وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَكُفْرًا وَتَفْرِيقًا بَيْنَ الْمُؤْمِنِينَ وَإِرْصَادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ مِن قَبْلُ ۚ وَلَيَحْلِفُنَّ إِنْ أَرَدْنَا إِلَّا الْحُسْنَىٰ ۖ وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ
اور وہ لوگ جنھوں نے ایک مسجد بنائی نقصان پہنچانے اور کفر کرنے (کے لیے) اور ایمان والوں کے درمیان پھوٹ ڈالنے (کے لیے) اور ایسے لوگوں کے لیے گھات کی جگہ بنانے کے لیے جنھوں نے اس سے پہلے اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کی اور یقیناً وہ ضرور قسمیں کھائیں گے کہ ہم نے بھلائی کے سوا ارادہ نہیں کیا اور اللہ شہادت دیتا ہے کہ بے شک وہ یقیناً جھوٹے ہیں۔
(107۔123) جنہوں نے محض مسلمانوں کے دکھ دینے کو اور اللہ سے کفر کرنے کو آڑ بنانے کو اور مسلمانوں میں تفریق ڈالنے کی غرض سے اور اس شخص کو پناہ دینے کی نیت سے جو اللہ تعالیٰ یعنی اس کے رسول سے پہلے کئی دفعہ لڑ چکا ہے ان ظالموں نے ایک مسجد بنائی ہے (شان نزول (والذین اتخذوا) منافقوں نے مسلمانوں میں تفریق کرنے کی یہ تجویز سوچی کہ ایک گائوں میں ایک مسجد بنائیں اور یہ ظاہر کریں کہ یہاں کے لوگوں کو مدینہ میں جانے سے تکلیف ہوتی ہے اور اس تجویز کی تکمیل کرنے کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے درخواست کی کہ آپ ایک دفعہ اپنے قدوم میمنت لزوم سے اس مسجد کو متبرک فرما دیں گویا افتتاحی جلسہ آپ کے نام سے ہو دراصل اس تجویز کا بانی مبانی ایک شخص ابو عامر نصرانی تھا جو تعصب مذہبی کی جلتی آگ سے آنحضرت صلعم کی روز افزوں ترقی دیکھ کر بغرض استمداد شام کے ملک میں عیسائی سلطنت کے زیر حمایت چلا گیا تھا اسی خبطی نے مدینہ کے منافقوں کو یہ تجویز بتلائی تھی کہ ایک مسجد بنائو۔ مسجد کیا گویا فساد کی ایک بنیاد تھی لیکن وہ اس بات سے بے خبر تھے کہ دراصل یہ مقابلہ کسی آدمی سے نہیں بلکہ اللہ سے ہے جو دلوں کے اسرار پر بھی مطلع ہے انہی خبطیوں کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی اس پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بجائے نماز پڑھنے کے اس مسجد کو گرا کر وہاں پائخانہ ڈالنے کا حکم دیا۔ معالم) اور غرض یہ بتلاتے ہیں کہ ہمارے گائوں کے مسلمانوں کو بارش وغیرہ میں دور جانے سے تکلیف ہوتی ہے اس لئے قریب ہی مسجد بنا لی گئی ہے ضرورت کے موقع پر نماز پڑھ لی جایا کرے گی مگر دل میں ان کے یہ شرارت ہے کہ جو مسلمان اس مسجد میں آویں گے ان کو وقتاً فوقتاً شبہات ڈالا کریں گے اور پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بدظن کرنے میں کوشش کریں گے تاکہ ان مسلمانوں کا جتھا ٹوٹ جائے جس سے ان کی ترقی میں فرق آجائے مگر نالائق یہ نہیں سمجھتے کہ اصل معاملہ تو اس جبار قہار اللہ تعالیٰ سے ہے جو ہمارے دلوں کے منصوبوں سے ہمارے دلوں میں آنے سے پہلے مطلع ہے اور اگر ان سے پوچھو تو فوراً حلف اٹھا جائیں گے کہ ہمیں محض بھلائی اور نکوکاری کا خیال ہے اور کوئی بدخیال نہیں اور اللہ خود گواہی دیتا ہے کہ وہ اس