يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى الْقِتَالِ ۚ إِن يَكُن مِّنكُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ ۚ وَإِن يَكُن مِّنكُم مِّائَةٌ يَغْلِبُوا أَلْفًا مِّنَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَهُونَ
اے نبی! ایمان والوں کو لڑائی پر ابھار، اگر تم میں سے بیس صبر کرنے والے ہوں تو وہ دو سو پر غالب آئیں اور اگر تم میں سے ایک سو ہوں تو ان میں سے ہزار پر غالب آئیں جنھوں نے کفر کیا۔ یہ اس لیے کہ بے شک وہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھتے نہیں۔
(65۔75) پس تو اے نبی اسی کا ہو رہ اور ہر ایک کام کی انجام دہی اسی سے جان اور مسلمانوں کو جہاد کی رغبت دیا کر۔ رسول کا کام صرف کہنا ہے ماننا نہ ماننا تم مسلمانوں کا اختیارہے ہاں رسول کی فرمانبرداری میں اللہ کی مہربانی تم پر یہ ہوگی کہ اگر بیس آدمی تم میں صبر کرنے والے ڈٹ کر لڑنے والے موت کو زیست پر ترجیح سمجھنے والے ہوں گے تو دو سو پر غالب آویں گے اور اگر ایک سو ہوں گے تو ہزار کافروں پر غلبہ پاویں گے کیونکہ یہ کافر سمجھتے نہیں کہ ہم کیوں لڑتے ہیں ہمارا انجام اور مقصود اس سے کیا ہے صرف حمیت اور جہالت قومی میں لڑ رہے ہیں مگر چونکہ ایسے حکم کی تعمیل کے لئے تم میں بھی بہت بڑا حوصلہ اور صبر چاہیے جو مشکل ہے اس لئے اب سردست اللہ تعالیٰ نے تم کو ایسی سخت تکلیف نہیں دی بلکہ ہلکا سا حکم دیا ہے کیونکہ یہ شرط تم میں مفقود ہے اور تمہارا ضعف اسے معلوم ہے کہ ایک آدمی دس کا مقابلہ نہیں کرسکتا بس یہ ضرور ہے کہ دگنے کافروں سے نہ بھاگا کرو بشرطیکہ سازو سامان میں بھی تم ان سے مساوی ہو پس اگر تم میں سو آدمی ڈٹ کر لڑنے والے ہوں گے تو دو سو پر غلبہ پائیں گے اور اگر ایک ہزار ہوں گے تو دو ہزار پر اللہ کے حکم سے غالب آئیں گے کیونکہ اللہ کی مدد صابروں کے ساتھ ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ ایسی مذہبی لڑائیوں میں جہاں تک ہوسکے دشمنوں کی گردنیں اڑائی جائیں تاکہ فتنہ و فساد نہ رہے اسی لئے اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ قانون ہے کہ کسی بنی اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تابعدار سپاہ سالار کو جائز نہیں کہ میدان جنگ کی زمین پر کافروں کا اچھی طرح خون بہانے سے پہلے دشمنوں کو قیدی بنائے تاکہ ان سے مال بعوض لیا جائے تم نے جو جنگ بدر میں قیدی پکڑے تھے وہ اس حیثیت کے نہ تھے تاہم تم نے ان سے فدیہ وصول کیا کیونکہ تم دنیاوی سامان چاہتے ہو گو تمہاری نیت نیک تھی لیکن اللہ آخرت چاہتا ہے وہ ان کاموں سے راضی ہے جن سے دین اسلام کی ترقی ہو پس دشمن جب تک کمزور ہو کر تمہارے ہاتھ میں نہ آئیں ان کو قتل کرتے رہو تاکہ ملک میں فتنہ و فسادنہ رہے اور دل سے جان لو کہ اللہ تعالیٰ بڑا غالب اور بڑی حکمت والا ہے اسی کے ارادہ کا تم بھی اتباع کرو سچ تو یہ ہے کہ تم لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے خلاف مرضی ایسا کام کیا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عام طور پر قانون جاری نہ ہوا ہوتا کہ بغیر تبلیغ حکم بے فرمانی کی سزا نہیں تو جو کچھ تم نے ان قیدیان بدر سے عوض اور فدیہ لیا ہے اس کے سبب سے تم کو بڑا عذاب پہنچتا۔ پس چونکہ تم کو معافی دی گئی ہے اس کو بھی مال غنیمت سمجھو اور حلال طیب کو جو تم نے غنیمت میں حاصل کیا ہے خوب مزے سے کھائو اور آئندہ کو ایسی غلطی کرنے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو۔ بے شک اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔ اے نبی جو ہوا سو ہوا اب تو ان قیدیوں کو جو تمہارے قبضے میں ہیں کہہ دے کہ اگر اللہ کو تمہارے دلوں میں بھلائی معلوم ہوئی یعنی تم میں صلاحیت اسلام کی ہوئی اور تم مسلمان ہو کر اسی طرح کفار کے مقابلہ پر آئے تو جس قدر تم سے اس وقت عوض اور فدیہ لیا گیا ہے اس سے کہیں اچھا تم کو دے دے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا مہربان ہے جو اس کے ہوجاتے ہیں گو ان کی عمر کا بہت سا حصہ اس کے خلاف ہی گذرا ہوتا ہے تاہم وہ بخش دیتے ہیں اور اگر یہ قیدی تیری جنگی قید سے چھوٹ کر مخالفت کرنے کا خیال کریں گے تو کوئی حرج نہیں پہلے بھی اللہ کے دین سے مخالفت کرچکے ہیں جس کا مزہ بھی چکھ چکے ہیں کہ اللہ نے تم کو باوجود بے سامانی کے ان پر قابو دیا ایسا کہ تمہارے ہاتھوں میں قیدی ہوئے اگر سمجھ دار ہوئے تو سمجھ جائیں گے اور اگر ویسی ہی جہالت کریں گے تو اللہ تعالیٰ بھی بڑے علم والا بڑی حکمت والا ہے اس کی تدبیریں ان کی تدبیروں سے کہیں عمدہ اور غالب ہیں پس مسلمانو ! تم اسی کے ہو رہو اور ان ناپاک بدباطن مشرکوں سے میل ملاپ مت رکھو اور اگر تم کو بھائی بندوں کی جدائی کا فراق ہو تو سنو کہ جو لوگ ایمان لا کر اللہ تعالیٰ کی راہ میں بغرض حفاظت دین اپنے وطن چھوڑ آئے ہیں اور اللہ کی راہ میں جان و مال سے لڑتے ہیں اور جنہوں نے ان غریب الوطن مسافروں کو اپنے ہاں جگہ دی اور ان کی مدد کی یہی لوگ آپس میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں اور جو کافر ہیں ان کا نام ہی کیا لینا بلکہ جو لوگ دین اسلام پر ایمان لائے ہیں لیکن انہوں نے اپنے وطنوں سے ہجرت نہیں کی تمہاری یعنی مسلمانوں کی ان سے بھی ذرہ رفاقت نہ ہونی چاہئے جب تک وہ ہجرت نہ کریں ایسا بھی نہ چاہئے کہ ان کو بالکل ہی چھوڑ دو نہیں بلکہ ان کو جہاں تک ہوسکے دارالکفر سے نکالنے کی کوشش کرو اور اگر دینی امور میں تم سے مدد چاہیں تو تمہیں ان کی مدد کرنی ضروری ہے مگر ایسی قوم کے مقابلہ پر نہیں جن کے ساتھ تمہارا عہد و پیمان صلح و صفائی کا ہو ایسے لوگوں سے ان کی بگڑے اور تم سے مدد چاہیں تو ان کے مقابلے میں ان کی مدد نہ کرنا ہاں