إِنَّا أَنزَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ
بے شک ہم نے اسے عربی قرآن بنا کر نازل کیا ہے، تاکہ تم سمجھو۔
(2۔6) ایک عمدہ اور پاک اور بالکل سچا قصہ سناتے ہیں کچھ شک نہیں کہ اس سے پہلے کہ ہم تجھے بتلاویں تو بے خبر تھا تجھے معلوم نہ تھا کہ یوسف ( علیہ السلام) کون ہے اور زلیخا کون اور ان کے واقعات کیا؟ اس وقت سے اس قصہ کی ابتدا ہے جب یوسف (علیہ السلام) نے اپنے باپ حضرت یعقوب ( علیہ السلام) سے کہا اے میرے باپ ! میں نے گیارہ ستارے اور سورج اور چاند کو خواب میں دیکھا ہے کہ وہ مجھے سجدہ کر رہے ہیں یعقوب (علیہ السلام) نے بوجہ فراست اور نور ایمانی کے اس خواب کی تعبیر کو سمجھ لیا تو کہا بیٹا ! یہ خواب اپنے بھائیوں سے نہ کہنا ورنہ وہ اس خواب سے تیری ترقی کا نتیجہ پا کر تیرے حق میں فریب بازی کریں گے کیونکہ شیطان انسان کا صریح دشمن ہے وہ ضرور ان کو بھڑکا دے گا اور جس طرح تو نے یہ خواب دیکھا ہے اسی طرح تیرا پروردگار تجھے چن لے گا۔ اور چونکہ تجھے اس نے حکومت پر سرفراز کرنا ہے دینی و دنیاوی باتوں اور واقعات کے انجام کا تجھے علم دے گا یعنی تو ہر ایک بات کی تہ تک خواہ وہ دینی ہو یا دنیاوی رموز مملکت سے ہو یا داد رعیت سے خواب کی ہو یا بیداری کی بلاتکلف پہنچ جایا کرے گا۔ غرض یہ کہ تو بڑا ذہین اور طباع ہوگا اور وہ (اللہ) تیرے پر اپنی نعمت اسی طرح پوری کرے گا جیسی اس نے پہلے سے تیرے دادا پر دادا ابراہیم اور اسحق پر کی تھی بے شک تیرا پروردگار سب کے حال سے واقف اور بڑی حکمت والا ہے ) اس حاشیہ میں ہم خواب کی کیفیت اور تعبیر خواب کے مختصر قواعد بتلاویں گے اور کسی قدر اپنے معزز مخاطب سر سید احمد خاں مرحوم کی طرف بھی توجہ کریں گے۔ خواب کی کیفیت کے متعلق علماء کرام اور صوفیائے عظام رحمۃ اللہ علیہم اجمعین نے بہت کچھ لکھا ہے ہم اس جگہ انہی کے کلام کو نقل کردینا کافی سمجھتے ہیں۔ علامہ ابن خلدون مقدمہ تاریخ میں لکھتے ہیں جس کا خلاصہ مطلب یہ ہے (واما الرؤیا) فحقیقتھا مطالعۃ النفس الناطقۃ فی ذاتھا الروحانیۃ لمحۃ من صور الواقعات فانھا عند ماتکون روحانیۃ تکون صور الواقعات فیھا موجودۃ بالفعل کما ھو شان الذوات الروحانیۃ کلھا و تصیر روحانیۃ بان تتجرد عن المواد الجسمانیۃ والمدارک البدنیۃ وقد یقع لھا ذلک لمحۃ بسبب النوم کما نذکر فتتقبس بھا علم ماتتشوف الیہ من الامور المستقبلۃ وتعود بہ الی مدار کہا فان کان ذلک الاقتباس ضعیفا وغیر جلی بالمحاکاۃ والمثال والخیال نتخلطہ فیحتاج من اجل ھذہ المحاکاۃ الی التعبیر وقد یکون الاقتباس قویا یستغنے فیہ عن المحاکاۃ فلا یحتاج الی تعبیر لخلوصہ من المثال والخیال والسبب فی وقوع ھذہ اللمحۃ للنفس لانھا ذات روحانیۃ بالقوۃ مستکملۃ بالبدن ومدارکہ حتی تصیر ذاتھا تعقلا محصنا و یکمل وجودھا بالفعل فتکون حینئذذات روحانیۃ مدرکۃ بغیر شئی من الالات البدنیۃ الا ان نوعھا فی الروحانیات دون نوع الملئکۃ اھل الافق الاعلی الذین لم یستکملوا ذواتھم بشئی من مدارک البدن ولا غیرہ فھذہ الاستعداد حاصل لھا مادامت فی البدن ومنہ خاص کالذی للاولیاء ومنہ عام للبشر علی العموم وھو امر الرؤیا۔ واما الذی للانبیاء فھو استعداد بالانسلاخ من البشریۃ الی الملکیۃ المحضۃ التی ھی اعلی الروحانیات ویخرج ھذہ الاستعداد فیھم متکر راقی فی حالات الوحی وھو عند ما یعرج علی المدارک البدنیۃ ویقع فیھا مایقع من الادراک شبیھا بحال النوم شبہا بینا وان کان حال النوم ادون منہ بکثیر فلاجل ھذا الشبہ عبر الشارع عن الرؤیا بانھا جزء من ستۃ واربعین جزء من النبوۃ وفی روایۃ ثلاثۃ واربعین وفی روایۃ سبعین لیس العدد فی جمیعھا مقصودا بالذات وانما المواد الکثرۃ فی تفاوت ھذہ المراتب بدلیل ذکر السبعین فی بعض طرقہ وھو للتکثیر عند العرب واذا تبین لک ھذا مما ذکرناہ اولا علمت ان معلے ھذا الجزء نسبۃ الاستعداد الاول الشامل للبشر الی الاستعداد القریب الخاص بصنف الانبیاء الفطری لھم صلوات اللہ علیہم اذ ھو الاستعداد البعید وان کان عاما فی البشر ومعہ عوائق وموانع کثیرۃ من حصولہ بالفعل ومن اعظم تلک الحواس الظاھرۃ ففطر اللہ البشر علی ارتفاع الحواس بالنوم الذی ھو جبلی لھم فتتعرض النفس عند ارتفاعہ الی معرفۃ ماتتشوف الیہ فی عالم الحق فتدرک فی بعض الاحیان منہ لمحۃ یکون فیھا الظفر بالمطلوب ولذلک جعلھا الشارع من المبشرات فقال لم یبق من النبوۃ الا المبشرات قالوا وما المبشرات یا رسول اللہ قال الرؤیا الصالحۃ یراھا الرجل الصالح او تری لہ خواب ایک روحانی مطالعہ ہے نفس کبھی کبھی روحانیات کی خواب میں جھلک دیتا ہے اگر وہ پرتوا ضعیف اور کمزور ہوتا ہے تو (مثل محسوس اشیاء کے) دوسری چیزوں سے مشتبہ رہتا ہے جیسے کوئی ضعیف البصر دور سے کوئی چیز دیکھے تو اس چیز کی اصلی شکل پورے طور سے ممتاز نہیں ہوتی‘ اس سبب سے تعبیر کی حاجت ہوتی ہے کبھی دیکھنے والے کی بینائی قوی ہوتی ہے تو خواب کی روئت واضح ہونے کے سبب سے تعبیر کی بھی چنداں ضرورت نہیں ہوتی۔ ایسے خواب دیکھنے کا سبب یہ ہے کہ نفس ناطقہ چونکہ روحانی ہے بدن میں رہ کر بھی اس میں روحانی قوت موجود ہے وہ قوت مختلف ہے ایک وہ جو اولیائے کرام کو ہوتی ہے ایک وہ جو عام آدمیوں کو انبیاء علیہم السلام (باوجود تعلق جسمانی کے) روحانیات میں اعلیٰ رتبہ رکھتے ہیں اور بسبب وحی کے آتے رہنے کے اس قوت کا ظہور ان میں ہوتا رہتا ہے اسی وجہ سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خواب کو چھیالیسواں حصہ نبوت کا فرمایا ہے ہمارے بیان سے تجھے معلوم ہوچکا ہے کہ چھیالیسویں حصے کے معنے استعداد عامہ کی نسبت ہے استعداد خاصہ یعنی انبیاء سے جو اللہ نے ان کی فطرت میں پیدا کی ہوئی ہے چونکہ اس تجلی کے لئے حواس ظاہرہ حجاب مانع ہیں تو اللہ نے انسان کی پیدائش ہی ایسی بنائی ہے کہ یہ حجاب اس کے (بوقت نیند) مرتفع ہوسکیں تو کبھی کبھی وہ روحانیات سے روشنی لے سکیں جس میں اس کی اصل مطلب یابی ہے اس لئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسے خوابوں کو مبشرات (خوشخبری دینے والے) قرار دیا ہے اور فرمایا کہ میرے بعد نبوت تو نہیں رہی مگر مبشرات باقی ہیں۔ فرمایا مبشرات سچے خواب ہیں جو آدمی اپنے حق میں خود دیکھے یا کوئی اور اس کے حق میں دیکھے۔ (مقدمہ ابن خلدون ص ٨٦) مختصر یہ کہ خواب کی صحت و غلطی بلکہ یادداشت سب قوت مدرکہ کی صفائی اور عدم صفائی پر متفرع ہے چونکہ حضرات انبیاء علیہم السلام کی صفائی اعلیٰ درجہ کی ہوتی ہے اس لئے ان کے خواب بھی اعلیٰ درجہ کے بلکہ مثل وحی کے ہوتے ہیں۔ چنانچہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے خواب ہی پر بنا کر کے بیٹے کو ذبح کرنے کی تیاری کرلی تھی جس کی تصدیق اللہ تعالیٰ نے بھی فرمائی اَنْ صَدَّقْتَ الرُّؤْیَا چونکہ حضرات اولیاء کرام علیہم الرحمۃ والرضوان کی صفائی اس درجہ کی نہیں ہوتی اس لئے ان کے خواب یا کشف بھی انبیاء کے خوابوں یا کشفوں سے مساوات نہیں رکھتے بلکہ ان کے خوابوں یا مکاشفوں کی صحت اسی پر موقوف ہے کہ وہ انبیاء علہیم السلام کے خوابوں یا مکاشفات سے مطابق ہوں اور سرمو متفاوت یا مخالف نہ ہوں چنانچہ حضرت مجدد صاحب سرہندی قدس سرہ فرماتے ہیں ” علامت درستی علوم لدینہ مطابقت ست باصریح علوم شرعیہ اگر سرمو متجاوز ست از سکرست والحق ماحقق العلماء اھل السنۃ وما سوی ذلک زندقۃ والحاد اوسکر۔ (مکتوبات جلد اول مکتوب ٣٠) اسی جلد کے مکتوب ٣٦ میں لکھتے ہیں : ” شریعت راسہ جزوست علم و عمل و اخلاص تا ایں ہر سہ جزو متحقق زشوند شریعت متحقق نشووچوں شریعت متحقق شد رضائے حق سبحانہ و تعالیٰ حاصل گشت کہ فوق جمیع سعادات دنیویہ واخرویہ است ورضوان من اللہ اکبر پس شریعت متکفل جمیع سعادات دنیویہ واخرویہ آمد و مطلبی نماند کہ ورائے شریعت وراں مطلب احتیاج افتد و طریقت و حقیقت کہ صوفیہ بآں ممتاز گشتہ اندوہر دو خادم شریعت اندور تکمیل جزو ثالث کہ اخلاص ست پس مقصود از تحصیل آں ہر دو تکمیل شریعت ست نہ امرے دیگر و رائے شریعت۔ حضرت مولانا مرزا جانجاناں صاحب (رح) فرماتے ہیں : ” در عام مثال مراتب قرب الٰہی بصورت قرب مکانی متمثل مے شوند وروئت عالم مثال کہ آنرا صوفیہ بکشف تعبیر میکینند از قبیل رئویا درمنام ست از انجا رسول فرمودہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الرؤیا الصالحۃ جزء من ستۃ واربعین جزء من النبوۃ واحیانا در مرتبہ خیال بسبب بعضے عوارض انکدارمے شود لہذا درکشف غلط مے افتددگاہے درفہم و توبیرآں غلط مے افتد لہذا اولیاء اللہ گفتہ اندکہ آنچہ بکشف معلوم شودآں بمعیار شرع باید سنجیدا گر موافق شرعت قبول باید کرد و آنچہ مخالف شرع باشد آنرارد باید کرد وزندقہ بائددانست وآں چہ شرع ازاں ساکت باشد آنرا قبول باید کر باحتمال غلط“ (کلمات طیبات ص ١٤٣) خواب کو نبوت کا چھیالیسواں حصہ کہنے کے یہی معنے ہیں کہ نبی کے الہام یا خواب کی نسبت ولی کے خواب میں چھیالیسواں حصہ صفائی ہوتی ہے جس کی مثال محسوس میں ہم یوں دے سکتے ہیں کہ ایک ایسا لمپ ہو جس میں چھیالیس بتیوں کے برابر روشنی ہو اس کے مقابلے پر ایک ٹمٹماتے ہوئے دئیے کی روشنی کیا قدر رکھتی ہے جیسی ان دونوں کی روشنی میں فرق ہوگا ویسا ہی نبی اور ولی کے خواب میں تفاوت ہے اس لئے ولی کا الہام یا خواب نبی کے خواب یا الہام کی تابع ہونا چاہئے افسوس کہ بعض خود ساختہ ملہم اپنی مطلب براری کی نرالی چال چلتے ہیں کہ نبی بلکہ سید الانبیاء علیہم السلام کے الہاموں اور خوابوں کو اپنے مصنوعی الہاموں اور خوابوں کے تابع کرنا چاہتے ہیں۔ بقول خود اپنے الہاموں کے معنی بحال رکھتے ہیں مگر سید الانبیاء کے الہام اور حدیث میں تاویل و تحریف کرتے ہیں۔ حالانکہ چاہئے تھا کہ نبی کے الہام کو مقدم کر کے اپنے الہام کو اس کا تابع سمجھتے جہاں پر اپنا الہام انبیاء علیہم السلام کے الہام سے مخالف پاتے اپنے الہام کی تاویل کرتے نہ کہ نبیوں کے الہام میں تاویل بلکہ تحریف کر کے دمشق سے مراد قادیان لیتے مگر وہ بھی کیا کریں تبعیت تو جب ہوتی کہ اصلی ہوتے مصنوعی میں یہ شرافت کہاں فافہم وللتفصیل مقام اخر (دیکھو ازالہ اوہام مصنفہ مرزا قادیانی ص ٦٦) خواب کی کیفیت معلوم کرنے کے بعد خواب کی اقسام بھی معلوم ہونی ضروری ہیں خواب کی کئی قسمیں ہیں چنانچہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب (رح) فرماتے ہیں : واما الرؤیا فھی علی خمسۃ اقسام بشریٰ من اللہ و تمثیل نورانی للحمائد والرذائل المندرجۃ فی النفس علی وجہ ملکی و تخویف من الشیطان و حدیث نفس من قبل العادۃ التی اعتادھا النفس فی الیقظۃ تحفظھا المتخیلۃ فی الحسر المشترک ما اختزن فیھا وخیالات طبیعۃ لغلبۃ الاخلاط و تنبہ النفس باذاھا فی البدن۔ اما البشری من اللہ فحقیقتھا ان النفس الناطقۃ اذ انتھزت فرصۃ عن غواشی البدن باسباب خفیۃ لا یکاد یتفطن بھا الابعد تامل و اف استعدت لان یفیض علیھا منبع الخیر والجود کمال علیۃ فافیض علیہ شئی علی حسب استعدادہ ومادتہ العلوم المخزونۃ عندہ وھذہ الرؤیا تعلیم الھی کالمعراج المنامی الذی رأی النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فیہ وبہ فی احسن صورۃ فعلمہ الکفارات والدرجات وکالمعراج المنامی الذی انکشف فیہ علیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) احوال الموتی بعد انفکاکھم عن الحیوۃ الدنیا کما رواہ جابر بن سمرۃ (رض) وکعلم ماسیکون من الوقائع الاتیۃ فی الدنیا واما الرؤیا الملکیۃ فحقیقھا ان فی الانسان ملکات حسنۃ وملکات قبیحۃ ولکن لا یعرف حسنہا وقبحھا الا المتجر دالی الصورۃ الملکیۃ فمن تجرد الیہا تظہر لہ حسناتہ وسیاتہ فی صورۃ مثالیۃ فصاحب ھذا یری اللہ تعالیٰ واصلہ الانقیاد للباری ویری الرسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واصلہ الانقیاد للرسول المرکوز فی صدرہ ویری الانوار واصلھا الطاعات المکتسبۃ فی صدرہ وجوارحہ تظہر فی صورۃ الانوار والطیبات کالعسل والثمن واللبن فمن رای اللہ او الرسول او الملائکۃ فی صورۃ قبیحۃ او فی صورۃ الغضب فلیعرف ان فی اعتقادہ خللا وضعفا وان نفسہ لم تتکمل وکذلک الانوار التی حصلت بسبب الطھارۃ تظہر فی سورۃ الشمس والقمر واما التخویف من الشیطان فوحشۃ وخوف من الحیوانات الملعونۃ کالفرد والفیل والکلاب والسودان من الناس فاذا رای ذلک فلیتعوذ باللہ والیتفل ثلاثا من یسارہ ولیتحول عن جنبہ الذی کان علیہ واما البشری فلھا تعبیر والعمدۃ فیہ معرفۃ الخیال ای شئ مظنۃ لای معنی فقد ینتقل الذھن من المسمے الی الاسم کرویۃ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہ کان فی دار عقبۃ بن رافع فاتی برطب ابن طاب قال علیہ الصلوۃ والسلام فاولت ان الرفعۃ لنا فی الدنیا والعافیۃ فی الاخرۃ وان دیننا قد طاب وقد ینتقل الذھن من الملابس الی مایلابسہ کالسیف للقتال وقد ینتقل الذھن من الوصف الی جوھر مناسب لہ کمن غلب علیہ حب المال راہ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فی سورۃ سوار من ذھب وبالجملۃ فللانتقال من شئ الی شئ صور شتی وھذہ الرؤیا شعبۃ من النبوۃ لانھا ضرب من افاضۃ غیبۃ وتدل من الحق الی الخلق وھو اصل النبوۃ واما سائر انواع الرؤیا فلا تعبیر لھا۔ (حجۃ اللہ البالہ ص ١٨٠‘ ١٨١ جلد دوم) خواب پانچ قسم پر ہیں اللہ کی طرف سے خوشخبری نیک و بد خصائل کی جو نفس میں مندرج ہیں تمثیل ہوتی ہے شیطانی ڈراوا۔ روزمرہ کاروبار کی باتیں انسان کے خیالات طیّبہ جو اخلاط کے غلبہ سے ہوتے ہیں جو اللہ کی خوشخبری ہوتی ہے اس کی اصلیت یہ ہے کہ نفس ناطقہ جب حجابات بدنیہ سے کسی قدر علیحدہ ہوتا ہے تو اس امر کے لئے اس میں استعداد آتی ہے کہ مبدئِ فیض سے کچھ اس پر فیضان ہو تو حسب استعداد اس کے کچھ اسے دیا جاتا ہے اس قسم کا خواب تعلیم الٰہی ہے (اللہم ارزقنی) جو خواب ملکیہ ہوتے ہیں (جن میں نفس کے نیک و بد خصائل کا تمثل ہوتا ہے) تو اس کی اصل یہ ہے کہ انسان میں نیک و بد خصائل دونوں کی استعداد ہے لیکن ان کا حسن و قبح معلوم نہیں ہوسکتا جب تک کہ (ظاہری حواس سے) مجرد ہو کر صورت ملکیہ کی طرف واصل نہ ہو۔ پس جو ایسا مجرد ہوگا اس کو کبھی کبھی اپنی نیکیاں اور بدیاں صورت مثالیہ میں معلوم ہوجایا کرتی ہیں اس طرح کہ ایسا آدمی گاہے خواب میں اللہ کو دیکھتا ہے جس سے مراد ہوتی ہے کہ اللہ کا فرمانبردار ہے اور گاہے رسول کو جس سے مراد اتباع سنت ہوتا ہے علی ہذا القیاس نور دیکھتا ہے یا کھانے کی لذیذ چیزیں مثل شہد یا دودھ کے دیکھتا ہے پس جو کوئی اللہ یا رسول کو بد شکل یا ناراض دیکھے تو جانے کہ اس کے اعتقاد میں خلل ہے اور اس کا نفس ناقص ہے شیطانی ڈرائو والا خواب وہ ہوتا ہے جس میں حیوانات موذیہ مثل کتے بندر وغیرہ سے آدمی ڈر جائے ایسے خواب دیکھنے پر بیدار ہو تو بائیں جانب تھوک دیا کرے اور جس پہلو پر لیٹا ہے اس سے پھر جائے۔ لیکن خوشخبری والا خواب سو اسی کی تعبیر ہوتی ہے اور یہ نبوت کے درخت کی گویا ایک شاخ ہے کیونکہ یہ مبدا فیض سے ایک قسم کا فیضان ہے باقی اقسام کی تعبیر نہیں ہوتی (یعنی وہ اخبار مستقبلہ سے نہیں ہیں۔) مختصر یہ کہ صحیح اور قابل تعبیر خواب جس میں اخبار مستقبلہ ہوتے ہیں صرف وہی ہے جو قوت مدرکہ سے حاصل ہو نہ کوئی اور وہی نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہونے کا حق رکھتا ہے کیونکہ وہ نبوت کے اتباع سے حاصل ہوتا ہے جس قدر اور جس درجے کسی کی قوت مدرکہ تیز اور نبوت سے قریب ہوگی اسی قدر اس کے خواب سچے اور تعبیر طلب ہوں گے البتہ بعض اوقات کفار اور فساق کے خواب بھی درست اور تعبیر طلب ہوتے ہیں سو یہ شاز و نادر کسی حکمت الٰہیہ سے ایسا ہوتا ہے جیسا کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے زمانہ میں شاہ مصر اور قیدیوں کے خواب تھے کہ ان میں یہ حکمت تھی کہ حضرت یوسف ( علیہ السلام) کی رہائی کے لئے وہی سبب ہوئے فعل الحکیم لایخلو عن الحکمۃ سر سید احمد خاں عفی اللہ عنہ اس کوچہ سے مانوس نہ تھے اس لئے جیسے اور امور سے منکر ہیں خواب کی حقیقت اور کیفیت سے بھی انکاری ہیں چنانچہ آپ لکھتے ہیں : ” غرضکہ صوفیہ کرام اور علماء اسلام اور فلاسفہ مشائین میں سے شیخ بو علی سینا اس بات کے قائل ہیں کہ بعض لوگوں کو جن کے نفس کامل ہیں یا زہد و مجاہدہ وریاضات سے ان کے نفوس میں تجرد حاصل ہوا ہے ان کو خواب میں ملاء اعلیٰ سے ایک قسم کے علم کا فیضان ہوتا ہے اور وہ فیضان ان کے صور خیالیہ میں سے کسی صورت میں جو اس فیضان علم کے مناسب ہے متمثل ہوتا ہے اور وہ متمثل حس مشترک میں منقش ہوجاتا ہے اور اس کے مطابق ان کو خواب دکھائی دیتا ہے۔ شاہ ولی اللہ صاحب کہتے ہیں کہ یہی ایک خواب اس قابل ہوتا ہے کہ اس کی تعبیر دی جائے اور اس کے سوا کوئی خواب تعبیر کے لائق نہیں ہوتا۔ ملاء اعلیٰ کے مفہوم کو متعدد لفظوں سے تعبیر کیا جاتا ہے کبھی تو ایک عالم مثال قرار دیا جاتا ہے جس میں اس عالم کی تمام باتیں ما کان ویکون بطور مثال کے موجود ہیں اور اس کا عکس مجملاً یا تفصیلاً خواب میں انسان کے نفس پر پڑتا ہے اور کبھی نفوس فلکی کو ماکان اور مایکون کا عالم سمجھا جاتا ہے اور اس سے نفس انسانی پر فیض پہنچنا مانا جاتا ہے اور کبھی عقول عشرہ مفروضہ حکماء کو عالم ما کان و ما یکون قرار دے کر اس کے فیضان کو تسلیم کیا جاتا ہے اور کبھی اس سے ملائکہ مقصود ہوتے ہیں (مقصود سب سے ایک ہی ہے کہ ملاء اعلیٰ وہ مقام ہے جہاں سے انسان بذریعہ حواس خمسہ اور بہ براہین عقلیہ علم حاصل نہ کرسکے بلکہ محض اندرونی صفائی اور فیض باری سے ہو جس پر آپ نے غور سے کام نہیں لیا جیسا آگے آتا ہے۔ محشی) اب ہمارا سوال یہ ہے کہ بلاشبہ عقل انسانی بلکہ مشاہدہ اور تجربہ اس بات کو ضرور ثابت کرتا ہے کہ ایک واجب الوجود یا علۃ العلل خالق جمیع کائنات موجود ہے ولا نعلم ماھیۃ ولا حقیقۃ صفاتہ الا ان نقول عالم حی قادر۔ خالق۔ لاتاخذہ سنۃ ولانوم لہ مافی السموات وما فی الارض وھو علی کل شئ قدیر اور یہ تمام الفاظ صفاتی جو اس واجب الوجود کی نسبت منسوب کرتے ہیں صرف مجاز ہے لان حقیقۃ صفاتہ غیر معلومۃ پس مفہوم ملاء اعلی کا جو صوفیہ کرام اور علمائے اسلام اور فلاسفہ عالی مقام نے قرار دیا ہے یہ صرف خیال ہی خیال ہے اس کی صداقت اور واقعیت کا کوئی ثبوت نہیں ہے اور جب اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے تو کسی امر کو گو وہ واقعات خواب ہی کیوں نہ ہوں اس پر مبنی کرنا نقش برآب ہے اما الاحادیث المرویۃ فی ھذا الباب فکلھا غیر ثابت فانما ھی مقالات الصوفیۃ ومن یشابھم ولیس من کلام النبی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) “ اس تقریر سے سر سید کا مطلب صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ جو چیز مشاہدہ میں نہ ہو اس کا وجود ان کے نزدیک مسلم نہیں رہا یہ سوال کہ اللہ بھی تو مشاہدہ میں نہیں تو اس کا جواب سید صاحب دیتے ہیں کہ مشاہدہ ہی اس کے ماننے پر مجبور کرتا ہے مگر ملاء اعلیٰ کا وجود ماننے پر مشاہدہ مجبور نہیں کرتا لیکن جن لوگوں نے ملاء اعلیٰ کا بھی مشاہدہ کیا ہے ان کے جواب میں سید صاحب فرماتے ہیں کہ : ” ہاں کہا جاتا ہے کہ بعد سلوک طریقت اور اختیار کرنے زہد و ریاضت کے (یہی تو مشکل ہے) یہ راز کھلتا ہے اور حجابات اٹھ جاتے ۂیں اور حقیقت نفس و ماہیت ملاء اعلیٰ و مافیہا منکشف ہوجاتی ہے ہم قبول کرتے ہیں کہ کچھ منکشف ہوتا ہوگا (کاش کہ ہوگا کی بجائے ہے کہا ہوتا) مگر ہم کس طرح تمیز کریں کہ جو کچھ منکشف ہوتا ہے وہ حقیقت ہے یا وہی خیالات ہیں جو متمثل ہوگئے ہیں جس طرح کہ اور خیالات متمثل ہوجاتے ہیں۔ “ سید صاحب ! وہ علم آفتاب آمد دلیل آفتاب کا مصداق ہے مگر جو اس کوچہ ہی سے ناآشنا ہو اسے کون سمجھائے جیسا عنین مادر زاد کو جماع کی لذت کا یقین کرنا یا کسی دوسرے کا اس کو باور کرا دینا مشکل ہے ویسا ہی آپ کا اور آپ کے ہمراہیوں کا اس امر کی حقیقت سے آگاہ ہونا یا کسی کا ان کو قائل کرنا اس سے بھی زیادہ مشکل ہے ایکہ آگاہ نئی عالم درویشاں را توچہ دانی کہ چہ سوداے سراست ایشا ترا پھر بطور نتیجہ فرماتے ہیں : ” پس ہمارے نزدیک بجز ان قویٰ کے جو انسان میں مخلوق اور کوئی قوت خوابوں کے دیکھنے میں موثر نہیں (بے شک ہم بھی مانتے ہیں کہ جو قویٰ اللہ نے انسان میں مخلوق کئے ہیں ان کے سویٰ کوئی قوت خوابوں میں دیکھنے میں موثر نہیں مگر ہم پہلے کئی دفعہ لکھ آئے ہیں کہ قوانین قدرت اسی میں محدود نہیں جو ہمارے مشاہدہ اور حس میں آچکا ہے بلکہ ایسا کہنا اللہ کی شان میں ایک قسم کی بے ادبی ہے جس پر آپ نے بھی بڑی خوشی سے دستخط کئے ہوئے ہیں۔ جہاں فرماتے ہیں کہ یہ بات سچ ہے کہ ” تمام قوانین قدرت ہم کو معلوم نہیں ہیں اور جو معلوم ہیں وہ نہایت قلیل ہیں اور ان کا علم پورا نہیں بلکہ ناقص ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جب کوئی عجب واقعہ ہو اور اس کے وقوع کے علم کا کافی ثبوت بھی موجود ہو اور اس کا وقوعہ معلومہ قانون قدرت کے مطابق بھی نہ ہوسکتا ہو اور یہ تسلیم کرلیا جائے کہ بغیر دھوکہ و فریب کے فی الواقع ہوا ہے تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ بلاشبہ اس کے وقوع کے لئے کوئی قانون قدرت ہے مگر ہم کو اس کا علم نہیں “ (تفسیر احمدی جلد دوم ص ٣٤) لیکن اس کا کیا علاج ہو کہ آپ اپنے کہے پر خود ہی عمل نہ کر کے حسب مذاق خود حضرت یوسف ( علیہ السلام) کے خواب کی وجہ بتلاتے ہیں۔ ” اب حضرت یوسف (علیہ السلام) کے خوابوں کو دیکھو پہلا خواب ان کا یہ ہے کہ انہوں نے گیارہ ستاروں کو اور سورج اور چاند کو اپنے تئیں سجدہ کرتے دیکھا حضرت یوسف ( علیہ السلام) کے ان کے سوا گیارہ بھائی اور تھے اور ماں اور باپ تھے باپ اور ماں کا تقدس اور عظم و شان اور قدر و منزلت ان کے دل میں منقش تھے بھائیوں کو اپنے باپ کی ذریت مانتے تھے مگر وہ اس سبب سے کہ ان کے باپ ان کو سب سے زیادہ چاہتے تھے اور خود ان کے سبب سے ان کے بھائی ان کی تابعداری بسبب چائوو محبت سے کرتے تھے (بے شک کرتے تھے عیاں راچہ بیاں) اور اس لئے ان کے دل میں یہ بات بیٹھی ہوئی تھی کہ ماں باپ اور بھائی سب میرے تابع و فرمانبردار اور میری منزلت و قدر کرنے والے ہیں یہ کیفیت جو ان کے دماغ میں منقش تھی اس کو متخیلہ نے سورج اور چاند اور ستاروں کی شکل میں جن کو کہ وہ ہمیشہ دیکھتے تھے اور ان کا تفاوت درجات بھی ان کے خیال میں متمکن تھا متمثل کیا اور انہوں نے خواب میں دیکھا کہ گیارہ ستارے اور سورج اور چاند مجھ کو سجدہ کرتے ہیں پس ان کی تعبیر حالت موجودہ میں یہ تھی کہ ماں باپ بھائی ان کے سب ان کے فرمانبردار ہیں (حاشیہ آیت انی رایت) مطلب یہ کہ حضرت یوسف ( علیہ السلام) نے جو کچھ دیکھا تھا اس کا منشا خارج میں موجود تھا یعنی ماں باپ بھائیوں کی تابعداری نہ کہ کوئی ملاء اعلیٰ سے تعلق تھا ماں باپ کی تابعداری یا دوسرے لفظوں میں شفقت پدری تو بجا ہے مگر بھائیوں کی خاص کر یوسف ( علیہ السلام) کے بھائیوں کی (جن کی مہربانیاں معلوم ہیں) اطاعت اور فرمانبرداری کسی نے نہ سنی ہوگی؟ جنہوں نے زندہ کو اندھے کنوئیں میں ڈال دیا گو باپ کی غیبوبت ہی میں ڈالا تاہم یہ قرینہ ان کی چائو و محبت کا ہی جس سے وہ یوسف کی فرمانبرداری کرتے تھے البتہ سید صاحب اگر یوں کہتے کہ ماں باپ کے لحاظ سے منافقانہ فرمانبرداری کرتے تھے تو بھی ایک بات تھی مگر اس صورت میں بھی یہ سوال ہوتا کہ ایسے منافقوں اور لحاظی محبوں کا حال محبوب سے مخفی نہیں رہا کرتا غالباً اگر وہ باپ کے سامنے یوسف ( علیہ السلام) کو چومتے ہوں گے تو پیچھے کاٹتے ہوں گے پس ایسے فرمانبرداروں کو تابعدار جاننا نہ صرف دھوکہ خوری ہے بلکہ اعلیٰ درجہ کی نادانی۔ علاوہ اس کے اس عبارت کے معنی بھی ہماری سمجھ سے باہر ہیں کہ اس کی تعبیر حالت موجودہ میں یہ تھی کہ ماں باپ بھائی سب ان کے فرمانبردار ہیں ” حالانکہ یوسف (علیہ السلام) نے جو خود اپنے خواب کی تعبیر کی تھی وہ بالکل سید صاحب کی تقریر کے خلاف ہے کیونکہ ایک تو وہ خواب کے وقت کے لحاظ سے مستقبل تھی اور سید صاحب کی تقریر سے ” حال“ معلوم ہوتی ہے کیونکہ سید صاحب اسے ” ہیں“ سے تعبیر کرتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے نزدیک یوسفی خواب کی تعبیر بس یہی تھی کہ ان کے بھائی وغیرہ ان کی اس حالت میں تابعداری کرتے تھے مگر حضرت یوسف ( علیہ السلام) نے جب مصر میں ماں باپ اور بھائیوں کو اپنی تعظیم کرتے دیکھا جس کا بیان آیت مندرجہ آتیہ میں ہے جو یہ ہے ورفع ابویہ علی العرش وخروا لہ سجدا وقال یا ابت ھذا تاویل رؤیای من قبل قد جعلھا ربی حقا (یوسف ١٤) تو اس حالت کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ یہ کیفیت میرے خواب کی تعبیر ہے اس کا جواب سید صاحب یہ دیتے ہیں کہ ” اس واقعہ کے ایک مدت بعد حضرت یوسف (علیہ السلام) کے ماں باپ بھائیوں کا مصر میں جانا اور موافق اب سلطنت کے آداب بجا لانا اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کا فرمانا کہ ھذا تاویل رؤیای من قبل قد جعلھا ربی حقا ایک امر اتفاقی تھا کیونکہ یہ بات قرآن مجید سے نہیں پائی جاتی کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) جو نبی تھے اس خواب سے یہ سمجھے تھے کہ حضرت یوسف ( علیہ السلام) ایسی منزلت میں پہنچیں گے کہ ماں باپ اور بھائی جا کر ان کو سجدہ کریں گے اگر قرآن مجید سے اس خواب کی کچھ تعبیر پائی جاتی ہے وہ صرف یہ ہے کہ حضرت یعقوب نے حضرت یوسف ( علیہ السلام) سے کہا کہ اللہ تجھ کو حوادث عالم کا مآل تعلیم کرے گا اور اپنی نعمت تجھ پر اور یعقوب کی اولاد پر اسی طرح پوری کرے گا جس طرح کہ اس نے ابراہیم اور اسحاق پر پوری کی ہے اور تعبیر ایک عام تعبیر ہے جو ایک جو ان صالح کے عمدہ خواب (سید صاحب ! عمدگی کیسی؟ یہی کہ قوت واہمہ سے بھائیوں کی فرمانبرداری سمجھی جس کو قوت متخیلہ نے سورج اور چاند ستارے وغیرہ کر کے دکھائے) کی تعبیر میں بیان ہوسکتی ہے چاند سورج ستاروں کے سجدہ کرنے سے حوادث عالم کے علم کو تعبیر کرنا نہایت پر لطف قیاس تھا “ کون پوچھے کہ لطف کا بیان کیا ہے جس نے یہودیوں کا مقلد بننا ہو وہ پوچھے ہماری تو مجال نہیں مطلب سید صاحب کا یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف کا یہ سمجھنا کہ میرے خواب کی یہ تعبیر ہے دلیل نہیں ہوسکتا ہاں حضرت یعقوب نے جو نبی تھے اگر ایسا سمجھا ہوتا تو دلیل ہوسکتا تھا حالانکہ حضرت یعقوب نے اس خواب سے یوسف کی کوئی قدر و منزلت نہیں سمجھی بلکہ جو کچھ کہا وہ بھی عام تعبیر یا نیک فال کے طور پر کہہ دیا کہ یہ ہوگا وہ ہوگا۔ مگر بے ادبی معاف قرآن شریف سے بے خبری جس قدر اس مضمون میں آپ سے ظاہر ہوئی ہے کسی مضمون میں نہیں ہوئی سید صاحب اور ان کے ہمخیال بغور سنیں حضرت یعقوب نے یوسف کا خواب سنتے ہی کہا یا بنی لا تقصص رؤیاک علی اخوتک فیکید والک کیدا ان الشیطان للانسان عدو مبین اس آیت کا ترجمہ ہم سید صاحب ہی کے لفظوں میں بتلاتے ہیں۔ ” یوسف ( علیہ السلام) کے باپ یعنی یعقوب ( علیہ السلام) نے کہا کہ اے میرے بچے تو نہ بیان کرنا قصہ اپنے خواب کا اپنے بھائیوں پر پھر وہ مکر کریں گے تیرے لئے کسی طرح کا مکر بے شک شیطان انسان کے لئے دشمن ہے علانیہ۔“ (جلد ٤ ص ٧١) فرمائیے یہ کیوں کہا اس سے کیا سمجھ میں نہیں آتا کہ حضرت یعقوب نے یوسف ( علیہ السلام) کے خواب سے ترقی مدارج سمجھی تھی بلکہ ایسی سمجھی تھی کہ وہ اس سمجھ کو بدیہی اور ہر ایک کے قابل فہم جانتے تھے جب ہی تو انہوں نے اس خوف سے کہ یوسف ( علیہ السلام) کے بھائی بھی یہی تعبیر سمجھ کر کہ یہ یوسف ( علیہ السلام) اعلیٰ مدارج پر پہنچے گا حسد نہ کرنے لگیں یوسف کو خواب بتلانے سے منع کردیا تھا۔ کہئے یہ مضمون صاف ہے یا نہیں اسی فہم و انصاف پر سید صاحب مرحوم ہمیشہ مفسرین کو قرآن سے ناسمجھ اور یہودیوں کے مقلد بنایا کرتے تھے ہاں اس میں شک نہیں کہ مفسرین کا یہ قصور ہے اور واقعی بہت بڑا قصور ہے کہ وہ کم علم اپنی رائے کو قرآن کی تابع کرنے کی کوشش کرتے ہیں افسوس ان کم ہمتوں سے یہ نہیں ہوسکتا کہ قرآن کو اپنی رائے کا تابع کرلیں کیا کوئی بڑا کام ہے سچ ہے مجھ میں اک عیب بڑا ہے کہ وفادار ہوں میں ان میں دو وصف ہیں بدخو بھی ہیں خود کام بھی ہیں علاوہ اس کے اگر حضرت یعقوب کی سمجھ پر مدار اس لئے ہے کہ وہ نبی تھے چنانچہ سید صاحب کی عبارت سے متبادر مفہوم ہے تو حضرت یوسف کی سمجھ جو وہ بھی نبی تھے اپنے خواب کے متعلق کیوں کافی نہیں؟ جب کہ وہ صریح لفظوں میں ھذا تاویل رء یای فرما رہے ہیں۔ یہ امر بھی قابل غور ہے کہ سید صاحب نے جس بیان کو یوسف کے خواب کی تعبیر بتلایا ہے وہ الگ کلام ہے چنانچہ الفاظ قرآنی یہ ہیں وکذلک یجتبیک ربک و یعلمک من تاویل الاحادیث ویتم نعمتہ علیک وعلی ال یعقوب الایۃ یہ کلام ” واو“ عطف سے پہلے کلام پر معطوف ہے تعبیر کی طرف تو حضرت یعقوب نے پہلے کلام لا تقصص رء یاک علی اخوتک الایۃ میں اشارہ کردیا ہے جس کو سید صاحب نے حرف غلط کی طرح بالکل محو کر کے ذکر تک نہیں کیا اور معطوف کو جو الگ کلام تھا تعبیر سمجھ گئے بالکل سچ ہے گر تو قرآں بریں نمط خوانی بہ بری رونق مسلمانی باقی تین خوابوں کے متعلق بھی سید صاحب نے ہاتھ پائوں مارے ہیں گو وہ اس قابل نہیں کہ ان کا جواب دیا جاوے اور نہ ہی ہم سے ایسی باتوں کا جواب ہوسکتا ہے مگر تاہم قوم کی آگاہی کے لئے سید صاحب کی تقریر کو نقل کرتے ہیں آپ فرماتے ہیں کہ ” دوسرا اور تیسرا خواب ان دو جوانوں کا جو حضرت یوسف (علیہ السلام) کے ساتھ قید خانہ میں تھے ان میں سے ایک نے دیکھا تھا کہ میں شراب چھان رہا ہوں دوسرے نے دیکھا تھا کہ اس کے سر پر روٹی ہے اور پرند اس کو کھا رہے ہیں یہ دونوں شخص کسی جرم کے متہم ہو کر قید ہوئے تھے پہلا شخص جو غالباً ساقی تھا درحقیقت وہ بے گناہ تھا اور اس کے دل کو یقین تھا کہ بے گناہ قرار پا کر چھوٹ جاوے گا (ایسے انصاف کی امید ایسی حکومت سے جس میں حضرت یوسف ( علیہ السلام) جیسے بے گناہ کئی سال یونہی کس مپرسی کی حالت میں پڑے رہے ایں خیالست و محالست و جنوں) وہی خیال اس کا سوتے میں شراب تیار کرنے سے جو اس کا کام تھا منتقل ہو کر عین خواب میں دکھائی دیا۔ دوسرا شخص جو غالباً باورچی خانے سے متعلق تھا درحقیقت مجرم تھا اور اس کے دل میں یقین تھا کہ وہ سولی پر چڑھایا جائے گا اور جانور اس کا گوشت نوچ نوچ کر کھائیں گے تو یہی خیال اس کے سوتے میں روٹی سر پر رکھ کرلے جانے سے جو اس کا کام تھا اور پرندوں کا روٹی کو کھانے سے متمثل ہو کر خواب میں دکھائی دیا (کیا وجہ کہ پہلے کے ذہن میں رہائی کا تصور متمثل ہوا اور دوسرے کو سولی کا تصور نہ ہوا بلکہ بقول آپ کے اپنے ہی کام کا خیال آیا کہ میں روٹی سر پر رکھے ہوئے جاتا ہوں) حضرت یوسف (علیہ السلام) اس مناسبت طبعی کو جو ان دونوں خوابوں میں تھی سمجھے اور اس کے مطابق دونوں کی تعبیر دی اور مطابق واقع کے ہوئے زیر آیت انی رأیت غرضکہ سید صاحب کے نزدیک علم تعبیر رویا بالکل اس قصے کے مشابہ ہے جو کسی حکیم صاحب اور ان کے شاگرد رشید کا مشہور ہے ” حکیم صاحب ایک دفعہ بہمراہی شاگرد رشید جو ابھی نیم حکیم تھے کسی بیمار کو دیکھنے کے لئے گئے حکیم صاحب نے تو اپنے تجربہ سے معلوم کیا کہ بیمار نے بد پرہیزی کی ہے بلکہ کہہ بھی دیا کہ اس نے تربوز کھایا جو اس کو مضر تھا۔ بیمارداروں نے اس امر کا اقرار کیا۔ اتفاق بیمار کی چارپائی کے نیچے تربوز کے چھلکے اور بیج بھی پڑے تھے نیم حکیم صاحب نے یہ اصول سمجھا کہ جس چیز کا نشان چارپائی کے نیچے ہو اس کے متعلق بد پرہیزی کا الزام بیمار پر لگا دینا چاہئے۔ اتفاق سے دوسرے روز حکیم صاحب مطب پر غیر حاضر تھے نیم حکیم بیمار مذکور کو دیکھنے تشریف لے گئے تو جاتے ہی بیمار کی چارپائی کے نیچے نمدا پڑا ہوا ملاحظہ کر کے جھٹ سے فرما دیا کہ آج تو بیمار نے بڑی سخت بدپرہیزی کی ہے بیمار داروں نے عرض کیا کہ جناب عالی آج تو قسمیہ کسی قسم کی بدپرہیزی نہیں ہوئی۔ مگر نیم حکیم صاحب نے بڑے قوی قرائن سے معلوم کیا ہوا تھا وہ بضد ہوئے کہ نہیں واقعی بیمار نے سخت بدپرہیزی کی ہے آخر بیمارداروں نے التماس کی کہ مہربانی کر کے آپ ہی بتلاویں کہ کیا بدپرہیزی ہوئی ہے آئندہ کو اس کا بھی لحاظ رہے گا۔ نیم حکیم صاحب نے درافشانی کی کہ ” بیمار نے نمدا کھایا ہے۔“ یہ سنتے ہی تیمارداروں نے نیم حکیم صاحب کی علمی فضیلت کا اعتراف کیا۔ ہم بھی سید صاحب کے حق میں تعبیر رویا کے کمال کا اعتراف کرتے ہیں۔ اس سے آگے بادشاہ مصر کے خواب کے متعلق فرماتے ہیں۔ ” چوتھا خواب وہ ہے جس کو بادشاہ نے دیکھا تھا کہ سات موٹی موٹی تازہ گائیں ہیں ان کو سات دبلی گائیں کھا رہی ہیں اور سات ہری بالین ہیں اور سوکھی بھی ملک مصر ایک ایسا ملک ہے جس میں مینہ بہت ہی کم برستا ہے دریائے نیل کے چڑھائو پر کھیتی ہونے یا قحط پڑنے کا مدار ہے چڑھائو کے موسم میں اکثر بائیس فیٹ چڑھ جائے تو فصل اچھی ہوتی ہے اور چوبیس فیٹ چڑھائی ہو تو غرقی ہوجاتی ہے اور اگر صرف اٹھارہ یا ساڑھے اٹھارہ فیٹ چڑھائو ہو تو قحط ہوجاتا ہے۔ قدیم مصریوں نے دریائے نیل کے چڑھائو کے جس پر اچھی فصل کا یا قحط کا ہونا منحصر تھا متعدد جگہ اور متعدد طرح سے پیمانے تیار کئے تھے اور ان کو بہت زیادہ اچھی فصل ہونے یا قحط ہونے کا خیال اور ہمیشہ اسی کا چرچا رہتا تھا مصر میں قحط ہونے کا یہ سبب بھی ہوتا ہے کہ دریائے نیل کی طغیانی کے چڑھائو کے بہائو کا رخ اس طرح پر پڑجائے کہ زراعت کی زمین تو پانی کے رو سے محروم رہ جاویں حضرت یوسف (علیہ السلام) کے زمانہ میں اور اس سے پہلے بھی دریائے نیل بے اعتدالی کے طور تھا یعنی ملک مصر میں اس کے مناسب اور یکساں بہنے کے لئے کوئی انتظام نہیں کیا گیا تھا اس زمانہ میں بھی جب کسی طرح سے اس کا رخ بدلتا معلوم ہوتا ہے تو لوگ اندازہ کرتے ہیں اور آپس میں چرچا کرتے ہیں کہ اتنے دنوں میں دریا اس کنارہ سے لگے گا اور فلاں طرف کی زمینیں چھوٹ جاویں گی۔ اسی طرح غالباً اس زمانہ میں مصر کی نسبت اور قحط پڑنے کی نسبت چرچے ہوتے ہوں گے اور بادشاہ مصر کو اس کا خیال ہوتا ہوگا اور وہی خیال پیداوار کے زمانہ کا موٹی گائیوں اور ہری ہری بالوں سے اور قحط کے زمانہ کا دبلی گائیوں اور سوکھی بالون سے متمثل ہو کر فرعون (بادشاہ مصر) کو خواب میں دکھائی دیا (گرانی یا ارزانی کا تصور تو بھلا ہر ایک کو موسم برسات پر ہوتا ہے سات عدد کا تصور بھی ہوتا ہے جو شاہ مصر کو ہوا؟) کما قال الفارابی ان التعبیر ھو حدس من المعبر یستخرج بہ الاصل الخ (تفسیر احمدی جلد پنجم ص ٨٣) ان خوابوں کی تعبیر دینے کے بعد سید صاحب ایک سوال کے جواب دینے پر متوجہ ہوتے ہیں چنانچہ آپ فرماتے ہیں۔ ” خوابوں کی نسبت اب صرف ایک بحث باقی ہے کہ اگر وہی چیزیں خواب میں دکھائی دیتی ہیں جو دماغ میں اور خیال میں جمع ہیں تو یہ کیوں ہوتا ہے کہ بعض دفعہ یا اکثر دفعہ وہی امر واقعہ ہوتا ہے جو خواب میں دیکھا گیا ہے مگر اس باب میں خواب کی حالت اور بیداری کی حالت برابر ہے بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ بیداری کی حالت میں آدمی باتیں سوچتا ہے اور اپنے دل میں قرار دیتا ہے کہ یہ ہوگا اور وہی ہوتا ہے یا کسی شخص کو یاد کرتا ہے اور وہ شخص آجاتا ہے اور بہت دفعہ اس کے مطابق نہیں ہوتا پس اس کی بیداری کے خیال کے مطابق واقع کا ہونا ایک امر اتفاقی ہوتا ہے اسی طرح خواب میں بھی جو باتیں وہ دیکھتا ہے اور وہ وہی ہوتی ہیں جو اس کے دماغ اور خیال میں جمی ہوئی ہوتی ہیں پس کبھی ان کے مطابق بھی کوئی واقع اسی طرح واقع ہوتا ہے جس طرح کہ بیداری کی حالت میں خیالات کے مطابق واقع ہوتا ہے ہاں اس میں شبہ نہیں کہ انبیاء اور صلحا کے خواب بسبب اس کے کہ ان کے نفس کو تجرد فطری و خلقی اور اکتسابی حاصل ہوتا ہے ان کے خواب بالکل سچے اور اصلی (اصلی کے کیا معنے جب کہ خواب کی اصلیت ہی اتنی ہے کہ دن کے جو خیالات رات کو سوجھتے ہیں تو اس میں نبی ولی وغیرہ میں کیا فرق ہے اور اصلی اور غیر اصلی کے کیا معنی مصور اگر کسی خوش شکل کی تصویر اتارے تو وہ اصلی ہوگی اور اگر کسی بدشکل کی اتارے تو غیر اصلی؟ نہیں بلکہ دونوں اصلی ہیں پس نبی ولی یا فاسق فاجر وغیرہ سب کے خواب اصلی ہونے چاہئیں چاہے وہ کچھ ہی دیکھیں) اور مطابق ان کی حالت کے نظر آتے ہیں (یہ ٹھیک ہے لیکن آپ کی اصطلاح میں خاص ان کو اصلی کہنا ٹھیک نہیں) اور ان سے ان کے نفس کا تقدس اور متبرک ہونا ثابت ہوتا ہے (بہت ٹھیک کل اناء یترشح بمافیہ) جلد پنجم صفحہ ٧٩ تا ٨٥ مختصر یہ کہ سید صاحب کے نزدیک خواب صرف دماغی خیالات سے ہوتا ہے اور بس کوئی تعلق ملاء اعلیٰ سے نہیں اور نہ ہی خواب کوئی ذریعہ علم ہے چاہے کسی کا بھی کیوں نہ ہو پس ہمارے ناظرین اس مسئلہ میں خود سوچ لیں کہ ان کو ہمیشہ وہی خواب آتے ہیں جن کا خیال ان کے دماغوں میں ہوتا ہے یا کبھی ایسے خواب بھی دیکھتے ہیں جن کا سامان و گمان بھی نہ ہو اگر شق اول ہے تو سید صاحب کا مذہب ثابت ہے اور اگر صورت ثانیہ ہے تو علماء اسلام بلکہ انبیاء کرام علیہم السلام کا قول صحیح فتفکر وایا اولی الالباب۔ اسی بحث کا تتمہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا مصر سے یوسف کی خوشبو سونگھنے کا ہے جو حقیقتہ کوئی جداگانہ بحث نہیں ہے بلکہ اسی اصل کی فرع ہے جس کی بابت ہم نے ایک شعر لکھا تھا : ایکہ آگاہ نئی عالم درویشاں را توچہ دانی کہ چہ سوداے سرست ایشاں را سید صاحب لکھتے ہیں ” بلاشبہ حضرت یعقوب نے مصر میں بھی تلاش کی ہوگی مگر وہ عزیز مصر کے ہاتھ بیچے گئے تھے اور محلوں میں داخل تھے اور ایک مدت تک قید رہے ان کا پتہ نہیں لگ سکتا ہوگا (کیا مصر میں جاتے ہی قید ہوگئے تھے؟) مگر جب حضرت یوسف ( علیہ السلام) کے بھائی مصر میں گئے اور حضرت یوسف بھی اس زمانہ میں عروج کی حالت میں تھے اور رعایت اور سلوک انہوں نے اپنے بھائیوں کے ساتھ کیا تھا اور پھر اپنے حقیقی بھائی کے لانے کی بھی تاکید کی تھی اور کچھ حالات بھی ان کے سنے ہوں گے تو ان کے بھائیوں اور ان کے باپ کے دل میں شبہ پیدا ہوگیا ہوگا کہ کہیں یہ یوسف ہی نہ ہو مگر جس درجہ شاہی پر (سید صاحب ! کیا کہہ رہے ہیں کیا حضرت یوسف مصر کے بادشاہ ہوگئے تھے کیا علماء کو مطعون کرتے کرتے آپ بھی بے ثبوت کہنے لگ گئے) اس وقت حضرت یوسف تھے یہ شبہ پختہ نہ ہوتا ہوگا اور دل سے نکل جاتا ہوگا۔ پس جب کہ حضرت یعقوب کا شبہ اس قدر قوی ہوگیا تھا اور جو مہربانی یوسف نے اپنے بھائیوں کے ساتھ کی تھی اس کو سن کر ان کو گمان ہوگیا تھا کہ وہ بنیامین کا بھائی یوسف ہے تو ان کو یقین کامل ہوا کہ اب کے جو قافلہ واپس آوے گا تو ٹھیک خبر یوسف کی لاوے گا جب کہ تیسری دفعہ یہ لوگ مصر میں گئے تو حضرت یوسف ( علیہ السلام) نے سب کے سامنے کہہ دیا تھا کہ میں یوسف ہوں اور حضرت یعقوب کو معہ تمام کنبہ کے بلانے کو کہا تھا اور ان کے لئے بہت سا سامان مہیا کرنے کو حکم دیا (ثبوت کیا؟) جس کے لئے کچھ عرصہ لگا ہوگا اس عرصہ میں حضرت یوسف کے مصر میں موجود ہونے کی خبر افواہاً حضرت یعقوب کو پھر پہنچ گئی ہوگی اور اس افواہ پر ان کو یقین ہوا اور انہوں نے فرمایا کہ انی لاجدریح یوسف لولا ان تفندون یعنی میں پاتا ہوں خبر یوسف کی اگر تم مجھے بہکا ہوا نہ کہنے لگو۔“ (جلد ٥ صفحہ ١١٧ و ١١٨) بہکا ہوا کیوں کہتے جس افواہ کی بنیاد پر حضرت یعقوب کو یقین ہوا تھا وہ افواہ انہوں نے نہ سنی تھی؟ اگر نہیں سنی تھی تو حضرت یعقوب نے اس افواہ کو ان کے سامنے کیوں پیش نہ کیا اگر یعقوب کی روایت کا ان کو اعتبار نہ ہوتا (جو بلحاظ ان کے تقدس کے بعید ہے) تو انہی لوگوں کو جن کے ذریعہ حضرت یعقوب کو افواہ پہنچی تھی ان کے سامنے پیش کردیتے علاوہ اس کے افواہ کے کیا معنی اگر ان دنوں کوئی آدمی مصر سے آیا ہوگا تو اس نے تو یقینی خبر بتلائی ہوگی پھر افواہ سے اس کو کیوں تعبیر کیا گیا ہے اگر سید صاحب علم مسمریزم ہی سے جس کے اکثر حوالے دیا کرتے ہیں عملی طور پر واقف ہوتے تو ان کو یہ دشواری پیش نہ آتی جو آئی۔ علامہ ابن خلدون نے حقیقت نبوت پر ایک طویل بحث لکھی ہے جو ان سب شبہات کے ازالہ کو کافی ہے بہتر ہے کہ اس مقام پر ہم اسی کو مع مختصر ترجمہ نقل کردیں۔ لکھتے ہیں کہ والنفوس البشریۃ علی ثلاثۃ اصناف۔ صنف عاجز بالطبع عن الوصول الی ادراک الروحانی فینقطع بالحرکۃ الی الجھۃ السفلی نحو المدارک الحسیۃ والخیالیۃ و ترکیب المعانی من الحافظۃ والواھمۃ علی قوانین محصورۃ ترتیب خاص یستفیدون بہ العلوم التصوریۃ والتصدیقیۃ التی للفکر فی البدن وکلھا خیالی منحصر نطاقہ اذھو من جھۃ مبدئہ ینتھی الی الاولیات ولا یتجا وزھاوان فسد فسد مابعد ھاو ھذا ھو فی الاغلب فطاق الاردراک البشری الجسمانی والیہ تنتہی مدارک العلماء وفیہ ترسخ اقدامھم وصنف متوجہ بتلک الحرکۃ الفکریۃ نحوالعقل الروحانی والادراک الذی لا یفتقر الی الاٰلات البدنیۃ بما جعل فیہ من الاستعداد لذلک فیتسع نطاق ادراکہ عن الاولیات التی ھی نطاق الادراک الاول البشری و یسرح فی فضاء المشاھدات الباطنیۃ وھی وجدان کلھا لانطاق لھا من مبدئھا ولا من منتھاھا وھذہ مدارک العلماء الاولیاء اھل العلوم الدنیۃ والمعارف الربانیۃ وھی الحاصلۃ بعدالموت لاھل السعادۃ فی البرزخ وصنف مفتور علی الانسلاخ من البشریۃ جملۃ جسمانیتھا وروحانیتھا الی الملائکۃ من الافق الاعلی لیصیر فی لمحہ من اللمحات ملکا بالفعل ویحصل لہ شہود الملا الاعلی افقہم وسماع الکلام النفسانی والخطاب الالھی فی تلک اللمحۃ وھولاء الانبیاء صلوات اللہ وسلامہ علیہم جعل امہ لھم الانسلاخ من البشریۃ فی تلک اللمحۃ وھی حالۃ الوحی فطرۃ فطرھم اللہ علیھا وجبلۃ صورھم فیھا ونزعھم عن موانع البدن وعوائقہ ماداموا ملابسین لھا بالشربۃ بمارکب فی غرائزھم من القصد والاستقامۃ التی یھاذون بھا تلک الرجعۃ وتسیغ نحو ھافھم یتوجھون الی ذلک الافق بذلک النوع من الانسلاخ متی شاؤا بتلک الفطرۃ التی فطروا علیھا لا بالاکتساب ولاصناعۃ فلذاتو جھوا وانسلخوا عن بشریتھم وتلقوا فی ذلک الملا مالا علی ما یتلقونہ عاجوانہ بہ علی المدارک البشریۃ منزلا فی قواھا لحکمۃ التبلیغ للعباد فتارۃ یسمع دویا کانہ رمز من الکلام یاخذ منہ المعنی الذی القی الیہ فلا ینقضی الدوی الاوقد ومحاہ فھو تارۃ یتمثل لہ الملک الذی یلقی الیہ رجلا فیکلمہ ویعی مایقولہ لہ والتلقی من الملک والرجوع الی المدارک البشریۃ وفھم ما القی علیہ کلہ کانہ فی لحظۃ واحدۃ بل اقرب من لمح البصر لانہ لیس فی زمان بل کلھا تقع جمیعا فیظہر کانہا سریعۃ ولذلک سمیت و حیالان الواحی فی اللغۃ الاسراع (ص ٨٦‘ ٨٧) نفوس بشریہ تین قسم پر ہیں ایک قسم تو بالطبع روحانیات تک پہنچنے سے عاجز ہیں وہ صرف قوانین مغلیہ کے مطابق ترکیب اور ترتیب معانی سے علوم تصوریہ اور تصدیقیہ حاصل کرتے ہیں اس قسم کا دائرہ ادراک بہت ہی تنگ ہے کیونکہ یہ اولیات تک پہنچ کر آگے نہیں بڑھ سکتے عموماً ادراکات بشریہ کا یہی طریقہ ہے اور علماء ظاہر کا مدار بھی یہی ہے اور اسی میں ان کے قدم جم جاتے ہیں ایک قسم نفوس بشریہ کی عقل روحانی کی طرف متوجہ ہوتی ہے جو آلات بدنیہ کی محتاج نہیں پس اس کا دائرہ اولیات سے بڑھ کر مشاہدات باطنیہ تک پہنچ جاتا ہے جس کی کوئی انتہا نہیں علماء علوم لدنیہ اور معارف الٰہیہ والوں کا یہ طریق ہے اور اہل سعادت کو بعد موت حاصل ہوتا ہے ایک قسم نفوس بشریہ ہیں کہ وہ پیدائش ہی سے ظلمات بشریہ سے الگ ہوتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک لمحہ میں ملائکہ سے مل جاتے ہیں اور ملاء اعلیٰ اپنے مقام پر ان کو مشہور اور محسوس ہوتا ہے اور خطاب نفسانی اور خطاب الٰہی ان کو مسموع ہونے لگ جاتا ہے ایسے لوگ انبیاء علیہم السلام ہیں نزول وحی کے وقت اللہ ان کو ظلمات بشریہ سے پاک کرلیا کرتا ہے اسی فطرت پر ان کو پیدا کیا ہوا ہے کیونکہ ان کی طبیعتوں میں میانہ روی اور استقامت اللہ نے گھڑی ہوتی ہے اور ان کی طبایع میں شوق رکھا ہوتا ہے پس وہ جب چاہیں اسی فطری صفائی سے جو فطرتاً بلا کسب ان کو حاصل ہے ملا اعلیٰ کی طرف متوجہ ہوسکتے ہیں پھر کبھی تو ان کو ایک آواز گہنگناہٹ سی سنائی دیتی ہے جسے وہی سمجھتے ہیں اور بعد ختم ہونے کے اس کا مطلب بخوبی ان کو یاد ہوجاتا ہے اور کبھی ان کے سامنے فرشتہ آ کر کلام کرتا ہے جو ان کو یاد ہوجاتا ہے۔ حضرت امام غزالی نے بھی اس مضمون کے متعلق بہت بڑی طویل تحریر کی ہے جو بعینہٖ مع مختصر ترجمے کے نقل کی جاتی ہے اعلم ان من انکشف لہ شیٔ ولو الشیٔ الیسیر بطریق الالھام والوقوع فی القلب من حیث لا یدری فقد صارعارفا لصحۃ الطریق ومن لم یدرک ذلک من نفسہ قط فینبغی ان یومن بہ فان درجۃ المعرفۃ فیہ غریزۃ جدا ویشھد لذلک شواھد الشرع والتجارب والحکایات اما الشواھد فقولہ تعالیٰ والذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا فکل حکمۃ تظھر من القلب بالمواظبۃ علی العبادۃ من غیر تعلم فھو بطریق الکشف والالھام وقال (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) من عمل بما علم ورثہ اللہ علم مالم یعلم ووفقہ فیما یعمل حتی یستوجب الجنۃ ومن لم یعمل بما یعلم تاہ فیما یعلم ولم یوفق فما یعمل حتی یستوجب النار وقال اللہ تعالیٰ ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجا من الاشکالات والشبہ ویرزقہ من حیث لا یحتسب یعلمہ علما من غیر تعلم ویفظنہ من غیر تجربتہ وقال اللہ تعالیٰ یایھا الذین امنوا ان تتقوا اللہ یجعل لکم فرقانا قیل نورا یفرق بہ بین الحق والباطل ویخرج بہ من الشبہات ولذلک کان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یکثر فی دعائہ من سوال النور فقال (علیہ السلام) اللہم اعطنی نورا وزدنی نورا واجعل لی فی قلبی نورا وفی قبری نورا وفی سمعی نورا و فی بصری نورا حتی قال فی شعری وفی بشری و فی مخی ودمی وعظامی وسئل (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عن قول اللہ تعالیٰ افمن شرح اللہ صدرہ للاسلام فھو علی نور من ربہ ھذا الشرح فقال ھو التوسعۃ ان النور اذا قذف بہ فی القلب اتسع لہ الصدر وانشرح وقال (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لابن