إِنَّمَا يَسْتَجِيبُ الَّذِينَ يَسْمَعُونَ ۘ وَالْمَوْتَىٰ يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ ثُمَّ إِلَيْهِ يُرْجَعُونَ
قبول تو صرف وہی لوگ کرتے ہیں جو سنتے ہیں اور جو مردے ہیں انھیں اللہ اٹھائے گا، پھر وہ اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے ﴿إِنَّمَا يَسْتَجِيبُ﴾ ” بلا شبہ قبول کریں گے۔“ آپ کی دعوت اور آپ کی رسالت پر صرف وہی لوگ لبیک کہیں گے اور آپ کے امرو نہی کے سامنے صرف وہی لوگ سر تسلیم خم کریں گے ﴿الَّذِينَ يَسْمَعُونَ ﴾” جو سنتے ہیں۔“ یعنی جو اپنے دل کے کانوں سے سنتے ہیں جو ان کو فائدہ دیتا ہے اور یہ عقل اور کان رکھنے والے لوگ ہیں۔ یہاں سننے سے مراد دل سے سننا اور اس پر لبیک کہنا ہے ورنہ مجرد کانوں سے سننے میں نیک اور بدسب شامل ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کی آیات کو سن کر تمام مکلفین پر اللہ تعالیٰ کی حجت قائم ہوگئی اور حق کو قبول نہ کرنے کا ان کے پاس کوئی عذر باقی نہ رہا۔﴿وَالْمَوْتَىٰ يَبْعَثُهُمُ اللَّـهُ ثُمَّ إِلَيْهِ يُرْجَعُونَ ﴾” اور مردوں کو زندہ کرے گا اللہ، پھر اس کی طرف وہ لائے جائیں گے۔“ اس میں اس امر کا احتمال ہے کہ یہ معنی، مذکور بالا معنی کے بالمقابل ہوں۔ یعنی آپ کی دعوت کا جواب صرف وہی لوگ دیں گے جن کے دل زندہ ہیں، رہے وہ لوگ جن کے دل مر چکے ہیں، جنہیں اپنی سعادت کا شعور تک نہیں اور جنہیں یہ بھی احساس نہیں کہ وہ کون سی چیز ہے جو انہیں نجات دلائے گی تو ایسے لوگ آپ کی دعوت پر لبیک نہیں کہیں گے اور نہ وہ آپ کی اطاعت کریں گے۔ ان کے لئے وعدے کا دن تو قیامت کا دن ہے اس روز اللہ تعالیٰ انہیں دوبارہ زندہ کرے گا، پھر وہ اس کی طرف لوٹائے جائیں گے۔ اس آیت کریمہ میں یہ احتمال بھی ہے کہ اس کے ظاہری معنی مراد لئے جائیں۔ نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ معاد کو متحقق کر رہا ہے کہ وہ قیامت کے روز تمام مردوں کو زندہ کرے گا، پھر ان کو ان کے اعمال سے آگاہ کرے گا۔ یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی دعوت پر لبیک کہنے کی ترغیب اور اس کا جواب نہ دینے پر ترہیب کو متضمن ہے۔