ان کی مصالحت و دفع ضرر میں کوشش ضرور کیا کرنا اور سمجھ رکھو کہ اللہ تمہارے کاموں کو دیکھ رہا ہے جس نیت سے کرو گے اسی کے مطابق اجر پائو گے ایسے لوگوں کی مدد حتی المقدور کرنی چاہئے کیونکہ وہ مومن ہیں گو مہاجر نہیں اور کافر ایک دوسرے کے رفیق ہیں خواہ کسی ملک کا کافر ہو دوسرے ملک کے کافر کی حمایت کرنے کو کھڑا ہوجاتا ہے مسلمانوں کی مدد مسلمان نہ کریں گے تو پھر کون کرے گا پس یاد رکھو اگر تم ان کی مدد کرو گے تو ملک میں ایک عظیم فتنہ اور بہت بڑا فساد برپا ہوجائے گا جہاں کوئی مسلمانوں کی قوم کمزور ہوگی کفار ان کے تباہ کرنے میں ایک دل ہوجائیں گے کیا تم نے یورپ کی صلیبی لڑائیوں کے حالات نہیں سنے پس ان سے نتائج حاصل کرو اور یاد رکھو کہ جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت بھی کر آئے اور اللہ کی راہ میں جہاد کئے اور جن کو مدینہ کے لوگوں نے اپنے ہاں جگہ دی اور ان کی مدد کی یہی سچے مومن ہیں انہی کے واسطے بخشش ہے (جیسے صدیق اکبر اور فاروق اعظم۔ عثمان ذوالنورین۔ علی مرتضیٰ (رض) و ارضاھم وابغض من ابعضہم۔ ١٢ منہ) اور بہشت میں عزت کی روزی یہ تو ان سابق الایمان لوگوں کا ذکر ہے جو ابتدا میں مسلمان ہوئے اور جو اس سے پیچھے یعنی بعد پہنچ جانے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مدینہ میں ایمان لائے اور ہجرت بھی کر آئے اور تمہارے ہمراہ ہو کر لڑے وہ بھی تم میں سے ہیں ان سے بھی وہی سلوک کرو جو قسم اول یعنی سابقین ایمانداروں سے کرنے کا تم کو حکم ہے اور اس بات کا بھی خیال رکھو رشتہ دار غیروں کی نسبت ایک دوسرے سے فائدہ حاصل کرنے میں بہت قریب ہیں اللہ کی شریعت میں یعنی ایک مسلمان پختہ دیندار ہو اور اسی درجہ کا دوسرا ہو جو تمہارا رشتہ دار بھی ہے اور وہ دونوں محتاج ہوں اور تمہیں صرف ایک ہی سے احسان کرنے کی وسعت ہو تو رشتہ دار سے مقدم سلوک کرو بے شک اللہ ہر ایک چیز کو جانتا ہے پس جو اس کے قانون میں وہ کامل علم پر مبنی ہیں انہی پر عمل کرو ادھر ادھر نہ بھٹکے پھرو مسلمانو ! جن مشرکوں سے تم نے امن کے وعدے کئے تھے اور وہ اپنے وعدہ پر پختہ تر ہے اللہ تعالیٰ اور رسول ان کی بدعہدی کی وجہ سے ان سے بیزار ہیں پس ان کو کہہ دو کہ چار مہینوں تک مکہ کی سر زمین پر پھر لو بعد اس کے کوچ اور یقینا جان رکھو کہ تم اللہ کو تنفیذ احکام میں عاجز نہیں کرسکتے اور کہ اللہ تعالیٰ کو ان کافروں کا رسوا کرنا منظور ہے اور حج اکبر یعنی عرفہ کے روز جس روز سب لوگ میدان عرفات میں جمع ہوں اللہ اور رسول کی طرف سے تمام لوگوں کو اعلان کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول مشرکوں سے بیزار ہیں اور اگر توبہ کرو تو تمہارے حق میں بہتر ہے اور اگر روگدانی کرتے رہو گے تو جان رکھو کہ تم اللہ کو تنفیذ احکام اور مواخذہ کرنے میں عاجز نہیں کرسکتے اور تو اے نبی کافروں کو۔