وَمِنْهُم مَّنْ عَاهَدَ اللَّهَ لَئِنْ آتَانَا مِن فَضْلِهِ لَنَصَّدَّقَنَّ وَلَنَكُونَنَّ مِنَ الصَّالِحِينَ
اور ان میں سے بعض وہ ہیں جنھوں نے اللہ سے عہد کیا کہ یقیناً اگر اس نے ہمیں اپنے فضل سے کچھ عطا فرمایا تو ہم ضرور ہی صدقہ کریں گے اور ضرور ہی نیک لوگوں سے ہوجائیں گے۔
(75۔89) اور سنو ! بعض ان میں ایسے بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اگر اللہ ہم کو مال دے گا تو ہم ضرور غربا پر خیرات کریں گے اور نیکوکاروں کے گروہ سے ہوں گے انہی کی طرح اللہ کے دئیے کو خرچ کریں گے اور انہی کی طرح مال کو عطیہ الٰہی سمجھیں گے (شان نزول (ومنھم من عھداللہ) ایک شخص ثعلبہ نامی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کثرت مال کی دعا چاہی تو آپ نے فرمایا تھوڑا مال جس پر شکر گذاری ہوسکے بہت سے جس پر شکر گذاری پوری نہ ہوسکے اچھا ہے لیکن وہ مصر ہی رہا آخر کار اس کے لئے آپ نے دعا فرمائی اللہ تعالیٰ نے اسے اتنا مال دیا کہ اس کی بھیڑ بکریوں کے لئے مدینہ میں کافی جگہ نہ ملی تو جنگل میں چلا گیا یہاں تک نوبت پہنچی کہ آپ کی خدمت میں جمعہ کے روز بھی حاضر نہ ہوسکتا موقع زکوٰۃ پر آپنے اپنا تحصیلدار بغرض تحصیل بھیجا تو بجائے ادائے زکوٰۃ کے بے ادبی سے پیش آیا۔ گو بعد میں تائب ہو کر مع زکوٰۃ حاضر خدمت ہوا شائد دل سے مخلص نہ تھا آپنے اس کی زکوٰۃ کو قبول نہ کیا آپ کے انتقال کے بعد صدیق اکبر کے پاس زکوٰۃ لے کر حاضر ہوا انہوں نے بھی قبول نہ کی بعد ازاں حضرت عمر کے پاس آیا انہوں نے بھی بایں وجہ کہ خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صدیق اکبر (رض) نے تیری زکوٰۃ کو قبول نہ فرمایا تھا میں بھی قبول نہیں کرسکتا پھر حضرت عثمان کی خدمت میں زکوٰۃ لے کر آیا انہوں نے قبول نہ کی حتی کہ خلافت عثمانیہ میں اسی مال کی محبت میں مر گیا۔ ایسے لوگوں کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔ سچ ہے اگر دنیا نباشد درد مندیم وگر باشد بمہرش پائے بندیم) پھر جب اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ان کو کچھ دیا تو بخل کر بے ٹھد اور منہ موڑ کر ہٹ گئے پس ان کی بدکاری کی سزا میں اللہ تعالیٰ نے ان کی موت کے دن تک ان کے دلوں میں نفاق کی بنیاد لگا دی کیونکہ اللہ سے انہوں نے وعدہ خلافی کی اور جھوٹ بولتے رہے پوشیدہ مخالفت کرتے اور بے ہودہ بکواس کرتے ہیں کیا ان کو معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے پوشیدہ اسرار اور سرگوشیاں بھی جانتا ہے اور یہ کہ اللہ غیب کی تمام باتوں سے آگاہ ہے یہ ظالم وہی تو ہیں جو خیرات دینے والے آسودہ مسلمانوں پر جی کھول کر خیرات دینے میں ریاکاری کا عیب لگاتے ہیں اور جو بے چارے