قُلْ إِن كَانَتْ لَكُمُ الدَّارُ الْآخِرَةُ عِندَ اللَّهِ خَالِصَةً مِّن دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ
کہہ دے اگر آخرت کا گھر اللہ کے ہاں سب لوگوں کو چھوڑ کر خاص تمھارے ہی لیے ہے تو موت کی آرزو کرو، اگر تم سچے ہو۔
(94۔96)۔ تو اے نبی ! کہ کہ اگر سب لوگوں سے علیحدہ تمہارے ہی لئے اللہ کے ہاں نجات اخروی ہے اور کسی کو اس میں شرکت نہیں اور تم کو اس کے حاصل ہونے میں صرف موت کی دیر ہے مرتے ہی سرگباشی اور جنتی ہوجاؤ گے تو پس تم اللہ تعالیٰ سے اپنے لیے موت مانگو۔ تاکہ مرتے ہی حقیقی عیش میں جا بسو اور ناحق تکلیف دنیاوی میں کیوں پھنس رہو۔ اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو تو ضرور ایساہی کرو اگر آرزو موت کی نہ کریں تو ثابت ہوجائے گا کہ ان کو مذہب سے کوئی لگائو نہیں صرف اپنی خواہش نفسانی کے پیچھے چلتے ہیں۔ اور ہم ابھی سے کہے دیتے ہیں کہ اپنے کیے ہوئے بد اعمالی کہ وجہ سے جن کی سزاکا بھگتنا ان کو بھی یقینی ہے ہرگز کبھی موت کی خواہش نہ کریں گے باوجود اس بد اعمالی اور جسارت کے دعویٰ نجات کرنا کیسا ظلم ہے پھر کیوں نہ ان کو سزا ملے حالانکہ ان کے ظلم پر ظلم بڑھتے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ظالموں کو خوب جانتا ہے کوئی اس سے چھپا نہیں بھلا یہ موت مانگیں گے ؟ یہ تو ایسے حریص ہیں اگر تم تمام جہان بھی تلاش کرو تو سب لوگوں سے زیادہ زندگی کا خواہش مند انہی لوگوں کو پائو گے حتیٰ کہ مشرکوں سے بھی زیادہ ان کی خواہش کا اندازہ اسی سے کرلو ان میں ہر ایک یہی چاہتا ہے کہ ہزار برس کی عمر ملے حالانکہ عمر کی زیادتی ان کو کچھ بھی عذاب سے دور نہیں کرسکے گی۔ اس لئے کہ اللہ ان کے اعمال دیکھتا ہے جس قدر عمر دراز ہو کر سر کشی کریں گے سب کی سزا دیگا شان نزول : (تو کہہ دے) یہودی کہا کرتے تھے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے پیارے بندے ہیں اور بزرگوں کی اولاد ہیں۔ ہمیں عذاب اخروی ہرگز نہ ہوگا۔ اگر ہم میں سے کسی کو بد اعمالی کی وجہ سے ہوا بھی تو صرف چند روز ہوگا۔ پھر ہم ہمیشہ کو نجات پاویں گے۔ اور کوئی سوائے ہمارے نجات نہ پاوے گا۔ ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی مگر انہوں نے موت کی خواہش نہیں کی۔ حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ اگر یہ لوگ موت چاہتے تو اسی وقت اپنا ہی تھوک نگلنے سے مر جاتے۔ اور کوئی یہودی دنیا میں زندہ نہ رہتا۔ (معالم)