وَإِلَىٰ مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا ۚ قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُ ۖ وَلَا تَنقُصُوا الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ ۚ إِنِّي أَرَاكُم بِخَيْرٍ وَإِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ مُّحِيطٍ
اور مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو (بھیجا)۔ اس نے کہا اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمھارا کوئی معبود نہیں اور ماپ اور تول کم نہ کرو، بے شک میں تمھیں اچھی حالت میں دیکھتا ہوں اور بے شک میں تم پر ایک گھیر لینے والے دن کے عذاب سے ڈرتاہوں۔
(84۔95) اور سنو ! اسی طرح ہم نے شہر مدین والوں کی طرف ان کے بھائی حضرت شعیب کو رسول کر کے بھیجا سب سے پہلے اس نے یہ کہا بھائیو ! اللہ ہی کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں یہ حکم تو تم کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کے متعلق ہے اس کے علاوہ باہمی تمدنی احکام میں سے یہ ضروری ہے کہ تم ایک دوسرے کی حق تلفی نہ کیا کرو اور ماپ تول میں کمی نہ کیا کرو یعنی بھائو کرنے میں تمہیں اختیار ہے لیکن جو مقرر کرلو اس سے کم نہ دو تم اللہ تعالیٰ کے فضل سے تجارت پیشہ ہو میں تم کو اچھی آسودگی میں دیکھتا ہوں اور اگر ماپ تول کم کرنا نہیں چھوڑو گے تو تمہارے حال پر مجھے عام عذاب کے دن کا خوف ہے جس دن تمہارے جیسے سب مجرموں کو ایک جگہ جمع کر کے سزا دی جائے گی اور اسی مطلب کے واضح کرنے کو اس نے پھر کہا اے میرے بھائیو ! ماپ اور تول انصاف سے پورا کیا کرو اور لوگوں کی چیزیں کم نہ دیا کرو اور ملک میں فساد نہ پھیلاتے پھرو اللہ کا دیا ہوا نفع ہر حال میں تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم سچی بات مانو تو تمہارا بھلا ہوگا اور اگر نہ مانو گے تو میں تم پر نگہبان اور داروغہ نہیں ہوں کہ تمہارے کاموں سے مجھے سوال ہوگا وہ نالائق بجائے تسلیم کرنے اور ایمان لانے کے مخول کرتے ہوئے کہنے لگے اے شعیب تو جو لمبی لمبی نمازیں پڑھتا ہے کیا تیری نماز تجھے حکم دیتی ہے کہ ہمیں یہی وعظ کہا کر کہ ہم اپنے باپ دادوں کے معبودوں کی عبادت کرنا ترک کردیں یا اپنے مالوں میں جس طرح سے چاہیں تصرف کرنا چھوڑ دیں واہ صاحب ! آج تک تو کوئی مصلح قوم اور ریفارمر ایسا قوم کا بہی خواہ پیدا ہوا نہیں جیسا تو پیدا ہوا ہے بیشک تو ہی بڑا نرم دل اور نیک بخت رہ گیا ہے اور دنیا تو ساری کی ساری ڈوب گئی جو ایسا نہیں کرتے بہتر ہے جو ہوا سو ہوا اب آئندہ کو باز آجا جس طرح تجارت کے اصول ہیں کہ زیادہ لینا اور کم دینا ہمارے ساتھ اسی طرح کیا کر شعیب (علیہ السلام) نے کہا بھائیو ! بتلائو تو اگر میں اپنے پروردگار کی دی ہوئی ہدایت پر ہوں اور اس نے محض اپنے فضل سے مجھے پاک اور حلال رزق عنایت کیا ہو اور مجھے حکم دیا ہو کہ میں تم کو سنائوں تو بھی میں خاموش رہوں اور تمہارے کہنے پر اپنے کہے کے مخالف چلوں حالانکہ نہ تو میں خاموشی کو پسند کرتا ہوں اور نہ میں یہ چاہتا ہوں کہ ان باتوں سے تمہیں منع کرتا ہوں وہ خود کروں اور فرمان اللہ کریم لم تقولون مالا تفعلون کا مصداق بنوں یوں تو کہتا جائوں کہ گا ہکوں کو کم نہ دیا کرو اور آپ کم دینے لگوں اس تمہاری نصیحت کو میں نہیں سن سکتا کیونکہ میرا ارادہ تو حسب