اپنی محنت سے زیادہ مقدور نہیں رکھتے اور اسی محنت میں سے جو کچھ ہوسکتا ہے بچا کر فی سبیل اللہ خرچتے ہیں ان سے بھی یہ ظالم مسخری کرتے ہیں لو جی ! یہ بھی انگلی کو لہو لگا کر شہیدوں میں ملنے آیا ہے اسی کی چار کوڑی سے تو یہاں کام چلنا تھا اللہ ان بدذاتوں کی تحقیر اور ہنسی کرے گا اور ان کو دکھ کی مار ہوگی اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ ایسے مبغوض ہیں کہ ان کے مرنے کے بعد تیری سفارش بھی ان کے حق میں کام نہ آئے گی (شان نزول (الذین یلمزون) پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دفعہ صدقہ دینے کی ترغیب دی تو عبدالرحمن بن عوف چار ہزار درہم اور بعض غربا بھی حسب مقدور لے کر حاضر ہوئے اس پر منافقوں نے جنہوں نے دینے دلانے میں بجز باب لا ینصرف کے کچھ پڑھا ہی نہ تھا لگے مخول اڑانے کہ میاں یہ جو اتنے اتنے مال لے کر مجلسوں میں چندہ لے کر حاضر ہوتے ہیں ان کی نیت میں فتور ہے اخلاص سے نہیں آتے ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔ معالم) تو ان کے حق میں بخشش مانگیو یا نہ مانگیو (برابر ہے) اگر تو ستر دفعہ بھی ان کے لئے بخشش مانگے گا تو بھی اللہ ہرگز ہرگز ان کو نہ بخشے گا یہ سزا اس لئے کہ اللہ اور رسول سے یہ عناداً انکاری ہوئے ہیں اور اللہ ایسے بدکاروں کی جماعت کو ہدایت نہیں کیا کرتا یعنی توفیق خیران سے مسدود کردیتا ہے جنگ میں رسول اللہ کے پیچھے بیٹھ رہنے والے اپنے گھروں میں عورتوں کے ساتھ بیٹھ رہنے پر خوش ہیں کہ ہم نے خوب کیا کہ معمولی عذر کر کے جان بچا لی تیرے سامنے آ کر آتے بہانے کر گئے اور اللہ کی راہ میں مال و جان سے جہاد کرنا ان کو ناپسند ہوا اور مسلمانوں کو بغرض روکنے کے کہتے رہے میاں ! گرمی میں مت جائو میدان جنگ سے پہلے ہی گرمی کی شدت سے ہلاک ہوجائو گے اے نبی ! تو ان سے کہہ جہنم کی آگ سخت گرم ہے کاش ان کو سمجھ ہوتی پس ان کو چاہئے کہ ہنسیں کم اور اپنی بداعمالیوں کی سزا پر روئیں بہت اب کے جو ہوا سو ہوا پھر اگر اللہ تعالیٰ تجھے زندہ سلامت باکرامت ان میں سے کسی گروہ کی طرف واپس پہنچا دے یعنی تو صحیح سالم اللہ تعالیٰ کے فضل سے مدینہ میں پہنچ جائے اور بوقت ضرورت پھر تجھ سے تیرے ساتھ جانے کی یہ بدکار مطلب کے یار درخواست کریں تو تو ان سے کہہ دیجو کہ یہ صرف تمہارے منہ کی باتیں ہیں ورنہ تم ہرگز ہرگز میرے ساتھ نہ نکلو گے اور نہ میرے ہمراہ دشمن سے لڑو گے کیونکہ تم پہلی مرتبہ بیٹھ رہنے پر راضی ہوچکے ہو جس سے ہمیں تجربہ ہوچکا ہے ” آزمودہ را آزمودن خطاست“ پس اب کے بھی تم بیماروں اپاہجوں وغیرہ پیچھے بیٹھ رہنے والوں کے ساتھ بیٹھے رہو یہ کہہ کر انہیں چھوڑ دیجو ایسا کہ کسی طرح کا ربط و ضبط ان سے نہ رکھیو اور