وَلَوْ نَزَّلْنَا عَلَيْكَ كِتَابًا فِي قِرْطَاسٍ فَلَمَسُوهُ بِأَيْدِيهِمْ لَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ هَٰذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّبِينٌ
اور اگر ہم ان پر کاغذ میں لکھی ہوئی کوئی چیز اتارتے، پھر وہ اسے اپنے ہاتھوں سے چھوتے تو یقیناً وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، یہی کہتے کہ یہ تو کھلے جادو کے سوا کچھ نہیں۔
اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار کی شدت عناد سے آگاہ فرمایا ہے اور یہ کہ ان کا یہ جھٹلانا آپ کی لائی ہوئی کتاب میں کسی نقص کی وجہ سے نہ تھا اور نہ اس کا سبب ان کی جہالت تھا، یہ تو محض ظلم اور زیادتی کی بنا پر تھا جس میں تمہارے لئے کوئی چارہ نہیں۔ اس لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَلَوْ نَزَّلْنَا عَلَيْكَ كِتَابًا فِي قِرْطَاسٍ فَلَمَسُوهُ بِأَيْدِيهِمْ ﴾” اگر اتاریں ہم آپ پر لکھا ہوا کاغذ میں، پھر چھولیں اس کو اپنے ہاتھوں سے“ یعنی انہیں یقین آجائے ﴿ لَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا ﴾ ” تو جو کافر ہیں وہ کہیں گے۔“ یعنی ظلم اور تعدی کی بنا پر کفار کہیں گے ﴿اإِنْ هَـٰذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّبِينٌ﴾ ” یہ تو کھلا جادو ہے۔“ اس سے بڑھ کر اور کون سی دلیل ہوسکتی ہے؟ اور یہ ہے اس بارے میں ان کا انتہائی قبیح قول، انہوں نے ایسی محسوس چیز کا انکار کردیا جس کا انکار کوئی ایسا شخص نہیں کرسکتا جس میں معمولی سی بھی عقل ہے۔