قَالَ إِنَّهُ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ لَّا ذَلُولٌ تُثِيرُ الْأَرْضَ وَلَا تَسْقِي الْحَرْثَ مُسَلَّمَةٌ لَّا شِيَةَ فِيهَا ۚ قَالُوا الْآنَ جِئْتَ بِالْحَقِّ ۚ فَذَبَحُوهَا وَمَا كَادُوا يَفْعَلُونَ
کہا بے شک وہ فرماتا ہے کہ بے شک وہ ایسی گائے ہے جو نہ جوتی ہوئی ہے کہ زمین میں ہل چلاتی ہو اور نہ کھیتی کو پانی دیتی ہے، صحیح سالم ہے، اس میں کسی اور رنگ کا نشان نہیں۔ انھوں نے کہا اب تو صحیح بات لایا ہے۔ پس انھوں نے اسے ذبح کیا اور وہ قریب نہ تھے کہ کرتے۔
﴿ قَالَ اِنَّہٗ یَقُوْلُ اِنَّہَا بَقَرَۃٌ لَّا ذَلُوْلٌ ﴾یعنی وہ (کھیتی باڑی کے کاموں میں جت کر) کمزور اور مطیع نہ ہو ﴿ تُثِیْرُ الْاَرْضَ﴾” جوتنی ہو وہ زمین کو“ یعنی اس سے زمین میں ہل نہ چلایا جاتا ہو ﴿ وَلَا تَسْقِی الْحَرْثَ ﴾ نہ پانی دیتی ہو کھیتی کو‘ یعنی نہ وہ رہٹ میں جتنے والی ہو۔ ﴿مُسَلَّمَةٌ﴾ہر قسم کے عیب سے پاک ہو اور اس سے کسی قسم کا کام نہ لیا جاتا ہو﴿ لَّا شِیَۃَ فِیْہَا ﴾” اس میں کوئی داغ نہ ہو“ یعنی جس رنگ کا گزشتہ سطور میں ذکر ہوچکا ہے اس کے علاوہ اس میں کسی د وسرے رنگ کا کوئی نشان نہ ہو۔ ﴿ قَالُوا الْـــــٰٔنَ جِئْتَ بِالْحَقِّ﴾” انہوں نے کہا : اب لایا تو ٹھیک بات“ یعنی اب تو نے گائے کے بارے میں واضح طور پر بیان کیا ہے۔ یہ ان کی جہالت تھی ورنہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان کے سامنے پہلی ہی مرتبہ حق بیان کردیا تھا۔ اگر وہ کوئی بھی گائے پیش کردیتے تو مقصد حاصل ہوجاتا مگر انہوں نے کثرت سوال کے ذریعے سے تشدد اور تکلف کی راہ اپنائی تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان پر سختی کی۔ نیز اگر انہوں نے ”ان شاء اللہ“ نہ کہا ہوتا تب بھی وہ مطلوبہ گائے تک نہ پہنچ سکتے۔ ﴿ فَذَبَحُوْھَا ﴾یعنی انہوں نے اس گائے کو ذبح کر ہی ڈالا جس کے یہ اوصاف بیان کئے گئے ہیں۔ ﴿ وَمَا کَادُوْا یَفْعَلُوْنَ﴾۔ ان کے تشدد اور تکلف کی وجہ سے جس کا وہ اظہار کر رہے تھے، نظر نہیں آتا تھا کہ وہ گائے ذبح کریں گے۔