يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَ فَيَقُولُ مَاذَا أُجِبْتُمْ ۖ قَالُوا لَا عِلْمَ لَنَا ۖ إِنَّكَ أَنتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ
جس دن اللہ رسولوں کو جمع کرے گا، پھر کہے گا تمھیں کیا جواب دیا گیا ؟ وہ کہیں گے ہمیں کچھ علم نہیں، بے شک تو ہی چھپی باتوں کو بہت خوب جاننے والا ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ قیامت کے دن اور اس کی ہولناکیوں کے بارے میں خبر دیتا ہے نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ تمام رسولوں کو جمع کر کے ان سے پوچھے گا ﴿مَاذَا أُجِبْتُمْ ﴾” تمہیں کیا جواب ملا تھا؟“ یعنی اس بارے میں تمہاری امتوں نے کیا جواب دیا؟ ﴿قَالُوا لَا عِلْمَ لَنَا ﴾” وہ جواب دیں گے کہ ہمیں کوئی علم نہیں۔“ تجھے ہی علم ہے۔ اے ہمارے رب ! تو ہم سے زیادہ جانتا ہے﴿إِنَّكَ أَنتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ ﴾ ” تو ہی غیب کی باتوں سے واقف ہے۔“ یعنی تو حاضر و غائب تمام امور کو جانتا ہے۔ ﴿إِذْ قَالَ اللّٰهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ اذْكُرْ نِعْمَتِي عَلَيْكَ وَعَلَىٰ وَالِدَتِكَ ﴾ ” جب کہا اللہ نے، اے عیسیٰ ابن مریم ! یاد کر میری نعمت جو تجھ پر اور تیری ماں پر ہوئی“ یعنی اپنے دل اور زبان سے یاد کیجیے اور اس کے واجبات کو ادا کر کے اپنے رب کا شکر کیجیے۔ کیونکہ اس نے آپ کو اتنی نعمتیں عطا کی ہیں جو کسی دوسرے کو عطا نہیں کیں۔ ﴿إِذْ أَيَّدتُّكَ بِرُوحِ الْقُدُسِ ﴾ ” جب میں نے روح القدس سے تیری مدد کی۔“ یعنی جب ہم نے تجھ کو روح اور وحی کے ذریعے سے تقویت دی، جس نے تجھ کو پاک کیا اور تجھ کو اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل اور اس کی طرف دعوت دینے کی قوت حاصل ہوئی اور بعض نے کہا کہ روح القدس سے مراد جبریل ہیں۔ بڑے بڑے سخت مقامات پر اللہ تعالیٰ نے جبریل کی ملازمت (ساتھ رہنے) اور ان کے ذریعے سے ثبات عطا کر کے جناب عیسیٰ علیہ السلام کی مدد فرمائی۔