وَذَرِ الَّذِينَ اتَّخَذُوا دِينَهُمْ لَعِبًا وَلَهْوًا وَغَرَّتْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا ۚ وَذَكِّرْ بِهِ أَن تُبْسَلَ نَفْسٌ بِمَا كَسَبَتْ لَيْسَ لَهَا مِن دُونِ اللَّهِ وَلِيٌّ وَلَا شَفِيعٌ وَإِن تَعْدِلْ كُلَّ عَدْلٍ لَّا يُؤْخَذْ مِنْهَا ۗ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِمَا كَسَبُوا ۖ لَهُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِيمٍ وَعَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْفُرُونَ
اور ان لوگوں کو چھوڑ دے جنھوں نے اپنے دین کو کھیل اور دل لگی بنا لیا اور انھیں دنیا کی زندگی نے دھوکا دیا اور اس کے ساتھ نصیحت کر کہ کہیں کوئی جان اس کے بدلے ہلاکت میں (نہ) ڈال دی جائے جو اس نے کمایا، اس کے لیے اللہ کے سوا نہ کوئی مددگار ہو اور نہ کوئی سفارش کرنے والا۔ اور اگر وہ فدیہ دے، ہر فدیہ، تو اس سے نہ لیا جائے، یہی لوگ ہیں جو ہلاکت کے سپرد کیے گئے، اس کے بدلے جو انھوں نے کمایا، ان کے لیے گرم پانی سے پینا اور درد ناک عذاب ہے، اس وجہ سے کہ وہ کفر کرتے تھے۔
بندوں سے جو چیز مطلوب ہے وہ یہ ہے کہ وہ دین کو اللہ کے لئے خالص کریں، یعنی اللہ وحدہ لاشریک کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں، اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے محبوب امور کے حصول میں مقدور بھر کوشش صرف کریں اور یہ چیز اس بات کو متضمن ہے کہ قلب اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر اور اس کی طرف متوجہ رہے، بندے کی کوشش انتہائی سنجیدہ اور نفع مند ہو نہ کہ غیر سنجیدہ اور یہ کوشش اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ہو، اس میں ریا اور شہرت کی خواہش کا شائبہ نہ ہو۔ یہی وہ حقیقی دین ہے جس کو دین کہا ہے۔ رہا وہ شخص جو اس زعم میں مبتلا ہے کہ وہ حق پر ہے اور وہ صاحب دین اور صاحب تقویٰ ہے اور حالت یہ ہے کہ اس نے دین کو لہو و لعب بنا رکھا ہے اور اس کا قلب اللہ تعالیٰ کی محبت اور معرفت سے خالی ہو کر لہو و لعب میں مستغرق ہوگیا اور ہر اس چیز میں مصروف ہوگیا جو اس کے لئے ضرر رساں ہے وہ اپنے بدن کے ساتھ لہو اور باطل میں مشغول ہے، کیونکہ عمل اور بھاگ دوڑ اگر غیر اللہ کے لئے ہو تو وہ لہو و لعب ہے۔۔۔ تو اس شخص کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ اسے چھوڑ دیا جائے، اس سے بچا جائے، اس سے دھوکہ نہ کھایا جائے اور اس کے احوال پر غور کیا جائے، اس کی کارستانیوں سے ہشیار رہے اور وہ تقرب الٰہی والے اعمال سے روکے تو اس کے دھوکہ میں نہ آئے۔ ﴿وَذَكِّرْ بِهِ﴾” اور اس کے ذریعے سے نصیحت کرتے رہیں۔“ یعنی قرآن کے ذریعے سے ان کو نصیحت کیجیے جو بندوں کے لئے نفع مند ہے۔ قرآن کے احکامات سنا کر، اس کی تفصیلات بیان کر کے، قرآن میں جو اچھے اوصاف مذکور ہیں ان کی تحسین کر کے اور وہ اوصاف جو بندوں کے لئے ضرر رساں ہیں ان سے ان کو منع کر کے، اس کی انواع کی تفصیل بیان کیجیے اور جو قبیح اوصاف بیان ہوئے ہیں، جن کا ترک کرنا ضروری ہے (ان سب کے ساتھ) ان کو نصیحت کیجیے۔ یہ سب کچھ اس وجہ سے ہے کہ کہیں نفس اپنے کسب کی وجہ سے ہلاکت میں نہ ڈال دیا جائے، یعنی بندے کے گناہوں میں گھس جانے، اللہ علام الغیوب کے سامنے جرأت کرنے اور گناہوں پر قائم رہنے سے پہلے اسے نصیحت کیجیے، تاکہ وہ باز آجائے اور اپنے فعل سے رک جائے۔ ﴿لَيْسَ لَهَا مِن دُونِ اللَّـهِ وَلِيٌّ وَلَا شَفِيعٌ﴾ ” نہیں ہوگا واسطے اس کے، اللہ کے سوا، کوئی دوست اور نہ کوئی سفارشی‘‘ یعنی نفس کو اس کے گناہوں کا احاطہ کرلینے سے پہلے نصیحت کرو کیونکہ اس کے بعد مخلوق میں سے کوئی بھی اس کے کام نہ آئے گا۔ نہ کوئی قریبی رشتہ دار اور نہ کوئی دوست، اللہ کے سوا اس کا کوئی ولی اور مددگار نہ ہوگا اور نہ اس کی کوئی سفارش کرنے والا ہوگا ﴿وَإِن تَعْدِلْ كُلَّ عَدْلٍ﴾ ” اگرچہ وہ ہر چیز معاوضے میں دینا چاہے۔“ یعنی اگر یہ نفس ہر قسم کا فدیہ دے خواہ وہ زمین بھر سونا کیوں نہ ہو ﴿ لَّا يُؤْخَذْ مِنْهَا﴾ ” وہ اس سے قبول نہ ہوگا۔“ یعنی اس سے یہ فدیہ قبول نہیں کیا جائے گا اور نہ یہ فدیہ کوئی فائدہ دے گا ﴿أُولَـٰئِكَ﴾ وہ لوگ جو مذکورہ اوصاف سے موصوف ہیں ﴿الَّذِينَ أُبْسِلُوا﴾ یعنی ان کو ہلاک کردیا گیا اور وہ ہر قسم کی بھلائی سے مایوس ہوگئے اور یہ ان کے اعمال کے سبب سے ہے ﴿لَهُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِيمٍ﴾” ان کا مشروب ابلتا ہوا گرم پانی ہوگا“ جو ان کے چہروں کو بھون دے گا اور ان کی انتڑیوں کو کاٹ ڈالے گا ﴿ وَعَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْفُرُونَ﴾” اور ان کے کفر کی پاداش میں ان کے لئے درد ناک عذاب ہے۔‘‘