وَعَلَى الَّذِينَ هَادُوا حَرَّمْنَا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ ۖ وَمِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ شُحُومَهُمَا إِلَّا مَا حَمَلَتْ ظُهُورُهُمَا أَوِ الْحَوَايَا أَوْ مَا اخْتَلَطَ بِعَظْمٍ ۚ ذَٰلِكَ جَزَيْنَاهُم بِبَغْيِهِمْ ۖ وَإِنَّا لَصَادِقُونَ
اور ان لوگوں پر جو یہودی بن گئے، ہم نے ہر ناخن والا جانور حرام کردیا اور گائیوں اور بکریوں میں سے ہم نے ان پر دونوں کی چربیاں حرام کردیں، سوائے اس کے جو ان کی پشتیں یا انتڑیاں اٹھائے ہوئے ہوں، یا جو کسی ہڈی کے ساتھ ملی ہو۔ یہ ہم نے انھیں ان کی سرکشی کی جزا دی اور بلاشبہ ہم یقیناً سچے ہیں۔
اہل علم نے اس آیت کریمہ میں مذکورہ محرمات پر حصر کے بارے میں مختلف رائے کا اظہار کیا ہے۔ کیونکہ اس کے علاوہ بھی محرمات موجود ہیں جن کا یہاں ذکر نہیں کیا گیا مثلاً (کچلیوں والے) درندے اور پنجے سے شکار کرنے والے تمام پرندے، وغیرہ چنانچہ بعض اہل علم کہتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ ان زائد چیزوں کی تحریم سے قبل نازل ہوئی ہے۔ اس لئے یہ حصر مذکور ان اشیاء میں تحریم متاخر کے منافی نہیں ہے۔ کیونکہ یہ چیزیں اس وقت اس زمرے میں نہیں آتی تھیں جس وقت مذکورہ حرمت کی وحی آپ کی طرف بھیجی گئی تھی۔ بعض علماء کہتے ہیں کہ یہ آیت مبارکہ تمام محرمات کی تحریم پر مشتمل ہے۔ البتہ بعض کی تحریم کی تصریح کردی گئی ہے اور بعض کی تحریم اس کے معنی اور حرمت کی عمومی علت سے اخذ کی گئی ہے۔ کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آیت کریمہ کے اواخر میں مردار، خون اور خنزیر کے گوشت کی تحریم کی علت بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿فَإِنَّهُ رِجْسٌ ﴾ ” وہ ناپاک ہے“ اور یہ ایسا وصف ہے جو تمام محرمات کو شامل ہے۔ کیونکہ تمام محرمات (رجس) یعنی گندگی اور ناپاک ہیں اور یہ محرمات سب سے زیادہ ناپاک ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو گندگی اور ناپاکی سے بچانے کے لئے ان کو حرام قرار دیا ہے۔ ناپاک اور محرمات کی تفاصیل سنت نبوی سے اخذ کی جاتی ہیں کیونکہ سنت قرآن کی تفسیر کر کے اس کے مقاصد کو بیان کرتی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے کھانے والے کے لئے صرف اسی چیز کو حرام قرار دیا جس کا اس نے ذکر فرمایا اور تحریم کا مصدر صرف اللہ تعالیٰ کی شریعت ہے، تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ مشرکین اپنے آپ پر اللہ تعالیٰ کے رزق کو حرام قرار دے کر اللہ تعالیٰ پر بہتان طرازی اور اس کی طرف ایسی بات منسوب کرتے ہیں جو اس نے نہیں کہی۔ اگر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں خنزیر کی حرمت کا ذکر نہ کیا ہوتا تو اس کا قوی احتمال تھا کہ آیت کریمہ کا سیاق مشرکین کے مذکورہ بالا ان اقوال کی تردید میں ہے جس میں انہوں نے ان چیزوں کو حرام ٹھہرایا ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے حلال قرار دیا اور اپنے نفس کی فریب دہی کے مطابق اس میں مشغول ہوگئے اور یہ خاص طور پر چوپایوں کے بارے میں ہے اور ان چوپایوں میں کچھ بھی حرام نہیں سوائے ان اشیا کے جن کا ذکر آیت کریمہ میں کردیا گیا ہے مردار اور غیر اللہ کے نام پر پکاری گئی چیز اور ان کے سوا دیگر تمام اشیاء حلال ہیں۔ اس احتمال کی بنا پر، خنزیر کا یہاں ذکر شاید اس مناسبت سے کیا گیا ہو کہ بعض جہال خنزیر کو (بَهِيمَةُ الْأَنْعَامِ) میں داخل کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خنزیر بھیڑ بکری کی نوع میں سے ہے۔ اس قسم کا تو ہم نصاریٰ میں سے جہلاء اور ان جیسے بعض دیگر لوگوں کو لاحق ہوا ہے۔ وہ خنزیر کو اسی طرح پالتے ہیں جیسے مویشیوں کو پالا جاتا ہے اور اس کو حلال سمجھتے ہیں اور وہ اس کے اور دیگر مویشیوں کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے۔ پس یہ تمام محرمات جو اس امت پر حرام قرار دی گئی ہیں یہ حفاظت اور تنزیہہ کی خاطر ہے۔ اور وہ چیزیں جو اہل کتاب پر حرام قرار دی گئیں ان میں سے بعض پاک اور طیب تھیں مگر سزا کے طور پر ان چیزوں کو ان پر حرام کردیا گیا۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَعَلَى الَّذِينَ هَادُوا حَرَّمْنَا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ ۖ ﴾” اور یہودیوں پر ہم نے ہر ناخن والے جانور کو حرام کردیا تھا“ مثلاً اونٹ اور اس قسم کے دیگر جانور ﴿وَمِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ ﴾” اور گائے اور بکری میں سے حرام کئے تھے“ ان کے بعض اجزاء﴿شُحُومَهُمَا ﴾ اور وہ تھی ان کی چربی اور ہر قسم کی چربی ان پر حرام نہ تھی بلکہ صرف دنبے کی چکتی اور اوجھڑی اور آنتوں کی باریک چربی حرام تھی۔ اس لئے اس میں سے حلال چربی کو مستثنیٰ قرار دیتے ہوئے فرمایا : ﴿ إِلَّا مَا حَمَلَتْ ظُهُورُهُمَا أَوِ الْحَوَايَا ﴾” مگر وہ چربی جو پشت پر اور انتڑیوں کے ساتھ لگی ہوتی ہے“ ﴿أَوْ مَا اخْتَلَطَ بِعَظْمٍ ﴾ ” یا وہ چربی جو ہڈی کے ساتھ پیوست ہوتی ہے۔ “ ﴿ذَٰلِكَ ﴾” یہ“ یہودیوں پر نافذ کی گئی یہ تحریم ﴿جَزَيْنَاهُم بِبَغْيِهِمْ ﴾” ایک سزا تھی جو ہم نے ان کو دی تھی ان کی شرارت پر“ یعنی اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے حقوق کے بارے میں ان کے ظلم و تعددی کی جزا تھی، پس اللہ تعالیٰ نے سزا کے طور پر ان کے لئے یہ چیزیں حرام کردی تھیں ﴿وَإِنَّا لَصَادِقُونَ ﴾ ” اور ہم سچ کہتے ہیں“ یعنی ہم جو کچھ کہتے ہیں جو کرتے ہیں اور جو فیصلہ کرتے ہیں، سب صدق پر مبنی ہوتا ہے اور اہل ایقان کے نزدیک اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر سچی بات کہنے والا اور سب سے اچھے فیصلے کرنے والا کون ہے؟