قَدْ جَاءَكُم بَصَائِرُ مِن رَّبِّكُمْ ۖ فَمَنْ أَبْصَرَ فَلِنَفْسِهِ ۖ وَمَنْ عَمِيَ فَعَلَيْهَا ۚ وَمَا أَنَا عَلَيْكُم بِحَفِيظٍ
بلا شبہ تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے کئی نشانیاں آچکیں، پھر جس نے دیکھ لیا تو اس کی جان کے لیے ہے اور جو اندھا رہا تو اسی پر ہے اور میں تم پر کوئی محافظ نہیں۔
جب اللہ تعالیٰ نے اپنی آیات اور واضح دلائل کو بیان کردیا جو تمام مطالب و مقاصد میں حق پر دلالت کرتی ہیں تو ان کو آگاہ کر کے خبردار کردیا کہ ان کی ہدایت اور گمراہی خود ان کی ذات کے لئے ہے۔ پس فرمایا : ﴿قَدْ جَاءَكُم بَصَائِرُ مِن رَّبِّكُمْ ۖ﴾ ” تحقیق آچکیں تمہارے پاس نشانیاں تمہارے رب کی طرف سے“ یعنی تمہارے پاس ایسی آیات آگئی ہیں جو حق کو واضح کرتی ہیں۔ وہ قلب کے لئے حق کو ایسے واضح اور نمایاں کردیتی ہیں جیسے آنکھوں کے سامنے سورج، کیونکہ یہ آیات فصاحت لفظ، بیان و وضوح، معانی جلیلہ کے ساتھ مطابقت اور حقائق جمیلہ پر مشتمل ہیں۔ اس لئے کہ یہ اس رب کی طرف سے صادر ہوئی ہیں جو اپنی مختلف ظاہری اور باطنی نعمتوں کے ذریعے سے اپنی مخلوق کی تربیت کرتا ہے اور ان میں جلیل ترین نعمت تبیین آیات اور توضیح مشکلات ہے۔ ﴿فَمَنْ أَبْصَرَ﴾’’پس جس نے دیکھ لیا“ جو کوئی ان آیات کے ذریعے سے عبرت کے مواقع دیکھ لیتا ہے اور اس کے تقاضوں کے مطابق عمل کرتا ہے ﴿فَلِنَفْسِهِ﴾ ” تو یہ خود اس کی ذات کے لئے ہے“ کیونکہ اللہ تعالیٰ تو بے نیاز اور قابل تعریف ہے﴿ وَمَنْ عَمِيَ ﴾ ” اور جو اندھا رہا“ یعنی وہ دیکھتا تو ہے مگر بصیرت کے ساتھ غور و فکر نہیں کرتا، اسے زجر و توبیخ کی جاتی ہے مگر وہ اسے قبول نہیں کرتا، اس کے سامنے حق واضح کیا جاتا ہے مگر وہ اس کی اطاعت کرتا ہے نہ اس کے سامنے جھکتا ہے، پس اس کے اندھے پن کا نقصان اسی کے لئے ہے۔ ﴿وَمَا أَنَا ﴾یعنی اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کہہ دیجیے ” اور نہیں ہوں میں“﴿ عَلَيْكُم بِحَفِيظٍ﴾ ” تم پر نگہبان“ کہ میں تمہارے اعمال پر نظر رکھوں اور دائمی طور پر ان کی نگرانی کروں، میری ذمہ داری تو صرف پہنچا دینا ہے اور میں نے یہ ذمہ داری ادا کردی۔ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ مجھ پر نازل کیا تھا میں نے پہنچا دیا اور یہی میرا فرض ہے۔ اس کے علاوہ جو کچھ ہے وہ میرے فرائض میں شامل نہیں۔ [مؤلف رحمۃ اللہ علیہ نے آیت نمبر 104 کے بعد آیت نمبر 105 تا 107 کی تفسیر نہیں کی۔ از محقق]