قَالُوا نُرِيدُ أَن نَّأْكُلَ مِنْهَا وَتَطْمَئِنَّ قُلُوبُنَا وَنَعْلَمَ أَن قَدْ صَدَقْتَنَا وَنَكُونَ عَلَيْهَا مِنَ الشَّاهِدِينَ
انھوں نے کہا ہم چاہتے ہیں کہ ہم اس میں سے کھائیں اور ہمارے دل مطمئن ہوجائیں اور ہم جان لیں کہ واقعی تو نے ہم سے سچ کہا ہے اور ہم اس پر گواہوں سے ہوجائیں۔
﴿قَالُوا نُرِيدُ أَن نَّأْكُلَ مِنْهَا ﴾ ” ہم اس سے کھانا چاتے ہیں“ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اس کھانے کے محتاج تھے ﴿وَتَطْمَئِنَّ قُلُوبُنَا﴾” اور ہمارے دل مطمئن ہوجائیں“ جب ہم عیاں طور پر معجزات کا مشاہدہ کریں گے تو دل ایمان پر مطمئن ہوں گے حتیٰ کہ ایمان عین الیقین کے درجہ پر پہنچ جائے گا، جیسا کہ جناب خلیل نے اپنے رب سے عرض کیا کہ وہ انہیں اس امر کا مشاہدہ کروائے کہ وہ مردوں کو کیسے زندہ کرتا ہے ﴿قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِن ۖ قَالَ بَلَىٰ وَلَـٰكِن لِّيَطْمَئِنَّ قَلْبِي ۖ﴾ (البقرۃ:2؍ 260) ” فرمایا : کیا تو ایمان نہیں رکھتا؟ عرض کیا کیوں نہیں۔ یہ عرض تو محض اس لئے ہے کہ میرا دل مطمئن ہوجائے۔“ پس بندہ ہمیشہ اپنے علم، ایمان اور یقین میں اضافے کا محتاج اور متمنی رہتا ہے ﴿وَنَعْلَمَ أَن قَدْ صَدَقْتَنَا ﴾ ” اور ہم جان لیں کہ آپ نے ہم سے سچ کہا ہے۔“ یعنی جو چیز آپ لے کر مبعوث ہوئے ہیں ہم اس کی صداقت کو جان لیں کہ یہ حق اور سچ ہے ﴿وَنَكُونَ عَلَيْهَا مِنَ الشَّاهِدِينَ﴾ ” اور ہم اس پر گواہوں میں سے ہوجائیں“ اور یہ چیز ہمارے بعد آنے والوں کے لئے مصلحت کی حامل ہوگی۔ ہم آپ کے حق میں گواہی دیں گے، تب حجت قائم ہوجائے گی اور دلیل و برہان کی قوت میں اضافہ ہوگا۔