وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُم ۚ مَّا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِن شَيْءٍ ۚ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّهِمْ يُحْشَرُونَ
اور زمین میں نہ کوئی چلنے والا ہے اور نہ کوئی اڑنے والا، جو اپنے دو پروں سے اڑتا ہے مگر تمھاری طرح امتیں ہیں، ہم نے کتاب میں کسی چیز کی کمی نہیں چھوڑی، پھر وہ اپنے رب کی طرف اکٹھے کیے جائیں گے۔
زمین میں رہنے والے، ہوا میں اڑنے والے، بہائم، جنگلوں میں رہنے والے وحشی جانور اور پرندے سب تمہاری طرح گروہ ہیں۔ ان کو بھی ہم نے اسی طرح پیدا کیا ہے جس طرح تمہیں پیدا کیا ہے، اسی طرح ہم ان کو بھی رزق عطا کرتے ہیں جس طرح تمہیں عطا کرتے ہیں۔ ہماری قدرت اور مشیت ان پر بھی اسی طرح نافذ ہے جس طرح تم پر نافذ ہے۔ ﴿مَّا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِن شَيْءٍ﴾ ” ہم نے کتاب میں کسی چیز میں کوتاہی نہیں کی۔“ یعنی ہم نے کسی چیز کو لوح محفوظ میں لکھنے میں کوتاہی اور غفلت نہیں کی بلکہ تمام چھوٹی بڑی چیزیں جیسی بھی وہ ہیں لوح محفوظ میں لکھی ہوئی ہیں۔ پس تمام حوادث اس کے مطابق واقع ہوتے ہیں جو قلم سے لکھے جا چکے ہیں۔ یہ آیت کریمہ اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ سب سے پہلے لوح محفوظ میں تمام کائنات کی تقدیر لکھ دی گئی۔ یہ قضا وقدر کے مراتب میں سے ایک مرتبہ ہے۔ قضا و قدر کے چار مراتب ہیں۔ (١) اللہ تبارک و تعالیٰ کا علم تمام اشیاء کو شامل ہے۔ (٢) اس کی کتاب (یعنی لوح محفوظ) تمام موجودات کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ (٣) اس کی مشیت اور قدرت عامہ ہر چیز پر نافذ ہے۔ (٤) تمام مخلوقات کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے، حتی کہ بندوں کے افعال کا خالق بھی وہی ہے۔ اس آیت مبارکہ میں یہ احتمال ہوسکتا ہے کہ ” کتاب“ سے مراد قرآن ہو۔ تب اس کے معنی قرآن کریم کی اس آیت کی مانند ہوں گے ﴿وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ ﴾ (النحل :16؍89) ” اور ہم نے تم پر کتاب نازل کی جس میں ہر چیز بیان کردی گئی ہے۔ “ ﴿ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّهِمْ يُحْشَرُونَ ﴾ ” پھر سب اپنے رب کی طرف جمع کئے جائیں گے۔“ یعنی تمام امتوں کو قیامت کے میدان میں اللہ تعالیٰ کے حضور جمع کیا جائے گا۔ یہ انتہائی ہولناک مقام ہوگا۔ پس اللہ تعالیٰ اپنے عدل و احسان سے سب کو جزا دے گا اور ان پر اپنا فیصلہ نافذ کرے گا، جس کی تعریف اولین و آخرین، آسمانوں والے اور زمین والے سب کریں گے۔