سورة البقرة - آیت 111

وَقَالُوا لَن يَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَن كَانَ هُودًا أَوْ نَصَارَىٰ ۗ تِلْكَ أَمَانِيُّهُمْ ۗ قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور انھوں نے کہا جنت میں ہرگز داخل نہیں ہوں گے مگر جو یہودی ہوں گے یا نصاریٰ۔ یہ ان کی آرزوئیں ہی ہیں، کہہ دے لاؤ اپنی دلیل، اگر تم سچے ہو۔

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(111۔121)۔ تعجب ہے ان یہود و نصاریٰ کے حال پر تمہارے حسد میں باوجود آپس کی عداوت شدیدہ کے ایک ہو رہے ہیں طرح طرح کے منصوبے باندھتے ہیں۔ (شان نزول : جنگ احد میں جب مسلمانوں کو قدرے تکلیف پہنچی جس کی تفصیل آگے آتی ہے۔ تو یہودیوں نے حذیفہ اور عمار سے کہا کہ اگر تمہارا دین سچا ہوتا۔ تو تمہیں تکلیف کیوں پہنچتی پس آئو ہمارے دین میں داخل ہوجائو ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔ (معالم) اور کہتے ہیں کہ جنت میں وہی جائے گا جو یہودی ہو یا عیسائی مگر مسلمان نہ ہو یہ سب ان کی اپنے نفس کی خواہشیں ہیں کوئی اس پر دلیل ان کے پاس نہیں بھلا آزمانے کو تُو کہہ تو دے بھلا اپنی دلیل تو لائو اگر اس دعوے میں سچے ہو اس لئے کہ بلا دلیل کسی کی بھی سنی نہیں جاتی ورنہ ہر ایک اپنی جگہ اپنا ہی گیت گا رہا ہے ہم بتلائے دیتے ہیں کہ کوئی ان کے پاس اس دعویٰ پر دلیل نہیں اور نہ یہ دعویٰ فی نفسہٖ صحیح ہے ہاں جنت کے حق دار ہم بتلاتے ہیں جو کوئی اپنے آپ کو اللہ کے تابع کردے اور وہ اس تابعداری میں صرف زبانی جمع خرچ نہ رکھتا ہو بلکہ نیکو کار فرمانبردار ہو تو ایسے اشخاص کی نجات ہوگی اور ان کی مزدوری اور اخلاص مندی کا بدلہ ان کے مو لیٰ کے پاس ہے جس کا کسی طرح سے نہ ان کو خوف ہوگا اور نہ غم اٹھائیں گے پس چونکہ یہودو نصارٰی بالکل اپنی خواہشوں کے غلام ہو رہے ہیں جس طرف ان کی خواہش لے جائے اسی طرف چلتے ہیں تو پھر کیونکر ان کو پہنچتا ہے کہ یہ دعوی کریں کہ سوا ان کے کوئی شخص بھی نجات کا مستحق نہیں ادھر تو تمہارے مقابلے میں یہ کہتے ہیں خواہ یہودی ہو یا عیسائی مگر مسلمان نہ ہو ادھر آپس میں ان کا یہ حال ہے کہ یہود کہتے ہیں کہ عیسائیوں کا کچھ ٹھیک نہیں اور عیسائی کہتے ہیں کہ یہودیوں کا کچھ ٹھیک نہیں حالانکہ اپنی زعم میں یہ دونوں فریق اللہ کی کتاب یعنی تورات پڑھتے ہیں یہ تو بھلا تھے ہی ایسا ہی بے علم عرب کے مشرک بھی انہی کی طرح بولتے ہیں کہ ہم ہی نجات کے حق دار ہیں سوائے ہمارے کوئی نجات نہ پاوے گا جب تک کہ بت پرستی نہ کرے گا ہرگز نجات نہ ملے گی پس تم ان کے خیا لات واہیات نہ سنو اللہ ہی ان کے جھگڑوں میں قیا مت کے دن فیصلہ کرے گا جس کا فیصلہ آخری ہوگا بھلا اور اختلاف تو ہوا سو ہوا اللہ کے ذکر میں بھی کسی کو اختلاف ہے ؟ پھر کس منہ سے یہ کافر دینداری کا دعوی کرتے ہیں حالانکہ مسلمانوں کو اللہ کے ذکر سے بھی روکتے ہیں۔ (اس آیت کے متعلق بعض بلکہ اکثر مفسرین نے لف و نشر مانا ہے مگر لف و نشر میں کمال درجہ عداوت مفہوم نہیں ہوتی جیسی کہ اس توجیہہ میں۔ فَتَأَ مَّلْ۔ ) اور کون بڑا ظالم ہے ان لوگوں سے جو اللہ کی مسجدوں میں اللہ کا ذکر کرنے سے روکیں اور ان کی خرابی میں کوشش کریں اس لئے کہ جب ذکر والوں کو ہی روک دیا تو پھر ان میں کون آئے گا خیر چند روزہ روز دکھا لیں گے تھوڑے ہی دنوں بعد ان لوگوں کو قدرت نہ ہوگی کہ ان مساجد میں داخل ہوں مگر دل میں ڈرتے ہوئے (یہ پیش گوئی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں فتح مکہ کے بعد پوری ہوئی) نہ صرف یہی بلکہ دنیا میں انہی کو ذلت و رسوائی نصیب ہوگی اور قیامت میں بھی انہی کو بڑا عذاب ہوگا اگر تم کو اے مسلمانو ! یہ کفار مکہ روکتے ہیں اور کعبہ میں نماز نہیں پڑھنے دیتے تو کوئی حرج نہیں نماز ہر جگہ ہوسکتی ہے اس لئے کہ اللہ ہی کا تو سارا مشرق و مغرب ہے (شان نزول : ! چند صحابہ نے جنگل میں بہ سبب اندھیری کے خلاف جہت کعبہ نماز پڑھی اور نیز نوافل سواری پر بھی پڑھا کرتے تھے تو اس مسئلہ کے بتلانے کو کہ اگر غلطی سے کعبہ کی طرف نہ ہوسکو یا نوافل سواری پر پڑھ لو تو جائز ہیں۔ یہ آیت نازل ہوئی۔ (معالم) پس ! جدھر کو منہ پھیرو گے وہیں اللہ کی توجہ اپنے حال پر پائو گے بے شک اللہ بڑی ہی وسعت والا ہے اس کے ملک کی وسعت کسی دنیا کے جغرافیہ میں محدود نہیں ہوسکتی پھر یہ بھی نہیں کہ کسی کے حل سے بے خبر ہو یا بتلانے کی حاجت پڑے بلکہ بڑے ہی وسیع علم والا ہے اس نے تو ہر ایک چیز کو ایک آن میں جان رکھا ہے کوئی چیز اس کے علم سے باہر نہیں جاسکتی تم چاہے جنگل بیا باں میں پڑھو خواہ دریا وریگستان میں وہ سب کو جانتا ہے تمہارے دلی اخلاص کے مطابق تم کو بدلہ دے گا ان بے ایمانوں کے کہنے سننے سے تم ملول نہ ہوا کرو یہ تو اللہ پر بھی بہتان لگانے سے نہیں رکتے دیکھو تو کیا کہتے ہیں کہ اللہ نے بھی ہماری مثل اپنے لئے اولاد بنائی ہے کوئی کہتا ہے کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں کوئی کہتا ہے کہ مسیح اور عزیر اللہ کے بیٹے ہیں حالانکہ وہ ان کی بے ہودہ گوئی سے پاک ہے کوئی اسکا بیٹا بیٹی نہیں بلکہ سب آسمان اور زمین والے اسی کے غلام ہیں یہ بھی نہیں کہ کوئی غلام سر کشی کرسکے اور قہری حکم سے کسی طرح انکار کرے بلکہ سب کے سب اسی کے آگے گردن جھکانے والے ہیں۔ بھلا کیوں نہ ہو وہ پاک ذات ایسی قدرت وا لی ہے کہ آسمان اور زمین کو جو کہ اپنی ہیئت اور مضبوطی میں اپنی نظیر نہیں رکھتے بلا نمونہ اسی نے بنایا ہے اور کمال یہ کہ جس وقت کوئی چیز چاہتا ہے تو صرف اتنا ہی کہتا ہے کہ ہوجا پس وہ مطلوب چیز فوراً موجود ہوجاتی ہے اور بھلا تم ان کی باتوں سے ملال پذیر ہوتے ہو جو اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ ہم منہ سے کیا کہہ رہے ہیں آیا وہ امر ہو بھی سکتا ہے یا ہماری ہی ندامت کا باعث ہے سنو ! تو یہ بے علم ونادان عرب کے مشرک اپنی بے علمی کی وجہ سے کہتے ہیں کہ بھلا صاحب ! یہ رسول جو