إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتًا لِّلَّهِ حَنِيفًا وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ
بے شک ابراہیم ایک امت تھا، اللہ کا فرماں بردار، ایک اللہ کی طرف ہوجانے والا اور وہ مشرکوں سے نہ تھا۔
(120۔128) تعجب ہے کہ تم عرب کے لوگ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کے تو ایسے معتقد ہو کہ ہر ایک کام میں ان کی سند پیش کرتے ہو مگر صرف زبانی جیسے ہند پنجاب اور کشمیر کے لوگ حضرت پیر عبدالقادر جیلانی (رح) کی صرف زبانی تعظیم و تکریم کرتے ہیں ورنہ اگر ان کی کتاب سے ان کو کچھ بتا کر کہا جائے کہ ان کی تعلیم پر عمل کرو تو منہ بسور لیتے ہیں اسی طرح تم ہو۔ سنو ! اس میں شک نہیں کہ حضرت ابراہیم بے شک مستند آدمی تھا مگر کیوں تھا؟ اس لئے کہ وہ ایمانداروں کا پیشوا اور اللہ کا یکسو فرمانبردار بندہ تھا اور بڑی بات یہ ہے کہ وہ مشرکوں میں سے نہ تھا۔ کسی طرح کا شرک ہو جلی ہو یا خفی اس کے پاس تک نہ آسکتا تھا اللہ کی نعمتوں کا شکر گذار تھا اللہ ہی نے اس کو برگزیدہ کیا تھا اور سیدھی راہ دکھائی تھی اور ہم (اللہ) نے دنیا میں بھی اسے عزت اور آبرودی تھی اور آخرت میں بھی وہ نیکوکاروں میں سے ہوگا جو کچھ ہم نے اس سے برتائو کیا اس کی دیانتداری کی وجہ سے کیا اور تیری طرف بھی باوجودیکہ تو سیدالانبیاء ہے ہم (اللہ) نے یہی حکم بھیجا ہے کہ تو ابراہیم کے طریق پر چل جو اللہ کا یکسو فرمانبردار بندہ تھا اور مشرکوں میں سے نہ تھا مگر افسوس ہے کہ تیرے مخالف دیانتداری کے پاس بھی نہیں پھٹکتے اور بیہودہ باتیں اور سوال و جواب کر کے ناحق وقت ضائع کرتے ہیں دیکھو تو یہودی جو اپنے آپ کو اہل علم سمجھتے ہیں کیسا احمقانہ سوال کرتے ہیں کہ تم سبت (ہفتہ) کے روز کی تعظیم کیوں نہیں کرتے حالانکہ سبت کی تعظیم اور اس میں بالکل عبادت ہی میں لگے رہنا صرف انہی لوگوں پر فرض کیا گیا تھا جو اس وقت اس میں مختلف ہو رہے تھے یعنی یہودی اور عیسائی۔ عیسائیوں نے بجائے ہفتہ کے اتوار بنا لیا۔ تورات سے یہ امر ثابت نہیں ہوتا کہ سبت تمام قوموں کے لئے ہے اور تیرا پروردگار قیامت کے روز ان کے اختلافی امور میں فیصلہ کرے گا مگر تو اپنی دھن میں لگا رہ اپنے پروردگار کی راہ کی طرف دانائی اور عمدہ عمدہ نصائح سے لوگوں کو بلاتا رہ اور حسب ضرورت مباحثہ کی نوبت آئے تو نہایت ہی عمدہ طریق سے جس میں کسی کی دل آزاری نہ ہو مخاطب کر کے بزرگوں اور معبودوں کی بے ادبی نہ ہو ان کے ساتھ مباحثہ کیا کر بے شک تیرا پروردگار ان لوگوں کو بھی جانتا ہے۔ جو اس کی راہ سے بہکے ہوئے ہیں اور وہ ہدایت والوں سے بھی خوب واقف ہے اور اگر مباحثہ میں فریق مخالف کی زیادتی کا جو دوران مباحثہ یا میدان جنگ میں ان سے سرزد ہوئی ہو بدلہ لینا چاہو تو اسی قدر لیا کرو جتنی تم کو تکلیف پہنچائی گئی مگر اس میں بھی یہ اصول مدنظر رہا کرے کہ ان کے بزرگوں اور معبودوں کی ہتک نہ ہو ورنہ پھر معاملہ بڑھ جائے گا اور اگر صبر کرو اور اصل مضمون ہی کی طرف توجہ کر کے ان کی بیہودہ گوئی کی پرواہ نہ کرو اور اصل مطلب ہی کا جواب دیتے رہو تو صبر کرنا صابروں کے حق میں سب سے بہتر ہے پس تو یہی خصلت اختیار کر اور صبر ہی کیا کر واقعی بات یہ ہے کہ جیسی تجھ کو تکلیف مخالفین کی طرف سے ہو رہی ہے ایسی تکلیف پر صبر کرنا ہر ایک کا کام نہیں اور دراصل تیرا صبر بھی محض اللہ ہی کی مدد سے ہے ورنہ کسی انسان کا کام نہیں کہ ایسی مصیبت اور تکلیف میں صبر کرے یا تو وہ کام چھوڑ دے گا یا طبیعت کو بے چین کر کے بدحواس ہوجائے گا مگر تو ایسی باتوں کا خیال بھی نہ لا اور ان بےدینوں کے حال پر غم نہ کر اور نہ ان کی فریب بازیوں سے دل تنگ ہو بے شک اللہ تعالیٰ کی مدد پرہیزگاروں کے ساتھ ہے انجام کار انہی کا ہے یہ بھی دیکھ لیں گے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے چنانچہ سب نے دیکھ لیا۔ فالحمدللہ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِمُؤَلِّفِہٖ وَلِکَاتِبِہٖ وَلِمَنْ سَعی فِیْہِ بِرَحْمَتِکَ یا اللّٰہُ