ثُمَّ لَآتِيَنَّهُم مِّن بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمَانِهِمْ وَعَن شَمَائِلِهِمْ ۖ وَلَا تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شَاكِرِينَ
پھر میں ہر صورت ان کے آگے سے اور ان کے پیچھے سے اور ان کی دائیں طرفوں سے اور ان کی بائیں طرفوں سے آؤں گا اور تو ان کے اکثر کو شکر کرنے والے نہیں پائے گا۔
﴿ثُمَّ لَآتِيَنَّهُم مِّن بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمَانِهِمْ وَعَن شَمَائِلِهِمْ﴾’ د پھر میں ان پر آؤں گا ان کے آگے سے اور پیچھے سے اور دائیں سے اور بائیں سے“ یعنی میں تمام جہات اور تمام اطرفا سے ان پر حملہ آور ہوں گا اور ہر طریقے سے جہاں کہیں سے بھی مجھے ان سے اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیابی حاصل ہوگی۔ جب شیطان خبیث کو معلوم ہوگیا کہ اولاد آدم بہت کمزور ہے، ان میں سے بہت سے لوگوں پر بسا اوقات غفلت غالب آجاتی ہے، تو اس نے ان کو گمراہ کرنے کا حتمی فیصلہ کرلیا اور اس کا گمان سچ نکلا، اس لئے کہنے لگا ﴿وَلَا تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شَاكِرِينَ ﴾ ” اور تو ان میں اکثر کو شکر گزار نہ پائے گا“ کیونکہ شکر گزاری بھی صراط مستقیم پر چلنے ہی کا حصہ ہے اور شیطان ان کو اس راستے پر گامزن ہونے سے روکتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ إِنَّمَا يَدْعُو حِزْبَهُ لِيَكُونُوا مِنْ أَصْحَابِ السَّعِيرِ ﴾(فاطر :35؍6) ” وہ تو اپنے گروہ کو اس لئے بلاتا ہے تاکہ وہ جہنم والے بن جائیں۔“ شیطان نے جو کچھ کہا اور اپنے فعل کے عزم کا اظہار کیا، اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس پر محض اس لئے متنبہ فرمایا ہے، تاکہ ہم اپنے دشمن سے بچتے رہیں اور اس کے مقابلے کے لئے پوری طرح تیار رہیں اور ان راستوں اور داخل ہونے کے ان مقامات کی معرفت حاصل کر کے، جہاں سے وہ حملہ آور ہوتا ہے، اپنی حفاظت کرسکیں۔ پس یہ خبر دے کر اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی نعمت کامل سے نوازا ہے۔