سورة الانعام - آیت 143

ثَمَانِيَةَ أَزْوَاجٍ ۖ مِّنَ الضَّأْنِ اثْنَيْنِ وَمِنَ الْمَعْزِ اثْنَيْنِ ۗ قُلْ آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنثَيَيْنِ أَمَّا اشْتَمَلَتْ عَلَيْهِ أَرْحَامُ الْأُنثَيَيْنِ ۖ نَبِّئُونِي بِعِلْمٍ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

آٹھ قسمیں، بھیڑ میں سے دو اور بکری میں سے دو۔ کہہ کیا اس نے دونوں نر حرام کیے یا دونوں مادہ؟ یا وہ (بچہ) جس پر دونوں ماداؤں کے رحم لپٹے ہوئے ہیں؟ مجھے کسی علم کے ساتھ بتاؤ، اگر تم سچے ہو۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

یہ چوپائے جن سے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے بندوں کو نوازا ہے اور ان سب کو حلال اور طیب قرار دیا ان کی تفصیل یوں بیان کی ہے ﴿ثَمَانِيَةَ أَزْوَاجٍ ۖ مِّنَ الضَّأْنِ اثْنَيْنِ  ﴾ ” پیدا کئے آٹھ نر اور مادہ، بھیڑ میں سے دو“ یعنی نر اور مادہ ﴿ وَمِنَ الْمَعْزِ اثْنَيْنِ ﴾ ” اور دو (2) بکریوں میں سے۔“ یعنی اسی طرح بکریوں میں سے دو، نر اور مادہ یہ چار اصناف ان مویشیوں میں شامل ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے حلال قرار دیا۔ ان میں کسی قسم کا کوئی فرق نہیں۔ ان تکلف کرنے والوں سے کہہ دیجیے ! جو ان میں سے کسی چیز کو حرام ٹھہراتے ہیں یا ان میں سے کچھ اصناف کو عورتوں پر حرام ٹھہراتے ہیں۔ جس کو انہوں نے مباح اور جس کو انہوں نے حرام ٹھہرایا، ان دونوں کے درمیان فرق کے عدم وجود کو ان پر لازم کرتے ہوئے ان سے کہئے﴿   آلذَّكَرَيْنِ ﴾’’کیا دونوں (کے) نروں کو‘‘ یعنی بھیڑ اور بکری میں سے ان کے نر کو ﴿حَرَّمَ﴾’’(اللہ تعالیٰ نے) حرام ٹھہرایا؟“ پس تم اس بات کے قائل نہیں ہو﴿أَمِ الْأُنثَيَيْنِ ﴾ ” یا دونوں (کے) مادہ کو۔“ یعنی مادہ بھیڑ اور بکری کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے؟ تم اس بات کے بھی قائل نہیں ہو۔ تم دونوں اصناف میں سے خالص نرکی تحریم کے قائل ہو نہ خالص مادہ کی۔ باقی رہی یہ بات کہ اگر مادہ کا رحم نر اور مادہ بچے پر مشتمل ہو یا نر اور مادہ کے بارے میں علم نہ ہو۔ پس فرمایا ﴿أَمَّا اشْتَمَلَتْ عَلَيْهِ أَرْحَامُ الْأُنثَيَيْنِ ﴾ ” یا جو بچہ دونوں ماداؤں کے پیٹوں میں ہو۔“ یعنی کیا تم نر اور مادہ کے فرق کے بغیر اسے حرام ٹھہراتے ہو جو بھیڑ، یا بکری کے رحم میں ہے؟ تم اس قول کے بھی قائل نہیں ہو۔ جب تم ان تین اقوال میں کسی ایک قول کے بھی قائل نہیں جو ممکنہ تمام صورتوں پر محیط ہیں۔ تو پھر تم کون سے مذہب پر عامل ہو ﴿نَبِّئُونِي بِعِلْمٍ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ﴾ ” اگر سچے ہو تو مجھے سند سے بتاؤ۔“ یعنی اگر تم اپنے قول اور دعوے میں سچے ہو تو مجھے علمی دلیل سے آگاہ کرو اور یہ بدیہی طور پر معلوم ہے کہ وہ کوئی ایسا قول نہیں لا سکتے جسے عقل تسلیم کرلے، سوائے اس کے کہ مذکورہ تینوں باتوں میں سے کوئی ایک بات کہیں اور وہ ان میں سے کوئی بات نہیں کہتے۔ صرف یہ کہتے ہیں کہ بعض مویشی جن کے بارے میں انہوں نے اپنی طرف سے کچھ اصطلاحات گھڑ رکھی ہیں مردوں کی بجائے عورتوں پر حرام ہیں، یا وہ بعض اوقات و احوال میں حرام ہیں یا اس قسم کے دیگر اقوال، جن کے بارے میں بلاشک و شبہ ہمیں معلوم ہے کہ ان کا مصدر جہل مرکب، راہ راست سے منحرف عقل اور فاسد آراء و نظریات ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے قول پر کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی اور نہ ان کے پاس کوئی اور حجت و برہان ہے۔