وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِ إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُّبِينٌ
اور بلاشبہ یقیناً ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا، بے شک میں تمھارے لیے صاف صاف ڈرانے والا ہوں۔
(25۔49) اور حضرت نوح ( علیہ السلام) کو اس کی قوم کی طرف ہم نے اسی غرض سے بھیجا اس نے ان کو کہا کہ میں تم کو صاف صاف گناہوں کے کاموں پر ڈرانے والا ہوں سب سے اول حکم جس کی عدم تعمیل پر سخت گناہ ہے یہ ہے کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ ورنہ مجھے تمہارے حق میں دردناک دن یعنی قیامت کے عذاب کا خوف ہے مبادا تم اس میں گرفتار ہوجائو پس یہ سنتے ہی اس کی قوم میں سے کافروں کی جماعت نے کہا کہ تو جو اللہ تعالیٰ کا رسول ہونے کا دعویٰ کرتا ہے تیرے میں کیا بڑائی ہے ہم تو تجھے اپنے جیسا آدمی جانتے ہیں یہ تو تیری اپنی حیثیت ہے اور اگر تیرے تابعداروں کی عزت کا خیال کریں تو وہ بھی کوئی معزز اور شریف نہیں ہم دیکھتے ہیں کہ جتنے تیرے تابع ہوئے ہیں عموماً سب کے سب ہمارے کمینے اور رذیلے ہیں کاش کہ وہ بھی کسی تحقیق سے تیرے ساتھ ہوئے ہوتے ایسا نہیں بلکہ سرسری سمجھ سے تیرے پیچھے ہو لئے ہیں اور بڑی وجہ ہماری نہ ماننے کی یہ ہے کہ ہم تیرے میں کوئی مزیت اپنے پر نہیں پاتے بلکہ ایسے ہی دعویٰ سے ہم تجھے جھوٹا جانتے ہیں پس مناسب ہے کہ تو اس خیال سے باز آجا ورنہ تیری خیر نہیں نوح ( علیہ السلام) نے یہ نالائق اور غیر معقول جواب سن کر کہا کہ بھائیو ! بھلا بتلائو اگر میں اپنے پروردگار کی ہدایت پر ہوں اور اس نے اپنے پاس سے مجھے رحمت دی ہوئی ہو اور بوجہ تمہاری باطنی بینائی نہ ہونے کے وہ رحمت تمہیں معلوم نہ ہو اور تم ظاہری فضیلت کے متلاشی بنو کیونکہ اس کے دیکھنے کو ظاہری آنکھیں کام نہیں آتیں بلکہ دل کی بینائی درکار ہے تو کیا ہم اس رحمت کو تمہارے گلے مڑھ سکتے ہیں حالانکہ تم اسے ناپسند کرتے ہو یعنی نبوت اور نیابت نبوت روحانی فضیلت پر متفرع ہوتی ہے جو ظاہر بینوں کی نظر سے مخفی ہے کیونکہ ان کی نظروں میں بجز درہم و دینار کے کوئی چیز قابل وقعت نہیں ہوتی حافظ شیرازی مرحوم نے کیا ہی ٹھیک کہا ہے در کوئی ماشکستہ دلی میخرندو بس بازار خود فروشی ازاں سوے دیگر ست نوح نے یہ معقول جواب دے کر ان کا ایک مخفی سوال بھی جو ابھی تک انہوں نے ظاہر نہ کیا تھا دور کرنا چاہا اور کہا اے میرے قومی بھائیو ! میں تم سے اس تبلیغ پر مزدوری میں مال نہیں مانگتا میری مزدوری تو اللہ کے ہاں ہے اور نہ میں ایمانداروں کو جنہیں تم حقیر اور ذلیل سمجھتے ہو تمہاری خاطر تمہارے آنے پر اپنی مجلس سے دھتکار سکتا ہوں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ وہ اپنے پروردگار سے ملنے والے ہیں اللہ تعالیٰ کے حضور واصل ہیں ظاہری زیب و زینت اگر ان میں نہیں تو اس کی انہیں پرواہ نہیں کیا تم نہیں جانتے کہ جو بیخود گشت حافظ کے شمارد بیک جو مملکت کائوس وکے را ہاں میں دیکھتا ہوں جو تم جو میری مجلس میں ان کی موجودگی پر عار اور نخوت کرتے ہو تم اس میں