يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ ۖ قُلْ هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ ۗ وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَن تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِن ظُهُورِهَا وَلَٰكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَىٰ ۗ وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
وہ تجھ سے نئے چاندوں کے متعلق پوچھتے ہیں، کہہ دے وہ لوگوں کے لیے اور حج کے لیے وقت معلوم کرنے کے ذریعے ہیں اور نیکی ہرگز یہ نہیں کہ گھروں میں ان کی پچھلی طرفوں سے آؤ، بلکہ نیکی اس کی ہے جو بچے۔ اور گھروں میں ان کے دروازوں سے آؤ اور اللہ سے ڈرو، تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔
(189۔210۔ چنانچہ تجھ سے چاند کا حال دریافت کرتے ہیں کہ چاند کم وبیش کیوں ہوتا ہے اس کا فائدہ کیا ہے تو اے بنی علیک السلام ان کو کہہ کہ یہ چاند کا کم زائد ہونا لوگوں کے کاروبار کے اوقات اور حج کی تاریخ کے لئے ہے پس اسے ہی کافی سمجھو اور اپنی سمجھ سے بالا تر سوال نہ کرو۔ ” بعض لوگوں نے آنحضرت سے سوال کیا کہ چاند کم زائد کیوں ہوتا ہے؟ یہ مسئلہ ان کے فہم سے عالی تھا اس کے سمجھنے کو علم ہئیت بھی چاہئے اس لئے اس کے سبب سے اعراض کر کے اس کے فائدہ کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی۔ “ اصل بات تو یہ ہے کہ جو امر دینی نہ ہو اس کا سوال پیغمبر سے کرنا ایسا ہی لغو ہے جیسا کہ تمہارا یہ فعل کہ حج کرکے مکانوں کے دروازوں سے نہیں آتے ہو بلکہ اوپر سے چھت پھاڑ کر اترتے ہو۔ اور اس کو بڑا نیکی کا کام ! جانتے ہو۔ حالانکہ ہمارے نزدیک یہ کوئی نیکی کا کام نہیں کہ تم اپنے گھروں میں بجائے دروازوں کے چھت کی طرف سے آؤ ” شان نزول :۔ ! عرب میں دستور تھا کہ حج کر کے واپسی کے وقت گھروں کے دروازوں سے اندر نہیں آتے تھے بلکہ پیچھے کی طرف سے چڑھ کر اوپر سے اترتے تھے اور اس کو ثواب جانتے چونکہ یہ رسم ان کی محض خیالی تھی اس لئے اس سے روکنے کو یہ آیت نازل ہوئی “ ہاں نیکی کے کام تو ان لوگوں کے ہیں جو متقی ہیں سو تم بھی اگر نیک بننا چاہو تو یہ واہیات خیال چھوڑو اور گھروں کے دروازوں سے آیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو جو کام کرو اس میں پہلے اللہ کی رضا عدم رضا کو سوچ لیاکرو۔ تاکہ تم مراد حقیقی کو پاؤ تمہاری مرادیابی کا پہلا زینہ یہ ہے کہ جو لوگ تم سے دین کی وجہ سے ناحق لڑتے ہیں تم انسے اللہ کی راہ میں اللہ کے خوش کرنے کو لڑو۔ ” شان نزول :۔ " مکہ شریف میں تو مسلمانوں کو اس امر کی ممانعت تھی کہ کسی سے تعرض اور لڑائی کریں۔ جب مدینہ میں ہجرت کی تو یہ آیت نازل ہوئی معالم “ ”(لڑو) یہ پہلی آیت جہاد کے متعلق آئی ہے۔ اس مسئلہ (جہاد) پر تو جو کچھ مخالفین اسلام نے اپنی بے سمجھی کے گل کھلائے ہیں‘ عیاں راچہ بیاں‘ کسی صاحب نے اسلام کو ایمان بالجبر کا معلم بنایا۔ کسی نے ظالم کا خطاب عطا فرمایا۔ کسی نے ترقی اسلام کا ذریعہ اسی کو سمجھا۔ مگر داراصل یہ سب کچھ ان کی بے سمجھی اور تعصب کے آثار ہیں ؎ سخن شناس نئی دلبر اخطا ایں جاست اسلامیؔ جہاد بالکل طبیعت انسانی کے موافق اور انصاف کے مطابق ہے۔ اس کا بیان کرنے سے پہلے ہم کسی قدر اس زمانہ کی آزادی کا مختصر ذکر مناسب سمجھتے ہیں جس وقت مسلمانوں کو جہاد کا حکم ہوا تھا۔ اس لئے کہ واقعات کو ملحوظ رکھ کر رائے لگانا ہی انصاف ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (فداہ روحی) نے جب تک دعویٰ نبوت نہ کیا تھا تمام ملک آپ کی نسبت حسن ظن رکھتا تھا۔ اور آپ کو نہایت ہی راستباز جانتے تھے اس پر کل مورخین (مسلم کافر) متفق ہیں کہ آپ کی نسبت پہلے دعوٰے نبوت کے کسی کو بھی کوئی اعتراض نہ تھا بلکہ بعد دعوٰے نبوت کے بھی آپ کے معاملات کی صفائی کے قائل تھے۔ اور آپ کو امین جان کر اپنی امانتیں آپ کے پاس رکھا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ جس روز آپ انہیں کفار کے ستائے ہوئے اپنا وطن مالوف چھوڑ کر مدینہ منورہ میں مسافرانہ تشریف لے گئے اس روز بھی آپ کے پاس مانتیں رکھی تھیں۔ جن کے ادا کرنے کو آپ اپنے چچا زاد بھائی علی (رض) کو وکیل کر گئے انہوں نے تین روز میں سب امانتیں ادا کردیں۔ باوجود اس صفائی حال اور صدق مقال کے آپ کو اور آپ کے اتباع کو جس قدر تکالیف شدیدہ مخالفین نے پہنچائیں کتب تاریخ ان سے پر ہیں کسی کو انکار مجال نہیں۔ امام مسلم نے ابوذر غفاری (رضی اللہ عنہ) کے مشتے نمونہ خروار حالات اپنی کتاب میں لکھے ہیں۔ ابوذر صحابی (رض) کہتے ہیں :۔ جملہ مخالفین کی غلطی : ” جب میں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کی خبر سنی تو میں نے اپنے بھائی انیس کو جو بڑا شاعر تھا دریافت حال کے لئے بھیجا۔ اس نے آکر بتایا کہ لوگ اس کو شاعر کہتے ہیں مگر میں نے اس کا کلام شعرا کے کلام سے مقابلہ کیا اور شعرا کے سامنے پیش کیا لیکن چہ نسبت خاک را باعالم پاک۔ ابوذر کہتے ہیں میں نے اس تحقیق کو ناکافی جان کر مکہ کا قصد کیا۔ میں نے سن رکھا تھا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام لینے سے لوگ بگڑتے ہیں اور آپ کا نام بےدین (صابی) رکھا ہوا ہے میں نے مکہ میں آکر ایک شخص کو نہایت کمزور غریب طبع کم حیثیت سمجھ کر اس سے پوچھا کہ جس کو لوگ بےدین کہتے ہیں وہ کہاں ہے اس نے فوراً سب کو جمع کرلیا۔ ان لوگوں نے میری ایسی گت بنائی کہ میرا تمام جسم خون آلود سرخ ہوگیا۔ پھر میں نے کسی کے پاس آپ کا یہ نام بھی ظاہر نہ کیا۔ یہاں تک کہ قریباً میں پندرہ روز کعبہ شریف کی مسجد میں پڑا رہا اور ڈرتا ہوا کسی سے اتنا بھی نہ پوچھتا کہ یہ بےدین کہاں رہتا ہے۔ ایک روز آپ کا چچا زاد بھائی حضرت علی (رض) نے (جو اس وقت کم سن لڑکے تھے) مسافر جان کر یہ کہا کہ ابھی مسافر کو اپنی منزل معلوم نہیں ہوئی کہ یہاں سے جائے مگر نہ تو میں ان سے ڈرتا ہوا کچھ کہہ سکتا تھا اور نہ انہوں نے ازخود مجھے کچھ کہا۔ یہاں تک کہ تین روز پے در پے ایسا ہوا۔ اخیر کو انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ تم یہاں اتنی مدت سے کیوں ٹھیرے ہو میں نے کہا اگر بتلانے کا وعدہ کرو تو کہتا ہوں ان سے پختہ وعدہ لے کر میں نے حضور اقدس کا ٹھکانہ پوچھا۔ انہوں نے کہا میرے ساتھ آئو۔ لیکن چونکہ میں حضور کے خدام سے مشہور ہوں میرے ساتھ چلنے سے لوگ تمہیں تکلیف دیں گے۔ اس لئے میں جب کسی موذی کو دیکھوں گا تو پیشاب کے بہانہ ٹھیر جائوں گا۔ تو آگے چلا جائیو۔ چنانچہ اللہ اللہ کر کے دونوں اسی طرح درد حالت تک پہونچے۔ حضور اقدس نے مجھے تلقین اسلام کر کے فرمایا کہ تو اپنی قوم میں چلا جا۔ میں نے عرض کیا کہ ایک دفعہ تو ضرور ان میں باآواز بلند حقانیت ظاہر کروں گا۔ چنانچہ میں نے آکر کعبہ شریف میں بلند آواز سے کلمہ پڑھا تو سنتے ہی سب نے مجھ پر ہجوم کیا اور خوب ہی خبر لی اتنے میں آپ کے چچا عباس ( جو ابھی تک مشرف باسلام نہ ہوئے تھے) آئے اور انہوں نے مجھے چھوڑایا۔ اس وجہ سے نہیں کہ انہوں نے میرے اسلام کی حمایت کی بلکہ یہ کہا کہ تم (مشرکین عرب) شام کے ملک کو تجارت کے لئے جاتے ہوئے اس کی قوم سے ہو کر جاتے ہو۔ اگر اس کو ایسا تنگ اور بے عزت کرو گے تو نفصان تجارت کا اندیشہ ہے آخر کار میں وہاں سے اپنے وطن کو چلا گیا۔ بلالؔ اور صہیبؔ کو ان کے مالک ہر روز دھوپ میں کھڑا کر کے سخت بے رحمانہ مارتے۔ ابوبکرؔ جیسے معزز رئیس اور عمرؔ جیسے بہادر شجاع پر ہر روز بلا جرم حرم کعبہ میں (جہاد کوئی باپ کے قاتل کو بھی کچھ نہ کہتا تھا) حملے ہوتے۔ تنگی معاش کا یہ حال تھا کہ سب قریش نے اتفاق کرلیا تھا کہ مسلمانوں اور ان کے حمائتی ابوطالب بلکہ کل آپ کے خاندان بنی ہاشم سے خرید و فروخت ناطہ و نکاح وغیرہ بند کردیئے اور اس پر ایک مجمع عام میں بعد منظوری دستخط ہوئے جس پر تین سال تک عمل درآمد ہوتا رہا۔ حضور اقدس معہ چند مسلمانوں اور ابوطالب کے ایک پہاڑی میں بستے رہے کوئی قریش ان لوگوں سے لین دین تو کجا گفتگو تک بھی نہ کرتا تھا آپ راستہ میں چلے جائیں تو کنکر پتھر کے علاوہ پائخانہ آپ کے بدن مبارک (فداہ ابی و امی) پر ڈالا جاتا۔ آخر نوبت باں رسید کہ آپ نے اپنا وطن مالوف چھوڑ کر طائف کی راہ لی وہاں بھی جو سلوک خدام والا سے ہوا اس کے بیان سے قلم عاجز ہے۔ انیٹیں پتھر برسائے گئے۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کو پیچھے لگا کر تالیاں پٹوا کر شہر سے باہر نکالے گئے۔ پھر وہاں سے لوٹتے ہوئے مکہ شریف کو آئے۔ جہاں آپ کے جدی مکانات تھے اور جہاں کے آپ خاندانی رئیس تھے۔ اسی شہر میں آپ کو (فداہ روحی) قدم رکھنے کی اجازت نہیں۔ اللہ اکبر آخر ایک معمولی آدمی کی پناہ لے کر اندر آئے (عربوں میں دستور تھا کہ جب کوئی کسی کی پناہ سے شہر میں آتا تو اس کو کچھ نہ کہتے۔) تو آکر بھی کون سی عافیت تھیں ادھر مسلمانوں کا یہ حال کہ کفار لوگوں سے تنگ آکر گھر بار بیوی بچے چھوڑ کر حبشہ کو چلے گئے تھے۔ آخر یہ ہوا کہ خود ولت بھی مکہ شریف کو جو آپ کا وطن مالوف تھا چھوڑ کر سب ! سے چھپ کر چلے گئے مگر آپ لوگ اس پر بھی راضی نہ ہوئے مدینہ تک بھی پیچھا کیا۔ سو سو اونٹ پکڑنے والے کے لئے مقرر کئے۔ چنانچہ ایک بڑا بہادر ڈاکو مدینہ کی راہ میں جا ہی ملا۔ لیکن ؎ ہوگا کیا دشمن اگر سارا جہاں ہوجائے گا جبکہ وہ با مہر ہم پر مہرباں ہوجائے گا تھوڑی ہی دور تھا کہ اس کا گھوڑا بحکم الٰہی زمین میں دھس گیا۔ یہاں تک مجبور ہوا کہ اس نے خود ہی درخواست کی کہ آپ میرے لئے دعا کر کے مجھے چھڑائیں میں آپ تک کسی کو آنے نہ دوں گا اور وہ اپنے تجربہ سے یہ بھی جان گیا کہ آپ کی ضرور ترقی ہوگی چنانچہ اس نے ایک امان بھی اسی وقت ایک چمڑے کے ٹکڑے پر لکھوالی اور اپنے وعدہ کے موافق لوٹتے ہوئے جو تلاش کنندہ اس کو ملا اس نے پتہ نہیں بتلایا۔ پھر اس پر بھی بس نہیں کی بلکہ مدینہ پر بھی فوج لائے اور منہ کی کھا کر گئے۔ آخر کار جنگ اخزاب میں تو تمام ملک کو جن میں مشرکین عرب اور ہمارے جنٹلمین اہل کتاب (باوجود معاہدہ امن اور عہد صلح کے) بھی شریک تھے۔ آکر تمام مدینہ کو گھیر لیا اور قریباً ١٨۔ ١٩ روز تک گھیرے رہے تمام شہر میں دہلی کے غدر سے کئی حصے زائد بربادی اور گھبراہٹ رہی۔ آخر کار خائب خاسر ہو کر واپس ہوئے۔ دیکھو اور غور سے پڑھو وَاَرْسَلْنَا عَلَیْھِمْ رِیْحًا وَّجُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْھَا۔ اس برتے پر بھی اعتراض ہیں کہ پیغمبر اسلام نے جہاد کئے اور جہاد کی تعلیم دی ؎ اللہ رے ایسے حسن یہ یہ بے نیازیاں بندہ نواز ! آپ کسی کے اللہ نہیں اب سوال یہ ہے کہ یہ اور اس کے سوا اور تکالیف جن کے لکھنے سے قلم کو رعشہ ہوتا ہے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے اللہ کو کیوں پہنچائی گئیں۔ اسلام کے مخالفو ! ہمارے علاتی بھائی عیسائیو ! (حدیث شریف میں آیا ہے کہ انبیاء سب کے سب علاتی بھائی ہیں یعنی توحید میں جو اصل الاصول ہے سب شریک ہیں اس لحاظ سے عیسائیوں کو علاتی بھائی لکھا گیا گو انہوں نے توحید چھوڑ دی ہے مگر نام لیوا اتباع انبیاء تو ہیں۔) ہمارے مہربان پڑوسی ہندوئو ! ذرا انصاف سے اس سوال کو سوچو اور اللہ سے ڈر کر اس کا جواب صاف اور صحیح لفظوں میں دو۔ مگر آپ لوگ تو اپنے بھائیوں کے لحاظ سے حق کے لئے کہیں گے ہم ہی اس کی صحیح وجہ بتلاتے ہیں وہ یہی تھی کہ مکش بہ تیغ ستم والہان ملت را نہ کردہ اند بجز پاس حق گناہ دگر سب جھوٹے خدائوں کو چھوڑ کر ایک ہی مولا کریم سے لو لگائی تھی ذرا غور سے پڑھو اور خوب سمجھو یُخْرِجُوْنَ ! الرَّسُوْلَ وَاِیّٓاکُمْ اَنْ تُؤْمِنُوْا باللّٰہِ رَبِّکُمْ (سورہ ممتحنہ) کیا آپ یا آپ کا کوئی اور بھائی ثابت کرسکتا ہے کہ ان مظلوموں کا بجز اس کے کوئی اور گناہ بھی تھا۔ کیا حضور مقدس ( فداہ روحی) یا آپ کے خدام نے مکہ میں کسی پر ظلم کئے تھے۔ کیا کسی کا مال کھایا تھا یا جاگیر دبائی تھی؟ یا کسی کے باپ یا بیٹے کا قتل کیا تھا یا کم سے کم کسی مشرک کا پانی چھو دیا تھا؟ کچھ نہیں کہا اور ہرگز نہیں کیا۔ پھر کیا ان (مشرکین اور اہل کتاب) کا حق تھا؟ ان کو بھی بوجہ تبدیل مذہب ایسے تنگ کریں کہ جس کا ذکر شتے نمونہ از خرداء سن چکے ہو جس کا ادنے اثر ہو کہ وہ بیچاری مظلوم بجان آکر اپناوطن مالوف اور بیوی بچے بھی چھوڑ کر غیر وطن میں جابسے۔ اگر ان کا یہ حق تھا تو ہر ایک کا جو اپنے کو سچے مذہب کا پیرو سمجھے یہ حق ہونا چاہیے۔ پس صحابہ کا یہی حق تھا کہ ان ظالموں سے علاوہ بدلہ لینے کے اس حق کے لحاظ سے بھی بخوبی پیش آویں مگر واقعہ یہ ہے کہ انہوں نے ایسا نہ کیا۔ اگر ان مشرکوں کا حق نہ تھا تو جو کچھ انہوں نے کیا اسے انصافاً بے جا تو کہو اور اپنے بھائیوں کی بے جا حمائت تو چھوڑ دو۔ پھر بتلائیے کہ ایسے ظلم پر ظلم کی کہاں تک برداشت ہوسکتی ہے اور کہاں تک طبیعت انسانی متحمل ہے اور ساتھ ہی اس کے مذہبی رکاوٹ کے اٹھانے کا جوش بھی اندازہ کر کے بتلائوں۔ سنو ! اس جنگ جہاد کی وجہ قرآن کریم نے خود ہی بتلائی ہے اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ بِاَنَّھُمْ ظُلِمُوْا وَاِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصْرِھِمْ لَقَدِیْرٌ اَلَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ بِغَرِرس حَقٍّ اِلَّآ اَنْ یَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ الایۃ اس آیت کو ذرا آنکھیں کھول کر پڑھو اور دل لگا کر سمجھو کہ اس جہاد کے بانی مبانی آپ ہی کے بھائی صاحبان تھے یا کوئی اور۔ میں سچ کہتا ہوں اگر مسلمانوں کو آزادی اور امن ہوتا اور کفار نانہجار کی طرف سے وہ سلوک جو پیش آئے نہ آئے ہوتے تو ان کو جہاد کی بھی ضرورت نہ ہوتی اور نہ وہ اس طرف خیال کرتے بلکہ اپنی صفائی حال اور صدق مقال سے ایسی ترقی کرتے اور آسائش میں رہتے جو اس جنگ و جہاد سے ان کو میسر نہ ہوئی تھی۔ اس آیت میں بھی جس کا حاشیہ ہم لکھ رہے ہیں جہاد کی طرف اشارہ فرمایا ہے اور باوجود اس کے کہ اب ایک موقع بدلہ لینے کا ہے اور بدلہ بھی ایسے لوگوں سے جن کے ظلم و ستم کی کوئی حد ہی نہ رہی ہو۔ پھر بھی زیادتی کرنے سے روک دیا نہ صرف روک دیا بلکہ اس پر وعید شدید فرمایا کہ زیادتی کرنے والے اللہ کو کسی طرح بھی نہیں بھاتے۔ پھر اسی آیت میں بانیان جہاد پر الزام لگایا ہے کہ فتنہ وفساد کرنا جو تم کر رہے ہو جس سے طرح طرح کی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ قتل سے بھی برا ہے اس وقت لکھتے ہوئے مجھے اس کی وجہ کہ یہاں پر والْفِتْنَۃُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ جناب باری نے کیوں فرمایا سمجھ میں آئی ہے کہ اس میں حال کے عیسائیوں اور آریوں وغیرہ کو الزام دیا جاتا ہے کہ تم اسلام پر تو منہ پھاڑ پھاڑ کر اعتراض کرتے ہو کہ اس نے جہاد کی تعلیم کی ہے مگر یہ نہیں دیکھتے کہ تمہارے بھائیوں نے کیا کچھ نہیں کیا۔ سب فتنوں کی جڑ تو وہی ہیں جو فتنہ پروازی کرتے ہیں ایک اور آیت میں بھی اس امر کی طرف کہ مسلمان بمجبوری لڑتے ہیں اشارہ ہے قاتِلُوا الْمُشْرِکِیْنَ کَافَّۃً کَمَا یُقَاتِلُوْنَکُمْ کَآفَّۃً مگر افسوس کہ مخالفین اسلام بجائے اس کے کہ اس آیت پر غور کر کے نادم اور خجل ہوتے۔ الٹے الجھتے ہیں کہ صاحب یہاں پر قرآن نے فیصلہ ہی کردیا کہ سب کافروں کو مار ڈالو۔ مگر وہ اس کو نہیں دیکھتے کہ کَمَا یُقَاتِلُوْنَکُمْ کَآفَّۃً کے بھی تو کچھ معنی ہیں۔ بھلا اگر اسلام اور قرآن کا یہی منشا ہوتا کہ کوئی کافر بھی دنیا میں زندہ نہ رہے تو ذمی کافروں کو رکھنے کا حکم اور ان کی حفاظت مثل مسلمانوں کے ہونے کا ارشاد کیوں ہوتا ہے۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کو دفع فساد منظور ہے نہ کہ کشت و خون چنانچہ ایک جگہ صریح ارشاد ہے وَلَوْلَ ! دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّھُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَصَلٰوۃٌ وَّمَسَاجِدُ یُذْکَرُ فِیْھَا اسْمُ اللّٰہِ کَثِیْرًا (الحج) جس جس آیت میں قتل قتال کا ذکر ہے سب میں نہیں تو اکثر میں ضرور ہی ہوگا کہ اس جہاد سے مقصود دفع مظالم ہیں۔ سنو ! وَمَا لَکُمْ لاَ تُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَ الْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْ ھٰذِہِ الْقَرْیَۃِ الظَّالِمِ اَھْلُھَا اس آیت نے اور بھی واضح کردیا کہ جہاد سے مقصود اصلی دفع مظالم اور آزادی کا کھولنا ہے ورنہ اسلام کی اصلی غرض تو منادی اور اعلائے کلمۃ الحق ہے اگر کوئی اس میں خلل انداز نہ ہو اور بلاوجہ مزاحمت نہ کرے تو اسلام نے بھی اس سے تعرض کی اجازت نہیں دی۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے زمانہ کے مخالفین عیسائی اور ہندو (آریہ) اعتراض کرتے ہوئے اپنے گریبان میں منہ نہیں ڈالتے کہ جس جہاد پر ہم منہ پھاڑ پھاڑ کر اعتراض کر رہے ہیں وہ ہمارے ہی بھائیوں کی مہربانی کا ثمرہ ہے افسوس ہے کہ ہم نے کسی مخالف سے زبانی نہ تحریری یہ سنا کہ بیشک جو کچھ مشرکین عرب اور اس زمانہ کے جنٹلمین اہل کتاب نے حضور مقدس (فداہ روحی) اور آپ کے اللہ سے سلوک کئے واقعی حد سے متجاوز تھے۔ حیرانی ہے کہ ان مظلوم صحابہ کی نسبت عام اخلاق انسانی بھی بھول گئے کسی گلیڈ اسٹونی کو بھی اس پر آرمینیا کی نسبت سے عشر عشیر بھی رنج نہ ہوا سچ ہے الکفر ملّۃ واحدۃ۔ جانب واری ایسی ہی بلا ہے کہ آنکھوں پر پٹی بندھوا دیتی ہے سب سے زیادہ تعجب تو عیسائیوں کے حال پر ہے کہ اسلام پر تو منہ پھاڑ پھاڑ کر معترض ہیں حالانکہ ان کی کتب عہد عتیق ایسے ہی جہادوں سے پر ہیں۔ اسے تو جانے دیجئے۔ حال ہی میں جو کچھ یورپ کے عیسائیوں نے کیا ہے وہی دیکھئے کہ چین میں چند مشزیوں کو جو خواہ مخواہ لوگوں کے گھروں میں حسب دستور خویش ہندوستان پنجاب ہی سمجھ کر گھستے ہوں گے کسی قدر تکلیف پہنچنے پر تمام یورپ برانگیختہ ہوگیا۔ ملکہ معظمہ بھی اپنی تقریر افتتاح پارلیمنٹ ١٥۔ اگست ١٨٩٥ء میں اس طرف توجہ دلالتی ہیں لارڈ سالسبری وزیر اعظم انگلستان بھی گورنمنٹ چین کو لکھ رہے ہیں کہ اس کا کامل انتظام نہ ہوا تو انگلستان مزید کارروائی کرنے پر مجبور ہوگا۔ آرمینیا کا جھگڑا جو بات سے بتنگڑ بنیا گیا تھا قابل دید ہے کہ ان روشن ضمیر عیسائیوں اور تقدس مآب مشزیوں نے کہاں تک قوم کی حمائت جی کھول کر نہیں کی اور کس قدر ان کے امن اور عافیت کے اسباب مہیا کرنے میں کوششیں نہیں کیں اور کہاں تک ممکنات سے گذر کر محالات تک نہیں پہنچے۔ جو ناظرین اخبارات ١٨٩٥ء سے پوشیدہ نہ ہوں گے۔ انہوں نے تو سب کچھ کیا اور امن عامہ اور ہمدردی قومی کے نام لینے سے نہ صرف بری ہوئے بلکہ قابل قدر بھی جانے گئے مگر اسلام نے قاتِلُوْا ! فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا اِنَّ اللّٰہَ لَایُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ اگر کہہ دیا تو چاروں طرف سے گونج آرہی ہے کہ یہ کیا وہ کیا۔ ظلم کیا۔ ستم کیا۔ کوئی نہیں پوچھتا۔ کیوں صاحب چین کے مشزیوں اور آرمینیا کے مفسدوں کو جس قدر تکلیف ہوئی مکہ کے معزز رؤسا ابوبکر عمر اور دیگر صحابہ اور خود سید الانبیاء (فداہ ابی و امی) کو کیا کم ہوئی تھی؟ ان روشن ضمیر عیسائیوں کو تقدس مآب پادریوں نے یہاں تک بھی سمجھا رکھا ہے کہ مسلمانوں کے مذہب میں فرض ہے کہ ساری عمر میں ایک آدھ عیسائیوں کو ضرور ہی ماریں۔ مسٹرویب نو مسلم امریکن لکھتے ہیں۔ کہ مجھے ایک عیسائی نے پوچھا کہ کیا سچ ہے مسلمانوں کو جنت میں جگہ نہ ملے گی جب تک وہ ایک آدھ عیسائی کا خون نہ کریں افسوس ہے کہ اس روشنی کے زمانہ میں بھی روشنی کے لحاظ سے یورپ اندھیر نگری ہے۔ ہندوستان میں مشزی لوگ ایسے خیال ظاہر کرنے سے اس لئے رکتے ہیں کہ ان کو ڈر ہے کہ یہاں بھانڈا پھوٹ جائے گا اور علماء اسلام ہماری جہالت کی قلعی کھول دیں گے۔ خلاصہ یہ کہ اسلامی جہاد جس قدر ہے صرف امن عامہ اور آزادی کے قائم کرنے اور وسعت سلطنت کے لئے ہے نہ کہ کافروں کو کفر کی سزا دینے یا جبراً مسلمان بنانے کو ان دونوں اوہام کو ذمیوں کے حقوق اور حفاظت پورے طور سے دفع کر رہے ہیں۔ فاعتبروا یا اولی الالباب۔ ابؔ ہم مخالفین اسلام (عیسائیوں اور آریوں) کی کتابوں سے بتلانا چاہتے ہیں کہ ان میں کس قسم کا جہاد بھرا ہے اور وہ کس قسم کے جہاں کی تعلیم دیتے ہیں عیسائیوں کی مقدس کتاب تورٰیت میں لکھا ہے :۔ ” پھر اللہ تعالیٰ نے موسیٰ کو خطاب کر کے فرمایا کہ اہل مدیان سے بنی اسرائیل کا انتقام لیں۔ تب موسیٰ نے لوگوں کو فرمایا کہ بعضے تم میں سے لڑائی کے لئے تیار ہوویں اور مدیانیوں کا سامنا کرنے جاویں۔ انہوں نے مدیانیوں سے لڑائی کی۔ جیسا اللہ تعالیٰ نے موسیٰ کو فرمایا تھا۔ اور سارے مردوں کو قتل کیا اور بنی اسرائیل نے مدیان کی عورتوں اور ان کے بچوں کو اسیر کیا اور ان کے مویشی اور بھیڑ بکری اور مال و اسباب سب کچھ لوٹ لیا۔ اور ان کے سارے شہروں کو جن میں وہ رہتے تھے اور ان کے سب قلعوں کو پھونک دیا اور انہوں نے ساری غنیمت اور سارے اسیر انسان اور حیوان کے لئے تم ان کے بچوں کو جتنے لڑکے ہیں سب کو قتل کرو اور ہر ایک عورت کو جو مرد کی صحبت سے واقف ہیں جان سے مارو لیکن وہ لڑکیاں جو مرد کی صحبت سے واقفت نہیں ہوئیں۔ ان کو اپنے لئے زندہ رکھو (گنتی ٣١ باب) اور جب کہ خداوند تیرا اللہ انہیں تیرے حوالے کر دے۔ تو تو انہیں ماریو اور حرم کیجئیو۔ نہ تو ان سے کوئی عہد کریو نہ ان پر رحم کریو نہ ان سے بیاہ کرنا۔ تم ان سے یہ سلوک کرو تم ان کے مذبحوں (ذبح کی جگہ) کو ڈہا دو ان کے بتوں کو توڑو۔ ان کے گھنے باغوں کو کاٹ ڈالو اور ان کی تراشی ہوئی مورتیں اگر ہیں جلا دو کیونکہ تو خداوند اپنے اللہ کے لئے پاک قوم ہے۔ خداوند تیرے اللہ نے تجھے چن لیا۔ کہ تم سب گروہوں کی بہ نسبت جو زمین پر ہیں اس کی خاص گروہ“ (استثنا ٧ باب) انؔ حوالجات سے مسئلہ صاف ہے۔ عیاں زاچہ بیاں۔ مگر ناظرین اس کی پوری تفصیل ہمارے رسالہ تقابل ثلاثہ میں دیکھ سکتے ہیں اب سنئے ہمارے لالہ صاحبان کی کتھا۔ وہ کیا کہتے ہیں۔ وید جس کو مخزن علوم و فنون کہا جاتا ہے جس کو بہت کچھ مجلّٰی کر کے نادانوں کے ہاتھ سونے کے بھائو بیچنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اسی وید میں بھی جہاد کی اعلیٰ درجہ کی تعلیم ہے پس سنئے ! ” اے دشمنوں کے مارنے والے اصول جنگ میں ماہر بے خوف و ہراس پر جاہ وجلال عزیزوا اور جوان مردو ! تم سب رعایا کے لوگوں کو خوش رکھو پر میشور کے حکم پر چلو اور بدفرجام دشمن کو شکست دینے کے لئے لڑائی کا سرانجام کرو۔ تم نے پہلے میدانوں میں دشمنوں کی فوج کو جیتا ہے تم نے حواس کو مغلوب اور روئے زمین کو فتح کیا ہے۔ (کب؟ شائد سلطان محمود کے زمانے میں) تم روئیں تن اور فولاد بازو ہو اپنے زور سجاعت سے دشمنوں کو تہ تیغ کرو تاکہ تمہارے زور بازو اور ایشور کے لطف و کرم سے ہماری ہمیشہ فتح ہو“ (تھرووید کانڈ ١٦ نوواک اور گ ٩٧ منتر ٣) گو نمونہ تو اسی ایک ہی منتر سے معلوم ہوسکتا ہے کہ ویدہاں وید مقدس میں جہاد کے متعلق (انہیں نہیں بلکہ تمام دنیا پر سلطنت کا سکہ جمانے کے لیے) یہ حکم ہے۔ جس نے مفصل بحث دیکھنی ہو وہ ہمارے رسالہ حق ! پر کاش۔ ترک اسلام اور جہاد وید وغیرہ میں ملاحظہ کریں۔ فاعتبروا الخ۔ “ کیونکہ ان کا ظلم وستم حد کو پہنچ چکا ہے جس کا دفعیہ اللہ کو منظور ہے پس جس قدر تمہیں تنگ کریں اسی قدر تم بھی کرو اور ظلم زیادتی نہ کرنا۔ اسی لئے کہ ظلم زیادتی کرنے والے اللہ کو نہیں بھاتے۔ البتہ ایسے ظالموں سے جو ناحق ظلم ہی پر کمر بستہ ہوں بدلہ لینا اور ان کی پوری گت بنانا کوئی زیادتی میں داخل نہیں بے شک بدلہ لو اور جہاں ان کو پاؤ قتل کرو اور جہاں سے وہ تمہیں نکال چکے ہیں تم ان کو نکال دو۔ اس لئے کہ باہمی فتنہ فساد جو وہ کررہے ہیں قتل سے بھی بدتر ہے۔ باوجود ان کی شرارت اور خباثت کے ہم ان کو مہلت اور سہولت دیتے ہیں کہ اگر وہ کعبہ شریف میں پناہ گیر ہوں تو نہ انہیں ستاؤ اور عزت والی مسجد یعنی کعبہ کے پاس ان سے نہ لڑو جب تک وہ خود تم سے اس میں نہ لڑیں پھر اگر وہ اس مسجد میں بھی تم سے لڑیں اور تمہارے دینی امرور میں خلل انداز ہوں تو تم بھی ان سے خوب لڑو پھر ان کی کسی بات کا لحاظ نہ کرو اسی طرح کی سزا ہے ظالموں کی جو ظلم وستم پر کمربستہ ہوں باوجود اس کے پھر بھی اگر وہ باز آویں اور اپنی پہلی خباثتیں چھوڑدیں تو اللہ بھی ان کو معاف کرے گا کیوں کہ وہ بڑا بخشنہار مہربان ہے اور اگر شرارت ہی پر کمربستہ رہیں تو ان سے خوب لڑو یہاں تک کہ ان کا فتنہ فساد معدوم ہوجائے۔ اور بالکل امن صورت ہو کر دین یعنی قانون اللہ کا جاری ہوجائے پھر بھی اگر اپنی شرارت سے باز آویں اور فتنہ فساد نہ کریں اور امن عامہ میں خلل انداز نہ ہوں تو ان پر کسی طرح کی دست اندازی جائز نہیں مگر ان لوگوں پر جو عہد شکنی کی وجہ سے ظالم ہیں بے شک ہاتھ بڑھاؤ یہاں تک کہ اگر وہ مہینے حرام میں بھی تم سے لڑیں اور عہد شکنی کریں تو تم بھی اسی مہینہ میں لڑو اس لئے کہ عزت کا مہینہ عزت والے مہینے کے مقابل ہے۔ جب وہ تمہارے مہینے کی عزت نہیں کرتے تو تم بھی ان کے مہینے کی عزت نہ کرو اور ہتک حرمت کا یہی بدلہ ہے جبکہ وہ تمہاری عزت کی پرواہ نہیں کرتے تو تم بھی ان کی مت کرو۔ بیشک موقع مناسب میں ان سے بدلہ لو۔ پھر بھی اس امر کا لحاظ رکھو کہ جو کوئی تم پر زیادتی کرے اس سے اس کی زیادتی جتنا بدلہ لو اور اس سے زیادہ بدلہ لینے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔ ” شان نزول :۔ مسلمانوں کو جب اپنے دفعیہ کے لئے لڑنے کا حکم ہوا تو ان کے دل میں خیال آیا کہ اگر کفار عرب میہنے حرام میں ہم سے لڑیں گے تو ہم کیا کریں گے اس مہینے میں تو لڑنا جائز نہیں ان کے اس خیال پر یہ آیت نازل ہوئی (موضح القرآن) مہینے حرام کے وہ ہیں جن میں لڑائی کی ابتدا کرنی حرام ہے اور وہ چار ہیں۔ ذوالقعدہ۔ ذوالحجہ۔ محرم اور رجب “ اور اس ڈرنے میں اپنا نقصان نہ سمجھو بلکہ دلی یقین سے جانو کہ اللہ تعالیٰ کی مدد ڈرنے والوں کے ساتھ ہے ہاں ایسے بھی مت ہوجاؤ کہ قتل قتال کے جھگڑوں میں پڑ کر سبھی کچھ چھوڑ دو۔ کیونکہ لڑائی جھگڑا بھی اپنی حد تک ہی اچھا ہے حد سے زیادہ مصروفی کسی کام میں بھی اچھی نہیں۔ جنگ وجدال کی بھی کوئی حد ہے کہ جب کبھی تم کو کفار تنگ کریں اور احکام الٰہی کے تابع نہ ہوں تو اس کا دفعیہ ضروری ہے ہاں ایک کام ایسا ہی ہے جس کی کوئی بہارخزاں نہیں بلکہ سب موسم اس کے لئے بہار ہیں وہ یہ کہ اللہ کو اپنا داتا اور رازق مطلق جانو اور اللہ عالم الغیب کی راہ میں حسب موقع اپنے کمائے ہوئے حلال مال خرچ کرو اور بخل کی وجہ سے اپنی جانوں کو ہلاک نہ کرو ” شان نزول :۔ جب لوگوں کو مسکینوں پر خرچ کرنے کا حکم ہوا تو بعض لوگوں نے کہا کہ اگر ہم مال اپنا اسی طرح پر خرچ کرتے رہے تو ہم خود مسکین ہوجائیں گے ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔ “ اور سب لوگوں کے حال پر چاہے کوئی ہو احسان اور مہربانی کیا کرو اس لئے کہ احسان کرنے والے اللہ کو بھاتے ہیں مال خرچ کرنا دو قسم پر جانو ایک تو یہ کہ دوسروں کو دیا جائے جیسے صدقہ وغیرہ۔ دوسری قسم وہ ہے جو خاص اپنی ہی جانوں پر خرچ کرو تو بھی تم کو ثواب ہے جیسے سفر حج میں پس تم پہلی قسم میں خرچ کرو اور حج اور عمرہ کو بھی مال حرچ کر کے جاؤ اور ان کو خالص لِلّٰہِ نیت سے پورا کیا کرو۔ پھر اگر راہ میں کسی وجہ سے گھر جاؤ اور کعبہ تک نہ پہنچ سکو تو جو چیز قربانی کی تم کو میسر ہو راستے ہی میں ذبح کردیا کرو۔ یا بھیج سکو تو بھیج دو اور اپنے سر نہ منڈواؤ اور احرام کی صورت جو پہلے سے تم نے دربار الٰہی کے لائق بنارکھی ہو۔ اسے نہ بدلا کرو جب تک کہ قربانی تمہاری اپنے ٹھکانے پر نہ پہنچ لے یعنی ذبح ہوجائے ” ایک شخص نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ میں اپنا عمرہ کس طرح کروں اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی ١٢ ف یعنی عمرہ میں جو احکام ہیں کہ احرام باندھ کر مثل حج کے طواف کرنا سو کرو اور جو امور منع ہیں ان سے بچتے رہو ““ ہاں جو شخص تم میں سے بیمار ہو۔ یا اس کے سر میں بالخصوص کوئی تکلیف ہو جس کے سبب سے وہ احرام کی تکلیف نہیں اٹھا سکتا۔ ایسا شخص اگر احرام توڑ دے تو اس توڑنے کے بدلہ میں تین روزے یا ساڑھے سات سیراناج کا صدقہ یا قربانی اس پر واجب ہے پھر جب تم بے خوف ہوجاؤ تو جو شخص عمرہ کرکے دنیاوی لذائد اور فوائد سے حج تک بہرہ یاب ہو تو وہ اس کے شکریے میں ایک قربانی کرے جیسے اسے میسر ہو اور جس کو قربانی نہ ملے وہ تین روزے حج کے دنوں میں رکھے اور سات جب وطن کو لوٹو یہ دھاکہ پورا اس پر واجب ہے نہ ہر ایک کو یہ حکم ہے بلکہ ان لوگوں کو ہے جن کے گھر والے مسجد حرام یعنی مکہ میں نہ رہتے ہوں بلکہ آفاقی ہوں اور اللہ سے ڈرتے رہو بتلائے سے کمی زیادتی نہ کرو اور یہ جان لو کہ احکام شرعیہ میں کمی زیادتی کرنے والوں کے لئے اللہ تعالیٰ کا عذاب بہت سخت ہے ایسانہ ہو کہ حج کی فضیلت سن کر دیگر صدقات کی طرح ہر وقت ہی اس کے ادا کرنے میں لگو نہیں بلکہ اس حج کے لئے چند مہینے یعنی شوال ذوالقعدہ اور اول ہفتہ ذوالحج مقرر ہیں تمام عمر بھر کا فرض ان میں ادا ہوجاتا ہے ہر سال آنا جانا کچھ ضروری نہیں ہاں یہ ضروری ہے کہ جو کوئی ان مہینوں میں حج کو اپنے ذمہ لے وہ چند امور ممنوعہ سے ضرورہی بچتارہے بیوی سے جماع نہ کرے۔ فسق فجور نہ کرے اور نہ حج کے دنوں میں کسی سے جھگڑا کرے۔ گر چہ حق پر ہو۔ کیونکہ دربار شاہی میں اس قسم کی باتیں بے ادبی میں داخل ہیں اس کے سوا اور بھی جو کچھ بھلائی کروگے اس کا بدلہ پاؤ گے کیونکہ اللہ اس کو جانتا ہے اور ایسے زاہد اور متوکل بھی نہ بنو۔ کہ حج کو جاتے ہوئے کھانا کپڑا ہی چھوڑ جاؤ جس سے آخر کار مجبوری مانگنے تک نوبت آئے اس لئے سفر حج میں بلکہ ہر سفر میں سفر خرچ ساتھ لیا کرو ” شان نزول :۔ بعض لوگ بلا خرچ حج کو چلے آتے اور اپنا نام متوکل کہلاتے مگر مکہ شریف میں آکر مانگتے ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی “ کیونکہ خرچ کا بڑا فائدہ سوال سے بچنا ہے جو سفر خرچ نہ ہونے کی حالت میں تم کرتے ہو پس ایسے بے جا سوال اور ناحق کے بخل کرنے میں اے عقل والو ! مجھ سے ڈرتے رہو ہاں اس میں تمہیں کوئی گناہ نہیں کہ تم اپنے رب کریم سے تجارت کے ذریعہ فضل یعنی نفع چاہو بے شک حج کے موسم میں اسباب فروختنی لے جاؤ اور کماؤ اس میں تم پر گناہ نہیں۔ گناہ اس میں ہے کہ دنیا کمانے میں اللہ کو بھول جاؤ سو ایسا مت کرنا بلکہ اس کی یاد سب دنیاومافیہا سے افضل جانا کرو۔ پھر جب تم عرفات سے واپس آؤ تو مشعرالحرام پہاڑی کے پاس اللہ کو خوب یاد کرو نہ اپنے بناوٹی طریق سے بلکہ اس کو اسی طرح یاد کرو جیسا اس نے تم کو بتلایا اس لئے کہ ابھی تم اس سے پہلے گمراہ تھے۔ پھر تمہاری رائے کا کیا ٹھیک ہے۔ تم تو کہیں اپنے خاول میں ایسے کلمات بولو جو شریعت میں پسند نہ ہوں۔ ! پھر لوٹو تم اے قریشیو ! جہاں سے اور عرب لوگ لوٹتے ہیں یعنی عرفہ سے اور اپنے بے جا ہٹ کو چھوڑ دو اور اپنے پہلے فعلوں پر اللہ سے بخشش مانگا کرو۔ وہ بخشے گا کیونکہ اللہ بڑاہی بخشنے والا مہربان ہے۔ ” قریش کے لوگ اور ان کے اتباع مزدلفہ میں جو عرفات سے ورے ایک میدان ہے ایام حج میں ٹھیر کر واپس مکہ ہوتے تھے اور دوسرے لوگ عرفات سے واپس ہوتے تھے اور حکم الہٰی دوسروں کے مطابق تھا اس لئے قریش کے لیے بطور فہمائش یہ آیت نازل ہوئی ١٢ (صحیح بخاری) “ چونکہ حج میں مقصود صرف ذکرالٰہی ہے اس لئے اس کی ابتدا انتہا میں کوئی فرق نہیں۔ پس مناسب بلکہ واجب ہے کہ جیسے ابتدا میں اللہ کو یاد کرتے رہے ہو اسی طرح جب تم حج کے کام پورے کرچکو تو اللہ کو ایسا یاد کرو جیسا کہ اپنے باپ دادا کو بعد حج کے بطور فخریہ یاد کرتے ہو۔ بلکہ اس سے بھی زائد۔ کیونکہ باپ دادا کا مذاکرہ تو تمہاری باہمی مفاخرت اور ایک نکمی بڑائی کے لئے ہے اور اللہ کے ذکر سے تو تمہاری عاقبت بخیر ہوجائیگی ہماری تعلیم تو ایسی صاف ہے مگر پھر بھی بعض لوگ ایسے کوتاہ اندیش ہیں کہ دعا کرتے ہوئے یہی کہتے ہیں کہ اے ہمارے مولا ! جو کچھ تو نے ہم کو دینا ہے اسی دنیا میں دے ہم بھی ایسے ویسوں کو جس قدر کچھ دینا ہوگا دیں گے اور آخرت میں ان کو ایسا بے نصیب کریں گے کہ ان کے لئے بھلائی سے کچھ بھی حصہ نہ ہوگا اور ان کے مقابل بعض لوگ وہ ہیں جو اللہ کو سب طاقتوں کا مالک سب کچھ دینے والا جان کر دعا کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اے ہمارے مولا؟ تو دنیا میں بہت ہم کو نعمت اور ہر طرح سے عافیت دے اور قیامت میں بھی نعمت اور آسائش نصیب کر اور سب سے زائد تیری رحمت سے یہ توقع ہے کہ تو ہم کو آگ کے عذاب سے رہائی دیجئیو۔ ان دوراندیشوں اور ان کو تہ بینوں کی مثال بین یہ ہے کہ یہ تو اللہ سے گویا عمدہ سی غذا مع سالن اور حبوب ہاضمہ کے مانکتے ہیں۔ اور وہ کم بخت گویا صرف روکھی روٹی اللہ مالک الملک سے چاہتے ہیں۔ پس تم آپ ہی فیصلہ کرلو کہ ان میں سے بہتر اور دنا کون ہے یقینا ان کی دور اندیشی اور بلند پروازی میں کسی کو کلام نہ ہوگا۔ جب ہی تو ان کی کمائی کا حصہ ان کو ہے اور ان کی دعا بھی قبول ہوگی اور اللہ ان دونوں کا بہت جلد محاسبہ کرنے والا ہے جس سے تمام اجر بجر فریقین کا کھل جائے گا اپنے اپنے برتے کے موافق پھل پاویں گے پس تم بھی اے لوگو ! اگر اللہ کے کامل بندے بننا چاہتے ہو تو اللہ سے اس طرح کے سوال کرو جو دونوں جہانوں میں کار آمد ہوں اور ہر حال میں اللہ کو یاد کرو۔ بالخصوص چند دنوں میں یعنی بعد حج کے گیا رہویں بارہویں تیرھویں پھر بھی جو کوئی دو دن میں ہی جلدی کرے اور بارھویں کو لوٹ آوے تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔ بلکہ ثواب ہے ہاں ہر ایک کو نہیں بلکہ ان کو جو پرہیز گاری کریں اور ہر کام میں اخلاص مند ہوں۔ پس تم اخلاص مند بنو اور اللہ سے ہر وقت ڈرتے رہو۔ اور دل سے جان رکھو کہ تم نے اسی کے پاس جمع ہو کر جانا ہے مناسب تمہارے اعمال کی جزا سزا دے گا۔ اپنی ظاہر داری پرنازاں نہ ہو اس لئے کہ وہ تمہارے حال سے خوب واقف ہے تمہارے دلوں کے بھیدوں کو جانتا ہے۔ ہاں تم آپس میں ایک دوسرے کے حال سے مطلع نہیں ہوسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ بسا اوقات تمہارا دشمن دوست بن کر تم کو دھوکا دے جاتا ہے اور تم نہیں جان سکتے اور بعض ! لوگ ایسے بھی ہیں کہ جن کی بناوٹی باتیں باوجود رسول ہونے کے اے رسول تجھ کو بھی دنیا کے معاملات میں بھلی معلوم ہوں اس لئے کہ غیب سے ناواقف ہے اور وہ طلاقت لسانی سے ادھر ادھر کی تجھ کو سناتا ہے اور اپنے مافی الضمیر پر بڑے صادق اور راست بازوں کی طرح اللہ کو گواہ کرتا ہے کہ اللہ قسم میں تمہارا دل سے خیر خواہ ہوں مجھے آپ سے بڑی محبت ہے حالانکہ وہ تمہارا سخت دشمن ہے اس کی دشمنی کا ثبوت اس سے زیادہ کیا ہوگا۔ کہ مسلمانوں کو ہر طرح سے تکلیف پہنچاتا ہے اور جب تیری مجلس سے پھر جاتا ہے تو زمین کی بربادی میں تگ ودو کرتا ہے کہ زمین میں فساد پھیلائے اور کھیتوں کو برباد کرے اور چارپایوں کی نسل کو مارے اگرچہ تو کبھی ایسے مدمعاش سے بوجہ ناواقفی کے خوش ہوگیا ہو یا آئندہ کو ہوجائے مگر اللہ تو ہرگز ان سے خوش نہ ہوگا اس لئے کہ اللہ فساد اور فسادیوں کو پسند نہیں کرتا۔ ” شان نزول :۔ بعض لوگ منافقانہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آکر نرم نرم باتیں کرتے اور اپنا اخلاص ظاہر کرتے۔ اور ہر طرح سے قسمیں کھا کر بھی یقین دلاتے کہ ہم خیر خواہ ہیں حالانکہ باہر جا کر ہر طرح سے ایذا رسانی میں کوشش کرتے اور مسلمانوں کی مال و جان کے ضائع کرنے میں بھی دریغ نہ کرتے چنانچہ اخنس بن شریق ایک شخص منافقانہ حضرت کی خدمت میں آیا کرتا تھا۔ ایک دفعہ جب اس کا دائو چلا تو رات کو جاتے ہوئے مسلمانوں کے کھیت جلا گیا اور مویشی قتل کر گیا۔ اس کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔ ١٢ جلالین “ یہ تو ایسا مفسد اور متکبر ہے کہ جب کوئی اسے بطور نصیحت کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈر اور ایسے بیہودہ کاموں سے توبہ کر تو اپنی اکڑ خانی کی وجہ سے زیادہ گناہ پر اڑجاتا ہے اور کہنے سننے والوں کی تحقیر کرتا ہے بھلا کہاں تک کرے گا۔ ہم نے بھی اس کے لئے جہنم تیار کر رکھی ہے پس وہی جہنم اس کے غرور توڑنے کو کافی ہے اور وہ برا ٹھکانہ ہے جہاں اسے رہنا ہوگا۔ جیسا کہ یہ اعلیٰ درجہ کا متکبر اور مغرور ہے اسی طرح اس کی مقابل بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اپنی جان بھی اللہ کے خوش کرنے میں دے دیتے ہیں ایسے ہی لوگ مورد الطاف خدا وندی ہیں بھلا کیوں نہ ہوں ایک تو ان کی نیک نیتی اور ساتھ ہی اس کے یہ کہ اللہ اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہی ٹھیک ہے کہ اللہ کا بندہ بننا صرف زبانی خرچ سے نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کے سب احکام نہایت تعظیم وتکریم سے نہ نبا ہے جائیں۔ جب ہی تو تم کو حکم ہوتا ہے کہ اے مسلمانو ! سب احکام الٰہی کی فرمانبرداری کیا کرو۔ اور بعض کو کرنے اور بعض کو چھوڑنے میں شیطان کے پیچھے مت چلو اس لئے کہ وہ تمہارا صریح دشمن ہے۔ وہ کبھی تم سے بھلائی نہ کرے گا پس بعد پہنچنے صریح اور روشن احکام کے بھی اگر تم بھولو گے تو جان لو کہ تم اپنا ہی نقصان کروگے۔ ” شان نزول بعض لوگ مسلمان ہو کر بھی اپنی رسوم چھوڑنے سے جی چراتے بعض یہودی مشرف باسلام ہو کر اونٹ کے گوشت سے حسب عادت سابقہ پرہیز کرتے تھے ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی “ اور اللہ تو بڑا غالب اور بڑی حکمت والاہے جب کھبی کوئی کام چاہتا ہے تو فوراً کردیتا ہے اور نہائیت حکمت سے کرتا ہے کسی مخلوق کی اطاعت سے اسے فائدہ نہیں کسی کی سرکشی سے اس کا نقصان نہیں۔ مگر یہ دنیا کے بندے کفار مکہ ایسے اللہ کے رسول کی بھی اطاعت نہیں کرتے اور ناحق ادھر اور ادھر کی باتیں بناتے ہیں۔ یہ مشرک لوگ گویا اب اس امر کی انتظاری کرتے ہیں کہ خود اللہ اہی بادلوں کے سایہ میں ان کے پاس چلکر آوے اور ساتھ ہی اس کے فرشتے بھی ہوں اور آخری کام کا فصلہز ہوجائے نیکوں اور بدوں میں تمیز ہو۔ ان کی ایسی بے جا آرزوؤں اور تمسخر کی سزا خوب ہی ملے گا آخر تو سب کام اللہ وحدہ لا شریک ہی کی طرف پھرتے ہیں ایسے لوگ تو پہلے بھی ہوچکے ہیں جو بظاہری نازو نعمت پر مغرور ہو کر اللہ تعالیٰ کے حکموں کو بھولے تھے۔ پھر آخر کار عذاب الٰہی نے ان کو خوب گرفت کی۔