اللہ کی طرف سے آکر ہمیں سمجھاتے ہیں اللہ ہی کیوں نہیں ہم سے سامنے ہو کرباتیں کرتا تاکہ ہم جلدی سے مان بھی لیں یا کوئی ایسی نشانی ہمارے پاس آوے جس سے ہم جان جائیں کہ کہ بے شک یہ سچا رسول اللہ کی طرف سے ہے اصل میں یہ ان کے بہانے ہیں ان سے پہلے لوگوں نے بھی ایسا ہی کہا تھا کہ اللہ ہم کو سامنے لا کر دکھائو پھر ہم مانیں گے بغور دیکھا جائے تو بالکل ان کے دل ایک سے ہو رہے ہیں ایک ہی بیماری میں مبتلا ہیں سو جو علاج ان کا ہوا تھا ان کا بھی ہوگا بھلا یہ بھی کوئی بات ہے کہ ہر ایک شخص مرضی کے موا فق نشانیاں مانگتا پھرتا ہے اصل نشانی نبوت کی تو قائل کی صفائی ہے کہ اس کی حالت دیکھو کہ وہ کیسا ہے آیا وہ دنیا ساز مکار ہے جنونی ہے یا کیا ہے ؟ بے شک یہی نشانی مفید ہے سو ایسی ہم بہت سی نشانیاں ماننے والوں کے لئے بیان کرچکے ہیں جن کو ان با توں کی تمیز ہے کہ نبوّت کی بناء کن امور پر ہوا کرتی ہے۔ سو بعد تلاش تجھ میں ضرور پائیں گے اس لئے کہ ہم نے تجھ کو سچی ہدائت کے ساتھ بھلے کاموں پر خوش خبری دینے والا اور برے اطوار پر ڈرانے والا مقرر کر کے بھیجا ہے۔ اگر یہ نالائق تیری بات نہ مانیں تو تجھے ان کی طرف سے ہرگز ملال نہ ہو اس لئے کہ تجھ سے دوزخ والوں کے حال سے سوال نہ ہوگا کہ یہ کیوں دوزخ میں پہنچے ہم جانتے ہیں کہ جتنے تیرے مخالف ہیں سب عنادی ہیں خاص کر اہل کتاب جو اپنے آپ کو اہل علم جانتے ہیں ان کا تو یہ حال ہے کہ ہرگز تجھ سے خوش نہ ہوں گے نہ یہودی نہ نصاریٰ یہاں تک کہ تو ہی ان کے غلط مذہب کا پیرو بنے پس تو ان سے کہہ دے کہ ہدائت تو اصل وہی ہے جو اللہ کے ہاں سے ہو۔ نہ کہ تمہاری اذلیات کہ اللہ نے اولاد بنائی اور اپنے بیٹے کو کفارہ کیا۔ وغیر ذلک من الخرافات ایسے ہی لوگوں کی چال سے ہوشیار رہو اگر تو بھی فرضاً بعد پہنچنے علم یقینی کے ان کی خواہش کے پیچھے چلا تو بس تیری بھی خیر نہیں سخت بلا میں مبتلا ہوگا پھر تیرا نہ کوئی اللہ کے ہاتھ سے ہمائتی ہوگا کہ اس سے رہائی دلا سکے اور نہ کوئی مددگار جو اس کی پکڑ سے چھڑا لے تجھے ان کے انکار سے کیوں ملال ہوتا ہے تیرے تابع تو ایسے لوگ بھی ہیں جن کو ہم نے کتاب دی ہے وہ اس کو پڑھتے ہیں جیسا پڑھنا چاہئے یہی لوگ اس کو مانتے ہیں (شان نزول :۔ کئی ایک صحابہ مشرکین سے تنگ آکر حبشہ کو چلے گئے وہاں کا حاکم عیسائی تھا۔ وہ کسی کے مذہب سے پریشان حال نہیں ہوتا تھا۔ جب انہوں نے آنحضرتﷺ کا حال سنا کہ آپ مدینہ منورہ میں ہجرت کر آئے ہیں اور سب مسلمان آپ کے ساتھ جمع ہوگئے ہیں یہ سن کر وہاں سے مدینہ کو چل پڑے راہ میں بوجہ بحری سفر کے ان کو نہایت تکلیف ہوئی۔ ان کی خاطرداری کو یہ آیت نازل ہوئی (معالم) اور جو لوگ اس سے انکاری ہیں قیا مت میں وہی ٹوٹا پاویں گے کیا ایسے عنادی بھی اس قابل ہیں کہ تو ان کو خوش کرنے کی فکر کرے ہرگز نہیں خاص کر یہودی تو ایسی نرمی اور مداہنت سے زیادہ بگڑتے ہیں میں نے جس قدر ان پر احسان کیے سب کو بھلائے بیٹھے ہیں