عباس اللہم فقہ فی الدین وعلمہ التاویل وقال علی (رض) ماعندنا شئ اسرہ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الینا الا ان یوتی اللہ تعالیٰ عبدا فھما فی کتابہ ولیس ھذا بالتعلم وقال فی تفسیر قولہ یوتی الحکمۃ من یشاء انہ الفہم فی کتاب اللہ تعالیٰ وقال اللہ تعالیٰ ففہمناھا سلیمان خص ما انکشف لہ باسم الفہم وکان ابو الدرداء یقول المومن من ینظر بنور اللہ من وراء ستر رقیق واللہ انہ للحق یقذفہ اللہ فی قلوبہم ویجریہ علی السنتہم وقال بعض السلف ظن المؤمن کھانۃ وقال النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اتقوا فراسۃ المومن فانہ ینظر بنور اللہ تعالیٰ والیہ یشیر قولہ تعالیٰ ان فی ذلک لایات للمتوسمین وقولہ تعالیٰ قد بینا الایات لقوم یوقنون وروی الحسن عن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وسلم انہ قال العلم علمان فعلم باطن فی القلب فذالک ھو العلم النافع وسئل بعض العلماء عن العلم الباطن ماھو فقال ھو سرمن اسرار اللہ تعالیٰ یقذفہ اللہ تعالیٰ فی قلوب احبابہ لم یطلع علیہ ملکا ولا بشرا وقد قال (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان من امتی محدثین ومعلمین ومکلمین وان عمر منہم و قرأ ابن عباس (رض) وما ارسلنا من قبلک من رسول ولا نبی ولا محدث یعنی الصدیقین والمحدث ھو الملہم ھو الذی انکشف لہ فی باطن قلبہ من جھۃ الداخل لامن جحۃ المحسوسات الخارجۃ والقراٰن مصرح ان التقوی مفتاح الھدایۃ والکشف وذلک علم من غیر تعلم وقال اللہ تعالیٰ وماخلق اللہ فی السموت والارض لایات لقوم یتقون خصصھا بھم وقال تعالیٰ ھذا بیان للناس وھدی وموعظۃ للمتقین وکان ابو یزید وغیرہ یقول لیس العالم الذی یحفظ من کتاب فاذا انسی ماحفظہ صارجاھلا انما العالم الذی یاخذ علمہ من ربہ ای وقت شاء بلاحفظ ولادرس وھذا ھوالعلم الربانی والیہ الاشارۃ بقول تعالیٰ وعلمناہ من لدنا علما مع ان کل علم من لدنہ ولکن بعضہا بوسائط تعلیم الخلق فلاسمی ذلک علما لدنیا بل اللدنی الذی ینفتح فی سرالقلب من غیر سبب مالوف من خارج فھذہ شواھد النقل ولوجمع کل ماورد فیہ من الایات والاخبار والاثار یخرج من الحصر (احیاء العلوم جلد ٣ بیان شواہد الشرع) امام موصوف فرماتے ہیں کہ جس کو کوئی چیز بذریعہ الہام منکشف ہو تو وہ عارف ہے اور جس کو نہ ہو وہ اس کے امکان پر ایمان رکھے کیونکہ اس پر شواہد شرعی اور تجربات اور حکایات سب گواہی دے رہے ہیں شواہد شرعی میں سے ایک تو فرمان اللہ تعالیٰ وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا الایۃ ہے پس جو حکمت انسان کو بشغل عبادت دل پر حاصل ہو وہ کشف اور الہام سے ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ جو شخص اپنے علم پر عمل کرے اللہ اس کو ایک ایسا علم سکھائے گا جو وہ نہیں جانتا ہوگا اور اس کو نیک عمل کی توفیق دے گا اور اللہ نے فرمایا ہے یااَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا۔ یعنی اے مومنو ! اللہ سے ڈرتے رہو تو تمہارے لئے فیصلہ کر دے گا یعنی نور دے گا کہ اس کے ساتھ حق اور باطل میں فیصلہ کیا جائے گا اور شبہات ظلمانیہ سے نکل جاوے گا اس لئے آنحضرت اکثر اوقات دعا کرتے ہوئے اللہ سے نور مانگا کرتے تھے اور حضور سے اس آیت افمن شرح اللہ الخ کا مطلب پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ وہ وسعت صدر ہے نور جب دل میں ڈالا جاتا ہے تو سینہ اس کے لئے فراخ ہوجاتا ہے حضرت نے ابن عباس (رض) کے حق میں دعا فرمائی تھی کہ یا اللہ اس کو دین کی سمجھ دے اور اس کو تاویل سکھا حضرت علی (رض) نے کہا ہے کہ ہمارے نزدیک کوئی چیز نہیں جو آنحضرت نے ہمیں الگ بتلائی ہو مگر فہم و فراست ہے جو اللہ کسی بندے کو بغیر تعلیم و تعلم کے عنایت کرتا ہے ابوالدرداء کہا کرتے تھے کہ مومن اللہ کے نور سے باریک پردے سے پیچھے دیکھتا ہے اللہ کی قسم اللہ اپنے نیک بندوں کے دلوں پر حقانیت ڈال دیتا ہے اور ان کی زبانوں پر جاری کرا دیتا ہے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ مومن کی فراست سے ڈرتے رہو کیونکہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے اسی طرف اللہ کا قول اشارہ کرتا ہے اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰاتٍ لِّلْمُتَوَسِّمِیْنَ حضرت حسن نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کیا ہے کہ علم دو قسم پر ہے ایک علم دل پر ہے وہی باطیٍ ہے (اور ایک علم زبان پر ہے جو اللہ کی طرف سے اتمام حجت ہے) اور آنحضرت نے فرمایا میری امت میں بعض لوگ مکالمات الٰہیہ سے مشرف ہوں گے اور عمر بن خطاب ان میں سے ہے اور ملہم وہ شخص ہے جس کے باطن میں سوائے محسوسات کے علم روشن ہو اور قرآن میں تصریح اس امر کی ہے کہ تقویٰ ہدایت اور کشف کی کنجی ہے جو بغیر سیکھنے کے (ریاضت سے) حاصل ہوتا ہے۔ ابویزید کہا کرتے تھے عالم تو بس وہی شخص ہے جو بلاواسطہ اپنے رب سے علم حاصل کرے اسی طرف اشارہ ہے وعلمناہ من لدنا علما اگر تمام آیات اور احادیث اس بارے میں جمع کی جائیں تو گنی نہ جائیں۔ انتہی غرض کہ یہ کوئی کام اللہ تعالیٰ کا بے قاعدہ اور خلاف نیچر نہیں مگر سید صاحب کی غلطی ہے کہ نیچر کی تحدید کرتے ہوئے بانی نیچر کی اجازت نہیں لیتے بلکہ اپنے ہی خیال سے نیچر کو تنگ کردیتے پھر جب کوئی مسئلہ ان کے مزعومہ نیچر کے خلاف نظر آتا ہے اسے ناحق نیم جان کرنے کی کوشش کتے ہیں غرضیکہ سید صاحب نصف نیچر کو تو مانتے ہیں نصف سے منکر ہیں انہی معنی کی طرف اللہ نے اشارہ فرمایا ہے یَاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً (مسلمانو ! تمام دینی باتوں کو مانو) نہ کہ آدھا تیتر اور آدھا بٹیر بنا کر نصف نیچر کو مانو اور باقی سے انکاری ہوجائو۔ منہ نشان ہیں کہ حاسدوں کے حسد سے محسود کا کچھ بگڑتا نہیں ہر ایک موقع عبرت انگیز ہے خصوصاً وہ وقت جب یوسف ( علیہ السلام) کے بھائیوں نے حضرت یعقوب ( علیہ السلام) کی یوسف ( علیہ السلام) سے محبت دیکھ کر سب نے بیک زبان کہا کہ یوسف ( علیہ السلام) اور اس کا مادری بھائی بنیامین باپ کو ہم سے زیادہ پیارے ہیں حالانکہ ہم سب لائق اور ایک کامل جماعت ہیں بے شک ہمارا باپ اس امر میں صریح غلطی پر ہے کہ لائقوں کی قدر نہیں کرتا خرد سالوں سے محبت کرتا ہے چونکہ وہ اپنی غلطی پر متنبہ نہیں ہوتا اور اس کے متنبہ ہونے کی امید بھی نہیں اور ہو بھی کیسی اس کی محبت اس حد تک بڑھ رہی ہے کہ وہ بزبان حال کہتا ہے زدیدنت نتوانم کہ دیدہ بر بندم دگر مقابلہ بینم کہ تیر مے آید