قُل لَّا أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَائِنُ اللَّهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ لَكُمْ إِنِّي مَلَكٌ ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ ۚ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِيرُ ۚ أَفَلَا تَتَفَكَّرُونَ
کہہ دے میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ میں تم سے کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں، میں پیروی نہیں کرتا مگر اس کی جو میری طرف وحی کی جاتی ہے۔ کہہ کیا اندھا اور دیکھنے والا برابر ہوتے ہیں؟ تو کیا تم غور نہیں کرتے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ وہ معجزا کا مطالبہ کرنے والوں سے کہہ دیں جو آپ سے یہ کہتے ہیں کہ ” تو صرف اس لئے ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ہم تجھے بھی اللہ کے ساتھ الٰہ مان لیں“ ﴿لَّا أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَائِنُ اللَّـهِ ﴾” میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں“ یعنی اللہ تعالیٰ کے رزق اور رحمت کی کنجیاں ﴿ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ﴾” اور نہ میں غیب جانتا ہوں“ غیب کا علم تو تمام تر اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے جس کی صفت ہے :﴿مَّا يَفْتَحِ اللَّـهُ لِلنَّاسِ مِن رَّحْمَةٍ فَلَا مُمْسِكَ لَهَا ۖ وَمَا يُمْسِكْ فَلَا مُرْسِلَ لَهُ مِن بَعْدِهِ ۚ ﴾ (فاطر :35؍2) ” اللہ تعالیٰ لوگوں پر رحمت کا جو دروازہ کھول دے اسے کوئی بند کرنے والا نہیں اور جو دروازہ وہ بند کر دے تو اس کے بعد کوئی کھول نہیں سکتا۔“ یعنی وہ اکیلا ہی ہے جو غائب اور موجودہ کا علم رکھتا ہے ﴿فَلَا يُظْهِرُ عَلَىٰ غَيْبِهِ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَىٰ مِن رَّسُولٍ ﴾(الجن : 72؍ 26۔27) ” وہ کسی پر اپنے غیب کو ظاہر نہیں کرتا سوائے اس رسول کے جسے وہ پسند کرے۔ “ ﴿وَلَا أَقُولُ لَكُمْ إِنِّي مَلَكٌ﴾” اور میں تم سے نہیں کہتا کہ میں فرشتہ ہوں“ کہ میں اللہ تعالیٰ کے تصرفات کو نافذ کرنے والا ہوں، میں اپنے اس مرتبہ و مقام سے بڑھ کر کوئی دعویٰ نہیں کرتا جس پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے مجھے فائز کیا ہے۔ ﴿ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ ۚ﴾ ” میں تو صرف اس حکم پر چلتا ہوں جو مجھے آتا ہے۔“ یعنی یہ میرے معاملے کی غایت و انتہا ہے، میں وحی کے سوا کسی چیز کی پیروی نہیں کرتا، میں خود بھی اس پر عمل کرتا ہوں اور تمام مخلوق کو بھی اسی پر عمل کرنے کی دعوت دیتا ہوں۔ جب میں نے اپنا مرتبہ اور مقام پہچان لیا ہے تو تلاش کرنے والا میرے پاس کیا چیز تلاش کرتا ہے یا مجھ سے ایسی کس چیز کا مطالبہ کرتا ہے جس کا میں نے کبھی دعویٰ ہی نہیں کیا۔ کیا انسان پر اس کے سوا کوئی چیز لازم ہے جس کے وہ در پے ہے؟ جب میں تمہیں اس چیز کی طرف بلاتا ہوں جو میری طرف وحی کی گئی ہے، تو تم کس بنا پر مجھ پر یہ لازم کرتے ہو کہ میں کسی ایسی چیز کا دعویٰ کروں جو میرے مرتبہ کے شایان نہیں، کیا وہ محض تمہارا ظلم، عناد اور سرکشی نہیں؟ جو آپ کی دعوت قبول کرتے ہیں اور آپ کی طرف بھیجی گئی وحی کی اتباع کرتے ہیں اور جو ایسا نہیں کرتے، ان کے درمیان فرق واضح کرتے ہوئے کہہ دیجیے !﴿قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِيرُ ۚ أَفَلَا تَتَفَكَّرُونَ﴾ ” کہہ دیجیے ! کیا اندھا اور بینا برابر ہوسکتے ہیں؟ کیا تم غور نہیں کرتے؟“ کیا تم غور و فکر نہیں کرتے کہ تمام اشیا کو ان کے اپنے اپنے مرتبے اور مقام پر رکھو اور اسی چیز کو اختیار کرو جو اختیار کئے جانے اور ترجیح دیے جانے کی مستحق ہے۔