بیان میں جھوٹے ہیں پس تو اس مسجد میں کبھی بھی نماز کے لئے کھڑا نہ ہوجائیو جس مسجد کی بنیاد پہلے روز سے قباء کے گائوں میں خالص نیت پر اٹھائی گئی ہے اس میں نماز کے لئے تیرا کھڑا ہونا ہر طرح سے مناسب بلکہ انسب ہے کیونکہ اس میں ایسے نیک دل لوگ ہیں جو پاکیزگی چاہتے ہیں اور اللہ پاکیزگی چاہنے والوں سے محبت کرتا ہے کیا یہ بات کوئی پوشیدہ ہے کہ جس نے اپنی عمارت کی بنیاد خوف اللہ تعالیٰ اور اس کی رضا جوئی پر رکھی ہے وہ اچھا ہے جس نے گرنے والے کفر و شرک ریاکاری کے کنارے پر اپنی نیو رکھی پس نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اس کو بھی جہنم میں لے گرے وہ اچھا ہے؟ کچھ شک نہیں کہ پہلا شخص ہی اچھا ہے مگر یہ لوگ سمجھتے نہیں اور اللہ ایسے ظالموں کی قوم کو ہدایت نہیں کرتاکہ ان کو اپنے برے اعمال کی برائی سمجھ میں آئے گو تم نے ان کی مسجد کو گرا دیا ہے جو بنیاد انہوں نے اٹھائی تھی اس کے گرائے جانے کا رنج ان کے دلوں میں ہمیشہ تک رہے گا اور اپنی ناکامی پر ہمیشہ متاسف رہیں گے مگر جب ان کے دلوں کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا جائے اور ان کا گوشت جانوروں کو ڈالا جاوے تو اس رنج سے صاف ہوں گے ورنہ نہیں یہ بھی شرارتوں سے باز نہ آویں گے اور اللہ بذات خود بڑے علم والا بڑی حکمت والا ہے وہ ہمیشہ تم کو ان کے بدارادوں سے اطلاع دیتا رہے گا اور اپنی حکمت کاملہ سے ان کی شرارتوں کا دفعیہ کرتا رہے گا اگر ان میں ایمان ہوتا تو اس امر سے ان کو رنج کبھی نہ ہوتا مومن کی شان نہیں کہ خدائی احکام سے ناراض ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی جان اور مال سب کے سب جنت کے عوض خریدے ہوئے ہیں دراصل یہ بھی اس کی مہربانی ہے کہ اس نے خریدے ہیں ورنہ وہ ہیں کس کے؟ اسی کے سنو ! لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الآرْضِ جب ہی تو مومن اپنی جانوں کی بھی پرواہ نہیں کرتے اور کھلے جی سے اللہ کی راہ میں کافروں سے لڑتے ہیں تو کئی ایک کو مارتے ہیں اور خود بھی مارے جاتے ہیں ایسے نیک کاموں پر انعام دینے کا اس نے توریت انجیل اور قرآن وغیرہ کتب میں وعدہ کیا ہوا ہے اور اللہ سے بڑھ وعدہ پورا کرنے والا کون ہے؟ وہ ضرور اپنا وعدہ پورا کرے گا اور مسلمانوں کو جو اس کی رضا جوئی کے لئے کام کرتے ہیں نیک عوض دے گا پس تم مسلمانو ! اپنے سودے سے جو تم نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کئے ہیں خوشی منائو کیونکہ اس میں سراسر تم کو فائدہ ہے اور یہی بڑی کامیابی ہے جن مسلمانوں سے اللہ تعالیٰ نے ان کے مال و جان خرید لئے ہیں ان کی پہچان کی نشانی ایک تو یہی ہے جو مذکور ہوئی کہ وہ وقت پر جان دینے سے بھی دریغ نہیں کرتے مگر اس نشان کا ظہور تو شاذ و نادر ہی ہوتا ہے اس کے علاوہ اور بھی کئی ایک نشان ہیں جو ہر وقت ان میں دیکھے جاتے ہیں یعنی یہ کہ وہ ہر وقت اپنے گناہوں پر توبہ کرنے والے ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ کی عبادت میں لگے ہوئے اللہ کی حمد و ثنا کرنے والے دینی کاموں کے لئے سفر کرنے والے رکوع سجود کرنے والے یعنی نماز کے پابند لطف یہ کہ بعض جاہل مدعیوں کی طرح تبلیغ احکام سے خاموش نہیں رہنے والے بلکہ نیکیوں کے کام بتلانے والے اور برائیوں سے روکنے والے ایسے بھی نہیں کہ لوگوں کو تو وعظ و نصیحت کریں اور خود کو فضیحت کر کے چوں بخلوت میر و ندآں کاردیگر میکنند کے مصداق ہوں۔ بلکہ خود بھی عامل اور اللہ کے حکموں کی حفاظت کرنے والے ہیں یہ ہیں وہ مومن جنہوں نے اللہ سے سودا کیا ہے جو اپنے سودے میں بڑے نفع میں ہیں تو بھی ان کی خاطر کیا کر اور ان مومنوں کو خوشخبری سنا کہ تم نے اپنے سودے میں اتنا نفع پایا ہے کہ کسی یورپ اور امریکہ کے سوداگر نے بھی آج تک نہیں پایا چونکہ مومنوں کی جان و مال اللہ تعالیٰ کے ہوچکے ہیں اس لئے جو لوگ اللہ تعالیٰ سے ہٹے ہوئے ہیں ان سے ان کو ہٹ رہنا چاہئے پس نبی اور مومنوں کی شان سے بعید ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے والوں کے حق میں بخشش مانگیں گو وہ قریبی ہوں جب کہ ان کو معلوم ہوچکے کہ وہ کفر ہی پر مرنے کی وجہ سے جہنمی ہیں قرابت کا حق بھی جب ہی تک ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے مخالف نہ ہو اور اگر یہ خیال ہو کہ ہمارے بزرگ ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ مشرک کے لئے بخشش کی دعا کی تھی تو سنو ! ابراہیم کی دعا مشرک باپ کے لئے وعدہ کی وجہ سے تھی جو اس سے کرچکا تھا کہ میں تیرے لئے بخشش مانگوں گا یعنی ابراہیم ( علیہ السلام) کی دعا ایفاء عہد کی وجہ سے تھی ابراہیم ( علیہ السلام) نے سمجھا کہ میں اپنا وعدہ ایفا کر دوں ممکن ہے اللہ تعالیٰ اسے بخشش کا اہل بنا دے مگر وہ کفر ہی پر مر گیا پھر جب اس کے مرنے پر اسے معلوم ہوا کہ وہ اللہ کا دشمن اور اس کی توحید سے منکر ہے یعنی کفر و شرک کے عقیدے پر مرا ہے تو ابراہیم ( علیہ السلام) اس سے بیزار ہوگیا اور دعا بھی چھوڑ دی لیکن اس کے مرتے دم تک نہیں چھوڑی کیونکہ ابراہیم ( علیہ السلام) بڑا ہی نرم دل اور بردبار تھا یہ اسی کا حوصلہ تھا کہ باپ سے ایسی ایسی سختیاں دیکھ کر بھی اس کی خیر اندیشی اور دعا گوئی میں لگا رہا اور اگر یہ شبہ ہو کہ ان مشرکوں پر ایسی خفگی کیوں ہے ان کو اگر اللہ تعالیٰ ہدایت کردیتا تو وہ بھی ہدایت یاب ہوجاتے تو سنو ! اللہ کی شان نہیں کہ کسی قوم کو ہدایت کے سامان آئے بعد گمراہ قرار دے یعنی ان پر گمراہی کا قطعی حکم لگا دے جب تک ان کو ان امور سے مفصل اطلاع نہ دے جن سے ان کو بچنا ہو یعنی اللہ تعالیٰ جب کبھی کوئی رسول یا ہادی ہدایت کے لئے آتا ہے تو جو لوگ اس کی بے فرمانی کرتے ہیں اور بضد اس سے پیش آتے ہیں ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے گمراہی کا قطعی حکم لگایا جاتا ہے مگر ایسی جلدی بھی نہیں بلکہ اچھی طرح سے جب احکام الٰہی ان کو واضح طور پر معلوم کرائے جاتے ہیں اور وہ ان کو سمجھ لیتے ہیں پھر جو کوئی جس قابل ہوتا ہے اس سے وہی معاملہ کیا جاتا ہے بے شک اللہ تعالیٰ کو سب کچھ معلوم ہے اور وہ سب کچھ کرسکتا ہے کیونکہ آسمانوں اور زمینوں کی کل حکومت اللہ کے قبضے میں ہے وہی زندگی بخشتا اور مارتا ہے اور