طاقت قوم کی اصلاح کرتے اور سچے مصلحوں کا یہ کام نہیں کہ اپنے کہے کا آپ ہی خلاف کریں ایسا کرنے والے ٹھگ ہوتے ہیں ایسوں ہی کے حق میں حافظ شیرازی نے کہا ہے واعظاں کایں جلوے بر محراب و ممبر میکنند چوں بخلوت میروندآں کار دیگر میکنند اور اصل میں مجھے اس تبلیغ کے کام کرنے کی توفیق بھی اللہ ہی نے دی ہے اسی پر میں نے توکل کیا ہے اور اسی کی طرف میں تیفی کے وقت جھکتا ہوں حضرت شعیب نے یہ بھی کہا اے میرے قومی بھائیو ! تمہیں مجھ سے کیا عداوت ہوگئی ہے اگر ہے تو کچھ میرا نقصان کرلینا لیکن میری عداوت سے ایسے کام تو نہ کرنے لگو جن کی وجہ سے تم پر نوح ہود اور صالح کی قوم جیسا عذاب نازل ہو اور اپنے پروردگار سے گناہوں پر بخشش مانگو پھر اسی کی طرف جھکے رہو نہ یہ کہ بقول شخصے عامل اندر زمان معزولی شیخ شبلی و بازید شوند مطلب کے وقت اس کے بنو اور بعد مطلب کھسک جائو تمہاری تھوڑی سی توجہ پر اللہ تعالیٰ تم پر مہربانی کرے گا کیونکہ مرلا پروردگار بڑا مہربان بندوں سے بڑی محبت کرنے والا ہے وہ نالائق بیک زبان بولے اے شعیب تو جو کچھ از قسم وعظ کہتا ہے اس میں سے بہت حصہ ہم نہیں سمجھتے بھلا سمجھیں بھی کیا جو بدیہی البطلان ہوں ان باتوں پر فکر ہی کیا کریں ارے میاں یہ تو یہ تو سیدھی بات ہے اور سب تاجروں کا مسلمہ اصول ہے کہ جس طرح سے ہوسکے گاہک کو راضی بھی کریں اور نفع بھی کمائیں وہ بجز اس کے کیونکر ممکن ہے کہ سیر کہہ کر بلا اطلاع پندرہ چھٹانک چیز دی جاوے۔ تو بڈھا میاں جو صریح اصول سے منکر ہے تیری باتوں کو ہم کیا سمجھیں ہاں بعض دفعہ زبردست آدمیوں کے کہنے سے ہم اپنے مفید مطلب کام چھوڑ بھی دیا کرتے ہیں لیکن تجھ میں وہ بھی نہیں نہ تو خود جسمانی طاقت رکھتا ہے اور نہ کوئی فوج تیری تابع ہے بلکہ ہم تجھے اپنی قوم میں بہت کمزور سمجھتے ہیں اور اگر تیرے کنبے کے لوگ نہ ہوتے تو ہم نے مدت کا تجھے پتھروں سے مار دیا ہوتا اور تو کسی طرح ہمارے نزدیک باوقعت و ذی رعب نہیں ہے لحاظ ہے تو تیرے کنبے کا ہے شعیب (علیہ السلام) نے کہا بھائیو ! میرا کنبہ تمہارے نزدیک اللہ سے بڑھ کر معزز ہے؟ جس کے خوف سے تم میرا لحاظ کرتے ہو اور اللہ کو ایسا سمجھ رکھا ہے کہ گویا تم اپنی پیٹھوں کے پیچھے اس کو ڈال چکے ہو یعنی اس سے ایسے لا پرواہ ہو رہے ہو کہ گویا اس سے تمہارا کوئی مطلب ہی نہیں سن رکھو کہ میرا پروردگار تمہارے کاموں کو گھیرے ہوئے ہے تم چاہے کتنی شوخیاں کرو اس کے احاطہ قدرت سے باہر نہیں جاسکتے ہو بھائیو ! ایک فلہو کی بات تم کو سناتا ہوں جائو تم اپنے طریق پر عمل کرتے ہو میں بھی کرتا ہوں جسے عذاب آ کر ذلیل کرے گا اور جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک کاذب ہوگا چند روز تک تم خود اسے جان لو گے پس اب اسی پر کار بند رہو اور منتظر رہو میں بھی تمہارے ساتھ منتظر ہوں ایسا ہی ہوتا رہا اور جب ہمارا غضب آلود حکم پہنچا تو ہم نے شعیب کو اور جو اس کے ساتھ ایمان لائے تھے محض اپنی مہربانی سے ان کو نجات دی اور بے فرمان ظالموں کو سخت آواز نے آ پکڑا پس وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے ایسے ” خس کم جہاں پاک“ کے مصداق بنے گویا اس بستی میں کبھی بسے ہی نہ تھے لوگو ! سن رکھو حضرت شعیب کی تکذیب پر مدین والوں کی اللہ تعالیٰ کے ہاں سے ایسی ہلاکت ہوئی جیسی ثمودیوں کی ہلاکت ہوئی تھی