سراسر جہالت کرتے ہو تمہیں سمجھنا چاہئے کہ اللہ کے ہاں دل سالم منظور ہے نہ لباس فاخر مطلوب بھائیو ! چونکہ یہ اللہ والے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی حمایت پر ہے اگر میں ان کو دھتکاروں گا تو میری خیر نہیں میری مدد کو کون اٹھے گا اگر میں ایسا کر گزروں کیا تم سمجھتے نہیں کہ معاملہ تو میرے اختیار سے باہر ہے اور سنو ! اگر میری غریبی کی طرف جاتے ہو تو میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میرا دعویٰ ہے کہ میں غیب کی باتیں جانتا ہوں کہ تمہارے لئے فال گنڈے ڈالا کروں اور من گھڑت باتیں سنا کر تم کو دام تزویر میں لائوں اور نہ میں کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں اور نہ میں یہ کہتا ہوں کہ جو لوگ تمہاری نظروں میں حقیر اور ذلیل ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی ایسے ہی ذلیل ہیں کہ اللہ ان کو خیر سے کچھ حصہ نہ دے گا اللہ ان کے دلوں کا اخلاص جانتا ہے ورنہ میں ایسا کرنے پر فوراً اللہ تعالیٰ کے نزدیک ظالموں میں ہوجائوں گا ایسی صاف اوپر از نور و ہدایت تقریر دلپذیر سن کر ظالم بجائے تسلیم کرنے کے بولے کہ اے نوح ( علیہ السلام) تو تو بڑا ہی بولنے والا اور جھگڑالو ہے تو نے ہم سے جھگڑا شروع کر کے بہت ہی جھگڑا کیا جس کا جواب ہم تجھے دینا نہیں چاہتے کیونکہ تو ہمارا دماغ چاٹ جاتا ہے تیری زبان لوہے کی قینچی ہے کسی وقت اور کسی حال میں رکتی ہی نہیں کسی کی مخالفت اور رعب تجھ پر اثر نہیں کرتا پس بہتر ہے کہ جس عذاب کی دھمکی تو ہم کو سناتا ہے اگر تو سچا ہے تو ہم پر لے آ نوح نے کہا جھگڑے کے متعلق جو تم نے کہا ہے وہ تو جو کچھ میں کہتا ہوں اللہ تعالیٰ کی تعلیم سے کہتا ہوں میری کج مج زبان میں بھلا اتنی گویائی کہاں کہ اتنی تقریر کرسکوں عذاب بھی اللہ ہی کے قبضے میں ہے وہی اسے تم پر لائے گا اگر چاہے گا اور تم اس کو کسی طرح ہرا نہیں سکتے اگر میں تمہاری خیر خواہی کروں بھی تو میری خیر خواہی تمہیں کچھ کام نہیں آسکتی جب کہ اللہ تعالیٰ ہی تمہاری بدعہدیوں اور حق سے ضد و عناد کرنے کی وجہ سے تم کو گمراہ رکھنا چاہے وہی تمہارا ہمارا سب کا پروردگار ہے اور اسی کی طرف تم پھیرے جائو گے یہی حال ان تیرے مخاطبوں کا ہے بات ٹھکانہ کی تو کوئی کہتے نہیں بہکی بہکی باتیں کرتے ہیں کیا یہ بات بھی کوئی قابل توجہ ہے جو یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس رسول نے قرآن کو اپنے پاس سے بنا لیا ہے تو کہہ اگر میں نے بنا لیا ہے تو میرا گناہ میرے ذمہ ہے اور میں تمہارے جرموں سے بری الذمہ ہوں تم اپنی بہتری سوچ لو ایسا نہ ہو کہ قرآن حقیقت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہو اور تم جلدی میں بے سوچے سمجھے اس کی تکذیب کرنے لگ جائو تو عذاب الٰہی میں تم کو مبتلا ہونا پڑے جیسا کہ نوح ( علیہ السلام) کی قوم کو ہونا پڑا۔ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو تباہ کیا اور نوح کی طرف وحی بھیجی گئی کہ جتنے لوگ تیری قوم سے ایمان لا چکے ہیں بس ان کے سوا اب کوئی ایمان نہ لائے گا چونکہ یہ لوگ اپنی پاداش کو پانے والے ہیں پس تو ان کی بدکاریوں پر غمگین مت ہوجیو اور ایک بیڑی ہمارے سامنے اور ہمارے الہام سے بنا جس پر تم نے سوار ہونا ہوگا اور ان کی ہلاکت کے وقت رحم کھا کر ظالموں کے حق میں مجھے مخاطب کر کے دعا نہ کیجیو کیونکہ وہ یقینا غرق ہوں گے ان کی ہلاکت اور تباہی کا وقت آگیا ہے چنانچہ ایسا ہی ہوا اور جس حال میں نوح بیڑی بناتا تھا اس کی قوم سے جب کوئی جماعت اس پر گذرتی تو اس سے مسخری کرتے کہ بڑے میاں بارش کا تو نام و نشان نہیں اور اگر ہوئی تو اتنی سی بیٹری میں کون کون بیٹھے گا اچھا بنا لو وقت پر ہمارے ہی کام آوے گی آخر بڈھوں نے تو پہلے ہی مرنا ہے نوح ( علیہ السلام) ان کے جواب میں کہتا اچھا اگر تم ہم سے مسخری کرتے ہو تو ایک وقت آنے والا ہے جیسے تم ہم سے مسخری کرتے ہو ہم بھی تم سے کریں گے مگر ہماری مسخری صرف مسخری نہ ہوگی بلکہ تمہارے حال پر شماتت ہوگی پس تم جان لو گے کہ کس پر عذاب آئے گا جو اسے رسوا کرے گا اور کس پر دائمی بلا نازل ہوگی غرض اسی طرح ہوتا رہا یہاں تک کہ ہمارا حکم آپہنچا اور صبح روشن ہوئی تو ہم نے نوح کو حکم دیا کہ ہر ایک قسم حیوانات میں سے جو تیرے اردگرد ہیں اور جو تیری ضروریات میں کام آنے والے ہیں ان میں سے جوڑا جوڑا چڑھا لے اور جس پر ہمارا حکم صادر ہوچکا ہے اسے چھوڑ کر باقی اپنے گھر والوں کو بھی اور جو تجھ پر ایمان لائے ہیں ان سب کو اس بیڑی پر سوار کرلے اور اصل بات یہ تھی کہ نوح ( علیہ السلام) پر چند آدمی ایمان لائے تھے باقی عموماً مخالف تھے پس اس نے سب کو اس وقت موجود تھے سوار کرلیا اور کہا سوار ہوجائو لیکن اللہ ہی کے نام سے یہ چلے گی اور اسی کے نام سے ٹھیرے گی جہاں وہ چاہے گا ٹھیرا لے گا بے شک میرا رب بخشنے والا مہربان ہے اور وہ بیٹری پانی کی لہروں میں جو بلندی میں پہاڑوں کی طرح آتی تھیں ان کو لئے جاتی تھی اور بارش بھی اپنا سماں دکھا رہی تھی اتفاقاً نوح ( علیہ السلام) کو اپنا بیٹا نظر آیا جس کی بابت شیخ سعدی مرحوم نے کہا ہے پسر نوح ( علیہ السلام) بابداں بہ نشست خاندان نبوتش گم شد شفقت پدری کے جوش میں نوح ( علیہ السلام) نے فوراً اپنے بیٹے کو جو الگ ایک کنارہ پر کھڑا تھا بلایا کہ بیٹا ہمارے ساتھ سوار ہوجاتا کہ تو بچ رہے اور کافروں کے ساتھ نہ رہ اسی پانی سے ان کی ہلاکت ہونے والی ہے وہ بولا کہ پانی کہاں تک برسے گا میں پہاڑ پر چڑھ جائوں گا وہ مجھ کو بارش کے پانی سے بچا لے گا وہاں تو بوجہ بلندی کے پانی نہیں ٹھیرے گا نوح ( علیہ السلام) نے کہا بیٹا آج اللہ کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں جس پر وہ رحم کرے گا وہی بچے گا اسی اثنا میں کہ وہ باتیں کر رہے تھے ان میں پانی کی ایک لہر حائل ہوگئی پس وہ غرق ہوگیا اور زمین کو حکم دیا گیا کہ اے زمین تو اپنا پانی جو اس وقت تجھ پر ہے پی لے اور اے آسمان تو برسنے سے تھم جا اور پانی بھی اتر گیا اور اس قوم کا کام بھی تمام ہوچکا اور بیڑی تیرتی جو دی پہاڑ پر جو دجلہ اور فرات کے درمیان ہے آ ٹھیری اور پکارا گیا کہ ظالموں کی قوم