اس کے سوا تمہارا کوئی بھی والی وارث اور حامی مددگار نہیں یہ بھی اللہ کی مہربانی کی دلیل ہے کہ اس نے اپنے نبی پر اور مہاجروں اور انصار پر مہربانی سے توجہ کی جو مشکل سے مشکل وقت میں (جب کہ بعض مسلمانوں کے دل نبی کا ساتھ دینے سے ڈگمگا چکے تھے) نبی کے ساتھ رہے یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کے سابق اخلاص کی وجہ سے ان کو توفیق خیر عنایت کی کہ وہ نبی کا ساتھ دینے سے پھسلے نہیں پھر ان پر متوجہ رہا کہ وہ اس توفیق سے اس کام کو انجام دے سکیں کیونکہ وہ اللہ ان کے حال پر بڑا ہی مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے اور ان تینوں پر بھی اللہ تعالیٰ نے رحم کیا اور توبہ قبول کی جن کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی انتظار میں اس وقت تک ملتوی کیا گام تھا جس وقت بوجہ نفرت قوم کے زمین ان پر تنگ ہوگئی باوجودیکہ اور لوگوں پر فراخ تھی اور وہ اپنی جان سے بیزار ہوگئے اور سمجھے کہ اللہ سے بھاگ کر اسی کے پاس پناہ ہے اور کہیں نہیں پھر اللہ تعالیٰ نے ان پر توجہ مبذول کی اور ثابت قدمی بخشی کہ وہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف جھکے رہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ بڑا ہی مہربان نہایت رحم والا ہے (شان نزول (وعلی الثلثۃ) جنگ تبوک چونکہ سخت گرمی کے موسم میں ہوئی تھی منافقوں اور خود غرضوں نے تو ایسی تکلیف شدید میں پیچھے رہنا ہی تھا بعض مخلص بھی بلاوجہ متخلف رہے جن میں سے بعض کے عذرات سن کر تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معافی دے دی مگر کعب بن مالک۔ مرارہ بن ربیع۔ و ہلال بن امیہ (رض) نے خود حاضر ہو کر عرض کردیا کہ ہمارا کوئی عذر نہیں تھا بلکہ ہم بلاکسی عذر کے محض غفلت سے کہ آج نکلتے ہیں کل نکلتے ہیں شرف ہمرکابی سے بے نصیب رہے اور اگر کوئی شخص آپ کی جگہ ہوتا تو اسے راضی کرلینا ہم پر مشکل نہ تھا مگر آپ کے روبرو ہم ایسا نہیں کرسکتے کیونکہ آپ اللہ کے رسول ہیں لہٰذا آپ سے معاملہ گویا اللہ تعالیٰ سے ہے اس پر آپ نے بھی ان کو معافی نہ دی بلکہ ان کا مقدمہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیا کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ حکم دے گا تم سے کیا جاوے گا اور تمام لوگوں کو ان سے گفتگو کرنے سے منع کردیا۔ حتی کہ ان کی عورتیں بھی ان سے نہ بولتی تھیں چنانچہ اس حکم پر پورے پچاس روز تک تعمیل ہوئی مگر ان صاحبوں نے بھی اس تکلیف کو نہایت جوانمردی اور استقلال سے نباہا اس مدت میں کئی ایک واقعات ایسے بھی پیش آئے جن میں معمولی قوت اور ایماندار کا ثابت قدم رہنا مشکل تھا مگر ان کامل ایمانداروں نے سب کو ثابت قدمی سے عبور کیا ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔) وہ اپنے بندوں کی تھوڑی سی توجہ پر متوجہ ہوتا ہے لیکن جو ضد اور ہٹ پر اڑے رہتے ہیں وہ اس کو نہیں بہاتے اسی لئے اس کا عام حکم ہے کہ مسلمانو ! اللہ سے ڈرتے رہو اور سچوں اور راست گوئوں کا ساتھ دیا کرو جو کوئی جتنی کوشش اور جتنے کام میں حق بجانب ہو اسی قدر