سورة الانعام - آیت 121

وَلَا تَأْكُلُوا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَإِنَّهُ لَفِسْقٌ ۗ وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَىٰ أَوْلِيَائِهِمْ لِيُجَادِلُوكُمْ ۖ وَإِنْ أَطَعْتُمُوهُمْ إِنَّكُمْ لَمُشْرِكُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور اس میں سے مت کھاؤ جس پر اللہ کا نام نہیں لیا گیا اور بلاشبہ یہ یقیناً سرا سر نافرمانی ہے اور بے شک شیطان اپنے دوستوں کے دلوں میں ضرور باتیں ڈالتے ہیں، تاکہ وہ تم سے جھگڑا کریں اور اگر تم نے ان کا کہنا مان لیا تو بلاشبہ تم یقیناً مشرک ہو۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اس ممانعت میں وہ اشیا بھی داخل ہیں جن پر غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو مثلاً بتوں اور مشرکین کے معبودوں کے لئے ذبح کرنا۔ اور یہ ممانعت ﴿ أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّـهِ بِهِ ﴾ (المائدہ :5؍3) ” جس چیز پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے۔“ کی نص کے ذریعے سے خصوصی طور پر حرام ہے۔ اس تحریم میں وہ جانور بھی شامل ہیں جو اللہ کے لئے ذبح کئے گئے ہوں مگر ذبح کرتے وقت اللہ تعالیٰ کا نام نہ لیا گیا ہو مثلاً قربانی اور ہدی کے جانور کا ذبیحہ یا گوشت کھانے کیلئے جانور ذبح کرنا۔ بہت سے علماء کے نزدیک یہ جانور اس وقت حرام ہوگا جب جان بوجھ کر اللہ تعالیٰ کا نام نہ لیا گیا ہو اور اس عموم سے دوسری نصوص کی بنا پر دفع حرج کی خاطر بھول کر ذبح کرتے وقت اللہ تعالیٰ کا نام چھوڑنے والا مستثنیٰ ہے۔ اس تحریم میں وہ جانور بھی شامل ہے جو بغیر ذبح کئے مر جاتا ہے، کیونکہ اس پر بھی اللہ تعالیٰ کا نام نہیں لیا گیا ہوتا اور اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر یہ نص بیان فرمائی ہے ﴿حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ  ﴾ (المائدہ :5؍3) ” تم پر مردہ جانور حرام کردیا گیا ہے“ اور شاید اس فرمان کے نازل ہونے کی وجہ بھی یہی ہے ﴿وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَىٰ أَوْلِيَائِهِمْ لِيُجَادِلُوكُمْ ﴾ ” اور شیطان دل میں ڈالتے ہیں اپنے رفیقوں کے، تاکہ وہ تم سے جھگڑا کریں“ یعنی وہ تمہارے ساتھ بغیر کسی علم کے جھگڑا کریں گے، کیونکہ مشرکین نے جب یہ سنا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مردار کو حرام قرار دے دیا ہے اور جس کو ذبح کیا گیا ہو اس کو حلال قرار دیا ہے اور ان کا مسلک یہ تھا کہ وہ مردار کے کھانے کو حلال سمجھتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے عناد کی بنا پر بغیر کسی دلیل اور برہان کے کہا ” تم اس جانور کو تو کھا لیتے ہو جسے تم نے خود قتل کیا اور وہ جانور نہیں کھاتے جسے اللہ تعالیٰ نے قتل کیا ہے“ اور اس سے مراد وہ مردار لیتے۔ یہ انتہائی فاسد رائے ہے جو کسی دلیل اور حجت کی بنیاد پر نہیں بلکہ ان کی کج بحثی کی بنیاد پر قائم کی گئی ہے۔ اگر حق ان کی آراء کا تابع ہوتا تو زمین و آسمان اور ان کے رہنے والے سب فساد کا شکار ہوجاتے۔ اس لئے ہلاکت ہے اس شخص کے لئے جو اللہ تعالیٰ کی شریعت اور اس کے احکام پر، جو کہ مصالح عامہ اور منافع خاصہ کے موافق ہیں، اس عقل کو مقدم رکھتا ہے اور یہ ان سے کچھ بعید بھی نہیں کیونکہ یہ آراء ان سے اس بنا پر صادر ہوئی ہیں کہ ان کے سرپرست شیاطین ان کو باطل آراء الہام کرتے ہیں جو یہ چاہتے ہیں کہ مخلوق بھٹک کر اپنے دین سے دور ہوجائے اور وہ ان کو دعوت دیتے رہتے ہیں تاکہ وہ جنمی بن جائیں ﴿وَإِنْ أَطَعْتُمُوهُمْ ﴾ ” اور اگر تم نے ان کی اطاعت کی۔“ یعنی اگر تم نے ان کے شرک، ان کے حرام کو حلال ٹھہرانے اور حلال کو حرام قرار دینے میں ان کی بات مانی ﴿إِنَّكُمْ لَمُشْرِكُونَ  ﴾ ” تو تم بھی مشرک ہوجاؤ گے“ کیونکہ تم نے اللہ کو چھوڑ کر ان کو اپنا سرپرست اور والی بنا لیا ہے اور وہ جس بنیاد پر مسلمانوں سے علیحدہ ہوئے تم نے بھی اس کی موافقت کی اس لئے تمہارا راستہ اور ان کا راستہ ایک ہے۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ وہ کشف والہا مات جو دل میں القاء ہوتے ہیں اور یہ کشف و الہام خاص طور پر صوفیہ کے ہاں بہت کثرت سے واقع ہوتے ہیں۔۔۔ اپنے مجرد الہام ہونے کی بنا پر اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ حق ہیں اور ان کی اس قوت تک تصدیق نہیں کی جاسکتی جب تک کہ ان کو قرآن و سنت پر پیش نہ کیا جائے۔ اگر قرآن و سنت ان کو قبول کرنے کی شہادت دیں تو ان کو قبول کرلیا جائے۔ اگر یہ کشف و الہام قرآن و سنت کے منافی ہوں تو ان کو رد کردیا جائے۔ اگر ان کا حق یا باطل ہونا واضح نہ ہو تو اس میں توقف کیا جائے، اس کی تصدیق کی جائے نہ تکذیب۔ کیونکہ وحی اور الہام شیطان کی طرف سے بھی ہوتا ہے اس لئے الہام رحمانی اور الہام شیطانی کے مابین فرق اور امتیاز کرنا نہایت ضروری ہے کیونکہ دونوں قسم کے الہامات کے درمیان عدم تفریق سے بندہ جن غلطیوں اور گمراہیوں کا شکار ہوتا ہے ان کو اللہ کے سوا کوئی شمار نہیں کرسکتا۔