جنہوں نے نوح کی تکذیب کی تھی اللہ تعالیٰ کے ہاں سے دھتکاری گئی نوح کے بیٹے کا ذکر جواد پر مذکور ہوا بالاجمال ہے اور تفصیل اس کی یہ ہے کہ بیٹے کی روگردانی دیکھ کر نوح ( علیہ السلام) نے اپنے پروردگار سے دعا کرتے ہوئے کہا اے میرے مولا ! میرا بیٹا بھی میرے عیال سے ہے اور تو نے میرے عیال کی بابت نجات کا وعدہ فرمایا ہوا ہے اور اس میں تو شک نہیں کہ تیرا وعدہ بالکل سچا ہے اور تجھے اس کے پورا کرنے سے کوئی امر مانع نہیں کیونکہ تو سب حاکموں کا حاکم ہے اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں کہا اے نوح ( علیہ السلام) وہ لڑکا تیرے عیال سے جس کی نجات کا تجھ سے وعدہ ہے نہیں ہے کیونکہ تیرے عیال سے ہونے کے یہ معنے نہیں کہ فقط تیرے نطفہ سے ہو بلکہ یہ ضروری ہے کہ جیسا تو ہے وہ بھی نیک عمل ہو سو وہ نیک عمل نہیں اگر نیک عمل ہوتا تو تیرا کہا مانتا اور یہ تو قاعدہ مسلمہ ہے۔ کہ ” میرا پدر خواہی علم پدر آموز“ پس جس چیز کی صحت کا تجھے قطعی علم نہ ہو اس کا مجھ سے سوال نہ کیا کر یعنی ایسی چیز مجھ سے طلب مت کرنا جس کے متعلق خصوصاً یا عموماً ممانعت ہونے سے وہ دعا متیقن القبول نہ ہو اس میں تو میں تجھے کہہ چکا ہوں لا تخاطبنے فی الذین ظلموا اب بچو تجھے سمجھاتا ہوں کہ ایسے موقع پر غلبہ محبت میں نادانوں کی سی حرکت نہ کیا کر نوح ( علیہ السلام) نے یہ کڑا جواب سنا تو ہوش میں آیا اور بولا اے میرے مولا ! میری کیا مجال ہے کہ میں خلاف مرضی سرکار کے کروں جس چیز کی صحت کا مجھے علم نہ ہو اس کے سوال کرنے سے میں تیری پناہ لیتا ہوں مجھے بچا لے کہ میں ایسے سوال نہ کروں میری توبہ ہے اور اگر تو میرا گناہ نہ بخشے گا اور نہ رحم کرے گا تو میں بالکل خسارہ پائوں گا کیونکہ میری زندگی کی تجارت میں تیری رضا ہی نفع بلکہ اصل راس المال ہے اور بس اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نوح ( علیہ السلام) کو کہا گیا اے نوح تجھے معاف کیا گیا اب تو ہماری طرف سے سلامتی اور برکتوں کے ساتھ جو تجھ پر اور تیرے ساتھ والے لوگوں پر ہیں کنارہ پر اتر آ اور جو تمہارے سوا دنیا میں اور بھی قومیں بس رہی ہیں ان کے ساتھ بھی اسی طرح برتائو ہوگا کہ چند روز ہم ان کو آسودگی دیں گے پھر ان کی شامت اعمال سے ہماری طرف سے ان کو دکھ کی مار ہوگی اے نبی یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم تیری طرف بذریعہ وحی بھیجتے ہیں ورنہ اس سے پہلے نہ تو اور نہ تیری قوم ان کو جانتے تھے پس تو ان پر غور کر اور تکلیف پہنچے تو اسی طرح صبر کر کیونکہ انجام کار آخری میدان پرہیزگاروں ہی کے لئے ہے ) طوفان نوح ( علیہ السلام) میں علماء کا اختلاف ہے کل دنیا پر تھا یا صرف قوم نوح ( علیہ السلام) پر راقم کے خیال ناقص میں پچھلا مذہب صحیح ہے کیونکہ قرآن شریف کے متعدد مواقع سے معلوم ہوتا ہے کہ جب تک کوئی قوم نبی کا مقابلہ نہیں کرتی اور سچی تعلیم کی تکذیب پر مصر اور بضد نہیں ہوتی اس کی ہلاکت نہیں ہوتی۔ یہ کہنا کہ حضرت نوح کی تبلیغ سب کو پہنچ گئی اس زمانہ کے رسل و رسائل سے عدم واقفیت پر۔ (