہے جو مکہ شریف سے بیت المقدس تک ہوئی تھی اور معراج سے وہ سیر مراد ہے جو مکہ شریف سے فلک الافلاک تک ہوئی۔ دعویٰ اول یعنی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اسراء مکہ شریف سے بیت المقدس تک جسمانی ہوا ہے اس کا نقلی ثبوت نقلی ثبوت سے ہماری مراد قرآن و حدیث ہے۔ پہلے ہم قرآن و حدیث سے اس بات کا ثبوت دیتے ہیں۔ قرآن شریف کی آیت صاف ہے۔ سُبْحٰاَن الَّذِیْ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصٰی۔ کہ اللہ پاک ہے جو اپنے بندے کو رات کے وقت مکہ شریف سے بیت المقدس تک لے گیا۔ اس آیت سے علماء نے کئی ایک طرح سے اس دعویٰ پر کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اسراء جسدی ہوا تھا استدلال کیا ہے۔ (1) عبد کا لفظ جسم اور روح دونوں کے مرکب پر بولا جاتا ہے نہ صرف روح پر چنانچہ آیت تحدی میں ہے اِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمًّا نَزَّلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّنْ مِّثْلِہٖ یہاں پر عبدنا جس ذات والاصفات کو کہا گیا ہے وہی اس آیت (اسری بعبدہ میں مراد ہے۔ (٢) دوم یہ کہ سبحان موقع تعجب پر بولا جاتا ہے۔ اگر اسراء روحانی ہو تو کیا تعجب تھا یہ تو اب بھی ہوتا ہے پس ثابت ہوا کہ اسراء جسدی ہوا ہے اور یہی محل تعجب تھا۔ (٣) تیسری دلیل اسی آیت میں اسری کا لفظ ہے جس کے معنی رات کو لے جانے کے ہیں۔ السری سیر عامۃ اللیل واسری و استری وسری بہ واسراہ وبہ واسری بعبدہ لیلا و تاکیدا ومعناہ سیرہ (قاموس لفظ سری) السری سیر اللیل یقال سری واسری قال فاسر باھلک اسری بعبدہ (مفردات راغب لفظ سری) قاموس میں ہے کہ سریٰ رات کے عام حصہ کی سیر کو کہتے ہیں۔ چونکہ رات خود اس کے معنی میں داخل ہے اس لئے اسری بعبدہ میں لیلا کی قید تاکید کے لئے ہے۔ ایسا ہی مشہور لغات قرآن ” مفردات راغب“ اصفہانی میں ہے کہ سری رات کی سیر کو کہتے ہیں اور اسری بعبدہ اسی سے ہے۔ علاوہ ان لغوی شہادتوں کے خود قرآن مجید میں یہ لفظ کئی ایک جگہ آیا ہے لطف یہ ہے کہ جہاں کہیں آیا ہے اسی محاورہ میں آیا ہے بالکل فرق نہیں ہوا مقامات ذیل بغور ملاحظہ ہوں۔ فَاَسْرِ بِاَھْلِکَ بِقِطْعٍ مِّنَ الَّلْیِلِ پ ١٢ ع ١ و پ ١٤ ع ٥ ترجمہ (فارسی) پس ببرکساں خود را بپا رہ از شب (ترجمہ اردو) سولے نکل اپنے گھر والوں کو کچھ رات سے وَلَقَدْ اَوْ حَیْنَآ اِلٰی مُوْسٰی اَنْ اَسْرِ بِعِبَادِیْ پ ١٦ ع ١٣ (ترجمہ فارسی) وحی فرستادیم بسوئے موسیٰ کہ وقت شب ببربندگان مرا (اردو) اور ہم نے حکم بھیجا موسیٰ کو کہ لے نکل میرے بندوں کو رات سے ” وَاَوْحَیْنَا اِلٰی مُوْسٰی اَنْ اَسْرِ بِعِبَادِیْ اِنَّکُمْ مُّتَّبَعُوْنَ پ ١٩ ع ٨ (فارسی) وحی فرستادیم بسوئے موسیٰ کو بوقت شب روان کن بندگان مرا ہرا آئینہ شما تعاقب کردہ شوید (اردو) حکم بھیجا ہم نے موسیٰ کو کہ رات کو لے نکل میرے بندوں کو البتہ تمہارے پیچھے لگیں گے۔ “ ان جوابات میں سے پچھلے حوالوں میں اسر بعبادی کے ساتھ لیلا کا لفظ نہیں آیا اور اس کے سوا اوروں میں آیا ہے اس سے معلوم ہوا کہ جو صاحب قاموس نے کہا کہ لیلا کا لفظ اسر کی تاکید ہے یہ ٹھیک ہے۔ پس ان حوالجات سے جو ثابت ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ جس طرح ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط۔ حضرت موسیٰ وغیرہ علیہم السلام کو اپنے اتباع کے لے جانے کا حکم دیا ہے جس سے مراد ان کو بیداری میں لے جانا ہے اس طرح اس آیت (اسری بعبدہ) میں مراد ہے یعنی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات مبارکہ کا حالت بیداری میں جانا کیونکہ یہ دونوں لفظ ایک ہی ہیں۔ حوالجات میں صیغہ امر کا ہے اور آیت اسراء میں صیغہ ماضی کا مگر مصدر دونوں کا ایک ہی (اسرائ) ہے پھر معنے کے اتحاد میں کیا شک ہے (٤) چوتھی دلیل اسراء جسمانی کی یہ ہے کہ مشرکین عرب نے اسراء کا حال سن کر تعجب کیا اور منکرانہ سوالات پیش کئے چنانچہ حدیث بخاری (باب المعراج) میں ہے کہ آنحضرت فرماتے ہیں جب قریش نے میری تکذیب کی اور بیت المقدس کے مقامات ممتازہ سے سوالات کئے تو میں بہت حیران ہوا کیونکہ اس طرح کی تفصیل جو ان کی مراد تھی۔ مجھے یاد نہ تھی آخر کار اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس کو میرے سامنے کردیا یعنی روحانی تجلی ہوگئی۔ پس میں اس کو دیکھ کر بتلاتا گیا۔ اس حدیث اور اس جیسی اور کئی ایک حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے کہ مشرکین عرب نے آنحضرت کے اسراء سے انکار کیا اور سخت معترض ہوئے۔ پس آپ کا اسراء اگر جسمانی نہ ہوتا بلکہ خواب ہوتا تو یہ انکار کیوں ہوتا۔ کیا مشرکین عرب خود کبھی خواب میں کہیں کے کہیں نہ چلے جاتے تھے کہ ان کو حیرانی پیش آئی۔ ان کی حیرانی کو اگر ان کی غلط گمانی کہا جائے تو پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو کیوں نہ سمجھا دیا کہ میرا اسراء تو خواب کی قسم ہے جو سب لوگوں کو حسب مراتب ہوتے رہتے ہیں پھر تمہارا انکار کیوں ہے؟ یہ ہیں بالاختصار چار دلیلیں جو اسراء کے جسمانی ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ اب منکرین کی طرف سے ان کے جو جواب دئیے گئے ہیں ان کا نقل کرنا بھی ضروری ہے تاکہ بات محقق ہو کر ذہن نشین ہوجائے۔ سر سید احمد خان کا انکار اور انکا جواب : سر سید احمد خان مرحوم علی گڈھی جو اسراء اور معراج دونوں کے جسمانی ہونے سے منکر ہیں اپنی تفسیر جلد ششم میں لکھتے ہیں کہ پہلی دلیل کے لفظ عبد میں جسم و روح دونوں شامل ہیں اور اس لئے اسراء و معراج بجسدہ ہوئی تھی ایسی بے معنی ہے کہ اس پر نہایت تعجب ہوتا ہے اگر اللہ یوں فرماتا کہ اسریت بعبدی فی المنام من الکعبۃ الی المدینۃ یا اویت عبدی فی المنام کذا و کذا تو کیا اس وقت بھی یہ لوگ کہتے ہیں کہ عبد میں جسم و روح دونوں شامل ہیں اور اس لئے خواب میں مع جسم جانا ثابت ہوتا ہے۔ جو شخص خواب دیکھتا ہے وہ ہمیشہ متکلم کا صیغہ استعمال کرتا ہے اور اگر کوئی شخص اس بات پر قادر ہو کہ دوسرے کو بھی خواب دکھا سکے تو وہ ہمیشہ اس کو مخاطب کرے گا۔ خواہ نام لے کر یا اس کی کسی صفت کو بجائے نام قرار دے کر اور اس پر اس طرح سے استدلال نہیں ہوسکتا جیسا کہ ان صاحبوں نے عبد کے لفظ سے استدلال چاہا ہے۔ قرآن شریف میں یوسف نے اپنے خواب کی نسبت کہا یٰٓاَبَتِ اِنِّیْ رَاَیْتُ اَحَدَ عَشَرَ کَوْکَبًا اور قیدیوں نے اپنا خواب اس طرح بیان کیا ایک نے کہا انی ارانی اعصر خمرا دوسرے نے کہا انی ارانی احمل فوق راسی خبزاً حالانکہ یہ سب خواب تھے پھر لفظ انی پر یہ بحث کہ اس میں جسم و روح دونوں داخل ہیں اور خواب میں جو فعل کیا فی الواقع وہ جسمانی فعل ہی تھا کیسی لغو و بیہودہ بات ہے۔ خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے خواب بیان کئے ہیں اور دوسروں نے بھی اپنے خواب آنحضرت کے سامنے بیان کئے جن میں متکلم کے صیغے رایت وغیرہ استعمال ہوئے ہیں اور ان اشیاء اور اشخاص کا ذکر آیا ہے جن کو خواب میں دیکھا پس کیا اس پر خواب میں ان اشیاء اور اشخاص کے فی الواقع بجسدہا موجود ہونے پر استدلال ہوسکتا ہے؟ اور یہ قول کہ اگر معراج کا واقعہ خواب ہوتا تو اللہ فرماتا اسری بروح عبدہ ایسا ہی بیہودہ ہے جیسا کہ عبد کے لفظ سے جسمانی معراج پر استدلال کرنا اس قول کے لئے ضروری تھا کہ کوئی سند کلام عرب کی پیش کی جاتی کہ خواب کے واقع پر فعل بروحہ کذا وکذا بولنا عرب کا محاورہ ہے پس صاف ظاہر ہے کہ جو دلیل پیش کی ہے وہ محض لغو و بیہودہ ہے اور اس سے مطلب ثابت نہیں ہوتا (تفسیر احمدی سورۃ بنی اسرائیل ص ٨٠) جواب : اگر اسریت بعبدی فی المنام ہوتا تو ہم بے شک خواب سمجھتے کیونکہ اس کلام کا ترجمہ صاف ہوتا کہ ” میں اپنے بندے کو نیند کی حالت میں لے گیا“ نیند کا لفظ اس مجاز کے لیے قرینہ ہوتا کہ یہاں عبد سے مراد روح العبد ہے نہ کہ کامل عبد۔ اس کی مثال یہ ہے کہ کوئی شخص کسی لڑکے کو ھذا ابنی (یہ میرا بیٹا ہے) کہے تو کچھ شک نہیں کہ اس کلام سے اس لڑکے کی ابنیت پر استدلال ہوسکتا ہے۔ لیکن اگر یوں کہے ھذا ابنی فی التلمذ (یہ میرا بیٹا شاگردی کا ہے یعنی شاگرد ہے) تو اس سے اس لڑکے کی ابنیت پر استدلال نہ ہوگا۔ لیکن اس سے یہ لازم نہ آئے گا کہ پہلا استدلال بھی غلط ہے بلکہ وہ بھی صحیح ہے اور یہ بھی صحیح کیونکہ وہ بلا قرینہ حقیقت پر محمول ہے بحکم علامۃ الحقیقۃ التبادر اور دوسری مثال میں قرینہ مجاز موجود ہے۔ حیرانی ہے سید صاحب جیسا محقق اور ایسی حرکت مذبوحی؟ اینچہ بوالعجبی است سید صاحب ! قتل عاشق کسی معشوق سے کچھ دور نہ تھا پر تیرے عہد سے پہلے تو یہ دستور نہ تھا ایسا ہی حضرت یوسف (علیہ السلام) کی گفتگو میں بھی رویت عین ہی مراد ہوتی مگر ان کے باپ نے جب جواب میں کہا لاَ تَقْصُصْ رُؤْیَاکَ عَلَی اِخْوَتِکَ (اے میرے بیٹے اپنا خواب بھائیوں کو مت سنائیو) تو قرینہ مجاز پایا گیا چنانچہ آپ نے بھی ص ٩٩ پر اس لفظ کو قرینہ مجاز تسلیم کیا ہے جس کی پوری عبارت آگے ص پر آتی ہے پس رویت عین نہ رہی بلکہ خواب ہوگیا اسی طرح قیدیوں کے بیان میں جب یہ لفظ پایا گیا نَبِّئْنَا بِتَاْوِیْلِہٖ (اے یوسف ہم کو اس کی تعبیر بتلا) تو معلوم ہوا کہ یہ رویت عین نہیں بلکہ رویا منام (خواب) ہے۔ غرض جہاں کہیں رئیت خواب کے معنی میں آئے گا وہاں پر کوئی نہ کوئی قرینہ ضرور ہوگا۔ اس سے تعجب یہ کہ آپ یہ بھی فرماتے ہیں : ’ اور یہ قول کہ معراج کا واقعہ اگر خواب ہوتا تو اللہ فرماتا اسری بروح منہ ایسا ہی بیہودہ ہے جیسا کہ عبد کے لفظ سے جسمانی معراج پر استدلال کرنا اس قول کے لئے ضرور تھا کہ کوئی سند کلام عرب کی پیش کی جاتی کہ خواب کے واقعہ پر فعل بروحہ کذا و کذا بولنا عرب کا محاورہ ہے پس صاف ظاہر ہے کہ جو دلیل پیش کی ہے وہ لغو اور بیہودہ ہے اور اس سے مطلب ثابت نہیں ہوتا۔ ص ٨١ “ جواب : یہ کون کہتا ہے کہ روح کا لفظ ہونا ضروری ہے بلکہ یہ کہتے ہیں کہ ایسا قرینہ کوئی ضرور ہو جس سے ثابت ہو کہ یہاں خواب مراد ہے ورنہ جب تک کوئی قرینہ ایسا نہ ہوگا عبد کے لفظ سے جسم اور روح کا مرکب ہی سمجھا جائے گا۔ پس آیت زیر بحث میں قرینہ صارفہ بتانا آپ کا کام ہے جب تک نہ بتائیں آپ کا دعویٰ غیر ثابت ہے۔ دوسری دلیل کے متعلق سر سید مرحوم فرماتے ہیں۔ ” دوسری دلیل کی نسبت ہم خوشی سے اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ سبحان کا لفظ تعجب کے موقع پر بولا جاتا ہے۔ مگر اس کو اسراء سے خواہ وہ خواب میں ہوئی ہو یا حالت بیداری میں اور بجسدہ ہوئی ہو یا بروحہ کچھ تعلق نہیں ہے بلکہ اس کو اس سے تعلق ہے جو مقصد اعظم اس اسراء سے تھا اور وہ مقصد اعظم خود اللہ نے فرمایا ہے لِنٰرِیَہُ مِنْ اٰیَاتِنَا اِنَّہُ ھُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ اور اسی لئے اللہ نے ابتداء میں فرمایا سُبْحَانَ الَّذِیْ (ص ٨١) “ جواب : اس مقصد میں بھی عظمت اور اعظمیت جب ہی آئے گی کہ اس رویت سے بھی رویت عین ہی مراد لیں یعنی یہ کہیں کہ لِنُرِیَہُ کے معنی ہیں کہ ہم اس (نبی) کو آنکھوں سے اپنے نشان دکھائیں ورنہ اگر وہ رویت بھی خواب ہی میں ہو تو اعظمیت تو کیا نہ کوئی عظمت ہوگی نہ کوئی تعجب ہمیشہ ہر ایک شخص خواب میں کچھ نہ کچھ دیکھا ہی کرتا ہے ہندی میں مثل مشہور ہے ” سپنے اندر راجہ بہئیو جاگت بہئیو کنگال“ پس سبحان کے استعمال کا محل بھی اسی صورت میں موزوں ہوگا کہ اسراء بجسدہ مراد لیا جائے ورنہ کوہ کندن و کاہ برآوردن کی مثل صادق آئے گی تیسری دلیل کا جواب سر سید نے یہ دیا ہے کہ : یہ دلیل اس امر پر مبنی ہے کہ اگر آنحضرت بیت المقدس میں جانا خواب کی حالت میں بیان کرتے تو قریش اس سے انکار نہ کرتے اور جھگڑے کے لئے مستعد نہ ہوتے ان کا جھگڑا صرف اسی لئے تھا کہ آنحضرت کا بیت المقدس بجسدہ جانا خیال کیا گیا تھا۔ اس دلیل کے ضعیف ہونے کی وجہ یہ ہے کہ قریش کی مخالفت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس وجہ سے تھی کہ آنحضرت نے دعویٰ نبوت و رسالت کیا تھا اور واقعات معراج جو کچھ ہوئے ہیں وہ نبوت اور رسالت کے شعبوں میں سے تھے اور اس لئے ضرور تھا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان واقعات کا سوتے میں دیکھنا فرمایا ہو یا جاگنے کی حالت میں قریش اس سے انکار کرتے اور نعوذ باللہ آنحضرت کو جھٹلاتے کیونکہ وہ اصل نبوت و رسالت سے منکر تھے پھر جو امور کو شعبہ نبوت تھے ان سے بھی انکار کرنا ان کو لازم تھا۔“ (تفسیر احمدی جلد ٦ ص ٩١) جواب : کیا ہی منطق ہے؟ افسوس ! سر سید مطلب کے موقع پر اصول کلام بھول جاتے ہیں علماء کا عام اصول ہے تاویل الکلام بما لایرضی بہ قائلہ باطل“ یعنی متکلم کے خلاف منشاء کلام کے معنی کرنے جائز نہیں مشرکین عرب تو صاف اس واقع (اسرائ) سے انکاری ہیں اور آپ فرماتے ہیں کہ چونکہ یہ شعبہ نبوت تھا اس لئے انکاری تھے شعبہ نبوت کیا تھا خواب ہی تو تھا جس کی نسبت آپ خود سورۃ یوسف میں فرماتے ہیں۔ ہمارے نزدیک بجز ان قوی کے جو نفس انسانی میں مخلوق ہیں اور کوئی قوت خوابوں کے دیکھنے میں مؤثر نہیں ہے اور یوسف (علیہ السلام) کی خواب جن کا نفس نہایت متبرک اور پاک تھا اور ان دو جوانوں کی خواب جو یوسف (علیہ السلام) کے ساتھ قید خانہ میں تھے اور کفر و ضلالت میں مبتلا تھے اور ان کے نفوس بسبب آلائش کفر پاک نہ تھے اور اسی طرح فرعون (شاہ مصر) کا خواب جو خود اپنے آپ کو اللہ سمجھتا تھا اور اس کا نفس مبدء فیاض سے کچھ مناسبت نہ رکھتا تھا اور باایں ہمہ سب کے خواب یکساں مطابق واقعہ کے اسی ایک قسم کے تھے اور اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ بجز قواے نفس انسانی کے اور کوئی قوت خوابوں کے دیکھنے میں مؤثر نہیں ہے گو کہ وہ خواب کیسے ہی مطابق واقعہ کے ہوں۔“ (جلد ٥ ص ١١) بتلائیے ایسے خواب جو بقول آپ کے قوائے انسانی پر متفرع ہوں شعبہ نبوت ہونے میں کیا مزیت رکھتے ہیں۔ علاوہ اس کے مانا کہ قریش کو اصل انکار نبوت سے تھا مگر یہ کیا معنی کہ جس کسی بات سے بھی انکار کریں تو اس بات کی ماہیت اور کیفیت کی طرف خیال نہ کریں جھٹ سے اصل نبوت ہی کو پیش کردیں حالانکہ وہ صاف لفظوں میں واقع اسراء سے انکار کرتے ہیں بلکہ اس وقت نبوت سے بھی اسی لئے انکار کرتے ہیں کہ وہ ایک ایسا بعید الفہم واقعہ بیان کرتی ہے مگر سید صاحب اس کی توجیہ کرتے ہیں کہ چونکہ وہ سرے سے نبوت کے منکر تھے اس لئے اسراء سے بھی منکر تھے ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ کہاں تک صحیح ہے؟ یہ تو ویسی ہی بات ہے ” ملا آن باشد کہ چپ نشود“ قریش مکہ تو واقعہ اسراء کو مستبعد جان کر منکر ہوتے ہیں جس سے اسراء کا بجسدہ ہونا مفہوم ہوتا ہے لیکن آپ نہیں مانتے تو اس کا کیا جواب؟ آں کس کہ بقرآں و خبر زوندھی این ست جوابش کہ جوابش ندھی بہت خوب آگے چلئے سر سید فرماتے ہیں اصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معراج کی بہت سی باتیں جو خواب میں دیکھی ہوں گی لوگوں سے بیان کی ہوں گی منجملہ ان کے بیت المقدس میں جانا اور اس کو دیکھنا بھی بیان فرمایا ہوگا قریش سوائے بیت المقدس کے اور کسی حال سے واقف نہیں تھے۔ اس لئے انہوں نے امتحاناً آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیت المقدس کے حالات دریافت کئے چونکہ انبیاء کے خواب صحیح اور سچے ہوتے ہیں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو کچھ بیت المقدس کا حال خواب میں دیکھا تھا بیان کیا جس کو راویوں نے فجلی اللہ لی بیت اللہ فرفعہ اللہ لی انظر الیہ سے تعبیر کیا ہے پس اس مخاصمت سے جو قریش نے کی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بجسدہ اور بیداری کی حالت میں بیت المقدس جانا ثابت نہیں ہوسکتا۔“ (جلد ٦ ص ٩٢) جواب گو آپنے اس تقریر میں واقعات سے نظر اٹھا کر ہوگی اور ہوگا سے بہت کچھ کام لیا ہے۔ تاہم اس سے یہی ثابت ہوا کہ اگر قریش مکہ کو صرف دریافت کرنا مطلوب ہوتا تو دریافت کرتے نہ کہ شروع ہی سے درپے تکذیب ہوجاتے اور اسراء ہی کو مستعبد جان کر حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے پاس جاتے کہ دیکھ تیرا دوست آج کیا کہتا ہے؟ کہ میں شب کو وہاں گیا۔ وہاں سے آیا۔ یہ ہوا وہ ہوا جیسے کوئی بڑی گھبراہٹ سے تگ و دو کرتا پھرتا ہے حالانکہ بات کچھ بھی نہ تھی بقول آپ کے صرف خواب تھا۔ جو ہر ایک نیک و بد کو حسب مراتب آیا کرتا ہے پھر لطف یہ کہ حضرت صدیق نے بھی یہ جواب نہ دیا کہ بے وقوفو ! کس بات پر بھنبھنا رہے ہو کیا تمہیں خواب نہیں آیا کرتے اگر ہمارے رسول کو خواب آگیا تو کیا تعجب ہے بلکہ جواب بھی دیا تو یہ کہ فجاء ناس الی ابی بکر فذکر والہ فقال اشھد انہ صادق فقالوا او تصدقہ بانہ اتی الشام فی لیلۃ واحدۃ ثم رجع الی مکۃ قال نعم انی اصدقہ بابعد من ذلک اصدقہ بخبر السماء قال فسمی بذلک الصدیق (فتح الباری بروایۃ بیہقی پارہ ١٥ باب حدیث الاسرائ) میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ (نبی) سچا ہے قریش نے کہا کہ تو اس بات میں اس کی تصدیق کرتا ہے کہ وہ ایک ہی رات میں ملک شام تک جا کر پھر مکہ تک واپس آگیا ابوبکر نے کہا ہاں میں تو اس سے بھی زیادہ دور میں اس کی تصدیق کرتا ہوں میں آسمانی خبروں میں اس کی تصدیق کرتا ہوں۔ راوی کہتا ہے اسی وجہ سے ابوبکر کا نام صدیق ہوگیا۔ فرمائیے اس سوال و جواب سے کیا ثابت ہوتا ہے؟ یہ کہ قریش اس واقعہ اسراء کو خواب سمجھتے تھے یا جسمانی سیر؟ پھر یہ کیونکر قابل پذیرائی ہوسکتا ہے کہ قریش اس وجہ سے انکاری تھے کہ اس کو بھی شعبہ نبوت جانتے تھے نہ اس وجہ سے کہ یہ سیر جسمانی ہے ہاں آپ نے خوب فرمایا کہ : یہ قریش خواب کو بھی شعبۂ نبوت سمجھتے تھے اور جو خواب کہ ان کے مقصد کے برخلاف ہوتا تھا۔ اس سے گھبراہٹ اور ناراضگی ان میں پیدا ہوتی تھی اس کی مثال میں عاتکہ بنت عبدالمطلب کا ایک لمبا چوڑا خواب ہے۔ عاتکہ نے جو عبدالمطلب کی بیٹی تھیں ضمضم کے مکہ میں آنے سے تین دن پہلے ایک ہولناک خواب دیکھا تھا اور اس نے اپنے بھائی عباس سے بیان کیا اور چاہا کہ وہ اس خواب کو پوشیدہ رکھیں عاتکہ نے بیان کیا کہ میں نے ایک شتر سوار کو دیکھا جو وادی بطحا میں کھڑا ہے اس نے بلند آواز سے کہا کہ اے مکارو اپنے مقتل کی طرف تین دن میں بھاگو۔ عاتکہ کہتی ہیں کہ میں نے دیکھا لوگ اس کے پاس جمع ہوئے اور وہ مسجد میں داخل ہوا اور کعبہ کے سامنے اپنا اونٹ کھڑا کیا پھر اسی طرح چلایا پھر کوہ ابو قبیس کی چوٹی پر اپنے اونٹ کو کھڑا کیا پھر اسی طرح چلایا پھر پتھر کی ایک بڑی چٹان لے کر ہاتھ سے چھوڑی چونکہ مکہ وادی کے نیبی میں بسا ہوا تھا چٹان کے ٹکڑے بکھر گئے اور کوئی مکان مکہ کا نہیں بچا جس میں پتھر کا ٹکڑا نہ گرا ہو۔ اس خواب کو سن کر عباس نکلے اور ولید بن عتبہ بن ربیعہ سے جو ان کا دوست تھا ملے اور اس خواب کا اس سے ذکر کیا اور اس سے اس خواب کے چھپانے کی خواہش کی ولید نے اپنے باپ عتبہ سے اس خواب کو بیان کیا اور چرچا پھیل گیا۔ پھر ابوجہل کی ملاقات عباس سے ہوئی اس نے ان سے کہا اے ابوالفضل میرے پاس آئو عباس کہتے ہیں کہ کعبہ کے طواف سے فارغ ہو کر میں اس کے پاس گیا۔ اس نے کہا تم میں یہ پیغمبرنی کہاں سے پیدا ہوگئی اور اس نے عاتکہ کے خواب کا ذکر کیا۔ پھر کہا اس سے تمہاری تسلی نہیں ہوتی کہ تمہارے مردوں نے نبوت کا دعویٰ کیا یہاں تک کہ تمہاری عورتیں بھی پیغمبری کا دعویٰ کرنے لگیں۔“ (جلد ٦ ص ٩٢) جواب : عباس خواب کے واقعہ سے اس لئے نہ گھبرائے تھے کہ کسی کی نبوت کا شعبہ تھا بلکہ اس لئے گھبرائے اور انکاری ہوئے تھے کہ ہولناک خواب تھا۔ پس اس خواب پر قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے بحالیکہ اسراء میں انہوں نے یہ وجہ نہیں بیان کی بلکہ وہ صاف لفظوں میں کہہ رہے ہیں انہ اتی الشام فی لیلۃ واحدۃ ثم رجع الی مکۃ یعنی ملک شام تک جا کر مکہ میں ایک ہی رات میں واپس آیا؟ یہ امر باعث انکار تھا نہ کہ کوئی ہولناک خبر فانی ھذا من ذاک خیر ! بہرحال ان تینوں دلیلوں کا جواب جو کچھ سر سید مرحوم سے ہوسکا یہی تھا جو ناظرین دیکھ چکے۔ چونکہ یہ تین دلیلیں تفسیر کبیر وغیرہ میں مذکور ہیں اس لئے ان کے جوابات تو سید صاحب نے دئیے جو دئیے مگر چوتھی دلیل چونکہ ہماری ایجاد ہے اس لئے اس کا جواب سر سید نے نہیں دیا اور نہ دے سکتے تھے کیونکہ ان کے کان اس سے آشنا نہ تھے ہاں یہ ممکن ہے کہ ان کا کوئی معتقد یا ہم خیال توجہ کرے مگر اتنا خیال رکھیں کہ جس طرح ہم بشواہد قرآنیہ اس دلیل کو مکمل کیا ہے جو اب بھی ہو تو ایسا ہی ہو۔ اولئک أبائی فجئنی بمثلھم اذا جمعتنا یا جریر المجامع ان مخالف دلائل کے جوابات سے فارغ ہو کر سر سید مرحوم اپنے خیال کے دلائل لکھتے ہیں۔ فرماتے ہیں۔ دلالت النص یعنی اللہ کا یہ فرمانا کہ سُبْحَانَ الَّذِیْ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا یعنی رات کو اللہ اپنے بندہ کو لے گیا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ خواب میں یہ امور واقع ہوئے تھے جو وقت عام طور پر انسانوں کے سونے کا ہے ورنہ لیلا کی قید لگانے کی ضرورت نہ تھی اور ہم اس کی مثالیں بیان کریں گے کہ خواب کے واقعات بلا بیان اس بات کے کہ وہ خواب ہے بیان ہوئے ہیں کیونکہ خود وہ واقعات دلیل اس بات کی ہوتے ہیں کہ خواب کا وہ بیان ہے۔“ (ص ٩٥) اس اجمال کی تفصیل آپ ان لفظوں میں کرتے ہیں : اب ہم پہلی دلیل کی تصریح کرتے ہیں یہ جان لینا چاہئے کہ قرآن مجید اور نیز احادیث میں جب کوئی امر خواب کا بیان کیا جاتا ہے تو یہ لازم نہیں ہے کہ اس سے پہلے یہ بھی بیان کیا جائے کہ یہ خواب ہے کیونکہ قرینہ اور سیاق کلام اور نیز وہ بیان خود اس بات کی دلیل ہوتا ہے کہ وہ بیان خواب کا تھا مثلاً حضرت یوسف ( علیہ السلام) نے اپنے باپ سے اپنا خواب بیان کرتے وقت بغیر اس بات کے کہنے کے کہ میں نے خواب دیکھا ہے یوں کہا یآ اَ بَتِ انی رایت احد عشر کو کبا والشمس والقمر رایتھم لی ساجدین لیکن قرینہ اس بات پر دلالت کرتا تھا کہ وہ خواب ہے اس لیے ان کے باپ نے کہا یٰـبُنَیَّ لاَ تَقْصُصْ رُؤْیَاکَ عَلٰٓی اِخْوَتِکَ فَیَکِیْدُوْالَکَ کَیْدًا پس معراج کے واقعات خود اس بات پر دلالت کرتے تھے کہ وہ ایک خواب ہے ضرور نہیں تھا۔ بلکہ صرف یہ کہنا کہ رات کو اپنے بندہ کو لے گیا صاف قرینہ ہے کہ وہ سب کچھ خواب میں ہوا تھا۔“ (ص ٩٩) جواب : بہت خوب چشم ما روشن دل ماشاد مگر معراج کے واقعات کا خواب پر دلالت کرنا تو پہلے مذکور ہوچکا ہے کہ آیت سبحان الذی اسری بعبدہ کے الفاظ سے تین دلائل اور ایک بیرونی دلیل مجموعہ اولہ اربعہ ہم بھی لکھ آئے ہیں جن پر آپ نے بھی جو کچھ فرمایا ہے ناظرین کو سنا آئے ہیں۔ پس یہ تو ختم ہے اب آگے چلئے ! دوسری دلیل سید صاحب نے آیت ماجعلنا الرؤیا الایۃ سے لی ہے اس کی تشریح و تصریح آپ ہی کے الفاظ میں یوں ہے۔ سید صاحب فرماتے ہیں : اس دلیل میں جو ہم نے لکھا کہ ماجَعَلْنَا الرّوْیَا الَّتِیْ اَرَیْنَاکَ اِلَّا فِتْنَۃٍ لِّلنَّاسِ یہ آیت متعلق ہے معراج سے بعض لوگ کہتے ہیں کہ معراج سے متعلق نہیں ہے۔ مگر ادنیٰ تامل سے معلوم ہوتا ہے کہ جب یہ آیت خاص اسی سورت میں ہے جس میں معراج کا ذکر ہے تو اس کو معراج کے متعلق نہ سمجھنے کی کوئی وجہ معقول نہیں ہے خصوصاً ایسی صورت میں کہ خود ابن عباس نے اس آیت کو اسراء سے متعلق سمجھا ہے۔ سورت بنی اسرائیل کی پہلی آیت بطور اظہار شکریہ اس نعمت کے ہے جو اللہ تعالیٰ نے معراج کے سبب قلب مبارک آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر انکشاف فرمائی تھی اس کے بعد بنی اسرائیل کا اور ان قوموں کا ذکر کیا ہے۔ جن کے لیے بطور امتحان و اطاعت فرمان باری تعالیٰ کچھ نشانیاں مقرر کی گئی تھیں اور باوصف اس کے انہوں نے رسولوں سے انکار کیا اور اللہ کی نافرمانی کی۔ اسی موقع پر اللہ نے اپنے پیغمبر سے فرمایا کہ ہم نے جو خواب تجھ کو دکھلایا ہے وہ بھی لوگوں کے امتحان کے لئے ہے کیونکہ وہ بھی نبوت کے شعبہ میں سے ہے تاکہ امتحان ہو کہ کون اس سے انکار کرتا ہے اور کون اس کو تسلیم کرتا ہے کیونکہ اس سے انکار کرنا بمنزلہ انکار رسالت اور تسلیم کرنا بمنزلہ تسلیم رسالت کے ہے۔ پس سیاق قرآن مجید پر نظر کرنے سے ثابت ہوتا ہے کہ پہلی آیت اور وہ دوسری آیت متصل اور پیوستہ ہیں یعنی اللہ نے یوں فرمایا ہے۔ سُبْحٰانَ الَّذِیْ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصٰی الَّذِیْ بَارَکْنٰا حَوْلَہُ لِنُرِیَہُ مِنْ اٰ یَاتِنَا اِنَّہُ ھُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ۔ وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤیَا الَّتِیْٓ اَرَیْنٰاکَ اِلَّا فِتْنَۃً لِّلنَّاسِ۔ پاک ہے وہ جو لے گیا اپنے بندہ کو ایک رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک تاکہ دکھائیں ہم اس کو کچھ اپنی نشانیاں بے شک وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے اور نہیں کیا ہم نے وہ خواب جو دکھایا تجھ کو مگر آزمائش واسطے لوگوں کے۔“ (جلد ٦ ص ١٠٠) جواب : سید صاحب نے بڑی کوشش سے آیت موصوفہ کو اسراء سے متعلق کیا ہے ہم اس امر میں آپ سے منازعت نہیں کرتے بلکہ مان لیتے ہیں کہ ابن عباس بھی اس آیت کو معراج کے ساتھ متعلق کہتے ہیں بلکہ مفسرین بھی تسلیم کرتے ہیں کہ آیت موصوفہ (وما جعلنا الرویا) اسراء کے ساتھ تعلق رکھتی ہے مگر گذارش ہے کہ رویا کے معنے میں علماء لغت کے متعدد اقوال میں چنانچہ آپ نے بھی کئی ایک نقل کئے ہیں (دیکھو تفسیر احمدی عبارت مندرجہ ذیل) علامہ خفاجی درۃ الغواص کی شرح میں لکھتے ہیں کہ رویا کے معنے میں اہل لغت کے تین قول ہیں وفیہ ثلاثۃ اقوال لاھل اللغۃ احدھا ما ذکرہ المصنف والثانی انھما بمعنی فیکونان یقظۃ ومنا ما والثالث ان الرؤیۃ عامۃ والرویا مختص لما یکون فی اللیل ولو یقظۃ (شرح درۃ الغوا ص ١٤٢) ایک تو وہ جس کا ذکر مصنف نے کیا ہے دوسرا یہ کہ دونوں لفظوں (رویت اور رویا) کے ایک ہی معنی ہیں جاگنے کی حالت میں بولے جائیں یا سونے پر تیسرا یہ کہ رویت عام ہے اور رویا رات کے دیکھنے سے اگرچہ حالت بیداری میں ہو مخصوص ہے۔ ص ١٠٣ پس ابن عباس (رض) کا قول صحیح بخاری میں رویا عین ملتا ہے یعنی آنکھوں سے دیکھنا پس آیت کے معنی یہ ہوئے اللہ فرماتا ہے اے نبی ہم نے جو تجھے آنکھوں سے دکھایا تھا اس سے لوگوں کو فتنہ ہوا۔ ان معنے سے آیت موصوفہ اسراء جسمانی کی مثبت ثابت ہوئی مگر سرسید مرحوم ابن عباس کی تفسیر پر اعتراض کرتے ہیں۔ اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ سلف سے علماء اور صحابہ کو اس میں اختلاف ہے کہ واقعات معراج بحالت بیداری ہوئے تھے یا خواب میں لیکن اگر قید لفظ ” عین“ کی جو ابن عباس کی حدیث ہے ایسی صاف ہوتی جس سے ” رویت فی الیقظ سمجھی جاتی تو علماء میں اختلاف نہ ہوتا۔ اس سے ظاہر ہے کہ قید لفظ ” عین سے“ رویت فی الیقظہ کا سمجھنا ایسا صاف نہیں ہے جیسا کہ بعض نے سمجھا ہے۔“ (ص ١٠٦) جواب : تعجب ہے سید صاحب کیسی حرکات کے مرتکب ہو رہے ہیں؟ فرماتے ہیں۔ اگر ابن عباس کا قول صاف ہوتا تو علماء میں اختلاف کیوں ہوتا حالانکہ اس کے متصل ہی صفحہ ١٠٧ پر لکھتے ہیں۔ اگر ہماری یہ رائے صحیح نہ ہو اور ابن عباس نے عین کا لفظ رویا کے ساتھ اسی مقصد سے بولا ہو کہ رویا سے رئویت بالعین فی الیقظہ مراد ہے تو وہ بھی منجملہ اس گروہ کے ہوں گے جو معراج فی الیقظہ کے قائل ہوتے ہیں مگر ہم اس گروہ میں ہیں ہو واقعہ معراج کو حالت خواب میں تسلیم کرتے اور ہمارے نزدیک خواب ہی میں ماننا لازم ہے۔ “ اس عبارت کا مضمون صاف ہے کہ باوجود صحیح منقول ہونے تفسیر ابن عباس کے آپ (بقول خود) ان سے مخالفت کے مجاز ہیں تو کیا وہ علماء جو آپ سے پہلے اور ابن عباس کے ہمعصر و ہم مرتبہ تھے ان کا حق نہ تھا کہ ان کی رائے سے مخالفت کرسکیں یعنی اس آیت کو اسراء سے الگ سمجھیں اور اس سمجھنے میں حق بجانب ہوں۔ دوسرا جواب سید صاحب نے ابن عباس کے قول کے لیے یہ سوچاہے کہ العین عندالعرب حقیقۃ الشے یقال جاء بالامر من عین صافیہ ای من فصہ وحقیقہ وجاء بالحق بعینہ ای خالصا واضحا (لسان العرب جلد ١٧ ص ١٨٠) عین کے معنے لغت میں حقیقۃ الشے کے ہیں لسان العرب میں لکھا ہے اہل عرب کے نزدیک عین کسی چیز کی حقیقت پر بولا جاتا ہے کہتے ہیں کہ وہ اس کام کو عین صافی سے لایا یعنی اس کام کی اصلیت و حقیقت سے اور حق کو بعینہ لایا یعنی خالص اور روشن حق کو لایا۔ پس حضرت ابن عباس کا یہ فرمانا کہ رئویا عین اس کے معنے ہیں۔ رویا حقیقۃ لان رؤیا الانبیا حق و وحی اور اسی لئے ہمارے نزدیک ابن عباس کی حدیث میں رویا کے ساتھ جو عین کے لفظ کی قید لگائی ہے اس سے رویا کے معنوں کو تبدیل کرنا اور لفظ رویا کو جو قرآن مجید میں آیا ہے بلا کسی قرینہ کے جو قرآن مجید میں موجود نہیں ہے مجازی معنوں میں لینا مقصود نہیں ہے بلکہ اس سے رویا کے صحیح اور واقعی حق ہونے کی تاکید مراد ہے یعنی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ خواب وہم و خیال یا اضغاث و احلام میں سے نہیں ہے بلکہ درحقیقت خواب میں جو کچھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیکھا وہ سچ اور حق ہے کیونکہ انبیاء کے تمام خواب حق اور سچ ہوتے ہیں پس لفظ عین کی قید سے لازم نہیں آتا کہ حالت بیداری میں دیکھا ہو۔“ (تفسیر احمدی جلد ٦ ص ١٠٦) جواب : سید صاحب کے حق میں عربی مثل صادق آئی حبک الشی یعمی ویصم یعنی جب کسی چیز کی محبت غالب آتی ہے تو اس کو ہر چیز سے غافل کردیتی ہے۔ سر سید نے لسان العرب سے تو عین کے معنے تلاش کئے مگر قاموس میں نہ دیکھے العین باصرۃ یعنی عین کے معنی آنکھ ہے حدیث شریف میں آیا ہے العین وکاء السہ آنکھ بند ہونے یعنی نیند سے وضو ٹوٹ جاتا ہے قرآن شریف میں دیکھنے عین کن معنوں میں آیا ہے غور سے سنئے لا تعدعیناک عنہم (تیری دو آنکھیں ان سے نہ گذر جائیں عینا تثنیہ ہے عین کا لَوْ نَشَآئُ لَطَمَسْنَا عَلٰٓی اَعْیُنِھِمْ فَاسْتَبَقُوا الصِّرَاطَ فَاَنّٰی یُبْصِرُوْنَ (سورہ یس) اگر ہم چاہتے تو ان کی آنکھوں کو بے نور کردیتے پھر راستہ تلاش کرتے مگر کہاں دیکھ سکتے؟ اس آیت میں اعین عین کی جمع ہے اور آنکھ کے معنی میں ہے۔ لسان العرب کی عبارت کے معنی بھی بجائے خود صحیح ہیں مگر اس کے استعمال کا محل اور ہے۔ لفظ عین کے معنے کئی ایک ہیں لیکن جب رویت یا رویا اس کی طرف مضاف ہوں تو اس کے معنے آنکھ ہی کے ہوتے ہیں نہ اور۔ اور اگر خواب یا رویت کی سچائی اور واقعیت بتلانی ہو تو اس وقت اس کا مضاف الیہ حق لایا جاتا ہے چنانچہ ایک صحابی نے اپنا خواب بیان کیا کہ مجھے ایک شخص خواب میں یہ کلمات سکھا گیا (جو اذان میں پڑھے جاتے ہیں) تو حضور نبی (علیہ السلام) نے فرمایا اِنَّھَا لَرُؤْیَا حق (یہ خواب سچا ہے) مشکوٰۃ باب الاذان) یہ کبھی نہ ہوگا کہ رویا یا روئت کی اضافت عین کی طرف ہو تو اس وقت بھی اس سے مراد حق اور سچ ہو۔ نہیں بلکہ آنکھوں سے دیکھنا مراد ہوگا نہ کچھ اور قرآنی دلائل تو سید صاحب کے پاس یہی دو تھے جن کا ذکر مع جواب اوپر ہوچکا۔ ان کے علاوہ دو تین دلائل آپ نے احادیث کے اختلافات سے پیدا کئے ہیں سو چونکہ وہ ان سے بھی پیچھے ہیں اس لئے ناظرین کو اتنی اطلاع کرتے ہیں کہ قیاس کن زگلستان من بہار مرا۔ جن احادیث میں سر سید مرحوم نے کسی قدر لفظی اختلاف پا کر اپنا مطلب سیدھا کرنا چاہا۔ ان میں علمائے محدثین نے تطبیق دی ہوئی ہے۔ فتح الباری وغیرہ ملاحظہ ہو۔ معراج : ۔ پہلے ہم بتلا آئے ہیں کہ معراج سے مراد وہ سیر ہے جو کہ مکہ شریف سے فلک الافلاک تک ہوئی تھی اس کے متعلق بھی گو بہت بڑا اختلاف ہے مگر اس جگہ ہم دو بزرگوں کا کلام نقل کرتے ہیں جو بمنزلہ دو شاہدین عادلین کے ہیں ان دو بزرگوں سے پہلے بزرگ حافظ ابن قیم (رح) ہیں جو فرماتے ہیں۔ وقد نقل ابن اسحاق عن عائشۃ ومعاویۃ انھما قالا انما کان الاسراء بروحہ ولم یفقد جسدہ ونقل عن الحسن البصری نحو ذلک ولکن ینبغی ان یعلم الفرق بین ان یقال کان الاسراء منا ماوبین ان یقال کان بروحہ دون جسدہ وبینہما فرق عظیم وعائشۃ ومعاویۃ لم یقولا کان منا ما وانما قالا اسری بروحہ ولم یفقد جسدہ وفرق بین الامرین فان مایراہ النائم قد یکون امثالا مضروبۃ للمعلوم فی الصورۃِ المحسوسۃ فیی کانہ قد عرج بہ الی السماء وذھب بہ الی مکۃ واقطار الارض وروحہ لم تصعد ولم تذھب وانما ملک الرویا ضرب لہ لمثال والذین قالوا عرج برسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) طائفتان طائفۃ قالت عرج بروحہ وبذاتہ وطائفۃ قالت عرج بروحہ ولم یفقد بدنہ وھولاء لم یریدوا ان المعراج کان منا ما وانما ارادوا ان الروح ذاتہا اسری بہا وعرج بھا حقیقۃ وباشرت من جنس ما تباشر بعد المفارقۃ وکان حالہا فی ذلک کحالھا بعدالمفارقۃ فی صعودھا الی السموات سماء سماء حیا ینتھی بھا الی السماء السابقۃ فتقف بین یدی اللہ عزوجل فیامر فیھا بمایشاء ثم ینزل الی الارض فالذی کان لرسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لیلۃ الاسراء اکمل مما یحصل للروح عند المفارقۃ ومعلوم ان ھذا امر فوق مایراہ النائم لکن لما کان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فی مقامہ خرق العوائد حق شق بطنہ وھو حی لایتا لم بذالک عرج بذات روحہ المقدسۃ حقیقۃ من غیرا ماتۃ ومن سواہ لاینال بذات روحہ الصعود الی السماء الا بعد الموت والمفارقۃ فالانبیاء انما استقرت ارواحھم ھناک بعد مفارقۃ الابدان وروح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صعدت الی ھناک فی حال الحیواۃ ثم عادت وبعد وفاتہ استقرت فی الرفیق الاعلی مع ارواح الانبیاء ومع ھذا فلھا اشراف علی البدن واشراق وتعلق بہ بحیث یرد السلام علی من سلم علیہ وبھذا التعلق رای موسیٰ قائما یصلی فی قبرہ وراہ فی السماء السادستہ ومعلوم انہ لم یعرج بموسی من قبرہ ثم رد علیہ وانما ذلک مقام روحہ واستقرارھا وقبرہ مقام بدنہ واستقرارہ الی یوم مما والروح الی اجسادھا فراہ یصلی فی قبرہ ورائہ فی السماء السادسۃ کما انہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فی ارفع مکان فی الرفیق الاعلی مستقرا ھناک وبدنہ فی ضریحہ غیر مفقود واذا سلم علیہ المسلم رد اللہ علیہ روحہ حتی یرد ولم یفارق الملاء الاعلی ومن کشف ادراکہ وغلظت طباعہ عن ادراک ھذا فلینظر الی الشمس فی علو محلھا وتعلقھا وتاثیر ھافی الارض وحیٰوۃ النبات والحیوان بھا ھذا وشان الروح فوق ھذا فلھا شان وللابدان شان وھذہ النار تکون فی محلھا وحرارتھا توثر فی الجسم البعید عنھا مع ان الارتباط والتعلق الذی بین الروح والبدن اقوی و اکمل من ذلک واتم فشان الروح اعلی من ذلک والطف فقل للعیون الرمد ایاک ان تری سنا الشمس استغشی ظلام اللیالیا (زاد المعاد ابن قیم جلد اول صفحہ ٣٠١ و ٣٠٢) ابن اسحق نے حضرت عائشہ اور معاویہ کا مذہب یہ بتایا ہے کہ معراج میں آنحضرت صلعم کی روح گئی تھی اور جسم غائب نہیں ہوا اور حسن بصری کا مذہب بھی یہی بتایا ہے لیکن اس قول میں کہ اسراء خواب میں ہوئی تھی اور اس قول میں کہ اسراء روح کے ساتھ ہوئی تھی نہ جسم کے ساتھ فرق جاننا چاہئے اور ان دونوں میں بڑا فرق ہے۔ حضرت عائشہ اور معاویہ نے یہ نہیں کہا کہ اسراء خواب میں ہوئی تھی بلکہ انہوں نے کہا اسراء روح کے ساتھ ہوئی تھی اور رسول اللہ کا جسم اسراء میں نہیں گیا اور دونوں میں فرق ہے کیونکہ سونے والا جو کچھ خواب میں دیکھتا ہے وہ حقیقت میں ایک معلوم چیز کی مثالیں ہیں جو موسوس شکلوں میں اس کو دکھائی دیتی ہیں وہ دیکھتا ہے کہ گویا آسمان پر چڑھ گیا اور مکہ اور دنیا کے اطراف میں چلا گیا ہے حالانکہ اس کی روح نہ چڑھی نہ کہیں گئی بلکہ خواب کے غلبہ نے اس کی نظر میں ایک صورت بنا دی ہے جو لوگ رسول اللہ کے معراج کے قائل ہیں ان کے دو گروہ ہیں۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روح اور بدن دونوں کو معراج ہوئی۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ معراج میں ان کی روح گئی تھی۔ بدن نہیں گیا اور اس سے ان کی یہ مراد نہیں کہ معراج خواب میں ہوئی بلکہ ان کی مراد یہ ہے کہ خود آنحضرت کی روح اسراء میں گئی اور حقیقت میں اسی کو معراج ہوئی اور اس نے وہی کام کیا جو بدن سے جدا ہونے کے بعد روح کرتی ہے اور اس واقعہ میں اس کا حال ایسا ہوا جیسا کہ بدن سے جدا ہونے کے بعد بعد روح ایک آسمان سے دوسرے آسمان پر جاتی ہے یہاں تک کہ ساتویں آسمان پر پہنچتی اور اللہ کے سامنے ٹھیر جاتی ہے پھر اللہ جو چاہتا ہے اس کو حکم کرتا ہے پھر زمین پر اترتی ہے۔ پس جو حال رسول اللہ کا معراج میں ہوا وہ اس سے زیادہ عامل تھا جو روح کو بدن چھوڑنے کے بعد حاصل ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ حال اس کیفیت سے جو سونے والا خواب میں دیکھتا ہے بالاتر ہے لیکن چونکہ رسول اللہ نے اپنے (بلند) مرتبہ کے سبب بہت سے فطرت کے قاعدوں کو توڑا یہاں تک کہ زندگی میں ان کا پیٹ چاک کیا گیا اور ان کو تکلیف نہ ہوئی اس لئے حقیقت میں بدون مرنے کے خود ان کی روح مقدس کو معراج ہوئی۔ اور جو ان کے سوا ہیں ان میں سے کسی کی روح بدون مرنے اور بدن چھوڑنے کے آسمان پر صعود نہیں کرتی انبیاء کی روحیں اس مقام پر بدن سے جدا ہونے کے بعد پہنچتی ہیں۔ اور رسول اللہ کی روح زندگی ہی میں اس مقام تک گئی اور واپس آگئی اور بعد وفات کے دیگر انبیاء کی روحوں کے ساتھ مقام ” رفیق اعلیٰ“ میں ہے اور باوجود اس کے بدن پر اس کا پرتو اور اس کی اطلاع اور اس کے ساتھ ایسا تعلق ہے کہ رسول اللہ ہر ایک کے سلام کا جواب دیتے ہیں اور اسی تعلق کے سبب سے رسول اللہ نے موسیٰ کو قبر میں نماز پڑھتے دیکھا اور پھر ان کو چھٹے آسمان پر بھی دیکھا اور یہ سب کو معلوم ہے کہ نہ موسیٰ نے قبر سے صعود کیا نہ واپس آئے۔ بلکہ وہ ان کی روح کا مقام اور اس کے ٹھیرنے کی جگہ ہے اور قبر ان کے بدن کا مقام اور اس کے ٹھیرنے کی جگہ ہے جب تک کہ روحیں دوبارہ بدنوں میں آئیں گی اسی لئے رسول اللہ نے ان کو قبر میں نماز پڑھتے دیکھا اور پھر چھٹے آسمان پر دیکھا۔ جیسا کہ خود رسول اللہ (کی روح) ” رفیق اعلیٰ“ میں ایک بلند مقام پر ہے اور ان کا بدن میں واپس بھیجتا ہے تاکہ اس کے سلام کا جواب دیں حالانکہ پھر بھی رسول اللہ (کی روح) ملاء اعلیٰ سے جدا نہیں ہوتی۔ اور جس شخص کی عقل تاریک اور طبیعت اس بات کے سمجھنے سے عاجز ہے وہ دیکھے کے آفتاب بہت بلندی پر ہے اور اس کا تعلق اور تاثیر زمین میں اور نبات اور حیوان کی زندگی میں ہے اور روح کا حال تو اس سے بالاتر ہے۔ کیونکہ روح کا حال اور ہے اور اجسام کا حال اور یہی آگ اپنی جگہ میں ہوتی ہے اور اس کی گرمی اس جسم میں سرایت کرتی ہے جو اس سے دور ہے حالانکہ جو ربط اور تعلق روح اور بدن کے درمیان ہے وہ اس سے زیادہ لطیف اور بالا تر ہے درد بھری آنکھوں سے کہہ دے کہ آفتاب کی روشنی کو دیکھنے سے بچو ورنہ راتوں کا اندھیرا چھا جائے گا گو حافظ ممدوح کا اپنا مذہب یہ نہیں بلکہ قائلین کی طرف سے یہ توجیہ نقل کی ہے مگر اس مذہب کو حافظ موصوف نے رد بھی نہیں کیا۔ بلکہ بڑی حمایت کی ہے۔ دوسرے رکن اس نصاب کے حضرت شاہ ولی اللہ قدس سرہ ہیں جو فرماتے ہیں۔ واسری بہ الی المسجد الاقصی ثم الی سدرۃ المنتہی والی ماشاء اللہ وکل ذلک بجسدہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فی الیقظ ولکن ذلک فی موطن ھو برزخ بین المثال والشھادۃ جامع لاحکامھما فظھر علی الجسد احکام الروح وتمثل الروح والمعانی الروحیۃ اجساد او لذلک بان لکل واقعۃ من تلک الوقائع تعبیر و قد ظھر لحز قیل وموسی وغیر ھما علیھم السلام عن من تلک الوقائع وکذلک لاولیاء الامۃ لیکون علی درجاتھم کحالھم فی الرویا واللہ اعلم (حجۃ اللہ ج ٢ ص ١٩٠ باب الاسرائ) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مسجد اقصیٰ تک لے گئے پھر سدرۃ المنتہیٰ تک اور جہاں تک اللہ نے چاہا اور یہ سب واقعات جسمانی تھے بیداری میں لیکن یہ ایک ایسے موقع پر کہ مثال اور شہادت کے درمیان واسطہ اور دونوں کے احکام کو ” اسی طرح ابن قیم نے زادالمعاد میں بیان کیا ہے کہ صرف روح رسول اللہ کی معراج میں گئی تھی اور جسد نہیں گیا۔ اس کا نتیجہ بھی ہے۔ کہ ابن قیم بھی بجسدہ معراج کا قائل نہیں ہے۔“ (تفسیر احمدی جلد ٦ ص ١٠٧) حالانکہ حافظ ابن قیم (رح) نے ایک ہی صفحہ پہلے اپنے مذہب کی تصریح کردی ہے کہ آنحضرت کو معراج بجسدہ ہوا ہے چنانچہ لکھتے ہیں ثم اسری برسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بجسدہ علی الصحیح (زاد المعاد جلد اول ص ٢٠٠) یعنی صحیح مذہب یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معراج بجسدہ ہوا ہے اس سے ظاہر ہے کہ ابن قیم کو معراج جسدی سے انکار نہیں۔ پس حافظ ممدوح کی طرف انکار کو نسبت کرنا سید صاحب کی غلط فہمی یا مطلب برآوری ہے۔ منہ جامع تھا پس جسم پر روح کے احکام ظاہر ہوئے روح اور کیفیات روحانیہ جسم کی شکل میں متشکل ہوئیں۔ اسی لئے ہر ایک واقع کی تعبیر اور بیان ظاہر ہوا حضرت حزقیل اور موسیٰ وغیرہ علیہم السلام کے لئے اسی طرح کے واقعات ظاہر ہوئے تھے۔ اسی طرح اولیاء امت کے لئے واقعات پیش آتے ہیں تاکہ ان کے درجوں کی بلندی اللہ کے نزدیک ظاہری میں ایسی ہوجیسی خواب میں ان کی حالت ہوتی ہے۔ “ پس ان بزرگوں کے کلام سے جو امر ثابت ہوتا ہے خاکسار بھی اسی کو مانتا ہے مختصر یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دو دفعہ سیر کرائی گئی ایک دفعہ تو مکہ شریف سے بیت المقدس تک جسمانی دوسری دفعہ مکہ شریف سے فلک الافلاک تک اس کیفیت سے جو ان دو بزرگوں کے کلام سے ثابت ہوتی ہے۔ غالباً اس رائے کو اختیار کرنے کی وجوہات میں یہ بھی ایک وجہ ان بزرگوں کو پیش آئی ہوگی کہ آسمانی سیر کی حدیثوں میں یہ غالباً اس رائے کو اختیار کرنے کی وجوہات میں یہ بھی ایک وجہ ان بزرگوں کو پیش آئی ہوگی کہ آسمانی سیر کی حدیثوں میں یہ ذکر آتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام سے آنحضرت صلعم کی ملاقات ہوئی پھر اگر آپ اسی جسم مطہر کے ساتھ تھے تو وہ بھی ایسے ہی ہوں گے حالانکہ ان کا اس جسم خاکی کو چھوڑ دینا شہادت تو اتر کے علاوہ قرآن و حدیث سے بھی ثابت ہے۔ فافھم ولا تعجل۔ بیرونی مباحث :۔ اندرونی ثبوت یعنی بعد بیان قرآن و حدیث کے بیرونی حملات کی مدافعت بھی ضروری ہے چونکہ ہم نے اس بحث کے دو حصے کر دئیے ہیں۔ اس لئے اعتراضات میں بھی کمی آگئی۔ بڑا اعتراض تو آسمانی سیر جسمانی پر تھا جس کا حل شاہ ولی اللہ صاحب اور حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہما نے کردیا کیونکہ ان حضرات کی تقریرات سے ثابت ہوتا ہے کہ عنصری جسم مطہر آنحضرت کا آسمان پر نہیں گیا۔ اب اگر کوئی اعتراض ہوسکتا ہے تو اس پر ہوسکتا ہے کہ مکہ شریف سے بیت المقدس تک سیر جسمانی تھوڑے سے عرصہ میں کیونکہ ہوئی بحالیکہ تخمیناً دو ہزار میل کا فاصلہ ہے۔ اس سوال کا جواب گو پہلے بھی علماء کرام نے دیا ہے مگر آج کل تو اور بھی سہل ہوگیا ہے۔ غور سے سنئے ! ایک زمانہ تھا کہ امرتسر سے دہلی تک اوسط ایک ماہ یا کم و بیش وقت لگتا تھا اب دس گھنٹوں میں ڈاک جاتی ہے لیکن ٹھیرتی ہوئی اگر راستہ میں نہ ٹھرے تو اسی رفتار سے چھ سات گھنٹوں میں پہنچ سکتی ہے۔ پچھلے دنوں خبر آئی تھی کہ گاڑیوں کے پتیوں پر بجلی لگا دی جائے گی تو امرت سر سے دہلی تک چار گھنٹوں میں سفر طے ہوا کرے گا لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس ترقی کی اب حد ہوچکی ہے یا آئندہ کو ابھی اسراء قدرت اور بھی ظاہر ہونے کی توقع ہے؟ کچھ شک نہیں کہ اس سوال کا جواب اثبات میں ہوگا یعنی بے شک آئندہ کو ابھی اسرارء قدرت کا اظہار اور بھی ہوگا۔ اس کے علاوہ سائنسدان اور موجد بآواز بلند کہتے ہیں کہ ہم کسی چیز میں اثر پیدا نہیں کرسکتے بلکہ اثر وہی ہے جو قدرت نے پیدا کر رکھا ہے۔ سائنسدان صرف اس کا ادراک کرتے ہیں مثلاً جن دوائوں سے آج کل برف سازی ہوتی ہے ان دوائوں یا ان کی تاثیرات کو ان موجدوں نے پیدا نہیں کیا بلکہ ان دوائوں کی تاثیرات معلوم کی ہیں جن کو بعد معلوم کرنے کے استعمال میں لا رہے ہیں علی ہذا القیاس نت نئی ایجادات جو ہو رہی ہیں ان سب میں یہی قانون ہے کہ کوئی موجد ان میں تاثیر پیدا نہیں کرسکتا بلکہ عطیہ الٰہی کو معلوم کر کے استعمال کرتا ہے پس ممکن ہے کہ جس سواری پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ شریف سے بیت المقدس تک سفر کیا تھا اس میں کوئی ایسی قدرتی تاثیر ہو کہ چند گھڑیوں میں بیت المقدس تک پہنچ گئے ہوں پھر وہاں سے واپس مکہ شریف میں صبح ہونے سے پہلے ہی تشریف لے آئے ہوں۔ سائنس کی کون سی دلیل اس سرعت حرکت سے مانع ہے بحالیکہ حرکت کی سرعت یوماً فیوماً ترقی پر ہے۔ یورپ اور امریکہ کے فلاسفر اور موجد سخت بیتاب ہیں کہ حرکت کی انتہا معلوم کر کے اس کو کمال سرعت کے درجہ پر پہنچایا جاوے۔ ہمارے خیال میں جب تک مدعیان کی طرف سے کوئی قطعی دلیل اس امر پر قائم نہ ہولے کہ سرعت حرکت کی حد بس یہی ہے جو آج تک دریافت ہوئی ہے تب تک ان کا حق نہیں کہ ہم سے کوئی دلیل اسراء جسمانی پر طلب کریں۔ کیا وہ کوئی دلیل لا سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ علاوہ اس کے واضح دلیل واقعہ معراج کی صحت پر یہ ہے کہ سائنس مانتی ہے کہ جو حرکت ایک قوت سے گھنٹے میں ہوتی ہے وہی حرکت اس سے مضاعف (دگنی) قوت کے ساتھ نصف گھنٹے میں حاصل ہوسکتی ہے علی ہذا القیاس اس سے دگنی قوت سے اس سے نصف وقت میں۔ ایسا ہی اس سے دگنی قوت سے اس سے نصف وقت میں غرض جس قدر قوت محرکہ قوی ہوگی اسی قدر حرکت کم وقت میں ہوگی جب ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ وند تعالیٰ کی قوت سب سے اقویٰ ہے تو کچھ شک نہیں رہتا کہ اللہ کے کام اور حرکات سب حرکتوں کے وقت سے کم وقت میں ہوسکتے ہیں۔ فافھم وتدبر۔ (منہ)