ثُمَّ بَعَثْنَا مِن بَعْدِهِم مُّوسَىٰ بِآيَاتِنَا إِلَىٰ فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِ فَظَلَمُوا بِهَا ۖ فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ
پھر ان کے بعد ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں دے کر فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف بھیجا تو انھوں نے ان کے ساتھ ظلم کیا۔ پھر دیکھ فساد کرنے والوں کا انجام کیسا ہوا ؟
(103۔141) پھر بعد مدت ان سے پیچھے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو فرعون اور اس کے درباری سرداروں کی طرف اپنے حکم دے کر بھیجا تو انہوں نے بھی ان احکام سے انکار کیا کبھی جادوگر کہا کبھی فریبی بتلایا پھر جس طرح مفسدوں کا انجام ہوا اس کو بھی تو سوچ لے کہ جس پانی کی نسبت فرعون کہا کرتا تھا کہ میرے حکم سے چلتا ہے اس میں اس کو غرق کردیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ہرچند کہا اے فرعون ! میں اللہ تعالیٰ رب العالمین کا رسول ہوں میرا فرض ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے حق میں بجز سچی بات کے کچھ نہ کہوں یعنی پیغام الٰہی جتلا کر وہی بات کہوں جس کا اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے۔ دیکھو میں تمہارے پاس تمہارے پروردگار کے ہاں سے ایک کھلی دلیل بھی لایا ہوں کہ لکڑی سے سانپ بنتا ہے اور ید بیضا دکھاتا ہوں پس تو ان باتوں سے میری نبوت پر ایمان لا اور بنی اسرائیل کو میرے ساتھ جانے دے ہم اپنے آبائی وطن میں چلے جائیں اللہ تعالیٰ نے اس کے دینے کا ہم سے وعدہ کیا ہے۔ فرعون کو دراصل اس بات کا خوف تھا کہ کہیں یہ لوگ میرے ملک سے باہر اپنی قوت یکجا کر کے مجھ پر حملہ آور نہ ہوں اس لئے ان کا چھوڑ دینا علاوہ ویرانی ملک کے یوں بھی مناسب نہ سمجھتا۔ مگر بہانہ بنانے کو بولا کہ اگر تو کوئی نشان لایا ہے جیسا کہ تیرا بیان ہے تو اسے لا کر دکھا اگر تو سچا ہے تو کس موقع کی تجھے انتظاری ہے پس یہ سنتے ہی حضرت موسیٰ نے اپنی لاٹھی جو ہاتھ میں اس وقت لئے تھا پھینک دی دیکھتے ہی وہ صریح ایک اژدہا بن گیا۔ سب لوگ جو دربار میں بیٹھے تھے ادھر ادھر بھاگنے لگے۔ سب کو جان کے لالے پڑ گئے (فَاَلْقٰی عَصَاہُ) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے کئی ایک معجزے بیان فرمائے ہیں منجملہ ایک ” عصا“ اور ” یدبیضا“ بھی ہے۔ یہ دونوں معجزے اس خوبی اور تفصیل سے بیان ہوئے ہیں کہ ان جیسی تفصیل اور کسی بیان میں شائد ہی ہو۔ مگر سید احمد خاں مرحوم نے وہی اپنا ہاتھ اسی پرانے ہتھیار (سپرنیچرل) سے ان پر بھی چلانا چاہا۔ اس لئے مناسب ہے کہ پہلے تمام آیتیں جن میں ان معجزوں کا مذکور ہے ہم لکھ دیں۔ پھر سرسید کے عذرات بھی قوم کو سنائیں۔ پہلی آیت سورۃ اعراف میں ہے جس کا مضمون یہ ہے کہ : فَاَلْقٰی عَصَاہُ فَاِذَا ھِیَ ثُعْبَانُ مُّبِیْنٌ۔ وَنَزَعَ یَدَہٗ فَاِذَا ھِیَ بَیْضَآئُ للنّٰظِرِیْنَ۔ قَالَ الْمَلأَُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اِنَّ ھٰذَا لسَاحِرٌ عَلِیْمٌ۔ (اعراف۔ ع ١٣) حضرت موسیٰ نے اپنی لکڑی پھینکی تو وہ اسی وقت ظاہر سانپ تھا اور اپنا ہاتھ نکالا تو وہ سب دیکھنے والوں کے سامنے سفید تھا۔ فرعون کے سرداروں نے کہا۔ بیشک یہ موسیٰ بڑے علم والا جادوگر ہے۔ “ مفصل قصہ سورۃ طہ میں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : وما تلک بیمینک یموسی قال ھی عصایا توکوئا علیھا واھش بھا علی غنمی ولی فیھا مارب اخری۔ قال القھا یموسی فالقھا فاذا ھی حیۃ تسعی۔ قال خذھا ولا تخف سنعیدھا سیرتھا الاولی۔ واضمم یدک الی جناحک تخرج بیضآء من غیر سوٓء ایۃ اخری۔ لنریک من ایتنا الکبری قالوا یموسی امآ ان تلقی واما ان نکون اول من القی۔ قال بل القوا فاذا حبالھم وحصیہم یخیل الیہ من سحرھم انھا تسعی۔ فاوجس فی نفسہ خیفۃ موسی۔ قلنا لاتخف انک انت الاعلی۔ والق مافی یمینک تلقف ماصنعوٓا انما صنعوا کید ساحر ولا یفلح الساحر حیث اتی فالقی السحرۃ سجدا قالوا امنا برب ھرون و موسیٰ (طہ ع ١۔ ٣) موسیٰ! تیرے ہاتھ میں کیا ہے؟ اس نے کہا یہ میری لکڑی ہے میں اس پر تکیہ کیا کرتا ہوں اور اپنی بھیڑ بکریوں کے لئے پتے جھاڑا کرتا ہوں اور بھی اس میں مجھے کئی فوائد ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا موسیٰ! اسے پھینک دے۔ موسیٰ نے اسے پھینکا ہی تھا کہ وہ سانپ تھا بھاگتا۔ حکم ہوا کہ اسے پکڑلے اور خوف نہ کر ہم اس کی پہلی (لکڑی والی) صفت بدل دیں گے۔ اور اپنا ہاتھ گریبان میں ڈال وہ سفید بےداغ ہو کر نکلے گا۔ یہ دوسری نشانی ہے ہم تجھے اتنی بڑی بڑی نشانیاں دکھایں گے (چنانچہ وہ فرعون کے پاس گیا اور جادوگروں سے مقابلہ ہونے لگا) جادوگروں نے کہا موسیٰ! تو پہلے اپنا عصا ڈالے گا یا ہم ڈالیں موسیٰ نے کہا نہیں تم ڈالو۔ پس ان کے ڈالتے ہی ان کے جادو کے اثر سے موسیٰ کو خیال ہونے لگا کہ وہ ہل رہی ہیں موسیٰ اپنے جی میں خوفزدہ ہوا ہم نے کہا موسیٰ ڈر نہیں۔ تو ہی غالب رہے گا۔ جو تیرے ہاتھ میں لکڑی ہے پھینک دے۔ جو کچھ انہوں نے بنایا ہے سب کو نگل جائے گی وہ جادو کا تماشہ بنا لائے ہیں اور جادو گر جہاں کہیں ہو کامیاب نہیں ہوا کرتا موسیٰ کے عصا ڈالنے کی دیر تھی کہ جادو گر تو سجدے میں گر کر بولے ہم ہارون اور موسیٰ کے اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے ہیں۔ “ ایک جگہ بیان ہے کہ قال لئن اتخذت الھا غیری لاجعلنک من المسجونین قال اولو جئتک بشیء مبین۔ قال فأت بہٓ ان کنت من الصدقین۔ فالقی عصاہ فاذا ھی ثعبان مبین۔ ونزع یدہ فاذا ھی بیضآء للناظرین۔ قال لِلْمَلا حولہ ان ھذا لسٰحرٌ علیم۔ یرید ان یخرجکم من ارضکم بسحرہ فماذا تامرون۔ قالوا ارجہ واخآہ وابعث فی المدآئن حشرین یاتوک بکل سحّار علیم فجمع السّحرۃ لمیقات یوم معلوم وقیل للناس ھل انتم مجتمعون لعلنا نتبع السّحرۃ ان کانوا ھم الغلبین فلما جآء السّحرۃ قالوا لفرعون ائنّ لنا لاجرًا ان کنا نحن الغلبین۔ قال نعم وانکم اذً لمن المقربین قال لھم موسیٰ القوامآ انتم ملقون فالقوا حبالھم وعصیہم وقالوا بعزۃ فرعون انا لنحن الغلبون فالقی موسیٰ عصاہ فاذا ھی تلقف ما یافکون فالقی السّحرۃ سجدین قالوآ امنا بربّ العلمین۔ ربّ موسیٰ وھرون (شعراء ٣) فرعون نے موسیٰ سے کہا اگر تو نے میرے سوا کسی اور کو معبود بنایا تو میں تجھے سنگسار کروا ڈالوں گا۔ موسیٰ نے کہا اگرچہ میں کوئی واضح چیز بھی لا دکھائوں۔ فرعون نے کہا لا اگر تو سچا ہے پس موسیٰ نے اپنی لکڑی پھینک دی تو وہ اسی وقت ظاہر بڑا سانپ تھا۔ اور اپنا ہاتھ نکالا تو وہ بھی سب دیکھنے والوں کے سامنے چٹہ سفید تھا۔ فرعون کے گرد گرد سرداروں نے کہا یہ بڑا علم والا جادوگر ہے۔ اس کا منشا ہے کہ تم کو اپنے جادو سے ملک بدر کر دے پس تمہاری کیا رائے ہے۔ پھر مجتمع ہو کر فرعون سے ملتجی ہوئے کہ اسے اور اس کے بھائی کو ڈھیل دیجئے اور کل ملک میں ایلچی بھیج دیجئے کہ وہ حضور کے پاس بڑے بڑے علم دار جادوگروں کو جمع کر کے لے آویں پس جادوگر ایک وقت معین پر جمع کئے گئے اور لوگوں کو بھی کہا گیا کہ تم نے بھی جمع ہونا شاید جادوگر فتحیاب ہوں تو ان کا جلو کرنے کو ہم ان کے ساتھ ہوں۔ جب جادوگر فرعون کے حضور آئے تو فرعون سے کہنے لگے کہ اگر ہم غالب رہے تو ہم کو کچھ ملے گا بولا ہاں اور تم میرے مقربوں میں سے ہوجائو گے موسیٰ نے ان سے ڈالنے کو کہا پس انہوں نے اپنی رسیاں اور لکڑئیں ڈالیں اور فرعون کی عزت کی قسم کھا کر کہنے لگے کہ ہم ہی غالب رہیں گے۔ پس موسیٰ نے بھی اپنی لکڑی ڈالی تو وہ ان کی بناوٹی چیزوں کو کھا رہی تھی پس یہ امر دیکھتے ہی جادوگر سجدے میں گرے اور بولے ہم رب العٰلمین پر جو موسیٰ اور ہارون کا اللہ تعالیٰ ہے ایمان لائے۔ ایک جگہ ذکر ہے اللہ تعالیٰ نے کہا : وَاَلْقِ عَصَاکَ فَلَمَّا رَاٰھَا تَھْتَزُّ کَاَنَّھَا جَآنٌّ وَلّٰی مُدْبِرًا وَّلَمْ یُعَقِّبْ یٰمُوْسٰی لاَ تَخَفْ اِنِّی لاَیُخَاف لَدَیَّ المرسلون٭ الا من ظلم ثم بدل حسنا بعد سوٓء فانی غفور رحیم وادخل یدک فی جیبک تخرج بیضآء من غیر سوٓء فی تسع ایت الی فرعون و قومہ انھم کانوا قوما فسقین۔ (نمل ع ١) اپنی لکڑی پھینک دے پس جب اس نے اسے ہلتے ہوئے (ایسی تیز حرکت کرتی تھی کہ) گویا پتلا سا سانپ (جلدی جلدی حرکت کرتا) ہے تو موسیٰ پیٹھ پھیر کر بھاگا ایسے کہ پھیر کر بھی نہ دیکھا اللہ تعالیٰ نے کہا اے موسیٰ ڈر نہیں میرے پاس رسول ڈرا نہیں کرتے۔ جو گناہ کرے اور اس سے پیچھے توبہ کر کے نیکی بھی کرے تو میں بخشنہار مہربان ہوں تو اپنا ہاتھ گریبان میں ڈال بغیر کسی بیماری کے سفید ہو کر نکلے گا تو ان نو نشانیوں میں فرعون اور اس کی قوم کی طرف جا وہ بڑے بدکار ہیں۔ ایک جگہ مذکور ہے اللہ تعالیٰ نے کہا : وان الق عصاک فلما راھا تھتزکانھا جآن ولّی مدبرا وَلَمْ یعقب یموسی اقبل ولا تخف انک من الامنین٭ اسلک یدک فی جیبک تخرج بیضآء من غیر سوٓء واضمم الیک جناحک من الرھب فذنک برھانان من ربک الی فرعون وملائٓہ انہم کانوا قوما فسقین۔ (قصص : ع ٤) اللہ تعالیٰ نے کہا اپنی لکڑی پھینک دے پس جب اس کو تیز تیز چلتے دیکھا گویا وہ پتلا سا سانپ ہے تو پیٹھ پھیر کر بھاگا اور پھر کر نہ دیکھا۔ اللہ تعالیٰ نے پکارا اے موسیٰ ادھر دیکھ اور ڈر نہیں تحقیق تو بے خوف ہے اپنا ہاتھ گریبان میں داخل کر بغیر بیماری کے سفید نکلے گا اور خوف کے مارے دونوں بازو ملا رکھ یہ دو دلیلیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف جا۔ وہ بدکاروں کی قوم ہیں۔ موجودہ توریت میں ان معجزات کا بیان اس طرح سے ہے : ” تب موسیٰ نے جواب دیا کہ دیکھ وے مجھ پر ایمان نہ لائیں گے۔ نہ میری سنیں گے وے کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ تجھے دکھائی نہیں دیا۔ تب اللہ تعالیٰ نے موسیٰ سے کہا کہ یہ تیرے ہاتھ میں کیا ہے وہ بولا عصا پھر اس نے کہا اسے زمین پر پھینک دے اس نے زمین پر ڈال دیا اور وہ سانپ بن گیا اور موسیٰ اس کے آگے سے بھاگا۔ تب اللہ تعالیٰ نے موسیٰ سے کہا کہ اپنا ہاتھ بڑھا اور اس کی دم پکڑ لے اس نے ہاتھ بڑھایا اور اسے پکڑ لیا۔ وہ اس کے ہاتھ میں عصا ہوگیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اسے کہا کہ تو اپنا ہاتھ اپنی چھاتی پر چھپا کے رکھ۔ اور جب اس نے اسے نکالا تو دیکھا کہ اس کا ہاتھ برف کی مانند سفید مبروص تھا۔ پھر اس نے کہا کہ تو اپنا ہاتھ اپنی چھاتی پر پھر چھپا کے رکھ اس نے پھر رکھا تو جب باہر نکالا تو دیکھا کہ وہ پھر ویسا ہی جیسا کہ اس کا سارا بدن تھا ہوگیا (خروج باب ٤۔ آیت ١) “ دوسرے موقع کا ذکر اس طرح ہے کہ : ” اللہ تعالیٰ نے موسیٰ اور ہارون کو کہا کہ جب فرعون تمہیں کہے کہ اپنا معجزہ دکھائو تو ہارون کو کہئیو کہ اپنا عصا لے (حضرت موسیٰ نے اپنا عصا حضرت ہارون کی سپرد کیا ہوا تھا) اور فرعون کے آگے پھینک دے۔ وہ ایک سانپ بن جائے گا۔ تب موسیٰ اور ہارون فرعون کے آگے گئے اور انہوں نے وہ جو اللہ تعالیٰ نے انہیں فرمایا تھا کیا۔ ہارون نے اپنا عصا فرعون اور اس کے خادموں کے آگے پھینکا اور وہ سانپ ہوگیا۔ تب فرعون نے بھی دانائوں اور جادوگروں کو طلب کیا چنانچہ مصر کے جادوگروں نے بھی اپنے جادوئوں سے ایسا ہی کیا کہ ان میں سے ہر ایک نے اپنا اپنا عصا پھینکا اور وہ سانپ ہوگیا۔ لیکن ہارون کا عصا ان کے عصائوں کو نگل گیا۔ (خروج باب ٧ آیت ٨۔ ١٢) “ ایسے صاف بیان کے ہوتے ہوئے بھی سید صاحب اس سے انکاری ہیں چنانچہ فرماتے ہیں : ” تمام انسانوں میں خواہ وہ انبیاء ہوں اولیا یا عوام الناس اور کسی مذہب کے ہوں حتیٰ کہ حیوانوں میں بھی ایک قسم کی قوت مقناطیسی موجود ہے جو خود اس پر اور نیز دوسروں پر ایک قسم کا اثر پیدا کرتی ہے۔ یہ بمقتضائے خلقت بعضوں میں ضعیف اور بعضوں میں قوی ہوتی ہے۔ یہ قوت مقناطیسی جس میں قوی ہوتی ہے وہ دوسرے شخص پر بھی (اثر) ڈال سکتا ہے اور اس دوسرے شخص پر بحالت بیداری ایک قسم کی خواب مقناطیسی اس پر طاری رہتی ہے یہ قوت بعض آدمیوں میں خلقی نہایت قوی ہوتی ہے اور جو لوگ مجاہدات کرتے ہیں اور لطائف نفسانی کو متحرک کرتے ہیں خواہ وہ ان مجاہدات میں اللہ تعالیٰ کا نام لیا کریں۔ یا اور کسی کا۔ ان میں بھی یہ قوت ہوجاتی ہے اور اس کے اثر ظاہر ہونے لگتے ہیں۔ ان اثروں کو جب کہ مسلمانوں سے ظاہر ہوتے ہیں مسلمان کرامت سے تعبیر کرتے ہیں اور جب کہ غیر مذہب والوں سے ظاہر ہوتے ہیں۔ اس کو استدراج سے تعبیر کرتے ہیں حالانکہ دونوں کی اصلیت واحد ہے بہرحال جو کچھ کہ اس سے ظاہر ہو اس کا کوئی وجود اصلی و حقیقی نہیں ہے۔ بلکہ صرف وجود وھمی و خیالی ہے۔“ (ج ٣ صفحہ ١٣۔ ١٤۔ ٢١٥) اس تمہید کے بعد خاص معجزہ عصا وغیرہ کی بابت بعد ارقام آیات متعلقہ فرماتے ہیں : ” ان آیتوں پر غور کرنے سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ کیفیت جو حضرت موسیٰ پر طاری ہوئی اسی قوت نفس انسانی کا ظہور تھا جس کا اثر خود ان پر ہوا تھا۔ یہ کوئی معجزہ مافوق الفطرت نہ تھا۔ (ہم پہلے لکھ آئے ہیں کہ معجزہ بھی داخل قانون فطرت ہے) اور نہ اس پہاڑ کی تلی میں جہاں یہ امر واقع ہو کسی معجزہ کے دکھانے کا موقع تھا اور نہ یہ تصور ہوسکتا ہے کہ وہ پہاڑ کی تلی کوئی مکتب تھا (حضرت علی گڑھ کالج ہی لکھ دیا ہوتا) جہاں پیغمبروں کو معجزے سکھائے جاتے ہوں اور معجزوں کی مشق کرئی جاتی ہو۔ حضرت موسیٰ میں ازروئے فطرت و جبلت کے وہ قوت نہایت قوی تھی (حضرت معاف رکھئے آپ بھولتے ہیں یہ قوت لکڑی میں تھی چنانچہ آپ کی آئندہ تقریر اسی کی موید ہے) جس سے اس قسم کے اثر ظاہر ہوتے ہیں انہوں نے اس خیال سے کہ وہ لکڑی سانپ ہے اپنی لاٹھی پھینک دی اور وہ ان کو سانپ یا اژدہا دکھائی دی (حضرت ! کہئے یہ لکڑی کی قوت کا اثر حضرت موسیٰ پر ہوا یا حضرت موسیٰ کا اثر لکڑی پر) یہ خود ان کا تصرف اپنے خیال میں تھا۔ وہ لکڑی لکڑی ہی تھی اس میں فی الواقع کچھ تبدیلی نہیں ہوئی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے کسی جگہ یہ نہیں فرمایا فانقلبت العصا ثعبانا یعنی وہ لاٹھی بدل کر اژدہا ہوگئی۔ بلکہ سورۃ نحل میں فرمایا کانھا جان یعنی وہ گویا اژدہا تھا۔ اس سے ظاہر ہے کہ درحقیقت وہ اژدہا نہیں ہوئی تھی۔ بلکہ وہ لاٹھی کی لاٹھی تھی۔ (جلد ٣ صفحہ ٢٢٢) ایسا ہی یدبیضا کی نسبت فرماتے ہیں : ” جب کہ یہ بات تسلیم کی گئی کہ انسان میں ایک ایسی قوت ہے کہ انسان اس کے ذریعہ سے قوائے مخیلہ کی طرف رجوع کرتا ہے اور پھر اس میں ایک خاص قسم کا تصرف کرتا ہے اور ان میں طرح طرح کے خیالات اور گفتگو اور صورتیں جو کچھ اس میں مقصود ہوتی ہیں ڈالتا ہے۔ پھر ان کو اپنے موثرہ قوت سے دیکھنے والوں کی حس پر ڈھالتا ہے پھر دیکھنے والے ایسا ہی دیکھتے ہیں کہ گویا وہ خارج میں موجود ہے حالانکہ وہاں کچھ بھی نہیں ہوتا اور قرآن مجید کے الفاظ سے جو آیات بالا میں گذرے ہیں اور جن سے پایا جاتا ہے کہ لاٹھیاں اور رسیاں اسی قوت مخیلہ کے سبب سے سانپ یا اژدھے دکھائی دی تھیں تو یدبیضا کا مسئلہ ازخود حل ہوجاتا ہے کیونکہ اس کا بھی لوگوں کو اس طرح پر دکھائی دینا اسی قوت نفس انسانی کا اور تصرف قوت متخیلہ کا سبب تھا نہ یہ کہ وہ کوئی معجزہ مافوق الفطرت تھا۔ اور درحقیقت حضرت موسیٰ کے ہاتھ کی ماہتی بدل جاتی تھی۔ جہاں قرآن مجید میں یدبیضا کا ذکر آیا ہے۔ وہاں یہ مضمون بھی موجود ہے کہ : وَنَزَعَ یَدَہٗ فَاِذَا ھِیَ بَیْضَآئُ للنّٰظِرِیْنَ جب حضرت موسیٰ نے اپنا ہاتھ نکالا تو یکایک چٹا تھا۔ دیکھنے والوں کے لئے اور یہ مضمون صاف اس پر دلالت کرتا ہے کہ دیکھنے والوں کی نگاہ میں وہ چٹا دکھائی دیتا تھا۔ جو اثر قوت نفسانی کا تھا نہ کوئی معجزہ مافوق الفطرت۔“ (ج ٣ صفحہ ٢٢٥) اس سے آگے ایک سوال کا از خود جواب دیتے ہیں : ” اس مقام پر یہ سوال ہوسکتا ہے کہ اگر عصائے موسیٰ کا اژدہا بننا اور ہاتھ کا چٹا ہوجانا اسی قسم کی قوت نفسی سے لوگوں کو دکھائی دیتا تھا جس طرح کی قوت نفسی سے سحرۂ فرعون کی رسیاں اور لاٹھیاں دکھائی دیتی تھیں اور کوئی معجزہ مافوق الفطرت نہ تھا تو خدانے عصا اور یدبیضا کی نسبت یہ کیوں فرمایا کہ فَذٰنِکَ بُرْھَانَانِ مِنْ رَّبِّکَ یعنی ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے برہان کیوں تعبیر کیا ہے مگر برہان کہنے کی وجہ یہ ہے کہ عصائے موسیٰ کا اژدہا مرئی ہونا یا ہاتھ کا چٹا دکھائی دینا۔ فرعون اور اس کے سرداروں پر بطور حجت الزامی کے تھا وہ اس قسم کے امور اس بات کی دلیل سمجھتے تھے کہ جس شخص سے ایسے امور ظاھر ہوتے ہیں وہ کامل ہوتا ہے (ٹھیک ہے جب ہی تو مزدوری پر جادوگروں کو جن کی قدر و منزلت ان کے سوال اَئِنَّ لَنا لَاَجْرًا اِنْ کُنَّا نَحْنُ الغَالِبِیْن سے ہی معلوم ہوتی ہے بلا کر مقابلہ کرایا تھا۔ یہی دلیل بس ہے ان کے کمالات پر جس سے فرعون اور اس کے افسروں نے بھی ان کو یقینا کامل سمجھا ہوگا۔ کاش کہ سید صاحب کامل کی بھی ذرہ تشریح کر جاتے کہ کس بات میں کامل) اور اسی سبب سے انہوں نے کہا کہ اگر کوئی کرشمہ دکھایا جائے گا تو وہ موسیٰ کو سچا جانیں گے۔“ (جلد ٣ صفحہ ٢٢٦) ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم ایسی تاویلات بلکہ تحریفات کا کیا جواب دیں جہاں یہ حال ہو بنے کیونکر کہ ہے سب کار الٹا ہم الٹے بات الٹی یار الٹا ہاں ایک جواب سید صاحب کی تحریر سے یاد آیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ : ” ہم مسلمانوں میں قاعدہ ہے کہ ہمیشہ جہاں تک ہوسکتا ہے لفظ سے اس کے اصلی اور حقیقی معنے مراد لیتے ہیں۔ مگر جہاں کہیں سیاق کلام سے یا اور کسی دلیل سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں حقیقی معنے مراد نہیں ہیں بلکہ تمثیلی معنے مراد ہیں جس کو ہم مجازیا استعارہ کہتے ہیں۔ وہاں اس کے تمثیلی معنے قرار دیتے ہیں خواہ وہ دلیل اسی مقام میں موجود ہو یا دوسرے مقام میں“ (تصانیف احمدیہ جلد ٦ ص ٣١٨) کاش یہاں اصلی معنے چھوڑنے کی کوئی دلیل بتلائی ہوتی اگر وہی پرانا ہتھیار (سپر نیچرل) ہے تو اس کا کچھ جواب تو پہلے ہوچکا ہے اور کچھ آگے آتا ہے۔ ہاں سید صاحب کا یہ فرمانا کہ اللہ تعالیٰ نے فانقلبت العصا ثعبانا نہیں کہا۔ غور طلب ہے اس پر ہمیں ایک قصہ یاد آیا ایک واعظ صاحب اپنے فریق مقابل فرقہ اہل حدیث کا رد کرتے ہوئے ایک دفعہ فرمانے لگے کہ یہ لوگ قرآن و حدیث کو زیادہ پیش کرتے ہیں اور اپنے آپ کو موحدین کہلاتے ہیں۔ کہیں قرآن میں اللہ تعالیٰ نے موحد کر کے کسی کو پکارا بھی ہے؟ سب جگہ ایمانداروں کو ہی پکارا گیا۔ موحدین کے نام سے تو کہیں بھی اللہ تعالیٰ نے خطاب نہیں فرمایا۔ جس طرح واعظ موصوف کے جواب میں ان کے مقابل ساکت تھے ٹھیک اسی طرح ہم بھی سید صاحب سے نادم ہیں۔ واقعی ہم مانتے ہیں کہ قرآن شریف میں یہ لفظ تو نہیں مگر بڑے ادب سے عرض ہے کہ اگر انہی معنی کو ادا کرنے والا کوئی اور لفظ ہو تو جو مسلمان قرآن کے تیس پاروں کو کلام الٰہی مانتا ہے اسے اس کے ماننے میں بھی تامل نہ ہوگا۔ سنئے اور غور سے سنئے سَنُعِیْدُھَا سِیْرَتَھَا الْاُوْلٰی ذرہ لفظ اعادہ جس سے سَنُعِیْدُ مشتق ہے اور بالخصوص سِیْرَتَھَا الاُوْلٰی میں غور کے جئ اعادہ کے معنی پھیر لانے کے ہیں اور سیرت کے معنے خصلت کے ہیں۔ سیرت اولیٰ کو بالخصوص قابل توجہ ہم نے اس لئے کہا ہے کہ سیرت کا لفظ لانا اور صورت نہ کہنا اسی طرف اشارہ ہے کہ اتنی دیر کے لئے اس کی قلب ماہیت ہوگئی تھی۔ اور اگر یہ نہ ہوتا بلکہ بقول سر سید صرف حضرت موسیٰ کی آنکھوں میں ہی وہ اژدہا دکھائی دیتا اور درحقیقت وہ لاٹھی کی لاٹھی ہوتی تو اعادہ سیرۃ نہ کہا جاتا سبحان اللہ تعالیٰ اصدق الصادقین کے کلام کو جس کے امکان کذب میں بھی علماء مختلف ہیں مروڑ مراڑ کر دبی زبان سے کاذب کہا جاتا ہے اُنْظُرْ کَیْفَ یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللّٰہِ الکَذِبَ وَکَفٰی بِہٖ اثماً مُّبِیْنًا۔ اس سے زیادہ کذب کیا ہوگا کہ حقیقتاً نہ تو صورت بدلی اور نہ سیرت بلکہ صرف حضرت موسیٰ کی آنکھیں دھند لا رہی ہیں تاہم سَنُعِیْدُھَا سِیْرَتَھَا الاُوْلٰی جو سلب اور عدم سیرت اولیٰ پر موقوف کہا جاتا ہے۔ سید صاحب مرحوم نے قرآن کے ساتھ جو کچھ کیا ہمارا اعتقاد ہے کہ عناد سے نہیں کیا بلکہ خوش اعتقادی سے ہی کیا مگر یہ تو ہم ضرور کہیں گے خوب کئے لاکھوں ستم اس پیار میں بھی آپ نے ہم پر اللہ تعالیٰ ناخواستہ گر خشمگیں ہوتے تو کیا کرتے اصل میں سید صاحب کو بار بار وہی سپر نیچرل تنگ کرتا رہا یعنی خلاف فطرت نہیں ہوا کرتا اور نہ ہوسکتا ہے مگر ہم حضرت مسیح کے معجزات کے ذیل میں یہ امر مفصل ذکر کر آئے ہیں کہ معجزات کا ظہور خرق عادت اور خلاف فطرت نہیں۔ پس جب تک سید صاحب یا ان کے ہم مشرب اس بات کو رد نہ کریں گے کسی تاویل کرنے کے مجاز نہیں۔ کچھ شک نہیں کہ سید صاحب نے علم مسمریزم کی کتابیں دیکھی ہیں مگر ہم یقینا کہتے ہیں کہ ان میں بھی سید صاحب نے اپنی مجتہدانہ روش نہیں چھوڑی کیوں نہ ہو امن ازد یاوک فی الدجی الرقباء اذ حیث کنت من الظلام ضیاء جہاں تک ہمیں معلوم ہے اور ہم نے اس فن کا مطالعہ کیا ہے اس کا یہ ہرگز منشا نہیں جو سید صاحب نے حضرت موسیٰ کی لاٹھی اور یدبیضا کی کیفیت لکھی ہے اور لطف یہ ہے کہ خود سید صاحب کے کلام میں ان کا رد موجود ہے آپ کی تقریر کا خلاصہ تو صرف دو لفظوں میں ہے کہ انسان میں ایک قوت مقناطیسی ہے جس کے ذریعہ سے دوسروں پر اپنا اثر پہنچا سکتا ہے اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ حضرت موسیٰ اسی قوت سے متاثر ہوئے تھے دانائوں کی توجہ چاہتا ہے کیونکہ اس سے کچھ ثابت ہوتا ہے تو یہ کہ حضرت موسیٰ بقول سید صاحب اگر مسمریزم کے عامل ہوتے تو دوسروں پر اپنے خیالات کا اثر پہنچا سکتے تھے۔ نہ کہ لکڑی سے خود ہی ایسے متاثر ہوتے کہ بھاگتے ہوئے پیچھے کو پھر کر بھی نہ دیکھتے کیا یہی مسمریزم ہے سچ ہے پائے استدلالیاں چوبیں بود پائے چوبیں سخت بے تمکین مسمریزیم اور معجزہ میں فرق کے متعلق ہم معجزات مسیحیہ میں مختصر سی تقریر کر آئے ہیں۔ یہاں پر سید صاحب کے تبعاً بھی کچھ ذکر کرتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ فرعون کے جادوگر بھی مسمریزم کے عامل تھے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ تعالیٰ کا فرمانا کہ ان کے سحر سے موسیٰ کو رسیاں ہلتی ہوئی نظر آتی تھیں یُخَیَّلُ اِلَیْہِ مِنْ سِحْرِھِمْ اَنَّھَا تَسْعٰے ہمارے اس قول کا موید ہے مگر تعجب ہے کہ حضرت موسیٰ کی نسبت بھی سید صاحب نے وہی گمان کیا جو فرعون نے کیا تھا۔ فرعون نے جادوگروں کے ایمان کا حال سن کر ان سے کہا انہ لَکَبِیْرُکُمُ الَّذِیْ عَلَّمَکُمُ السِّحْرَ (وہ تمہارا استاد ہے جس نے تم کو جادو (مسمریزم) سکھایا ہے) گویا فرعون نے بھی حضرت موسیٰ کو مسمریزم کا عامل سمجھا جو سید صاحب نے دبی زبان سے کہا جس کا جواب اسی وقت اللہ تعالیٰ تعالیٰ نے دے دیا تھا کہ لاَ یُفْلِحُ السَّاحِرُ حَیْثُ اَتٰی (جادوگر مراد کو نہیں پہنچا کرتے) پھر فرعون کے جادوگروں کا جو اس مشق مسمریزم میں اعلیٰ درجہ کے مشاق تھے ایمان لانا اور حضرت موسیٰ کو بھی برحق اور ان کے فعل کو فعل اللہ تعالیٰ اور معجزہ سمجھنا بھی قابل غور ہے حالانکہ ” ولی را ولی مے شناسد“ دز درا دزو مے شناسد“ کا مقولہ بھی مشہور ہے۔ پس قصہ مختصر یہ کہ حضرت موسیٰ کی نسبت مسمریزم وغیرہ کا خیال کرنا کسی طرح صحیح نہیں۔ بلکہ خوف کفر ہے۔ جو آیات قرآنی سے متبادر مفہوم ہوتا ہے فقط۔ (منہ) اور موسیٰ نے اپنا ہاتھ کرتے کے گریبان میں ڈال کر باہر کیا تو وہ سب دیکھنے والوں کے سامنے سفید براق تھا ایسا کہ سورج کی طرح چمکتا تھا یہ عجیب معجزات دیکھ کر بھی فرعون کی قوم کے سردار حسب منشاء فرعون کے کہنے لگے کہ یقینا یہ موسیٰ بڑا علمدار جادوگر ہے۔ اپنے خیالات سفلیہ پر قیاس کر کے ایک دوسرے سے کہنے لگے اس کا ارادہ ہے کہ ایک جتھا بنا کر تم کو تمہارے آبائی ملک مصر سے نکال دے اور آپ اس پر قابض ہوجائے۔ پس تم کیا تجویز سوچتے ہو۔ شاھی کونسل میں جب یہ تجویز باقاعدہ پیش ہوئی تو سب نے فرعون سے متفق اللفظ کہا کہ مصلحت یہ ہے کہ اس موسیٰ کو اور اس کے بھائی ہارون کو تھوڑی مہلت دیجئے اور سب ملک میں جمع کرنے والے ہر کارے بھیج دیجئے کہ ہر ایک جادوگر کو جو بڑے علم والا ہو حضور کے پاس لائیں قصہ مختصر ہر کارے ملک میں بھیجے گئے اور جادوگروں نے فرعون کے حضور آکر کہا کہ اگر ہم اس پر غالب رہے تو ہم کو کچھ ملے گا بھی یا یونہی بگار میں ٹلا دیا جائے گا۔ فرعون نے کہا ہاں بے شک تم کو بہت کچھ انعام ملے گا اور تم میرے دربار کے مقربوں میں سے ہوجائو گے۔ بھلا تمہارے جیسا حکومت کا خیر خواہ کون جو موسیٰ جیسے باغیٔ سرکار کو مغلوب کرے۔ جادوگر فرعون سے عہد و پیمان لے کر میدان مقابلہ میں آئے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف متوجہ ہوئے اور بولے اے موسیٰ تو پہلے اپنی لاٹھی ڈالتا ہے یا ہم پہلے ڈالیں؟ غرض اپنی بہادری کا اظہار کرتے تھے کہ ہم یہ نہیں چاہتے کہ تیرے ارمان جی کے جی میں ہی رہیں نہیں اگر تو چاہتا ہے تو ہم بڑی خوشی سے تیرے وار کو اپنے پر لینے کو تیار ہیں موسیٰ نے کہا۔ نہیں بلکہ تم ہی جو ڈالنا چاہو۔ پہلے ڈالو۔ پس جب میدان میں انہوں نے اپنا سامان لوگوں کے سامنے ڈالا تو قلب ماہیت کیا ہی کرسکتے تھے صرف انہوں نے بقاعدۂ مسمریزم اتنا ہی کیا۔ کہ لوگوں کی آنکھوں کو جادو کردیا کہ ان کو رسیوں کے سانپ نظر آنے لگے اور لوگوں کو دہشت میں ڈالا اور ایک بڑا ہی مؤثر جادو کا کھیل بنا کر لائے۔ وہ اپنے کام میں لگے ہوئے تھے اور موسیٰ ان کی اس حرکت سے ذرا سا خوف زدہ ہوا تھا کہ ہم نے موسیٰ کو فرشتے کے ذریعہ الہام کیا کہ تو بھی اپنی لکڑی پھینک دے پس اس کے پھینکنے کی دیر تھی کہ اسی وقت وہ ان کے مصنوعی جھوٹ موٹ کے سانپ جو وہ بنا رہے تھے ان کو نگلتی چلی جاتی تھی پس سب لوگوں نے دیکھ لیا کہ حق غالب آیا اور جو کچھ وہ جھوٹ موٹ مقابلہ میں بنا رہے تھے سب برباد ہوگیا۔ پس فرعونی وہاں مغلوب ہوئے اور اپنا سامنہ لے کر گھروں کو ذلیل و خوار لوٹ گئے اور جادوگر جو کسی بدنیتی اور ضد سے نہیں آئے ہوئے تھے بلکہ محض اپنی لیاقت پر نازاں تھے جب انہوں نے حضرت موسیٰ کا اژدھا دیکھا اور باقاعدہ فن مسمریزم کے سمجھ گئے کہ یہ کام جادو سے نہیں ہوسکتا۔ بلکہ محض تائید ایزدی سے ہے تو اوندھے سجدے میں گر پڑے اور اپنے ایمان کا اظہار کرنے کو بولے ہم اپنے پروردگار پر جو موسیٰ اور ہارون کا پروردگار ہے سچے دل سے ایمان لائے ہیں فرعون نے جب سنا کہ جادوگر جن کو مقابلہ کے لئے ہم نے بلایا تھا وہ تو موسیٰ کے ساتھ مل گئے اور اس کو مان گئے اس سے تو عام بغاوت کا اندیشہ ہے اس لئے بغرض دھمکی دینے کے بولا یعنی ان کو کہلا بھیجا کہ تم میرے اذن دینے سے پہلے ہی اس پر ایمان لے آئے۔ یقینی بات اب معلوم ہوئی ہے کہ یہ تمہارا سب کا فریب ہے جو تم نے اتفاق کر کے اس شہر میں چلایا ہے کہ شہر کے اصل باشندوں اور مالکوں کو اس سے نکال دو اور خود مالک بن جائو۔ پس تم اس کا نتیجہ ابھی جان لو گے کہ پہلے تو میں تمہارے ہاتھ اور پائوں الٹے سیدھے کٹوا دوں گا پھر بعد اس تکلیف کے تم سب کو سولی پر لٹکائوں گا۔ جادوگر یہ دھمکی سن کر بڑی متانت اور استقلال سے بولے کہ جو کچھ تو کرنا چاہے کرلے ہم تو اپنے پروردگار کی طرف لوٹنے والے ہیں آخر ایک روز تو مرنا ہے بہتر ہے کہ اس کی راہ میں ہی مریں۔ اور تو ہم میں صرف اتنی ہی بات بڑی عبی دار پاتا ہے کہ ہم اپنے پروردگار کے نشانوں پر جب ہم کو موسیٰ کی معرفت ملے ہم ایمان لے آئے سو تو پڑا برا مان ہمیں تیری کیا خوشامد ماری جاتی ہے البتہ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ ہمارے مولا ! فرعون کی تکلیفوں پر ہم کو صبر عنایت کیجئے ان تکلیفوں میں کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم تیری طرف سے پھرجائیں بلکہ تو ہم کو اپنی تابعداری میں ہی ماریو۔ خیر مختصر یہ کہ فرعون نے ان کو مروا دیا اور مثل مشہور ” نزلہ بر عضو ضعیف می افتد“ کی پوری تصدیق کی تو اس کی قوم کے سرگروہوں یعنی ممبران کونسل نے کہا کیا حضور ان غریبوں کو مروا کر موسیٰ اور اس کی قوم کو چھوڑ دیں گے کہ ملک میں کھلے جی سے فساد پھیلائیں اور حضور کو اور حضور کے مقرر کردہ چھوٹے چھوٹے معبودوں کو ترک کردیں۔ ) فرعون نے اپنی شکل کے بت لوگوں میں تقسیم کئے ہوئے تھے ان کو چھوٹے معبود کہتا اور آپ ربکم الاعلی کہلاتا۔ فرعون کی نسبت اگر یہ یقین کیا جائے کہ جو کچھ وہ لوگوں سے منوانا چاہتا تھا۔ واقعی اس کا خیال بھی ایسا ہی تھا تو ہندوئوں کے جین مت والوں کے قریب قریب اس کا خیال ہوگا جو کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایک عہدہ ہے جس پر روحیں حسب اعمال پہنچ کر انتظام دنیا کرلیتی ہیں۔ اس مذہب کے ایک پنڈت سے راقم کی گفتگو ایک دفعہ ہوئی تھی۔ پنڈت جی تھے تو بڑے وِدّ وان مگر ” دروغ را فروغ نباشد“ آخر مغلوب ہوئے۔ ١٢ منہ ( اس سے تو انتظام میں سخت خلل کا اندیشہ ہے پس مناسب ہے کہ حضور اس طرف بھی توجہ فرماویں۔ یہ سن کر فرعون نے کہا ٹھیک بات ہے۔ گورنمنٹ ان سے بے فکر نہیں۔ ہم نے ان کا انتظام یہ سوچا ہے کہ ان کے لڑکوں کو مروا ڈالیں گے اور لڑکیوں کو خدمت کے لیے زندہ رہنے دیں گے۔ اور اگر چون و چرا کریں گے تو ہم ان پر ہر طرح سے غالب ہیں سسرے جائیں گے کہاں؟ یہ سن کر بنی اسرائیل تو لگے کانپنے اور موسیٰ (علیہ السلام) نے بغرض تسلی ان سے کہا بھائیو گھبرائو نہیں اللہ تعالیٰ سے مدد چاہو اور صبر کرو زمین اللہ تعالیٰ کی ملک ہے اپنے بندوں میں سے جسے چاہے عنایت کرتا ہے اور یقین جانو کہ انجام بخیر ہمیشہ پرہیزگاروں ہی کا ہوتا ہے۔ بنی اسرائیل نے کہا اے موسیٰ! تیرے آنے سے پہلے بھی ہم کو ایذائیں پہنچتی رہیں اور تیرے آنے سے بعد بھی وہی حال رہا۔ حضرت موسیٰ نے کہا بیشک تم سچ کہتے ہو آخر پر ایک چیز کی اللہ تعالیٰ کے ہاں انتہا ہے۔ اب اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ تمہارے دشمن کو ضرور ہلاک کرے گا۔ اور تم کو زمین میں بادشاہ بنا دے گا۔ پھر تمہارے کاموں کو بھی دیکھے گا۔ جب تک درست رہو گے ترقی اور بہبودگی میں رہو گے اور جب بگڑو گے اپنا ہی کچھ کھوئو گے چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ ہم نے فرعون کو ہلاک کیا اور فرعون کی قوم کو خشک سالی اور پھلوں کی کمی کے عذاب میں مبتلا کیا۔ تاکہ وہ نصیحت پاویں۔ پھر بھی بدمعاش ایسے شریر تھے کہ جب کوئی آسائش پہنچتی تو کہتے یہ ہمارا حق ہے اور اگر کوئی تکلیف پہنیت تو حضرت موسیٰ اور اس کے ساتھیوں کی نحوست سمجھتے اور کہتے کہ جب سے یہ منحوس نکلے ہیں ایسی ایسی آفتیں آنے لگی ہیں۔ وہ تو اس بات کو نہ جانتے تھے۔ مگر تم سن رکھو کہ دراصل ان کی شامت اعمال اللہ تعالیٰ کے ہاں سے تھی لیکن بہت سے ان میں سے نہیں جانتے تھے کہ یہ غضب الٰہی ہے۔ یا کیا اور صاف مقابلہ میں کھلے منہ کہتے تھے کہ کوئی بھی نشان تو ہم کو دکھا کہ جس کے ذریعہ تو ہم پر جادو کرے اور پھسلانا چاہے ہم تجھے نہ مانیں گے اور کبھی بھی تیری اطاعت نہ کریں گے پھر ہم نے ان پر یعنی فرعونیوں پر طوفان بھیجا اور ٹڈی دل اور جوئیں اور مینڈک اور خون وغیرہ بلائیں بھیجیں جو کھلے کھلے نشان تھے پھر بھی وہ لوگ متکبر اور مجرم ہی رہے اولوں کی بارش سے ان کے تمام ملک کو تباہ کیا۔ پھر بھی باز نہ آئے مینڈک بھیج دئیے تب بھی نہ مانے جوئیں کثرت سے ان کے بدنوں میں پیدا کردیں۔ ٹڈی دل بھیج دیا جو تمام ان کے کھیتوں کو برباد کر گیا۔ غرض مختلف قسم کے عذاب نازل کئے ) اس زمانہ میں بھی اس عذاب کی مثال پیدا ہوگئی ہے۔ اخباروں میں یہ خبر گشت کر رہی ہے : ” ایک مضمون نگار لکھتا ہے کہ میں نے ایک موقع پر دو سیاحوں کو دیکھا کہ ان کے لبادوں میں بہت چھوٹے چھوٹے مینڈک لپٹے ہیں مسافر سر سے پائوں تک بھیگ گئے تھے۔ میرے استفسار پر کہا ایسی جگہ سے آرہے ہیں جہاں سخت طوفان آیا۔ بارش ہوئی اور ساتھ ہی بے شمار مینڈک برسے۔ یہ واقعہ فرانس کے شہر طولون کا ہے۔ مضمون نگار لکھتا ہے کہ میں ان مسافروں سے رخصت ہو کر چند ساعتوں کے بعد ایسے مقام پر پہنچا۔ جہاں مینڈکوں سے زمین ڈھکی ہوئی تھی جابجا مینڈک گھوڑوں کے سموں کے پائوں اور گاڑیوں کے پہیوں سے کچلے پڑے تھے۔“ (اخبار زمیندار لاہور پنجاب۔ سنڈے ایڈیشن۔ مورخہ ٩ اکتوبر ١٩٢٧ئ) ممکن ہے اسی طرح فرعونیوں پر مینڈک پڑے ہوں۔ جن سے وہ تکلیف میں مبتلا ہوئے ہوں۔ ٹڈی دل بھی کہیں نہ کہیں آتا رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان بلائوں سے محفوظ رکھے۔ (منہ) ( وقت پر عاجز ہوتے اور جب کبھی کوئی عذاب ان پر نازل ہوتا تو فریاد کرتے ہوئے کہتے اے موسیٰ چونکہ تجھ سے اللہ تعالیٰ نے قبولیت کا وعدہ کیا ہوا ہے ہمارے لئے اپنے پروردگار سے دعا مانگ۔ اگر تو ہم سے یہ عذاب دور کرا دے گا تو ہم تیری بات مان لیں گے۔ اور بنی اسرائیل کو تیرے ساتھ بھیج دیں گے۔ غرض جس طرح ہو ہمارے حال پر مہربانی کر۔ پھر جب ہم عذاب کو ایک مدۃ تک ہٹا دیتے جو ہمارے علم میں مقرر ہوتی تو وہ لوگ اس مدۃ کو پہنچتے ہی فوراً بد عہدی کرتے اور اسی طرح بد اطواری میں پھنس جاتے جیسے پہلے ہوتے۔ پھر آخر ہم نے ان سے ان گستاخیوں کا بدلہ لیا پس ہم نے دریا کے اندر پانی میں ان کو غرق کیا۔ کیونکہ وہ ہمارے نشانوں کی تکذیب کرتے تھے اور ان کی تکذیب کی پاداش سے غافل تھے اور جس قوم کو طرح طرح کی تدبیروں سے ضعیف اور کمزور کیا جاتا تھا ہم نے اسے بڑی بابرکت زمین کنعان وغیرہ کے مشرق مغرب پورب پچھم کا مالک بنا دیا اور چونکہ بنی اسرائیل نے تکلیفوں پر صبر کیا تھا اللہ تعالیٰ کے نیک حکم یعنی عمدہ عمدہ وعدے ان کے حق میں پورے ہوئے اور جو کچھ فرعون اور اس کی قوم تجویزیں کیا کرتے اور عالیشان عمارتیں بناتے تھے ہم نے سب برباد کردیا اور بنی اسرائیل کو ہم نے دریا سے عبور کرایا تو وہ ایک قوم کے پاس سے گذرے جو اپنے بتوں پر ہندوستان کے ہندوئوں کی طرح ڈیرے ڈال کر بیٹھا کرتے تھے اور اپنی دعائیں اور منتیں ان سے مانگا کرتے تھے ان کو دیکھ کر بنی اسرائیل بولے : اے موسیٰ! جیسے ان کے پتھر اور پیتل کانچ کے بڑے بڑے خوبصورت معبود ہیں ہمیں بھی ایک معبود بنا دے ہم بھی اس کی پوجا پاٹھہ کیا کریں گے۔ حضرت موسیٰ نے کہا تم بے سمجھ لوگ ہو۔ جو یہ بھی نہیں سمجھتے کہ اللہ تعالیٰ بنائے سے نہیں بنتا۔ اسی خرابی کے دفع کرنے کو تو اللہ تعالیٰ اپنے رسول بھیجا کرتا ہے پس تم یقینا سمجھو کہ جس دین پر یہ ہیں یقینا وہ برباد اور تباہ ہونے والا ہے اور جو یہ کرتے ہیں سب باطل اور فریب ہے جس کا کوئی نتیجہ نیک نہیں حضرت موسیٰ نے یہ بھی کہا کیا میں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اور معبود تمہارے لئے تلاش کروں حالانکہ اس نے تم کو تمام جہان کے لوگوں پر برتری دی ہے تم کو خاندان ابراہیمی اور اسرائیلی سے پیدا کیا پھر کیا تم کو شرم نہیں آتی کہ مجھ سے ایسی درخواست کرتے ہو جو اللہ تعالیٰ کی شان کے صریح نقیض ہے اور سنو ! اللہ تعالیٰ تم کو فرماتا ہے کہ وہ وقت بھی یاد کرو جب ہم نے تم کو فرعون کی قوم سے نجات دی جو تم کو بڑی تکلیف پہنچاتے تھے تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے اور تمہاری بیٹیوں کو بغرض خدمت زندہ رکھتے تھے اور اگر سوچو تو اس نجات میں تم پر اللہ تعالیٰ کی بڑی مہربانی ہے