اس کے ساتھی بن جایا کرو جب کسی دوسرے کام میں وہ کجروی اور ناراستی اختیار کرے تو اس سے علیحدہ ہوجائو اسی بناء پر اہل مدینہ اور ان کے گرد والے دیہاتیوں کو مناسب نہیں کہ جنگ میں جو بالکل راستی اور حفاظت قومی پر مبنی ہے رسول اللہ کا ساتھ دینے سے پیچھے ہٹ رہیں اور نہ یہ مناسب ہے کہ اللہ کا رسول تو میدان جنگ میں ہو اور یہ لوگ اس کی جان سے بے پرواہ ہو کر اپنی جان کی فکر کریں اور میدان میں جانے سے رک رہیں یہ حکم اس لئے ہے کہ ایک تو وہی وجہ جو اوپر مذکور ہوئی ہے دوم یہ کہ اس میں انہی کا فائدہ ہے کیونکہ جو کچھ بھی بھوک پیاس محنت اور تکان اللہ کی راہ میں ان کو پہنچے گا اور جہاں ان کے قدم جائیں گے جس سے کافروں کو رنج ہو یعنی دارالکفر کو فتح کریں گے اور جو کچھ کافروں سے جنگ و جہاد میں لیں گے ان سب کے بدلے ان کے حق میں نیک عمل لکھے جائیں گے خواہ ان کاموں پر ان کو دنیاوی فائدہ بھی کسی قدر ہو مگر اس سے دینی فائدہ ان کا ضائع نہ ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ نیکوں کا اجر ضائع نہیں کیا کرتا اور بھی علی ہذا القیاس جو کچھ تھوڑا بہت جنگی ضرورتوں میں خرچیں گے اور جو میدان اس سفر میں چلتے ہوئے طے کریں گے یہ سب کچھ ان کے اعمالنامہ میں ان کے لئے لکھا جاوے گا تاکہ اللہ ان کو ان کے کاموں سے بہتر بدلہ عنایت کرے یعنی اس ساری کوشش کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اللہ ان کے اعمال سے بڑھ کر ثواب دے گا پس تم قومی کاموں میں چستی کیا کرو مناسب نہیں کہ متفرق متفرق رہو اور نہ یہ مناسب ہے کہ مسلمان سارے کے سارے ہی اپنے گھروں سے نکل پڑیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں بھوکی فوج کی طرح جمع ہو رہیں۔ نہیں بلکہ ہر ایک کام مناسب اعتدال سے ہونا چاہیے پس ایسا کیوں نہ کریں کہ ہر ایک قوم سے چند آدمی آئیں اور رسول اللہ کی خدمت میں رہیں تاکہ دین کی باتوں اور اسرار شریعت میں سمجھ حاصل کریں اور جب اپنی قوم میں جائیں تو ان کو سمجھائیں تاکہ وہ بھی برے کاموں سے بچتے رہیں اور نیک کاموں میں راغب ہوں ہاں جب جنگ کی ضرورت ہو تو حسب ضرورت تعداد میں نکلا کرو اور خوب ہاتھ دکھائو مگر جہاد میں بھی یہ قانون یاد رکھو کہ قرب و جوار میں بغل کا دشمن چھوڑ کر دور نہ جانا چاہئے اسی لئے تم کو تاکیدی حکم ہوتا ہے کہ مسلمانو ! جو تمہارے قریب قریب کافر بغل کے سانپ ہیں ان سے پہلے لڑو جب ان سے نمٹ لو پھر آگے بڑھو اور ایسے ڈٹ کر لڑو کہ ان کو بھی تمہاری مضبوطی معلوم ہو اور جان رکھو کہ اللہ کی مدد پرہیزگاروں کے ساتھ ہے جو اس کے ہو رہتے ہیں اور سب کام اسی کی سپرد کردیتے ہیں وہ ان کی پوری مدد کرتا ہے اور جو اس سے ہٹ رہتے ہیں اور غرور اور سرکشی میں زندگی گذارتے ہیں جیسے تیرے زمانہ کے منافق ان کی دونوں جہانوں میں مٹی خراب دونوں سے گئے پانڈے نہ حلوا ملا نہ مانڈے یہ کچھ ایسے ساہ دل ہیں کہ ان کو کوئی بات اور کوئی طریقہ ہدایت نہیں کرسکتا بھلا کرے بھی کیسے جب کہ اس کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے بلکہ توجہ دلانے والوں سے بگڑ جاتے ہیں