ان میں سے کسی پر جو مرے تو نماز جنازہ کبھی نہ پڑھیو اور نہ اس کی قبر پر بغرض دعا کھڑا ہونا (شان نزول : (ولا تصل علی احد منہم) عبداللہ بن ابی علیہ ما یستحقہ کے فوت ہونے پر اس کے بیٹے نے جو مخلص مومن تھا‘ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں اس کے جنازہ پڑھنے کی درخواست کی آپ نے اپنی رحیمانہ عادت سے اس کی درخواست کو قبول فرمایا مگر چونکہ عبداللہ کی شرارتیں اور فساد کچھ ایسے نہ تھے کہ کسی سے مخفی رہے ہوتے منافقوں کا تو وہ سرگردہ ہی تھا ایسے موقع پر غیرت مندوں کو سخت جوش آیا کہ یہ بدبخت تو زندگی میں ہم کو ایذائیں اور تکلیفیں دیتا رہا آخر مر کر آنحضرت کی دعا سے بہرہ ور بھی ہوا چاہتا ہے چنانچہ حضرت عمر فاروق نے آگے بڑھ کر گذارش کی کہ حضرت ایسے شخص کا آپ جنازہ پڑھتے ہیں جس نے فلاں روز یہ شرارت کی فلاں دن یہ فساد اٹھایا مگر آپ کی طبعی رحم دلی نے فاروق کے سب سوالوں کو نہایت ہی سہل سمجھا لیکن چونکہ اللہ کے نزدیک فاروق کی رائے وزن رکھتی تھی اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ معالم) اس لئے کہ یہ لوگ اللہ اور رسول سے دانستہ اور عناداً منکر ہوئے ہیں اور بدکاری ہی میں مرے ہیں اور ان کی ظاہری عزت اور آبرو تجھے حیران کرے تو ان کے مال و دولت اور کثرت اولاد سے تعجب نہ کریو اللہ تعالیٰ کو یہی منظور ہے کہ اس مال اور اولاد کی وجہ سے ان کو دنیا میں عذاب دے اور ان کی جان بھی نکلے تو کفر کی حالت میں نکلے اور سنو ! ان کی خباثتوں اور شرارتوں کی کوئی حد نہیں جب کوئی صورت ان معنی کی اتاری جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ پر پختہ ایمان لائو اور اس کے رسول کے ہمراہ ہو کر جہاد کرو تو ان میں سے آسودہ آدمی جن کی طبیعتوں میں آرام جاگزیں ہے اور روپیہ کی سخت محبت جم رہی ہے تجھ سے اذن چاہنے لگتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں چھوڑ دیجئے اور اجازت مرحمت فرمائیے کہ ہم پیچھے بیٹھنے والوں یعنی اپاہج اور مستورات کے ساتھ بیٹھ رہیں ان کم بختوں کو اتنی شرم بھی نہیں آتی کہ بہادر قوم ہو کر اس بات پر راضی ہیں کہ پیچھے رہنے والی عورتوں کے ساتھ رہیں اور ان کے دلوں پر مہر لگائی گئی ہے پس اب وہ نہیں سمجھیں گے لیکن اللہ کا رسول اور اس کے ساتھی ایماندار مال و جان سے اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں انہی کے لئے دنیا اور آخرت کی بھلائیاں ہیں اور وہی کامیاب اور فلاح پانے والے ہیں اللہ نے ان کے لئے بہشت کے باغ تیار کئے ہیں جن کے تلے نہریں جاری ہیں ہمیشہ ان میں رہیں گے یہی بڑی کامیابی ہے کہ عذاب الٰہی سے بچ کر اللہ تعالیٰ کے انعام سے بہرہ ور ہوں گے ان بےدینوں کے سوا جو مدینہ میں رہتے ہیں